زبیرالحسن غافل : اجنبی شہر کا شناسا چہرہ

زبیرالحسن غافل : اجنبی شہر کا شناسا چہرہ

احسان قاسمی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Zubairul Hassan ‘ Ghafil ‘ …… Poet
( Rtd . Add . Dist . & session judge )
Araria .
7 Jan ‘ 1944 – 26 Jan ‘ 2021
تعارف
۔۔۔۔۔۔۔
نام : زبیرالحسن
تخلص : غافل
آبائی وطن و جائے پیدائش : کمل داہا ( ارریہ )
تاریخ پیدائش : 7 جنوری 1944 ء
تاریخ وفات :26 جنوری 2021 ء
والد : ظہورالحسن مرحوم 
والدہ : بی بی زبیدہ خاتون مرحومہ
شریک حیات :شہناز حسن
ثمر حیات : ارشد حسن ۔ ایم اے ۔ ایل ایل بی
اسلم حسن – اسسٹنٹ کمشنر ۔ IRS
اشرف حسن – ڈیزائن انجینئر ، آٹوموبائیل
احمر حسن 
آفرین نشاط 
( داماد – ڈاکٹر محمد عثمان غنی ۔ لکچرر ، شعبہء فارسی ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ۔ )
تعلیم : بی ایس سی ۔ پورنیہ کالج ، پورنیہ ۔ 1966 ء
بی ایل : پٹنہ یونیورسٹی ۔ 1968 ء
پیشہ : وکالت ۔ ارریہ سول کورٹ 1969 ء سے
منصف – 1975 ء سے ۔ 2004 ء میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ سے سبکدوشی ۔
پہلی مطبوعہ نظم : ‘ اجنبی شہر ‘ ماہنامہ پاسبان 1975 ء
بہار اردو اکیڈمی کے مجلہ ‘ زبان و ادب ‘ کے 1993 ء کے ایک شمارہ میں ان کی شاعری پر ایک ‘ خصوصی مطالعہ ‘ پیش کیا گیا ۔
تصنیف : شعری مجموعہ ” اجنبی شہر "
ناشر – زبیرالحسن غافل ۔ حسن ولا ۔ بسنت پور ۔ ارریہ
سنہ ء اشاعت : 2006 ء
صفحات : 164
قیمت : 100 روپئے
مشمولات
۔۔۔۔۔۔۔
کچھ اپنے بارے میں – زبیرالحسن غافل
نقد و نظر
۔۔۔۔۔۔
سنجیدہ ظریفانہ شاعری کا ایک اہم نام – رضا نقوی واہی
متوازن فکر و آہنگ کا شاعر – دین رضا اختر
انسانی احساس کا انعکاس – رہبان علی راکیش
صر صر سے الجھتی صبا – حقانی القاسمی
نقش ہنر
۔۔۔۔۔۔۔
مزاحیہ شاعری کا سنجیدہ شاعر – ظفرالحسن
مشک آنست کہ خود ببوید – ڈاکٹر محمد عثمان غنی
توانا اسلوب کا شاعر – ارشد حسن
پناہ گاہ – اسلم حسن
میرے پا پا – اشرف حسن
۔۔۔۔۔۔۔
سوز جگر ( غزلیں )
شوخئ نظر ( طنز ومزاح )
رنگ دگر ( طرحی غزلیں )
سلک گہر ( قطعات ، ماہئے ، نظمیں )
دیدہء تر ( نظمیں وغیرہ )


تاثرات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ رضا نقوی واہی – اعلی طنز و مزاح فنکار کی دراکی ، قوت مشاہدہ اور قوت اظہار کا مرہون منت ہوتا ہے ۔ طنز و مزاح نگار سر کے بل کھڑا ہوکر دوسروں کو ہنسانے کی کوشش کرنے کے بجائے صرف دیکھنے والی آنکھوں کے سامنے سے پردہ اٹھاتا ہے کہ وہ ارد گرد کی ناہمواریوں کو دیکھ سکیں اور ان کے مضحک پہلووءں پر ہنس سکیں ۔ یہ بے معنی ہنسی کا نام نہیں بلکہ یہ گہرے عرفان ذات یا معاشرے کے شعور سے پیدا ہوتا ہے ۔ اسے برتنے کے لئے پہلے ایک حساس دل ہونا چاہیئے اور پھر قوت متخیلہ جو بہ ظاہر انمل بے جوڑ چیزوں میں ایک ربط و مناسبت تلاش کرکے اسے فنکارانہ طور پر قاری کے سامنے پیش کردے ۔ طنز و مزاح زبان کی بلوغیت اور شائستگی کا پیمانہ ہوتا ہے ۔ جس طرح ایک مہذب مجلس میں کسی بے ادبی کی گنجائش نہیں ہوتی ، اسی طرح طنز ومزاح کی صنف بھی کسی ابتذال ، سطحی مزاج یا ادبی بےراہ روی کی متحمل نہیں ہوتی اور اس آبگینے کو پھوہڑپن یا ابتذال کی ٹھیس سے محفوظ رکھنا بڑے جوکھم کا کام ہے ۔
اعلی اور میعاری ظریفانہ شاعری کے لئے صرف طنز و مزاح کی حسین آمیزش ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ اس میں فکری عنصر کا بھی ہونا ضروری ہے ۔ یہ شاعر کی فنی چابک دستی ، عمق فکر اور اسلوب بیان پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کہاں تک لوگوں میں تعمیری رجحان پیدا کرتا ہے اور کس حد تک غوروفکر کی دعوت دیتا ہے ۔
زبیرالحسن غافل کی فکر میں طنز و مزاح کے جراثیم بدرجہ اتم موجود ہیں اور اگر انہوں نے جی لگا کر ان کی پرورش کی تو بہت جلد اردو ادب میں اپنے لئے شاندار مقام بنا لیں گے ۔ ان کی نظموں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ قہقہہ لگانے پر مجبور نہیں کرتے بلکہ نظمیں پڑھ کر ہونٹوں پر تبسم کی کرنیں بکھر جاتی ہیں لیکن بعد میں چہرے پر درد مندی کے آثار بھی نمودار ہوجاتے ہیں ۔ جس طرح شوگر کوٹڈ دواؤں کی مٹھاس کے بعد تلخی کا احساس ہوتا ہے وہی احساس یہاں بھی پیدا ہوتا ہے ۔ غافل کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بہت اطمینان سے اپنی بات شروع کرتے ہیں ۔ ان کے اسلوب میں کہیں بھی پھوہڑپن نہیں ہے ۔ ایک سے ایک تلخ بات کہہ جاتے ہیں جس کا اثر کافی دیر پا ہوتا ہے ۔ لیڈروں پر شاعروں نے خوب خوب قافیہ پیمائ کی ہے لیکن غافل نے جو ‘ نسخہء لیڈری ‘ پیش کیا ہے اس کا جواب تو خال خال ہی ملے گا ۔ غافل نے نظمیں بھی کہی ہیں ، غزلیں بھی ، متفرقات اور خیالات بھی خاصے کی چیزیں ہیں ۔ فیض کی مشہور نظم کی پیروڈی پڑھ کر آپ ہنسیں گے ضرور لیکن پھر اس کے اندر کا کرب آپ کو اپنی گرفت میں لے لے گا اور آپ کی مسکراہٹ غائب ہو جائے گی ۔ ‘ ایک پہیلی ‘ اور ‘ اینٹی شوہر کانفرنس ‘ میں بھی غافل نے اپنے فن کا اعتراف کروایا ہے ۔
غرض کہ زبیرالحسن غافل کی شاعری دعوت فکر دیتی ہے اور مزاحیہ ظریفانہ شاعری کا جو فریم میں نے بنایا ہے اگر آپ غور کریں گے تو محسوس ہوگا کہ غافل کی شاعری اس فریم میں فٹ ہونے کے لائق ہے ۔ آج کے مزاحیہ شاعروں نے اس شاعری کو صرف مشاعروں کی ضرورت بنا لیا ہے ۔ اس لئے وہ ایسی چیزیں کہنے لگے ہیں جو مشاعرہ گاہ کے اندر قہقہہ بلند کرسکیں ۔ لیکن اس شاعری کا اثر دیرپا نہیں ہوتا ۔

2 – حقانی القاسمی – زبیرالحسن غافل بنیادی طور پر طنز و مزاح نگار اور ضمیر جعفری ، دلاور فگار ، سید محمد جعفری ، شوق بہرائچی ، شہباز امروہوی ، ماچس لکھنوی ، ٹی این راز ، ساغر خیامی ، رضا نقوی واہی اور ہلال سیوہاروی کے سلسلتہ الذہب کی ایک اہم کڑی ہیں ۔ انکی طبیعت میں شگفتگی و شوخی بھی ہے ، مگر انہوں نے غزلیں بھی نہایت عمدہ لکھی ہیں ۔ بالخصوص طرحی غزلیں ان کی تخلیقی توانائی اور قوت اظہار کا بین ثبوت ہیں ۔ ذرا سی لفظی تحریف سے معنیاتی امکانات کے کتنے در وا کردئیے ہیں –
انہوں نے پیروڈی بھی لکھی ہے جو دراصل ایک معکوسی یا تعکیسی عمل ہے ۔ لسانی یا فکری شکست و ریخت کے ذریعہ وجود میں آتی ہے ۔ یہ ایک طرح سے لسانی یا فکری تحریف بھی ہے اور توسیع و تمدید بھی ۔ اودھ پنچ سے جس پیروڈی کی ابتدا یا آغاز ہوا ، غافل تک پہنچتے پہنچتے اس نے بہت سی ہئیتیں اور اسالیب بدلی ہیں ۔ پیروڈی کی جو شکل غافل کے یہاں ملتی ہے اس کا مقصد محض نقالی ، تفریح یا تفنن طبع نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد مضحکہ خیزی ہے بلکہ یہ پیروڈی کسی پیش رو شاعر کی معنیاتی اور فکریاتی اور اسلوبیاتی توسیع کی ایک کوشش ہے ۔ غافل نے غالب ، فیض ، مجروح سلطانپوری اور دیگر شاعروں کی پیروڈیاں لکھی ہیں اور ان کی غزلوں کے سنجیدہ اور فکر انگیز احساسات کو طنز و مزاح کے پیرائے میں پیش کرکے ایک نئ طرح کی شگفتگی اور تازگی پیدا کردی ہے ۔
فیض احمد فیض سے زبیرالحسن غافل کا ربط خاص ہے ۔ وہ ان سے اس قدر متاثر ہیں کہ انہوں نے ان کے شعری محاورے ، انہی کی طرز فغاں ، طرز بیاں کو اپنایا ہے ۔ فیض کی طرح غافل کے یہاں بھی کلاسیکی نورونکہت ہے اور ان کا شعری رویہ اور ایقان بھی کلاسیکی شاعروں کی طرح ہے ۔
آج کے ادب میں اپنے اپنے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے دیے لئے ہوئے لوگ خود کو سورج ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ جب کہ حقیقی سورج کہیں روپوش ہوگیا ہے ۔ برقی عہد میں سورج کی ساری روشنیوں کو ان دبستانوں ، شہروں ، مرکزوں نے قید کر لیا ہے جہاں تاریکی زیادہ ، روشنی کم کم ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان دیہی علاقوں کو آخر کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے جو تخلیقی زرخیزی اور ضوفشانی کے اعتبار سے شہروں سے زیادہ معنویت [و] اہمیت کے حامل ہیں ۔ ادب سے گم ہوتا گاؤں کیا تنقیدی استعماریت اور ادبی آمریت کی کہانی نہیں کہہ رہا ہے ؟
ارریہ بھی ادب کا ایک گمشدہ باب ہے اور اس باب سے زبیرالحسن غافل کا بھی تعلق ہے ۔ حیرت ہے کہ تمام تر تخلیقی جمال و جلال کے باوجود انہیں وہ شہرت نہیں ملی جو ان کی تخلیق کا تقاضہ تھی ۔ مگر کیا کیجئے کہ یہ سیلف ایڈورٹزمنٹ ، ٹیلی ویزن اور گاسپ کالمس کا ایج ہے ۔ کیا اس حصار کو توڑے بغیر ادب کی وسعت ، آفاقیت ، ہمہ گیریت کا اعلان یا اشتہار ممکن ہے ؟؟

3 – ڈاکٹر شکیل الرحمن – ارریہ اپنے جن شاعروں پر فخر کر سکتا ہے ان میں جناب زبیرالحسن غافل کا نام بہت نمایاں ہے ۔ ان کا تخلص غافل تو ہے لیکن وہ سماج اور معاشرے سے پوری طرح باخبر ہیں ۔ بزرگ شاعر نے زندگی کے بدلتے ہوئے تیوروں اور اداؤں کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ ان کی شاعری اپنے تیکھے انداز سے پہچانی جاتی ہے ۔ طنز کرتے ہیں تو اس کی چبھن محسوس ہونے لگتی ہے ۔ زندگی کی ویرانی کا احساس ہوتا ہے اور فرد کے المناک لمحوں کی شدت محسوس ہونے لگتی ہے تو طنز تیکھا اور گہرا ہو جاتا ہے ۔ طنز تو اپنی جگہہ ہے ہی ، ہیومر ان کے کلام کی روح ہے ۔

4 – ڈاکٹر محمد عثمان غنی – زبیرالحسن غافل کی شاعری میں نئ اور پرانی حقیقتیں مل کر ایک نئ معنویت پیدا کرتی ہیں ۔ انہوں نے جو کچھ بھی کہا اپنی تہذیبی روایات کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھا ہے اور ان میں توازن اور اعتدال ، ٹھہراؤ اور متانت ہے ۔ ان کی نظمیں بڑی فکر انگیز ہیں اور ان میں زندگی کا بڑا گہرا مشاہدہ ملتا ہے ۔ ان نظموں میں کہیں ذاتی مسائل تو کہیں اجتماعی مسائل کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔ ان دونوں میں اعتدال اور مفاہمت کا راستہ اختیار کیا گیا ہے ۔
غافل صاحب کے فکروفن کی انفرادیت ان کی غزلوں سے بھی مترشح ہے جن کا تعلق حسن وعشق کی واردات کے ساتھ ساتھ موجودہ معاشرتی صورت حال اور حیات وکائنات کے دائمی سوالات سے بھی ہے ۔ انہوں نے جن صداقتوں کو نمایاں کیا ہے وہ ہمارے دل ودماغ میں بھی جاگزیں ہوجاتے ہیں ۔
5 – Asif Anwar Alig – Zubairul Hassan Ghafil ‘s poetry has immense beauty and creates comic relief that , at times , instigates uncertaintly and frustration a brainchild of the communal disharmony and insecurity . Urdu literature is abundant with the conceptual integrity of literary ethics. Certainly ‘ Ghafil ‘ is one of the advocators of this philosophy . His poetry is the tales of melancholy that hypnotize readers to come out of the moral crisis. The fact is we have forgotten the ascent of human relationship that has divided humanity into manmade partitions . Isn’t it developing a gap between different civilizations ?
Are we capable to counter them ? ‘ Ghafil ‘ has a genuine reply and defincs them with clarity in his collection ” AJNABI SHAHAR ” .

منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنی ہمت مجھے خدا دے دے
غم اٹھانے کا حوصلہ دے دے
کھو نہ جاؤں میں ان اندھیروں میں
روشنی دے نہ دے صدا دے دے
میرے جذبات چھین لے مجھ سے
میرے احساس کو فنا دے دے
میں یہ سمجھوں گا مل گیا سب کچھ
دل کوئی درد آشنا دے دے
۔۔۔۔۔
نعت
۔۔۔۔۔
نہ مہروماہ کی خاطر نہ کہکشاں کے لئے
مچل رہا ہے یہ دل خاک آستاں کے لئے
یہ کائنات دھواں کے سوا نہ کچھ ہوتی
سجی یہ بزم فقط شاہ دو جہاں کے لئے
ہمیشہ عشق نبی دل میں جاگزیں رکھئے
اثاثہ بس ہے یہی عمر جاوداں کے لئے
بچھی تھی نور کی چادر تمام راہوں میں
چلے حضور مکاں سے جو لا مکاں کے لئے
آپ کے ہی کرم کا ہے آسرا آقا
کٹھن ہے وقت بہت جان ناتواں کے لئے
جبیں ملی ہے کہ سجدے کروں خدا کو میں
‘ زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کے لئے ‘
ہوتا بے کیف بہت قصہء آدم غافل
حضور آتے نہ گر زیب داستاں کے لئے
۔۔۔۔۔۔۔
نسخہء لیڈری
۔۔۔۔۔۔۔
ایک قرص بے حیائی صبح اٹھ کے لیجئے
چار چمچے آب خود غرضی ملا کر پیجئے
ناشتے میں ایک چمچہ جھوٹے وعدوں کا لبوب
ساتھ اس کے دے مزہ عرق ریا کاری بھی خوب
تخم کینہ پاؤ ماشہ لیجئے پھر تول کر
خوب اس کو بھونئے حرص و ہوس کی آگ پر
روغن موقع پرستی میں اسے حل کیجئے
چند دانے طوطا چشمی کے بھی اس میں دیجئے
جڑ جو فتنے کی ملے تو اک ذرا سا ڈال دیں
جھوٹ کے باریک کپڑے سے اسے پھر چھان لیں
ڈالئے دو چار قطرے بے وفائی کے ضرور
شربت فتنہ ہو کچھ تھوڑا سا ہو روح فتور
ان سبھوں کو لے کے پھر اک ساغر بہروپ میں
چھوڑ دیں کچھ دیر کنبہ پروری کی دھوپ میں
بے ایمانی کی ہوا سے کیجئے ٹھنڈا اسے
تنگ نظری کی کھرل میں خوب اس کو پیسئے
نام اس کا آپ معجون خباثت دیجئے
کم سے کم دس بار دن میں روز کھایا کیجئے
ویسے یہ نایاب نسخہ ہے بہت ہی لا جواب
ساتھ ہی ان چیزوں سے پرہیز لازم ہے جناب
پاس آنے دیجئے سچ کو نہ ہرگز بھول کر
ورنہ پھر جاتا رہے گا سارے نسخے کا اثر
گر شرافت کی طرف مائل طبیعت ہو گئ
یوں سمجھئے ساری محنت ہی اکارت ہو گئ
زندگی میں بھول سے پورا نہ ہو عہد وفا
اور دیانت داری سے بھی بچ کے رہنا ہے سدا
چند ہفتوں تک اگر اس پر عمل کر لیجئے
نیتا بننے کی ضمانت ہم سے آکر لیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔
اینٹی شوہر کانفرنس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھا بڑے زوروں سے چرچا جس کا سارے شہر میں
ہوگیا آخر وہ جلسہ کل ہمارے شہر میں
بیویوں کے بیچ آخر اتحاد ہو ہی گیا
اینٹی شوہر کانفرنس کا انعقاد ہو ہی گیا
شام سے بکھری ہوئ تھی کہکشاں ہر راہ میں
اور تھا رنگ و نور کا سیلاب جلسہ گاہ میں
ہر طرف سے ہو رہی تھیں بیویاں آکر جمع
ہاں ! مگر تھا شوہروں کا داخلہ بالکل منع
ہر طرف سے لعنتیں تھیں شوہر نادار پر
مختلف نعروں سے پر تھے پوسٹر دیوار پر
شوہروں کے ظلم کی تھیں داستانیں بے شمار
جا بجا چپکے ہوئے تھے اس طرح کے اشتہار
اب کسی قیمت پہ ان کی دال گل سکتی نہیں
شوہروں کی دھاندلی اب اور چل سکتی نہیں
حضرت شوہر کے اب نخرے اٹھا سکتی نہیں
خوب دھوکا کھا چکی ہیں اور کھا سکتی نہیں
آج تک ڈھائے گئے ہم پر مظالم بے حساب
پتھروں سے اب ہمیں دینا ہے اینٹوں کا جواب
ہاتھ میں ڈنڈے سنبھالو چھوڑ دو کفگیر کو
ملک بھر کی بیویو اب ایک ہو اب ایک ہو !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترک شاعری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے اردو بھی زبان اک ہو گئ سرکار کی
صوبہ بھر کے شاعروں نے ترک کردی شاعری
جوں ہی اردو معاش کا ذریعہ نظر آنے لگی
شاعری سے یک بہ یک ان کو الرجی ہو گئ
توڑ کر سب رشتے ناطے سوز اور ساز سے
خدمت اردو کو نکلے اک نئے انداز سے
ٹائپنگ اردو کی سیکھی رٹ گئے شبداولی
تھوڑی محنت سے ہی لکھنا آ گئ دیوناگری
کچھ دنوں میں ہوگئ قسمت کی دیوی مہرباں
بن گئے سرکار کے نوکر یہ سب اہل زباں
دفتروں میں ہر قسم کی فائلیں چر نے لگے
عرضیوں کا ترجمہ ہندی میں یہ کرنے لگے
ناقدوں اور ناشروں کا ڈر نہ کوئی جب رہا
یک بہ یک انگڑائی لے کر جوہر خفتہ جگا
پھر تو لفظوں کا نیا اک دفتر معانی کھلا
سر کی وپدا ہو گیا شوریدہ سر کا ترجمہ
سادہ تختی کی جگہ لی لفظ سادہ لوحی
دوسرے نے آب جو کو لکھا پانی کی ندی
حسن ظن کو کہہ گئے ناری کی سندرتا اگر
فن ظرافت کو لکھا برتن بنانے کا ہنر
ایک صاحب نے اگر کوزہ میں دریا بھر دیا
دوسرے نے موج میں ساغر کو ساگر کر دیا
دیکھنا تم ایک دن جادو جگاتا ان کا فن
میت اردو کو پہنائے گا ہندی کا کفن !!
۔۔۔۔۔۔۔
یوم اردو
۔۔۔۔۔۔۔
شیخ جی کل یک بہ یک مجھ سے یہ فرمانے لگے
یوم اردو کس لئے آخر مناتے ہیں جناب
یہ زباں تو اک طرح سے اب فقط مرحوم ہے
جانے کس گوشہ میں جاکر چھپ گئ خانہ خراب
کالج و اسکول میں اک شجر ممنوعہ ہے یہ
اور اک ناپاک سی شئے بہر تعلیمی نصاب
اس کے جو عشاق تھے انگلش کے گرویدہ ہوئے
اس کا نہ قاری ہے باقی نہ ہی اک اچھی کتاب
خامشی سے نام پر بس فاتحہ پڑھ دیجئے
اس طرح کی محفلوں سے کیجئے اب اجتناب
بات گرچہ تلخ تھی لیکن بہت معقول تھی
اس لئے بروقت سوجھا نہ مجھے کوئی جواب
پھر ذرا کچھ سوچ کر یوں با ادب میں نے کہا
اردوئے مرحوم کی سمجھیں اسے برسی جناب
فاتحہ کے واسطے ہی آئے ہیں شاعر یہاں
روح اردو کو اسی صورت ملے شاید ثواب ۔
۔۔۔۔۔۔۔
روزگار
۔۔۔۔۔۔
رائٹ کا کاروبار بھی کیا روزگار ہے
گھر میں مرے اسی کی وجہ سے بہار ہے
ٹی وی ، فرج کے ساتھ ہی اک وی سی آر ہے
چاروں جوان بیٹوں کے پاس اپنی کار ہے
بیوی کا جسم سونے کے زیور سے بھر گیا
بے سمت تھا جو بچوں کا فیوچر سنور گیا
دیکھو نیا مکان بھی کیا عالی شان ہے
جس کو نواز دے یہ اسی رب کی شان ہے
فکر نمک ہے اب نہ مجھے فکر تیل ہے
دولت کی میرے گھر میں تو اب ریل پیل ہے
بیڑی کے واسطے بھی ترستا تھا کل تلک
آج آگیا ہے پاؤں کے نیچے مرے فلک
مارا گیا فساد میں جب کوئی آدمی
گھر میں ہمارے کوئی نئ چیز آ گئ
جب بھی کسی نصیب کے مارے کا گھر جلا
دیوار و در پہ میرے نیا رنگ چڑھ گیا
آتا ہوں جب بھی گھر میں کسی کا اجاڑ کر
دولت بھی ساتھ آتی ہے چھپر کو پھاڑ کر
بچے بھی میرا ہاتھ بٹانے لگے ہیں اب
گھر دوسروں کا وہ بھی جلانے لگے ہیں اب
ماہر وہ ہو گئے ہیں بہت لوٹ مار میں
چاروں پسر ہیں میرے اسی روزگار میں –
۔۔۔۔۔۔۔
منصف صاحب
۔۔۔۔۔۔۔۔
خول میں اپنے گھونگھے ہی نہیں رہتے ہیں
اک اور بھی مخلوق ہے منصف جسے کہتے ہیں
ڈال کر چہرے پہ اپنے خود فریبی کی نقاب
اپنی دنیا میں ہی رہتے ہیں مگن عزت مآب
اپنی آنکھوں پہ چڑھا کر عینک وہم و قیاس
چور کی داڑھی میں یہ کرتے ہیں تنکے کی تلاش
کی ہے قدرت نے ودیعت فطرت عورت انہیں
دوسروں کی عیب جوئی سے نہیں فرصت انھیں
جس گھڑی اجلاس کی کرسی پہ جم جاتے ہیں یہ
انڈا سیتی ہوئی مرغی نظر آتے ہیں یہ
درد زہ میں مبتلا ہو جیسے کوئی حاملہ
حال ان کا ہے وہی لکھنے سے پہلے فیصلہ
چونک اٹھتے ہیں کسی کو گھر میں آیا دیکھ کر
جس طرح گھوڑا بدک جاتا ہے سایہ دیکھ کر 
۔۔۔۔۔۔۔
کیا بتاوءں حال اپنا جب سے شوہر ہوگیا
نصف بہتر وہ ہوئیں میں بد سے بدتر ہوگیا
اپنا دامن جھاڑ کر تو ساس خوش دامن ہوئیں
بھوت جو چمٹا تھا ان سے اب مرے سر ہو گیا
مہربانی ان کے ابا جان کی اتنی بڑھی
بینک بیلینس گھٹ کے زیرو کے برابر ہوگیا
گیٹ پر جنت کے یوں تو سخت چیکنگ تھی مگر
شیخ جی کا داخلہ اسٹاف کہہ کر ہو گیا
قاعدے کی رو سے تو تانیث ہونا چاہیئے
پھر بھلا یہ مولوی کیونکر مذکر ہو گیا
دوست بھی سائے سے میرے اب ہیں کترانے لگے
جانے کس کتے نے کاٹا تھا کہ شاعر ہو گیا ۔
۔۔۔۔۔۔
6
پیروڈی
۔۔۔۔۔۔
میں نے سمجھا تھا جنوں عشق کا گھٹ جائے گا
تو بھی اکتا کے مری راہ سے ہٹ جائے گی
تھا نہ معلوم کہ وہ دن بھی کبھی آئے گا
بھوت کی طرح تو مجھ سے چمٹ جائے گی
اب میں بچوں کو کھلاؤں کہ تجھے پیار کروں
تیری زلفوں کو سنواروں کہ میں بازار کروں
کیا دیا تو نے مجھے شادی کی جھنجھٹ کے سوا
حاصل عشق ہے کیا روز کی کھٹ پٹ کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
۔۔۔۔
اب ترے جسم سے لہسن کی مہک آتی ہے
نقش ماضی بھی نظر آتے ہیں دھندلائے ہوئے
جا بجا بکھرے ہوئے کوچہ و بازار میں حسن
عطر میں ڈوبے ہوئے سینٹ میں نہلائے ہوئے
جسم پھیلے ہوئے اخبار کے پنوں کی طرح
زلف بکھری ہوئی کولتار کی سڑکوں کی طرح
اٹھ ہی جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
گرچہ غالب ہے تری ڈانٹ کا ڈر کیا کیجے
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
۔۔۔۔
اے مری جان تمنا اے مری جان بہار
جب سے میکہ تیرا میرے لئے سسرال ہوا
کیا عجب بات ہوئی کیسی یہ کایا پلٹی
جیب پھولی تیرے ابا کی میں کنگال ہوا
فکر راشن کا لگا رہتا ہے تنہائی میں
کس طرح پیار کی باتیں کروں مہنگائی میں
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
۔۔۔۔۔۔۔
دغا چاہتا ہوں ریا چاہتا ہوں
میں ووٹوں کا اپنے صلہ چاہتا ہوں
میں لیڈر سے پاس وفا چاہتا ہوں
حماقت کی حد ہے یہ کیا چاہتا ہوں
چرن آپ کے آچرن سے ہیں اچھے
چرن آپ کے چومنا چاہتا ہوں
بن کے بیوی میری اور کنگال کردے
‘ تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں ‘
بیاض اپنی کھولو غزل پھر پڑھو
ذرا دیر میں اونگھنا چاہتا ہوں 
۔۔۔۔۔۔
ایک گھر اللہ کا
۔۔۔۔۔
مدتوں کے بعد کچھ لوگوں کو آیا یہ خیال
اب خدا کے واسطے بھی گھر بنے اک بے مثال
اک کمیٹی بن گئ سائٹ سلیکشن کے لئے
لیڈروں کو مل گیا نسخہ الیکشن کے لئے
ایک نیتا جی نے تو بھاشن میں اپنے یوں کہا
قوم کے آگے نہیں اس سے بڑا کچھ مسئلہ
شرم سے اس بات پر جھکتا تمہارا سر نہیں
مالک کون و مکاں کو ایک اچھا گھر نہیں
آج تک تم نے جو مانگا وہ تمہیں دیتا رہا
مانگتا ہے آج اپنے واسطے اک گھر خدا
ہم اسے دیں گے مکاں جو ہو قسم لے لیجئے
ہے ضروری اس کی خاطر ووٹ ہم کو دیجئے
تھے کمیٹی کے جو ممبر وہ بھی نکلے ٹور پر
ایک بستی میں انہیں موزوں جگہ آئی نظر
پھر کمیٹی لوٹ آئ لے کے اک تفصیلی نوٹ
بھیج دی نیتا کو اس نے اپنی کچھ ایسی رپورٹ
وہ مقام پر فضا بستی سے ہے کچھ دور پر
ایک بوسیدہ مکاں کا ہے وہاں ڈھانچہ مگر
یوں بہ ظاہر وہ مکاں ویران ہے بے کار ہے
کوئی اللہ اور لیکن اس کا دعویدار ہے
لیکن اس دعوی سے ہم لوگوں کو کوئی ڈر نہیں
دوسرا اللہ کوئی خاص طاقت ور نہیں
ہم بھی اب اپنے خدا کا اس پہ دعوی ٹھونک دیں
بات یہ لیکن کسی صورت نہ جائے کورٹ میں
یا تو اپنے زور سے قبضہ جمانا ہے ہمیں
یا کسی ترکیب سے ڈھانچہ گرانا ہے ہمیں
مشورہ معقول تھا نیتا کے دل کو بھا گیا
اک اشارہ ان کا آخر اس مکاں کو ڈھا گیا
لوگ اب بنوا رہے ہیں اس جگہ قصر عظیم
لا مکاں میں ہے مگر حیران وہ رب کریم
کہہ رہا ہے کوئی مجھ کو آکے سمجھائے ذرا
بن رہا کس کا گھر کس کا مکاں توڑا گیا ؟
۔۔۔۔۔
پلیڈر
۔۔۔۔۔۔
شب میں جو پلیڈر کو کہیں ڈھونڈنا چاہیں
بیوی کو وہ بڑ اپنی سنانے میں ملے گا
اور صبح کو ٹمٹم کے یا اسٹینڈ پہ بس کے
دیہاتی موکل کو پھنسانے میں ملے گا
اور دن کو کچہری میں وہ اک کرسی پہ بیٹھا
یا اونگھتا یا گپیں لڑانے میں ملے گا
اور شام کو پھر قرض کسی دوست سے لے کر
دلالوں کو وہ چائے پلانے میں ملے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔
لیڈر
۔۔۔۔۔۔۔
لیڈر کو اگر آپ کہیں ڈھونڈنا چاہیں
وہ رات کو دعوت کہیں کھانے میں ملےگا
اور صبح کو صندوق نما توند کو بھر کر
بیٹھا ہوا وہ چمچوں کے نرغے میں ملے گا
اور دن کو وہ لکھوا کے کوئی موقع کا بھاشن
رٹتا ہوا تنہا کسی کمرے میں ملے گا
اور پھر غم جنتا کو غلط کرنے کی خاطر
وہ شام کو اسکاچ ہی پینے میں ملے گا
۔۔۔۔۔۔
شاعر
۔۔۔۔۔۔۔
شاعر کو اگر شب میں کہیں ڈھونڈنا چاہیں
پیتا ہوا ٹھرا کسی ٹھیکے میں ملے گا
اور صبح کو لے کر وہ پرانا کوئی پرچہ
اچھی سی غزل اس سے چرانے میں ملےگا
پھر ڈھونڈ کے اک ایک سخن فہم کو دن میں
وہ ” تازہ کلام ” اپنا سنانے میں ملے گا
اور شام کو بس چائے کی اک پیالی کی خاطر
ہمسایہ کو مکھن وہ لگانے میں ملے گا ۔
۔۔۔۔۔
قطعات
۔۔۔۔۔۔
شیخ جی جب سے میونسپلٹی کے ممبر ہو گئے
دیکھتے ہی دیکھتے ان کا مقدر پھر گیا
ایک بھی تنکا کہیں رہنے نہ پائے اس لئے
شہر میں جھاڑو پھرا ، داڑھی پہ ریزر پھر گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل بھری محفل میں یہ اک دل جلا کہنے لگا
آ بتاؤں تیل کیوں مہنگا ہے ہندوستان میں
کچھ تو چمچے لے گئے ہیں ان کی مالش کے لئے
اور باقی ڈال کر بیٹھے ہیں نیتا کان میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام آزادی جو پیغام ڈنر لاتی ہے
توند نیتاؤں کی کچھ اور ابھر آتی ہے
یہ الگ بات ہے اس جشن میں غافل صاحب
بھوکی جنتا کی لنگوٹی بھی اتر جاتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اور نہ تڑپاؤ
آنکھوں کے درپن سے
اس دل میں اتر آؤ
۔۔۔۔۔۔۔
باعث یہ اداسی کا
فکر ہے فردا کی
یا کرب ہے ماضی کا
۔۔۔۔۔۔۔
جب برف پگھلتی ہے
آگ چناروں کے
سینے سے نکلتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا دل کو بچانا ہے
شیشے کے کھلونے کو
بس ٹوٹ ہی جانا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
مسجد کی اذانوں میں
وحدت کا نغمہ
مرلی کی بھی تانوں میں
۔۔۔۔۔۔۔
ہر رشتہ جھوٹا ہے
جنموں کا بندھن
اک پل میں ٹوٹا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزلیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے نام آدمی جو سر شام مر گیا
سورج کے شہر میں وہ اندھیرا ہی گیا
انسان جب حدود مکاں سے گزر گیا
حیران ہو کے وقت جہاں تھا ٹھہر گیا
کچلا ہے اس کو وقت کے پہیوں نے اس طرح
آئینہ دیکھتے ہی اچانک وہ ڈر گیا
دھندلا ہے گرچہ آج مرا آئینہ اے دوست
لیکن اسی سے ایک زمانہ سنور گیا
کل تک جو چل رہا تھا لئے ہاتھ میں چراغ
جانے کہاں وہ آج مرا ہم سفر گیا
غافل کو ڈھونڈئے بھی تو پائیں گے اب کہاں
دیوانہ آدمی تھا نہ جانے کدھر گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سسکیوں کی آہٹیں با چشم تر لے جائے گا
جانے والا درد کی سوغات گھر لے جائے گا
پھر پکی فصلوں کی صورت کاٹ کر لے جائے گا
جانے یہ موسم جنوں کا کتنے سر لے جائے گا
آسماں چھونے کی حسرت دل میں ہی رہ جائے گی
پھر کوئی صیاد میرے بال و پر لے جائے گا
کب تلک کھلتے رہیں گے دل میں زخموں کے گلاب
اور کتنی دور خوشبو کا سفر لے جائے گا
قاتلوں کے شہر میں جائے گا وہ اس شان سے
خود ہی نیزے پہ سجا کے اپنا سر لے جائے گا
دیکھنا غافل فاصلوں کا یہ مزاج
لذت آوارگی ذوق سفر لے جائے گا

احسان قاسمی کی گزشتہ نگارش:تسنیم کوثر: تعارف ، فن اور افسانہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے