ایک اور تاریخی موڑ

ایک اور تاریخی موڑ

مسعود بیگ تشنہ 

اندور،انڈیا 


یومِ جمہوریہ، 2021 پر کسان آندولن کی ٹریکٹر ریلی کسانوں کی طرف سے حکومت کو اپنی طاقت دکھانے کا مظاہرہ تھا. میں ایسے ہی ایک قومی تہوار یومِ آزادی 2013 کی طرف آپ کو لے جانا چاہتا ہوں جب ملک کی گجرات ریاست کے حکمراں وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے ٹھیک اسی وقت جب ملک کے وزیراعظم منموہن سنگھ کی لال قلعہ سے تقریر چل رہی تھی، ملک کے وزیراعظم کے عہدے کی بے عزتی کرتے ہوئے ایک کالج سے حکومت مخالف سیاسی تقریر کی تھی جو اس قومی تہوار اور وزیراعظم کے وقار کو مجروح کرنے والی تھی. ایسے موقع پر یہ حرکت غیر اخلاقی، گری ہوئی اور یومِ آزادی و وزیراعظم کے عہدے کی توہین تھی. اس غیر اخلاقی حرکت سے جو منصوبہ بند طریقے سے انجام دی گئی تھی وہ عام چناؤ 2014 میں کانگریس کے قدم اکھاڑنے میں کامیاب بھی ہوئے. اس کی پوری تیاری کی گئی تھی اور پی ایم ان میکنگ کی پوری اسکرپٹ گودی میڈیا کی مدد سے بنالی گئی تھی. مشہور انگریزی ناول تھری ایڈیَٹ کے ناول نگار (جس پر اسی نام سے فلم بھی بنی) اور انگریزی صحافی چیتن بھگت کو مودی جی کی چائے والے کی چھب کو گڑھنے اور نکھارنے کے لئے ایک مخصوص سیریز میں اینکر کے طور پر لایا گیا  تھا. آپ کی عدالت کے رجت شرما اور زی چینل کے مالک بطور خاص اس مہم کا حصہ تھے جنہیں حکومت ہاتھ میں آنے کے بعد صدرِ جمہوریہ کے قومی اعزازات سے نوازا بھی گیا اور اور طرح سے بھی نوازا گیا . پھر ایک کے بعد کئی چینلیں مشروم (کُکر متہ) کی طرح آگ آئیں جنہیں ہم سب کچھ پرانے چینلوں کے ساتھ گودی میڈیا کے نام سے جانتے ہیں.
تب 15 اگست 2013 کو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر رہتے ہوئے یومِ آزادی کے قومی تہوار اور وزیراعظم کی آئینی حیثیت کی بے حرمتی کی گئی تھی. اب 26 جنوری 2021 کو ایک بھٹکے ہوئے کسانی گروپ نے کسان آندولن کی پرامن چھب کو دھتا بتاکر لال قلعہ میں گھس کر یومِ جمہوریہ اور قومی جھنڈے ترنگا جھنڈا کے آس پاس دوسرا جھنڈا لگادیا. یہ گروپ اس کسان تحریک کا حصہ نہیں تھا مگر موقع کا فائدہ اٹھا کر وقت سے پہلے نکل گیا اور بیریکیڈس کو توڑتے اور پولس سے الجھتے آگے ہی بڑھتا گیا. یہی جتھا لال قلعے میں بھی گھسا اور یہ شرم ناک حرکت انجام دی. اور کسان تحریک کو نقصان پہنچایا. یہاں بھی بد نیتی اور آئین کی ان دیکھی صاف جھلکتی   ہے. جو نازیبا کام 15 اگست 2013 کو گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر نریندر مودی جی نے کیا تھا وہی کام 26 جنوری 2021 کو ایک چھوٹے ہجوم نے بڑے ہجوم کی تحریک کی آڑ میں کر دیا. وہ بھی ایک تاریخی موڑ تھا حکومت بدلنے کا منظر نامہ مرتب ہو رہا تھا. یہ  تاریخی موڑ بھی کہیں حکومت بدلنے کا منظر نامہ تو مرتب نہیں کرنے جا رہا ہے، گو کہ اس نازیبا واقعے سے کسان تحریک کو نقصان پہنچا ہے جو بلا واسطہ حکومت کے لئے مددگار ہے. جانے انجانے میں حکومت کی منشاء کے مطابق منظر نامہ مرتب ہو گیا. ورنہ بیریکیڈنگ پر ٹکراؤ کو ٹالا جا سکتا تھا، ایسی پختہ بیریکیڈنگ کیا اشتعال دلانے کے لئے ہی کی گئی تھی؟اگر یہ جتھا طے شدہ روٹ پر نہیں تھا تو کسان آندولن کے ذمہ داران سے بات چیت کیوں نہیں کروائی گئی؟ کسان آندولن کے ذمہ داروں کا تو صاف کہنا ہے کہ وہ جتھا ان کے آندولن کا حصہ نہیں تھا ؟
خیر یہ جنتا ہے سب جانتی ہے. شہریت ترمیمی قانون مخالف شاہین باغ تحریک کی طاقت سے حکومت ہل تو گئی تھی لیکن طاقت کے زعم میں ابھی تک ہے. اب یہ کسان آندولن کی شکل میں دوسرا بڑا جھٹکا لگا ہے جو اسے کسی قیمت پر برداشت نہیں. اب حکومت کا جو بھی قدم ہوگا وہ سخت سے سخت ہوگا گو کہ یک طرفہ طور پر حکومت نے تینوں نئے زرعی قوانین کے نفاذ کو ڈیڑھ سال کے لئے ٹال دیا ہے، واپس نہیں لیا ہے. اب ان پڑھ کسان بھی سمجھ گئے ہیں کہ ان کو مہرہ بنا کر سرکار زراعتی نظام کو بڑے تجارتی گھرانوں کے لئے کھولنا چاہتی ہے اور بس. اس کو کسانوں کے بنیادی مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں. وہ ایم ایس پی (کم سے کم درِ فروخت) کا بھی قانون نہیں لانا چاہتی اور جمع خوری کے قانون سے بھی زرعی اجناس کو قانون لاکر باہر کر دیا ہے. یہ سب بڑے صنعتی و تجارتی سرمایہ داروں کو سیدھا فائدہ پہنچانے کے لئے ہے جو مال روک کر جیسے چاہیں قیمتیں طے کریں. کسان کو تو واجب دام ملنے سے رہا جس کی وہ گارنٹی مانگ رہے ہیں، الٹا چند بڑے سرمایہ داروں کو اپنی شرطوں پر ٹھیکہ کسانی کرنے، جمع خوری کرنے اور اپنی من مرضی سے قیمتیں طے کرنے کی چھپی ہوئی غیر اعلانیہ گارنٹی دے دی ہے. اس سے نہ صرف کسانوں کی حالت اور بدتر ہوگی جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت میں جبریہ نیل کی کھیتی کرانے میں ہوئی تھی بلکہ عام خرید دار کے لئے بھی یہ اجناس برانڈیڈ ہوکر اور مہنگی سے مہنگی ہوکر اس کی قوت خرید سے باہر ہوتی جائیں گی. ملائی کھانے کا مقابلہ پھر صرف چند سرمایہ داروں کے بیچ ہوگا. پیچ میں جو کسان منڈیاں، چھوٹے بڑے اناج و پھل سبزیوں کے روایتی تاجران ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں انکا دھندا بند ہو کر بڑے گھرانوں کے ہاتھ میں آ جائے گا.
ڈیڑھ دو سال میں سرکار اپنے اندازے کے مطابق کسان تحریک کو کمزور تر کرنے میں لگی رہے گی اور نئے شہریت ترمیمی قانون کو بھی اچھالے رہے گی… حتیٰ کہ اگلا عام چناؤ نہ آ جائے. پھر ہندو مسلم تفریق کو ہوا دے دے کر بڑھتی بے روزگاری اور دیگر مسائل سے دور رکھ کر جذباتی باتوں پر چناؤ جیتنے کی فراق میں رہے گی. سیاسی مہروں کی خرید فروخت کا کاروبار مزید ترقی پائے گا اور ہندو مسلم پولرائزیشن مزید سے مزید تر کیا جائے گا. گو کہ اپوزیشن پارٹیاں بھی دودھ کی دھلی نہیں ہیں پھر بھی ان کے خلاف سرکاری ایجنسیوں کا سیاسی استعمال اور بھی عروج پر ہوگا.
بے شک اگلے عام چناؤ تک سب کچھ غیر یقینی ہوگا.
ابھی تو کووِڈ 19 کی وبا کے بہانے عظیم خسارے کے عام بجٹ کو جلد ہی جھیلتے دیکھنا ہے اور سرکار کے جھوٹ اور دوغلے چہرے سے پھر روبرو ہونا ہے.
جے پرکاش نارائن کے سمپورن کرانتی کے جنتا آندولن کے بعد جس نے جنتا پارٹی کی بنیاد ڈالی تھی اور بعد میں بھاجپا کو ملکی سطح کی پارٹی بنا دیا. انّا ہزارے کا لوک پال آندولن دوسرا بڑا حکومت مخالف آندولن تھا جس نے پہلے آندولن  کی طرح حکومت بدل ڈالی تھی اور بائی پراڈکٹ کے طور پر عام آدمی پارٹی کو جنم دیا تھا. کیا ایک سال کے بھیتر کھڑے شاہین باغ آندولن اور کسان آندولن ملک کی سیاست میں تیسرا بڑا تاریخی موڑ ثابت ہوں گے؟ اس سوال کا جواب مستقبل ہی دے گا جو ابھی غیر یقینی کے دور سے گزر رہا ہے.

صاحب مضمون کی گزشتہ نگارش:جے شری رام کے نعرے کی سیاست

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے