”  المبین  ” کی تحقیقی و تنقیدی حیثیت

” المبین ” کی تحقیقی و تنقیدی حیثیت




طفیل احمد مصباحی


علامہ سید سلیمان اشرف بہاری ( سابق پروفیسر و صدر شعبۂ دینیات مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ ) اپنی بلند پایہ اور معرکة الآراء تصنیف ” المبین ” کے صفحات پر مختلف رنگ و روپ میں دکھائی دیتے ہیں ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مذکورہ کتاب میں علامہ موصوف محقق ، ناقد ، ماہرِ لسانیات ، ادیب ، عربی زبان و ادب کے ادا شناس عالم اور بلاغت آشنا فاضل کی حیثیت سے اپنے فکر و فن کے آب دار موتی لٹاتے نظر آتےہیں ۔ جب وہ عربی زبان کے غیر معلوم حقائق کی دریافت اور اس کے تسلیم شدہ حقائق کی توضیح و تنقیح کرتے ہیں تو ایک دیدہ ور محقق معلوم ہوتے ہیں ۔ اور جب لسانیات کے حوالے سے عربی زبان کی تخلیق و تشکیل ، دیگر زبانوں پر اس کی فوقیت و برتری ، لسانِ عرب کے تدریجی ارتقا ، الفاظ کی ساخت اور بناوٹ ، ماخذِ اشتقاق اور عربی کلمات کی ہیئتِ کذائیہ پر دقیق علمی بحث کرتے ہیں تو ایک ماہرِ لسانیات کی حیثیت سے خود کو متعارف کرتے نظر آتے ہیں ۔ جب اپنے زورِ دلائل سے مشہور مشتشرق جرجی زیدان کے افکار کی تنقید و تردید اور اس کی کتاب ” فلسفة اللغة العربیة ” کے مندرجات کا بخیہ ادھیڑتے ہیں تو اس وقت ایک باکمال نقّاد نظر آتے ہیں ۔ زبان و بیان اور اسلوب کے فنکارانہ استعمال کرتے ہوئے ” ادیبِ عصر ” کا روپ دھارتے ہیں ۔ اقتضائے احوال کے مناسب اور موضوعات کے لحاظ سے جب محققانہ گفتگو کرتے ہیں تو ایک بلاغت آشنا عالم کی صورت میں نظر آتے ہیں ۔

المبین ، علامہ موصوف کی سب سے بلند پایہ ادبی و تحقیقی تصنیف ہے ، جس نے ان کی شہرت و مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے ۔ پروفیسر براؤن اور علامہ اقبال جیسی عظیم شخصیت نے اس کی اہمیت و معنویت کا اعتراف کیا ہے ۔ المبین کی اشاعت نے علمی و ادبی حلقوں میں دھوم مچا دی ۔ سید سلیمان ندوی ، پروفیسر رشید احمد صدیقی ، نیاز فتح پوری اور سجاد یلدرم جیسے نابغۂ عصر نے اس کتاب کو مستحق انعام بتایا اور ١٩٢٩ء میں ہندوستان اردو اکیڈمی ، الہٰ آباد نے حوصلہ افزائی کے طور پر مصنف کو پانچ سو روپے انعام دیا ۔ یہ کتاب علامہ موصوف کو رہتی دنیا تک یاد رکھے گی ۔ دو درجن کے قریب علما و ادبا اور پروفیسران نے اس پر گراں قدر تاثرات قلم بند کیے ہیں ۔ ہندوستان کی مایۂ ناز تعلیمی درس گاہ جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور ، اعظم گڑھ کے درجۂ فضیلت میں یہ شامل نصاب ہے ۔

پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں :

المبین شائع ہوئی تو اس کا ایک نسخہ سر اقبال مرحوم ( شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال ) کو بھیجا ۔ اتفاق سے کچھ ہی دنوں بعد اقبال مرحوم اپنے لکچروں کے سلسلے میں علی گڑھ تشریف لائے ۔ کھانے پر ایک جگہ مرحومین ( سید سلیمان اشرف و ڈاکٹر اقبال ) کی ملاقات ہو گئی ۔ المبین کا ذکر چھڑ گیا ۔ سر اقبال نے کتاب کی بڑی تعریف کی اور فرمایا : مولانا آپ نے عربی زبان کے بعض ایسے پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے ، جن کی طرف پہلے میرا ذہن کبھی منتقل نہیں ہوا تھا ۔

( گنج ہائے گراں مایہ ، ص : ٣١ ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ، دہلی )

صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن خان شروانی ( صدر الصدور مذہبی امور نظام دکن ، حیدر آباد ) کے بقول :

جو خدمتِ علمی پہلے مولانا شبلی مرحوم نے ادا فرمائی تھی ، اس کی تکمیل گویا ” المبین ” کے مؤلف مولانا سید سلیمان اشرف صاحب کے قلم سے ہوئی ہے اور ممدوح نے خصوصا اہلِ لغت پر احسان فرمایا ہے کہ ان کو ایک سخت مہلک مغالطے سے بچا لیا ہے ۔ المبین میں صرف یہی نہیں کہ جرجی زیدان کی لغزشوں اور غلط کاریوں کی تصحیح و تسدید کی گئی ہے ، بلکہ عربی زبان کی خصوصیات اس کاوش اور تحقیق سے قلم بند فرمائی ہیں کہ بے مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ سید سلیمان اشرف صاحب نے ایک ایسا فن مدوّن فرمایا ہے جس کے دھندلے سے متفرق آثار اگلوں کی تصانیف میں نظر آتے تھے ۔ المبین میں مؤلفِ محقق کے قلم نے ان دشوار گزار میدانوں کو فاتحانہ طے کیا ہے ، جن کا نشان بھی اگلی کتابوں میں نہیں اور اگر ہے تو مجمل اور مبہم سا ۔ لفظِ ” قطن ” کی بابت تو ایسا دقیق نکتہ زیب قلم ہوا ہے کہ جس کو پڑھ کر قلب پر وہی کیفیت طاری ہوئی جو برجستہ شعر سننے سے طاری ہوتی ہے ۔ عربی زبان سے شکر ہے تھوڑا بہت تعلق ( مجھے ) نصف صدی سے ہے ، مگر جو مضامین المبین میں پڑھے ، کبھی واہمہ بھی نہ ہوا کہ زبان عربی ان حقائق و معارف سے مالا مال ہے ۔ بیان اتنا مدلل ہے کہ ذہن بے تکلف اس کو قبول کرتا ہے ۔ ہاں ! عناد اور ضد کا علاج نہیں ۔

( المبین ، ص : ٢٤٩ – ٢٥٠ ، دار الاسلام ، لاہور )


زیرِ نظر کتاب میں اشتقاقِ صغیر و کبیر کی دقیق محققانہ و فلسفیانہ بحث ، مصنف کی وسعتِ علمی اور ان کی لسانی تحقیق و تدقیق کو اجاگر کرتی ہے اور ماہرینِ لسانیات کو دعوتِ فکر و مطالعہ دیتی ہے ۔ تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے صرف ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں ۔

مادّہ ” ق ، م ، ر ” سے اشتقاقِ کبیر :

” ق ، م ، ر ” ایک مادّہ ہے ۔ اب اگر اسے ہیئتِ ممکنہ کی طرف تبدیل کرتے جائیں تو چھ ( ٦ ) صورتیں اس کی ہوں گی ۔ قمر : چاند ، رقم : لکھنا – مقر : زہرِ قاتل –
رمق : تھوڑی سی جان جو باقی رہ گئی ہو – قرم : سردارِ قوم – مرق : شوربا

ان چھ ( ٦ ) الفاظ میں سے ہر لفظ بامعنی ہے اور اس کی کوئی ساتویں ہیئت و صورت ممکن نہیں ۔ اسی کے ساتھ اگر گہری نظر سے ( ان چھ الفاظ کے ) معانیِ ستّہ ( چھ معانی ) [دیکھیں] تو معلوم ہوگا کہ الفاظِ ستّہ کے ایک عام معنی ایسے قرار دیے جاسکتے ہیں ، جو ہر ایک میں مشترک کا حکم رکھتے ہیں ۔ مثلاً : با آہستگی ظاہر ہونا ، ایک ایسا مفہوم ہے ، جو ان چھ کے چھ ( یعنی مذکورہ چھ الفاظ ، جن کا مادہ ق ، م ، ر ، ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ شوربہ ( مرق ) آہستہ آہستہ تیار ہوتا ہے ۔ سرداری ( قرم ) تک پہنچنا بھی تدریج ( آہستگی ) کو بتاتا ہے ۔ رمق ( سانس ) میں بھی یہ معنی صاف ہے ۔ سانس یا نبض آہستہ آہستہ چل کر انسان کی حیات کو ظاہر کرتی ہے ۔ زہر ( مقر ) کا جسم میں اثر کرنا اور موت کا ظاہر ہونا محتاجِ بیان نہیں ۔ لکھنے ( رقم ) میں حروف کا نقش بن کر لفظ اور لفظوں سے جملوں کا ظاہر ہونا اور چاند ( قمر ) میں آہستہ آہستہ روشنی کا گھٹنا ، بڑھنا عیاں ہے ۔

( المبین ، ص : ٢٤ )



ڈاکٹر ساحل سہسرامی لکھتے ہیں :

پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاری سابق چیئرمین سنی دینیات ، مسلم یونیورسیٹی ، علی گڑھ اپنے وقت کے سحبانِ ہند تھے ۔ درجنوں کتابیں تصنیف کیں ۔ مشہور مستشرق جرجی زیدان کی ہفوات کا مسکت جواب دیتے ہوئے عربی زبان کی فضیلت اور برتری پر بے نظیر کتاب ” المبین ” لکھی ، جسے دیکھ کر پروفیسر براؤن نے کہا تھا : مولانا نے یہ کتاب اردو میں لکھ کر ظلم کیا ہے ۔ اگر یہ عربی یا انگریزی میں ہوتی تو اس کی شان ہی کچھ اور ہوتی ۔

( عرفانِ عرب ، ٥٣٥ ، شیر شاہ سوری پبلیکیشنز ، سہسرام ، بہار )

طفیل مصباحی کی پچھلی نگارش :ڈاکٹر منصور فریدی کی منفرد نعت گوئی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے