مشن حافظ ملت کی عصری معنویت

مشن حافظ ملت کی عصری معنویت


فیاض احمد برکاتی مصباحی
استاذ جامعہ اہلسنت نورالعلوم عتیقیہ
مہراج گنج بازار ترائی بلرام پور
Email:-Faiyazmisbahi@gmail.com

‎کوئی بھی مفکر جب اپنے زمانے میں کوئی زمینی فکر پیش کرتا ہے اور اس پر عملی زندگی کی بنیاد تعمیر کرتا ہے تو وہ فکر صرف چند سالوں کے لیے نہیں ہوتی ہے بلکہ اس سے ایک صدی وابستہ ہوتی ہے. اگر مفکر کے فالوورز عقیدت اور حقیقت کی زمین پر اتر کر اس فکر کی پیروی کرتے ہیں تو زمانہ اس فکر کا قائل ہوجاتا ہے اور ہر طرف اس فکر کی عملی بہاریں اپنی جوبن کا تماشہ دکھاتی ہیں ۔ انسانی قلوب اس مفکر کی فکری زلف کا شکار ہوتے ہیں ، سورج کی پر تپش شعائیں ہر شام اور صبح اس مرد جاں باز کی قبر پر انوار کی بلائیں لیتی ہیں ۔ آسمان کا چاند اس بالغ نظر دماغ کی رفعتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے ۔ ہوائیں اس فکر کی بلند و بالا عمارات کا طواف کرتی ہیں اور کائنات کی ہر شئ اس عظیم انسان کی فکری تخیلات پر رشک کرتی ہیں ۔ اسی طرح کے ایک عظیم مفکر کو ہم حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی کے نام سے جانتے ہیں ۔حافظ ملت کا مشن انسانیت کا مشن ہے ۔ حافظ ملت نے جس فکر کو عملی شکل میں ایک کامیاب مشن بناکر اپنے روحانی سپوتوں کے حوالے کیا تھا وہ ہوائی محل نہیں تھا یا ایک شرمندہ تعبیر نہ ہونے والا کوئی خواب نہیں تھا بلکہ ایک ایسا کامیاب مشن تھا جس کی تکمیل کے رہنماخطوط آپ نے اپنے کردار کے قلم سے لکھ ڈالے تھے ۔

‎حافظ ملت کا پہلا مشن اپنی قوم کو اعتقادی مضبوطی کے ساتھ اخلاقیات کے زیور سے آراستہ کر کے تعلیم کے میدان کا سب سے کامیاب انسان بنانا تھا ۔ ایک جان تنہا پورے ملک کے طول وعرض میں اس مشن پر کام نہیں کرسکتی تھی ، اس لیے حافظ ملت علیہ الرحمہ نے اپنے مشن کو ملک اور بیرون ملک پھیلانے کے لیے اپنے روحانی فرزند تیارکرنا شروع کیا اور فرزندوں کو چلتی پھرتی تحریک کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہا ۔شواہد کے طور پر حافظ ملت کے قریبی شاگردوں کو دیکھا جاسکتا ہے جن کے دلوں میں اس مرد قلندر کی سیمابی کیفیت روح کی طرح سرایت کر چکی تھی ۔ حافظ ملت کے ان عظیم شاگردوں میں علامہ ارشدالقادری سمیت درجنوں باوقار علمائےاہل سنت کی زندگی کی تاریخ دیکھی جاسکتی ہے جنہوں نے قوم وملت کی تعلیم کے لیے ہر طرح کی دشواریوں کا سامنا کیا اور قوم کو تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش کی ۔

‎ زمانہ حافظ ملت اور عصر حاضر میں بنیادی یکسانیت

‎حافظ ملت کا زمانہ اضطرابی کیفیت کا زمانہ ہے ، ہندوستانی مسلمانوں کے ہاتھوں سے ساری چیزیں نکل چکی تھیں ، زمین داری ختم ہوچکی تھی ، نوابی غلامی میں بدل چکی تھی ، مسلم معیشت تباہ کی جاچکی تھی اور ہر روز نت نئے طریقے سے معیشت چھینی جارہی تھی ، سماج سے ان کی اہمیت ختم ہوتی جارہی تھی ، فسادات کراکر سارے اثاثے خاک بنائے جارہے تھے ، تعلیم سے بے رغبتی کے لیے بہت سے لہو و لعب متعارف کروائے جا چکے تھے ۔مسلمانوں کو عصری تعلیم کے نام پر فتاووں میں الجھایا جارہا تھا ۔ قوم کے بڑے دماغ تعلیمی پلیٹ فارم کے نام پر دو دھڑوں میں بٹ چکے تھے ۔ ایک دینی تعلیم کا نمائندہ کہلارہا تھا تو دوسرے کے دماغ میں عصری دانش وری کا خمار سمایا ہوا تھا ۔ دونوں گروہوں کی آپسی چیپقلش کی وجہ سے نقصان قوم کا ہورہا تھا حضور حافظ ملت کی مفکرانہ نظرنے اسے بھانپ لیا تھا ۔دونوں بازو کو ایک کرنے کے لیے آپ نے دینی تعلیم کے بنیادی عنصر کے ساتھ عصری تعلیم کا ایک مضبوط پلیٹ فارم اپنی قوم کے سامنے پیش کیا ۔ تاکہ قوم کے دونوں بازو ایک ساتھ بیٹھ کر قوم کی تعمیر وترقی کی نئی شاہ راہوں کی تعمیر کی روشن لکیریں کھینچ سکیں ۔ اس وقت اگر ایک دیدہ ور حافظ ملت کی تاریخ ساز نظریے کا مطالعہ کرتا ہے تو داد دیے بغیر نہیں رہ پاتا ۔ اگر گستاخی معاف ہوتو میں ایک بات کہہ دوں کہ” ہم نے پرانی لکیروں کو ہی نقش حافظ ملت سمجھا "،یہ سوچ غلط تھی اور نہایت غلط ہے کہ صرف درس نظامی کی چند کتابیں پڑھنے اور پڑھانے کو فکر حافظ ملت سے منسوب کیا جانے لگا ۔ اسلام کی ترویج واشاعت کے لیے ہم نے اپنے شاہین صفت فرزندوں کو نئے آفاق تلاش کرنے کی راہ نہیں دکھائی ۔’ تعلیم ‘حافظ ملت کے مشن کا سب سے اہم اور خاص جز تھا لیکن ہماری حرماں نصیب کہیے کہ حافظ ملت کے تعلیمی مشن کے فروغ کے لیے ہم نے وہ جوش اور جذبہ نہیں دکھایا جو اس کے فروغ کے لیے ضروری تھا حتی کہ ملکی سطح پر جامعہ اشرفیہ کا تعلیمی نصاب بھی نہایت کامیاب ہونے کے باوجود ناقابل قبول ٹھہرا ۔جامعہ اشرفیہ اپنی تعلیم اور انتظام وانصرام میں اپنا بلند مقام رکھتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ملک بھر میں اپنی شاخیں قائم نہیں کرسکا ۔


‎اپنے لمبے تعلیمی سفر میں جامعہ اشرفیہ نے تمام تر بلندیوں کو سر کیا اس کے باوجود فارغین اشرفیہ کا مضبوط اتحادی پلیٹ فارم ابھی تک عملی میدان میں نہیں دکھائی دیا ۔ گزشتہ سال اس پر کچھ کوشیشیں ہوئیں اور مصباحی برادران کو آواز دی گئی تو جس سے جو بن پڑا لے کر میدان میں آگیا جس سے ادارے کو تقویت حاصل ہوئی ۔ انسانی سماج میں بچے پیدا کرنا اور یوں ہی چھوڑ دینا معیوب سمجھا جاتا ہے اسی طرح تعلیمی اداروں کی دنیا میں شاگرد پیدا کرکے آزاد چھوڑ دینے سے بہت کچھ فواید حاصل نہیں ہوتے ۔ گاہے بگاہے ان کی تربیت بھی ضروری ہوتی ہے ان کے حالات سے واقفیت ، میدان عمل میں کارکردگی کا علم رکھنا ، خطاکرنے پر سرزنش اور پدرانہ شفقت بھری جھڑکیاں بھی ضروری ہوتی ہیں۔ سب سے خاص بات یہ کہ ہمارا مذہب اسلام ہے جو ہمیں جسمانی اور ذہنی آزادی عطا کرتا ہے ۔ ملک کے ہر صوبے میں کثرت سے مصباحی برادران دینی کام کرتے ہیں ہر ایک کا جذبہ قابل دید ہوتا ہے ۔ انہیں اپنوں اور غیروں کی طرف سے بہت کچھ دکھ درد جھیلنا پڑتا ہے ۔مادر علمی کی طرف سے آج تک ایسا کوئی وفد نہیں نکلا جو پورے ملک میں کام کرنے والے اپنے فرزندوں سے ملاقات کرے ان کا دکھ درد سنے، دیکھے اور دور کرانے کے لیے حوصلہ بھرے کلمات کہے ۔ یہ بہت مشکل کام نہیں ہے لیکن اگر یہ کام کیا جائے تو اس کے دور رس فوائد ونتائج بھی بہت ہیں ۔ اسی طرح جن فارغین کو کوئی علمی اختلاف ہے ان سے بھی بات چیت کی جائے اور جن فارغین پر اپنوں نے ظلم کیا ہے اس مظلوم کی فریاد سنی جائے ۔اپنی اس عظیم طاقت کو سماجی ، سیاسی اور تعلیمی لحاظ سے بہتر طور پر استعمال میں لایا جائے ۔ فرزندان اشرفیہ اپنے مادر علمی سے جس طرح محبت کرتے ہیں یہ فارغین وادارہ دونوں کے لیے اللہ کی نعمت ہے ۔

‎ تجارت ، کتب فروشی اور اشرفیہ کا مفاد

‎زندگی کے ہر شعبے میں فرزندان اشرفیہ نے اپنی خداداد صلاحیت کا لوہا منوایا ہے ۔ تجارت کے میدان بھی کچھ لوگوں نے اچھی کامیابی حاصل کی ۔اس میدان میں کتب فروشی ایک اچھی تجارت ہے ۔ جامعہ کے پاس ایک اچھا کتب خانہ بھی ہے جو درس نظامی کی تمام متداول کتابیں شائع کرتا ہے لیکن اس کی صرف ایک شاخ ہونے کی وجہ سے کتابیں ان تمام شائقین تک ابھی نہیں پہنچ سکی ہیں جو مجلس برکات کی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں ۔ اگر اس شعبے کو بھی بہتر کیا جائے اورہر اس بڑے شہر میں جہاں اچھے دینی مدارس ہیں ایک ایک دوکان ڈال دی جائے ، کسی فارغ کو اس کام پر لگا دیا جائے تو جامعہ کا بھی بھلا ہو جائے گا اور کئی فارغین کام پر لگ جائیں گے ۔


‎ بین الاقوامی لسانی ترجمہ نگاری مرکز

‎اس وقت پوری دنیا میں ترجمہ نگاری مستقل ایک پیشہ ورانہ شعبے کی شکل اختیار کر چکاہے ، بہت سے پرائیویٹ ادارے اس شعبے میں کام کررہے ہیں اور اس قدر کامیاب ہیں کہ مدارس کے فارغین کی بہت بڑی تعداد ان سے وابستہ ہے جن کی معاشی پوزیشن بھی اچھی ہوگئی ہے ۔ حالاں کہ جتنی محنت کرائی جاتی ہے اس قدر اجرت نہیں ملتی ۔ میں اس بات کو نہیں سمجھ سکا کہ دین کے نام پر کام کرنے والے ہمارے ادارے اسلامی ممالک سے یہ کام خود کیوں حاصل نہیں کرسکتے ؟؟ اگر ہمارے ادارے اس میدان میں بھی تھوڑی سی محنت کریں اور توجہ دیں تو فارغین کا بہت بڑاگروہ اس میں کھپ جائے گا اور ادارے بھی مالی پریشانی سے بچ جائیں گے ۔ عرب ممالک سے جن فارغین کے تعلقات ہیں وہ اس کام کو بآسانی کرسکتے ہیں ۔

‎ عصری کوچنگ سینٹر

‎حافظ ملت علیہ الرحمہ کا مشن تعلیم ہے ، خاص کر دینی پیغام کو کس طرح ہر ایک تک پہنچانا ہے اس کی فکر کرنا مشن حافظ ملت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے ۔ ہمارے ملک اور صوبے سے لگاتار مسلم بچیوں کے ارتداد کی خبریں مل رہی ہیں ، ہم چند جملے بول کر اور کچھ مضامین لکھ کر اپنے فرائض منصبی سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں ۔ ہماری آنکھ بند کرلینے اور کان میں روئی ڈال لینے سے حقائق نہیں بدل جائیں گے ۔ الحاد کا فتنہ بڑی تیزی سے مسلم معاشرے کو اپنے شکنجے میں کس رہا ہے ۔ وقت کا یہ تیز ترین طوفان عصری تعلیم کی کشتی میں سوار ہوکر آرہا ہے ۔ خاص کر کوچنگ سینٹرز نے جو تباہی پھیلائی ہے اس سے ہر حساس دل واقف ہے ۔مسلم بچیوں کا ارتداد ہو یا جوانوں کا الحاد ، اس فتنے میں علماء ومشائخ کے بچے بھی شامل ہیں ۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہمارے ذمہ دار ادارے مستقل ایک شعبے کی شکل میں پورے ملک میں عصری کوچنگ سینٹرز کی شروعات کریں خاص کر ہمارے مادر علمی کو اس جانب خصوصی پیش رفت کرنی چاہیے ۔ مصباحی برادران کی بہت بڑی تعداد انگلش زبان وادب میں اچھی مہارت رکھ رہی ہے ۔ ایسے فارغین تلاش کیے جائیں ، ان کے ساتھ سائنس اور ریاضی کے اچھے اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں ۔اس شعبے کو اگر ایمان داری سے فروغ دیا گیا تو اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئیں گے ساتھ ہی ادارے کے مالی امداد میں بھی اچھا خاصہ اضافہ ہوگا ۔ اگر انگلش میڈیم اسکول کی جانب بھی ہمت جٹائ جائے تو اس امت کے لیے موجودہ وقت میں یہ خیر کا سودا ہوگا ۔۔ہمت ،جرات ، اعتماد ، وسیع القلبی اور سب سے بڑھ کرقومی جذبہ ہو تو ہر کام ہو سکتا ہے ۔


‎ صحافت اور جماعتی رویہ

‎صحافت موجودہ وقت میں معاشرے کے لیے ریڑھ کی ہڈی بن چکی ہے ۔ خاص کر جب صحافت ہی پرچار وپرسار کا ذریعہ بھی ہو ۔ ہمارے دعوے چاہے جتنے بلند ہوں حقیقت زمین یہ کہتی ہے کہ ستر فیصد مسلم علاقے ہمارے کنٹرول سے نکل چکے ہیں ۔ موجودہ ڈیجیٹل دنیا میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا سے زیادہ موثر سوشل میڈیا ہے ۔ جس کی تیزرفتاری کے سامنے الیکڑانک میڈیا کی برق رفتاری کمزور اور ماند پڑتی جارہی ہے ۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اکیسویں صدی کے ڈیجیٹل ٹائم میں ہر جماعت اور مسلک کے پاس اپنا پورٹل اور نیوز ویب سائٹ ہے لیکن ہماری جماعت کے سربر آوردہ افراد اور ذمہ دار ادارے کی نظروں میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ دیگر مسالک کے ذمہ داران کی طرف سے سوشل میڈیا ونگ کی مکمل نگرانی کی جاتی ہے اور ایک سلجھی ہوئی ٹیم ہر جماعت کی طرف سے کام کرتی ہے اور ہمارے یہاں انفرادی طور پر بھی اگر کوئی کام ہے تو بے سلیقہ ہے ۔ مواد کی کمی ، انداز بیان کی مفلسی اور ہر بات پر منطقیانہ استدلال کے ساتھ اعتقادیانہ شدت ہے جس کی وجہ سے غیر تو رہے اپنے بھی دور ہو جاتے ہیں ۔اس میدان میں بھی ہمارے بہت سے برادر علمی نے اپنا سکہ بیٹھایا ہے کاش ہم اپنے ہی افراد سے مشورہ کرکے اس میدان میں بھی کچھ کام کرتے. جماعتی بے حسی کا حال تو یہ ہے کہ کچھ مہینہ پہلے چند باحوصلہ جوانوں نے محنت کرکے ایک اخبار ضلعی سطح پر نکالنا شروع کیا ، عموما جیسا ہوتا ہے لمبے چوڑے قصیدے لکھے گئے ، واہ واہی کا دور چلا نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش ، حالت یہ ہے کہ آفس مینٹین کرنے کے پیسے نہیں آ رہے ہیں ۔ جن لوگوں نے موقع موقع اخبار میں اشتہارات دئیے ان میں سے اکثر نے کوئی نقدی ادا نہیں کی ۔ دنیا جانتی ہے کہ صحافت کا میدان زیادہ تر اشتہارات کی بیساکھی پر ٹکا رہتا ہے ۔ یہ جماعتی انجماد ہے اور جماعتی کوتاہ فکری ہے جس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی ۔ لیکن نیوز پورٹل اور ای اخبارات نکالے جاسکتے ہیں جیسا کہ بہت سے دوسرے لوگ نکال رہے ہیں ۔ اس لیے کہ نیوز پورٹل اور ای اخبار اس قدر فنڈ کی ضرورت نہیں ہوتی جس قدر پرنٹ اخبارات کے لیے ضروری ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے