🖋️ شعیب سراج
بغیر سوچے غم وہ مجھ کو بے حساب دے گیا
تمام عمر انتظار کا عذاب دے گیا
نہ جانے کتنے قتل ہوں گے اس کی غلطی کے سبب
تمہارے نین کو صنم یہ کون آب دے گیا
چلا گیا وہ چھین کر مری زباں کی نغمگی
اور اس کے بدلے ایک ٹوٹا سا رباب دے گیا
مری انا کی اس طرح اڑائی اس نے دھجیاں
قدم وہ میرے کاٹ کر مجھے رکاب دے گیا
نہ ایک پل سکون ہے نہ ایک لمحہ ہے قرار
"ہے ریت ریت زندگی عجب سراب دے گیا”
شعیب تونے کیا کیا کہ وحشتوں کو چھین کر
سکون و عیش کا سراج کو عذاب دے گیا
شیئر کیجیے