مغربی بنگال کااسمبلی انتخاب: مسلمان کیا کریں

مغربی بنگال کااسمبلی انتخاب: مسلمان کیا کریں

محمد شمشاد
ریاست مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 27.01%فیصد ہے. مغربی بنگال اسمبلی کی294 حلقوں میں سے 218 سیٹیں ایسی ہیں جہاں کے انتخاب کومسلمان متاثر کرتے ہیں اور ان حلقوں میں جیت اور ہار میں اہم رول ادا کرتے ہیں. اس کے علاوہ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخاب میں 84 اسمبلی ایسی ہیں جہاں مسلم امیدوار اول اور دوئم مقام پر رہتے ہیں. گزشتہ 2016 کے مغربی بنگال کے انتخاب میں 84 اسمبلی ایسے تھے جہاں سے 59 مسلم ممبران اسمبلی منتخب ہوئے تھے جس میں 33 ترنمول کانگریس سے،18 کانگریس اور8 رہنما بایاں محاذ سے منتخب ہوئے تھے. جب کہ اس الیکشن میں 63 مسلم رہنما دوسرے مقام کے ساتھ ناکام رہے تھے جس میں 20 ترنمول کانگریس سے، 31 بایاں محاذ، 10 کانگریس اور دو آزاد امیدوار شامل تھے. قابل ذکر یہ ہے کہ ان میں 38 حلقے ایسے ہیں جہاں سے پہلا اور دوسرا مقام حاصل کرنے والا کوئی مسلم امیدوار ہی تھا. ان میں ایک درجن سے زیادہ امید وار ایسے تھے جن کو معمولی ووٹوں سے شکست ہوئی تھی.
یہی حال 2011 کے اسمبلی انتخاب میں بھی دیکھنے میں آیا. اس اسمبلی انتخاب میں 84 اسمبلی ایسے تھے جہاں سے 60 مسلم ممبران اسمبلی منتخب ہوئے تھے. جب کہ دوسرے مقام پر رہنے والے 50 مسلم لیڈران تھے. ان میں 40 حلقے ایسے تھے جہاں سے اول،دوئم مقام حاصل کرنے والا کوئی مسلمان ہی تھا
غور طلب بات یہ ہے کہ ان میں بیش تر جگہوں پر مسلمانوں کے ووٹوں کاانتشار ہی ان کے ہار کی وجہ بنتی رہی ہے. اس میں نیشنل و علاقائی پارٹیوں کے امیدوار ہوں یا نام نہاد مسلم لیڈر، سبھی نے ہزار دو ہزار ووٹ لاکرکامیاب ہونے والے رہنماؤں کا راستہ روکنے کا کام کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم مسلمان متحدضرور ہیں لیکن شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد نہیں ہیں. یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمان کسی بھی سرکار پر کوئی دباؤ بنانے میں ناکام نظر آتے ہیں. دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے مسلم قایدین و معززین الیکشن کے لئے اس طرح کا کوئی منصوبہ تیار نہیں کرتے ہیں کہ کس طرح ہم ان پارٹیوں کے سامنے دباؤ کی سیاست کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں. اس کے علاوہ ہمارے قائدین دوسرے لوگوں کی طرح کبھی چھل کپٹ اوردباؤ کی سیاست نہیں کرتے ہیں
اس مضمون میں ہم نے مغربی بنگال کا ایک جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ مسلم قیادت اور وہاں کے عوام اپنے طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کس طرح سے وہ اپنی نمائندگی حکومت کے سامنے پیش کر سکتے ہیں. ریاست مغربی بنگال میں مرشدآباد، مالدہ اور شمالی دیناج پور تین اضلاع ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 50% سے زیادہ ہے ضلع مرشدآبادمیں مسلم آبادی 67% ہے اس ضلع میں کل 22 اسمبلی ہیں جس میں 16 اسمبلی حلقہ فرکا، سمشیر گنج، صوتی، جنگی پور، رگھوناتھ گنج، ساگر دیگھی، لال گولا، بھنگولا، رانی نگر، بھرت پور، ریجی نگر، بیل ڈینگا، ہری ہر پارا، نیؤڈا، دومکل اور جلنگی ایسے حلقہ ہیں جہاں سے کوئی مسلم امیدوار اول یا دوسرے مقام پر رہتا ہے، جب کہ ضلع مالدہ میں 52% مسلم آباد ہیں. اس ضلع میں 12 اسمبلی ہیں یہاں کے 8 اسمبلی حلقہ چنچل، ہریش چندرپور، ملاتی پور، رتوا، منک چک، موتھا باری، شجاع پور اور بیشناب نگر ہیں جہاں سے کسی نہ کسی طرح مسلم اسمبلی میں جاتے رہے ہیں. اسی طرح ضلع شمالی دیناج پور میں مسلم 51% ہے جہاں 9 اسمبلی ہے شمالی دیناج پور کے 4 حلقہ چوپرا، اسلام پور، گول پوکھر اور چکو لیا ایسے اسمبلی ہیں جہاں مسلم نمائندگی سامنے آتی رہی ہے
اس صوبہ میں بیر بھوم اور جنوبی24 پرگنہ دو ایسے اضلاع ہیں جہاں مسلم آبادی 30% سے زیادہ ہے. بیربھوم میں مسلم آبادی 37.06% ہے اس ضلع میں کل 11 اسمبلی ہیں اس میں 5 حلقہ لابھر پور، رام پور ہاٹ، حسن، نلہٹی اور موراری اسمبلی ایسے ہیں جہاں مسلم امیدوار نظر آتے ہیں. جنوبی24 پرگنہ جہاں 36% مسلم آبادی ہے اس ضلع میں 31 اسمبلی آتے ہیں جہاں 11 حلقہ ککدیپ، کلپی، مشرقی کنگ، مغربی باری پور، مغربی منگرا ہاٹ، ڈائمنڈ ہاربر، بھنگور، قصبہ، شمالی سونپور، بج بج اور مٹیا برج اسمبلی ہیں یعنی کل16 اسمبلی ایسے ہیں جہاں مسلم نمائندگی کے لئے محنت کی جا سکتی ہے
اسی طرح صوبہ میں نڈیا، ہاوڑہ، شمالی 24پرگنہ، کوچ بہار، جنوبی دیناج پور، بردوان اور کولکتہ 7 اضلاع ایسے ہیں جہاں مسلم آبادی 20% فیصد سے زیادہ ہے. ضلع نڈیامیں 27% مسلم آبادی ہے. اس ضلع میں کل 17 اسمبلی ہیں اس کے 5 حلقہ پلاسی پارا، کالی گنج، نکاش پارا، چھپرا اور جنوبی کرشنا نگر اسمبلی ہیں. ہاوڑہ ضلع میں 26.2%مسلمان رہتے ہیں جہاں کل 16 اسمبلی ہیں. اس کے 4 حلقہ پنچلہ، مغربی اولبیریا، شمالی اولبیریا، جگت اور بلبھ پور ہیں. اسی طرح شمالی 24پرگنہ میں 26% مسلمان ہیں. اس ضلع میں کل 33 اسمبلی ہیں. اس کے 5 حلقہ بدوریا، آمدا نگر، دیگنگا، ہراؤ اور شمالی بشیر ہاٹ ہیں. اور کوچ بہارمیں بھی 26%مسلمان ہیں. اس ضلع میں 9 اسمبلی ہیں. کوچ بہار کے 2 حلقہ نٹباری اور طوفان گنج ہیں. جنوبی دیناج پورمیں 25%مسلم آبادی ہے. اس ضلع میں کل 6 اسمبلی ہیں. جنوبی دیناج پور کے 2 حلقہ کمار کم اور ہری رام پور ہیں. جب کہ ضلع بردوان جہاں مسلم 21%آباد ہیں. بردوان میں کل 25 اسمبلی ہیں. اس کے7 حلقہ شمالی بردوان، موٹیشور، میماری، کیٹوگرام، منگل کوٹ، رانی گنج اور جموریا ہیں. کولکتہ میں 22%مسلم آبادی ہے جہاں کل 11 اسمبلی ہیں کولکتہ کا ایک (1)حلقہ کولکتہ پورٹ ہے جہاں سے مسلم نمائندگی پیش کی جا سکتی ہے
اس کے علاوہ ہگلی، مشرقی مدنا پور، مغربی مدنا پور، بانکورہ چار اضلاع ایسے ہیں جہاں مسلم آبادی کم ہے لیکن یہاں بھی کچھ اسمبلی ایسی ہیں جہاں سے مسلم نمائندگی حاصل ہوتی رہی ہے. ہگلی 16% مسلم آباد ہیں. ہگلی میں کل 8 اسمبلی ہیں اور اس کے 5 حلقہ چمپدانی، پندوا، چندی ٹالا، پرسورہ اور کھناکوہے. مشرقی و مغربی مدنا پور جہاں مسلمان 11% ہیں اور ان دوا ضلاع میں کل 33 اسمبلی آتے ہیں. مشرقی مدنا پور کے 5حلقہ مغربی پنسیکورہ، مشرقی پنسیکورہ، نندی گرام، نندا کمار اور اگرہ میں مسلم رہنما اپنی موجودگی درج کراتے رہے ہیں. جب کہ ضلع مغربی مدنا پور کے 3 حلقہ کھڑگپور، دیبرا اور گربیٹا میں مسلم رہنما اپنی موجودگی درج کراتے رہے ہیں. اس کے علاوہ بانکورہ میں صرف 8%مسلم ہیں، جہاں 12 اسمبلی ہیں لیکن اس ضلع بانکورہ میں صرف ایک کٹویسوا حلقہ میں ہی مسلم نمائندگی دیکھی جاتی ہے. اس طرح کل84 حلقہ ایسے ہیں جہاں سے مسلم رہنما اپنی نمائندگی پیش کرتے رہے ہیں یا ان حلقوں میں تھوڑی بہتر حکمت اپنائی جائے تو مسلم نمائندگی بڑھائی جا سکتی ہے
جلپائی گوری 13%، علی پور 9%، پورولیا 8% اور دارجلنگ میں 6% مسلم آبادی ہے جہاں سے کسی اسمبلی میں کوئی مسلم نمائندگی نظر نہیں آتی.
جب بھی الیکشن کا وقت آتا ہے ہندوستان کی ہر چھوٹی بڑی قومی وعلاقائی پارٹیاں اپنی تیاریوں میں لگ جاتی ہیں اور ہر انتخاب کے مدنظر سیکولر پارٹیوں کی نگاہیں مسلمانوں پر مرکوزہوجاتی ہیں اور وہ مسلمانوں کواپنی جانب راغب کر نے کے لئے اپنی حکمت عملی تیارکر نے میں لگ جاتی ہیں. لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان اپنے کو اتنا طاقتور نہیں بنا سکتے کہ ان پارٹیوں کو مسلما نوں کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جاسکے اور وہ مسلمانوں کے من پسند امیدوار ان کے حلقہ میں دے سکیں. اس کے ساتھ ہی ان مسلمانوں کے مسائل کے حل کیلئے کوئی منصوبہ تیار کر سکیں.
مغربی بنگال میں مسلمانوں کے تقریبا پانچ گروپ اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ اس انتخاب میں مسلمانوں کا ووٹ بالکل تقسیم نہ ہو پائے ان گروپوں کی آپس میں کئی میٹنگز بھی ہوچکی ہیں. لیکن یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ وہ گروپ آپس میں مل بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں. اب سوال یہ بھی ہے کہ جب مسلم قایدین متحدہ طور پر مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے راضی نہیں ہو سکتے ہیں تو پھر اپنی عوام کو متحد کرنے میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں
اب مسلم قائدین اور عوام کو بھی ان پارٹیوں سے کچھ سیکھ لینے اور اپنی شناخت قائم کرنے کی ضرورت ہے. اس کے لئے لازمی ہے کہ مسلمان کسی ایک نقطہ پر متحد ہوں. بہرحال مسلمانوں کو اتحاد قائم کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی نقطہ یاکسی بنیادی ایجنڈہ پر اتفاق کرنا ہوگا. اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مسلمان متحد ہو کر کسی ایک امیدوار کو ووٹ کریں. جہاں دو مسلم امیدوار ہوں وہاں اسی امیدوار کو ووٹ کریں جو زیادہ مضبوط، مخلص اور ایماندار ہو. جہاں صرف ایک مسلم امیدوار ہو تو مسلمانوں کو متحد ہو کر صرف اسے ہی ووٹ کرنا چاہئے. اورجہاں کوئی مسلم امیدوار نہ ہو تو ترنمول کے امیدوار کو ووٹ کرنا چاہئے یا پھر اس امیدوار کی حمایت کریں جو این ڈی اے کے امیدوار کو شکست دے سکے. اس کے بعد انہیں پیچھے مڑکر دیکھنا نہیں ہوگا. یہی اپنی شناخت قائم کرنے اور کامیابی کے لئے پہلی سیڑھی ہوگی. اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تو ہمیں اپنی ترقی اور منزل تک کا راستہ طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے
موبائل نمبر +91-70115959123 – : Email:-mshamshad313@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے