گھیرے رکھتا  ہے  عبث  نور  کا   ہالہ  مجھ  کو (غزل)

گھیرے رکھتا ہے عبث نور کا ہالہ مجھ کو (غزل)

جہانگیر نایاب

گھیرے رکھتا ہے عبث نور کا ہالہ مجھ کو
راس آتا نہیں مانگے کا اجالا مجھ کو

میں، گیا وقت تو واپس نہیں لا سکتا مگر
اپنی کوتا ہی کا کرنے دے ازالہ مجھ کو

کس کی دستک نے مِری نیند اڑا کر رکھ دی
آج کس نے میری خلوت سے نکالا مجھ کو

جس کو ہوں دل سے مِرے عیب و ہنر دونوں قبول
کوئی ایسا تو ملے چاہنے والا مجھ کو

منتشر کر دیے اوراق مِرے ماضی کے
آج پھر تم نے پریشانی میں ڈالا مجھ کو

ڈرنے والا نہیں طوفانِ حوادث سے میں
تو کسی ڈر کا نہ دے اور حوالہ مجھ کو

کہکشاں، چاند ستارے کی طلب کس کو ہے
چاہیے بس مِرے حصّے کا اجالا مجھ کو

اتنی آسانی سے خود پر بھی نہیں کھلتا میں
آپ نے جتنی سہولت سے کھنگالا مجھ کو

غرق کرنا کبھی چاہا جو بھنور نے نایاب
موج دریا نے اسی وقت اچھالا مجھ کو
___________


شاعر کا مختصر تعارف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاندانی نام : محمد جہانگیر عالم

قلمی نام : جہانگیر نایاب

تاریخ پیدائش : 17 مارچ 1985

جائے پیدائش : محسن گاؤں، کوچادھامن، کشن گنج، بہار (نانیہال)

آبائی وطن : مہیش بطنہ، بہادرگنج، کشن گنج، بہار

تعلیم : ایم اے اردو، (ڈپلومہ ان ایجوکیشن)

ذریعۂ معاش : درس و تدریس

تلمذ : پروفیسر عنوان چشتی، خورشید طلب

آغاز شاعری : 1998، درمیان میں وقفے وقفے سے 11 سال کی طویل خاموشی 2015 سے مسلسل

شعری مجموعے : ہوا کے خلاف (زیرِ اشاعت)

سرکاری انعامات و اعزازات : کوئی نہیں

پسندیدہ شعراء : میر، غالب ، اقبال، شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، بانی، عرفان صدیقی، شہر یار ،مظفر حنفی ،،خورشید طلب، عزیز نبیل، ارشد جمال صارم، ارشد جمال حشمی، سالم سلیم، عرفان وحید

مشغلہ : درس و تدریس، مطالعہ کتب، خدمتِ خلق، تنہائی کے آئینے میں اپنے اور دنیا کے عکس دیکھنا اور ان میں معنی پیدا کرنے کی ناکام کوشش کرنا

پورا پتہ : امام نگر، بہادرگنج، ضلع کشن گنج، بہار

موبائل نمبر : 9905417662

ای۔میل :jnayab1@gmail.com
_______

شاعر کی مزید دو غزلیں :
غزل – 1

اجتماعی ہوں وہ چاہے انفرادی مسئلے
خود بخود ہوتے نہیں حل میرے بھائی مسئلے

کم نہیں تھے یار میرے اپنے ذاتی مسئلے
تم اٹھا لائے کہاں سے یہ اضافی مسئلے

ہو رہے ہیں دن بہ دن سنگین سے سنگین تر
نو بہ نو تازہ بہ تازہ تجرباتی مسئلے

اس طرح تو مسئلے کا حل نکلنے سے رہا
مسئلوں سے کر رہے ہیں ہاتھا پائی مسئلے

ہر طرح کے مسئلوں سے تو نمٹ لیتے ہیں لوگ
جان لے لیتے ہیں لیکن خاندانی مسئلے

سامنے درپیش ہیں جو پہلے ان کو حل کریں
بعد میں پھر دیکھ لیں گے جو ہیں باقی مسئلے

ہم سمجھتے ہیں جسے یہ آج کا ہے مسئلہ
ہر زمانے میں رہے ہیں اختلافی مسئلے

ایک سے لگتے ہیں دونوں جوڑ کر دیکھا ہے جب
اپنے ذاتی مسئلوں سے کائناتی مسئلے

مسئلوں میں مبتلا نایاب اک مدت سے ہوں
تاک میں رہتے ہیں میرے ناگہانی مسئلے
________

غزل – 2

عشق کو جان کا آزار نہیں کرتا میں
ایک ہی بھول کئی بار نہیں کرتا میں

ایک مدت سے گرفتارِ بلا ہوں لیکن
کوئی وحشت سرِ بازار نہیں کرتا میں

مسئلہ تُو نے بنایا ہے انا کا تو پھر
جا، ترے پیار کا اقرار نہیں کرتا میں

میرے دل میں بھی ہے جذبوں کی فراوانی مگر
یہ الگ بات ہے اظہار نہیں کرتا میں

اک تجسس مجھے سر گرمِ عمل رکھتا ہے
سیکھنا کچھ ہو، تو پھر عار نہیں کرتا میں

دور کردی مِِری ہر ایک شکایت تُونے
آج تجھ سے کوئی تکرار نہیں کرتا میں

اپنی تیراکی پہ ہے یار بھروسہ مجھ کو
ٹوٹی کشتی پہ ندی پار نہیں کرتا میں

سامنے اس کے "میں” اظہارِ تمنا نایاب
کر چکا ہوں مگر اس بار نہیں کرتا میں
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے