اے ہم نفس

اے ہم نفس

جاوید اختر ذکی خان

تم کیوں خفا ہو میرے
ان تلخ لہجوں سے
تم ہی ذرا بتاؤ تو
تم میرے حال سے
کتنی واقفیت رکھتے ہو؟
تم یہ تمنا رکھے ہو
کہ میری سب تمنائیں مر جائیں
دفن ہو جائیں
زمین دوز ہو جائیں ؟
کون ہے میرا قاتل
کس نے مجھے تنہا کر دیا
آنکھوں میں اب بھی انتظار ہے
زندگی کہاں گزاری جاتی ہے
بس یوں گزرتی جا رہی ہے
خوشیاں، جو ہمیشہ ناراض رہیں
مسرتیں جو غیر آباد رہیں
غموں کے جلوے ہمیشہ جواں ہی رہے
اب میں کب تلک اپنے دائرہ ذات میں
تنہا مقید رہوں اے میرے ہم نفس؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے