وعدہ کیا ہے وعدہ نبھائیں گے تا حیات (غزل)

وعدہ کیا ہے وعدہ نبھائیں گے تا حیات (غزل)

نورالدین ثانی 

وعدہ کیا ہے وعدہ نبھائیں گے تا حیات 

پھولوں سے تیری راہ سجائیں گے تا حیات

تنہائیوں کی رات یوں روشن کریں گے اب

یادوں کا اک چراغ جلائیں گے تا حیات

اک بار دل لگا کے ہی پچھتا رہے ہیں ہم

اب پھر نہ دل کسی سے لگائیں گے تا حیات

ان سے بچھڑ کے اور بھلا کیا کریں گے ہم

جھوٹی ہنسی لبوں پہ سجائیں گے تا حیات

دیوانے کا جو کام ہے کرتے رہیں گے ہم

نخرے تمام ان کے اٹھائیں گے تا حیات

شاعر کا تعارف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل نام : محمد نورالدین
والد کا نام : محمد یوسف عرف بہادر مرحوم
والدہ کا نام : بی بی تجم النساء مرحومہ
تاریخ پیدائش : یکم جنوری ۱۹۷۹ ء ( سرٹیفیکٹ )
جائے پیدائش : صالح پور ، مہیش پور ۔
تھانہ : پھلکا ۔ ضلع : کٹیہار ۔
شریکِ حیات : سمینہ خاتون
اثمارِ حیات : آذان الٰہی ( ۱۰ سال) ، انا الٰہی ( ۸ سال ) ، مہربان الٰہی ( ۴ سال )
تعلیم : آٹھویں جماعت
پیشہ : ٹھیکیداری
شاعری کی ابتدا : باضابطہ ۲۰۱۴ ء سے
استاد : نوشاد ثمر بگراسوی ( بلند شہر )
رہنما : احمد ندیم مورسنڈوی ، جمیل مظہر سیانوی
۔۔۔۔۔
اشاعت :

شعری مجموعہ مکمل نہیں ۔
اردو رسائل و جرائد : خاتونِ مشرق ، دہلی ۔ راشٹریہ سہارا ۔ انقلاب ۔
ہندی رسائل و جرائد : سہ ماہی ادبی دہلیز ، سنبھل ۔ مہکتا آنچل ، دہلی ۔ روپ کی شوبھا ، دہلی ۔ ادبی کرن ، نوہر ( راجستھان ) ۔ سرمایہء ہند ، غازی آباد وغیرہ ۔
۔۔۔۔۔۔
افسانے :

تمام افسانے ہندی زبان میں
۱ ۔ حوصلوں پر ۔ روپ کی شوبھا دہلی ۔ دسمبر ۲۰۰۷ ء
۲ ۔ نگر اور نگریا ۔ روپ کی شوبھا ، دہلی
۳ ۔ شراب سے تباہی ۔ سرمایہء ہند ، غازی آباد ۔ ۲۰۱۵ ء
۴. بہتے آنسو ۔ سرمایہء ہند ۔ ۲۰۱۵ ء
۵ ۔ اُس بھول کی سزا ۔ سرمایہء ہند ۔ ۲۰۱۵ء
چند غیر مطبوعہ افسانے ۔
۔۔۔۔۔
ادبی سرگرمیاں :

جوہر پارک ، غازی آباد ( یوپی ) میں ‘ گلشنِ ادب فاؤنڈیشن ‘ کے نام سے ایک تنظیم کا قیام ۔مذکورہ تنظیم کے نائب سیکریٹری کی حیثیت سے کام رہے ہیں ۔
۲۰۱۷ ء میں ‘ کاروانِ قلم ، کٹیہار ‘ کو بارہ سال بعد دوبارہ فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
۲۰۱۸ ء میں کٹیہار میں ایک نئی ادبی تنظیم ‘ سخن ‘ کی شروعات میں اہم کردار ادا کیا ۔ فی الحال اس ادبی تنظیم کے نائب سکریٹری کے عہدہ پر فائز ہیں ۔ ‘ سخن ‘ کے بینر تلے ماہانہ ادبی نشستوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے ۔
۲۰۱۸ ء میں دہلی اردو اکادمی کے سالانہ مشاعرہ بعنوان ‘ نئے  پرانے چراغ ‘ میں شمولیت
۲۰۱۸ء میں اپنے آبائی گاؤں صالح پور ، مہیش پور میں آل انڈیا مشاعرے کا انعقاد
……

مزید غزلیں:

جو چھوڑا تھا اسی پر آ گیا نا
ترے ہاتھوں میں خنجر آ گیا نا
میں کہتا تھا کبوتر مت اڑانا
بچارا تیر کھا کر آ گیا نا
بہت آساں سمجھتے تھے وفا کو
تمہیں بھی یار چکّر آ گیا نا
نتیجہ یہ تمہاری سوچ کا ہے
حکومت میں ستم گر آ گیا نا
ہمارے قتل پہ چپ رہنے والو
تمہارا بھی تو نمبر آ گیا نا
ادب کی ساری دیواریں گرا کر
سرِ محفل وہ جوکر آ گیا نا
قسم کھا کر گیا تھا گاؤں سے تو
مگر ثانی پلٹ کر آ گیا نا
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے اسلاف کا راستہ چھوڑ دیں
لوگ کہتے ہیں کہ ہم وفا چھوڑ دیں
پھر ضرورت پڑی روشنی کی یہاں
پھر چراغِ محبت جلا چھوڑ دیں
وہ گریں گے بلندی سے میری طرح
اُن سے کہہ دو انا کا نشہ چھوڑ دیں
سچ تو سچ ہے کبھی جھوٹ ہوتا نہیں
ہم بھلے دیکھنا آئینہ چھوڑ دیں
پھر سے دنیا دیوانی محبت کی ہو
دل کا دروازہ گر ہم کھُلا چھوڑ دیں
یہ نئے دور کا ہے نیا قافلہ
آپ ثانی ذرا راستا چھوڑ دیں
۔۔۔۔۔
پاگل کوئی ، مجنوں کوئی ، دیوانہ کہے ہے
اِک تیرے سوا کوئی بھی اچھا نہ کہے ہے
پربت کو اکھاڑے ہے ، سمندر کو سمیٹے
‘ کرکے بھی دِکھائے ہے جو دیوانہ کہے ہے ‘
اے دل تو اسے بھول جا بہتر یہی ہوگا
آتش میں یہ جلتے ہوئے پروانہ کہے ہے
میں نے تو کبھی اس کو پرایا نہیں سمجھا
ہاں ! وہ تو مگر مجھ کو ہی بے گانہ کہے ہے
تم لادو کہیں سے بھی مرے یار کو لادو
کمبخت یہی بات مرا شانہ کہے ہے
ثانی کی بات اور نہ محفل میں سنی جائے
جب جب بھی سنو اپنا ہی افسانہ کہے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھ کو حسرت ہے اسے دل کے مکاں تک دیکھوں
بند آنکھوں سے پرے وہم و گماں تک دیکھوں
تیری چاہت نے یوں منظر کے ہیں منظر بدلے
تیری صورت ہی نظر آئے جہاں تک دیکھوں
اس کی نظریں تو نئے روز نظارے بدلیں
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں
میرے آگے ہی وہ گلشن کو جلائے میرے
اور مجبور کرے ہے کہ دھواں تک دیکھوں
مجھ کو بخشی ہے محبت نے کرامت ایسی
کوئی دیکھے نہ جہاں تک میں وہاں تک دیکھوں
وقت دکھلاتا ہے سب کو ہی تماشا ثانی
ورنہ یہ کس کی تمنا ہے کہ خزاں تک دیکھوں
۔۔۔۔۔۔

یہ مانوگے اک دن کہا دیکھ لینا
وفا میں ملے گی دغا دیکھ لینا
ابھی جس کو تو نے بٹھایا ہے سر پر
وہی کاٹ لے گا گلا دیکھ لینا
حمایت کروگے جو تم ظالموں کی
تمہارا بھی ہوگا برا دیکھ لینا
کروگے ابھی سے جو ضد اس کی پوری
بگڑ جائے گا لاڈلا دیکھ لینا
فلک سے میں تارے لے آؤں گا اک دن
رہی آپ کی گر دعا دیکھ لینا

شیئر کیجیے

One thought on “وعدہ کیا ہے وعدہ نبھائیں گے تا حیات (غزل)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے