اوس کی زمین پر

اوس کی زمین پر

قسیم اظہر


میں 2020 سے گزر چکاہوں اور میری آنکھوں کے سامنے کافکا کی کہانی ہے . اس بچی کی کہانی جس کی گڑیا نے خود اپنے گم ہوجانے کی وجہ بیان کی تھی .
,, میری دوست ، رو مت ، میں دنیا گھومنے جاچکی ہوں . میں جلد واپس آکر اپنے سفر کی حیرت انگیزیوں کے بارے میں تجھے بتاؤں گی،،
اس بیچ گڑیا کے خطوط آتے رہے . سفری کہانیوں پر مشتمل خطوط کو پڑھ کر بچی خوش ہوتی رہی . کئی سال گزرے . ایک دن گڑیا اس کے پاس آگئی . بچی کنفیوز ہوئی کہ یہ گڑیا میری گڑیا جیسی نہیں . گڑیا کا ایک اور خط آیا .
,, دنیا بھر کے سفر سے میں تبدیل ہوگئی ہوں،،
بچی نے گڑیا کو گلے سے لگالیا . ایک سال بعد کا فکا کی موت ہوگئی . کئی سال بعد جب وہ بچی جوان ہوگئی تو گڑیا کے اندر سے فرانز کافکا کا ایک خط برآمد ہوا .
,,ہر وہ چیز جس سے تم محبت کرتی ہو ، ایک دن گم ہوجاتی ہے اور تمہیں کسی اور شکل وہیولے میں ہی سہی مگر تمہاری محبت تمہیں ضرور واپس مل جاتی ہے”
یہ کوئی افسانہ نہیں تھا . کافکا کی اصل زندگی کی وہ کہانی تھی جس میں کا فکا بچی کی گم شدہ گڑیا کا کردار ادا کر رہاتھا .
2020 کی ادبی خدمات کا جائزہ لینا چاہتاہوں .مگر ٹھہریے . کیوں کہ 2020 کارنگ بہت زیادہ سرخ ہے . یہاں سے بھی کئی چیزیں گم ہوئی ہیں . خداکے ہاتھوں تخلیق پائی کئی گڑیاں یہاں سے گم ہوچکی ہیں . بابری مسجد کی عمارت اور عمارت کو منہدم کرنے والے بھی جرم کی کتاب سے گم ہوچکے ہیں اور میں منٹو کو یاد کر رہاہوں .
,,ہندوستان زندہ باد ، پاکستان زندہ باد ان چیختے چلاتے نعروں کے بیچ کئی سوال تھے .
میں کسے اپنا ملک کہوں .؟
لوگ دھڑا دھڑ کیوں مر رہے تھے .؟
ان سب سوالوں کے مختلف جواب تھے . ایک ہندوستانی جواب ایک پاکستانی جواب . ایک ہندو جواب ایک مسلمان جواب .کوئی اسے اٹھارہ سو سنتاون کے کھنڈر میں ڈھونڈتا ہے تو کوئی اسے مغلیہ حکومت کے ملبے میں ٹٹولنے کی کوشش کرتاہے . سب پیچھے دیکھ رہے ہیں . لیکن آج کے قاتل لہو اور لوہے سے تاریخ لکھتے جا رہے ہیں”
میں منٹو کو کیوں یاد کرتا .؟
یہ خدا کی زمین ہے . نہیں یہ بھارت کی زمین ہے . 2020 میں یہاں سے انسانی جسم کے جلنے کی بدبو بہت تیز ہوگئی ہے . قانونی دستاویزات نذر آتش ہوچکے ہیں . عدالتوں میں انصاف کے چہرے پہ کالک پوتے جاچکے ہیں . چاروں طرف جنگلیوں کا ہجوم اور ان کے فساد کے شرارے پھٹ پھٹ کر فضاء میں تحلیل ہونے لگے ہیں . کسی بچی نے بتایا کہ ملک میں سیاہ اور سرخ آندھی چلی ہے . پورا ملک رو پڑا ہے . ملک کی ہر چیز رو پڑی ہے . نواجوانوں اور نوزائیدہ بچوں کی آنکھوں میں بھی آنسو ہے ۔
ادیبوں نے کہا ہے کہ اب ملک اس کا عادی ہوچکاہے .
کیوں کہ بوڑھے ادیبوں کو پہلی بار احساس ہوا کہ یہ ملک ہمارا ملک نہیں . یہ ملک کسی اور کا ملک ہے . وحشیوں اور جانوروں کا ملک ہے .
یہ بھی کوئی ملک ہے .؟
نہیں ہرگز ہرگز نہیں . یہ تو کوئی بازار ہے . کوئی منڈی ہے . یہاں ایمان بکتے ہیں . ضمیر کا سودا ہوتاہے اور انسانوں کی کھوپڑیاں تک بازار میں دستیاب ہیں . ہندؤں کی کھوپڑیاں الگ . مسلموں کی کھوپڑیاں الگ . میں ان کھوپڑیوں کو ہندو اور مسلم سے نہیں جوڑ سکتا کیوں کہ مذہب کی کھالیں ابھی بھی فضاء میں رقص کر رہی ہیں اور سیاسی گدھ کی آنکھیں مجھے دیکھ رہی ہیں .
2020 منٹو کے اس خوف کو حقیقت کا روپ دے چکاہے . ہم اس خوفناک دنیا میں داخل ہوچکے ہیں اور ہمیں نہیں معلوم کہ لہو اور لوہے سے تاریخ لکھنے والوں کا یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا .
ایڈگر ایلن پو کی ,,سرخ موت،، سیاہ نقاب لگائے دنیا کے ہر ایک گوشے سے ہوکر گزری . وہ جہاں سے ہوکر گزری لوگ مرتے گئے . ہندوستان سے ہوکر جب اس کا گزر ہواتو یہاں بھی لوگ مرتے گئے . لاشوں پہ لاشوں کے ڈھیر لگ گئے . لاشوں کے اوپر سے ہوکر جب ایک پرندہ گزرا تو اس کے پر تھک گئے . سانسیں پھول گئیں . حلق اتنا سوکھ گیا کہ پرندے نے اپنی پیاس بجھانے کی خاطر گنگا سے پانی مانگا . گنگا جو سینکڑوں عقیدت مندوں کی ماں ہے اس پر بھی خشکی غالب آگئی . پرندے نے ایک آہ بھری اور تڑپ تڑپ کر وہیں گنگا کے کیچڑ سے بھری گود میں اپنا دم توڑدیا .
معاشی اور سماجی سطح پر حقیقت کے آئینے سے اس سال کو دیکھا جائے تو ,,کرونا ،، نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا ہے . کروڑوں لوگوں نے اپنی نوکریاں گنوادیں . لاکھوں کے اکاؤنٹ سے پیسے غائب ہوگئے . ہزاروں بھوکے مرگئے . کچھ نے خود کشی کو ترجیح دی اور کچھ ابھی بھی زندگی اور موت سے لڑ رہے ہیں .
ایسے ناساز گار حالات میں کوئی ادیب اچھا ادب کیسے تخلیق کرسکتا ہے .؟
ظاہر ہے کہ اس کا اثر اردو ادب پر بھی دیکھنے کو ملا . . . کئی رسالے اور میگزینوں کی اشاعت بند ہوگئی . اکثر رسالے پرنٹ میڈیا سے ای میگزین میں کنورٹ ہوکر نکلتے رہے . تمثیل ، تفہیم ، ایوان اردو ، رہروان ادب ، آج کل اور دربھنگہ ٹائمز جیسے رسالے پرنٹ میڈیا سے شائع ہوتے رہے .
مجلس فروغ اردو ادب دوحہ قطرنے صحافی اور اردو کے ممتاز فکشن نگار نور الحسنین کو ایوارڈ سے نوازا جو ڈیڑھ لاکھ روپے نقد ، طلائی تمغہ اور سپاس نامے پر مشتمل ہے .
مجلس فروغ اردو ادب کی چوبیس سالوں سے یہ روایت رہی ہے کہ وہ ہرسال ایک ہندوستانی اور ایک پاکستانی ادیب کانام اپنے ایوارڈ کے لیے انتخاب کرتی ہے . ہندوستانی ایوارڈ یافتگان میں آل احمد سرور ، قرۃ العین حیدر ، جیلانی بانو ، کالی داس گپتا ، جوگیندر پال ، سریندر پرکاش ، نثار احمد فاروقی ، سیدہ جعفر ، جاوید اختر ، عبد الصمد ، گلزار ، رتن سنگھ ، شموئل احمد ، مشرف عالم ذوقی ، نند کشور وکرم ، سید محمد اشرف اور ف س اعجاز وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔
2020 میں اقلیتی کمیشن نے مشرف عالم ذوقی کو فروغ اردو کے ایوارڈ سے نوازا جب کہ کسوٹی جدید نے ذوقی کو لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا اور ان کے نام ایک شمارہ مشرف عالم ذوقی نمبر کی بھی اشاعت کی . اس سال ذوقی کا نیا ناول ,,مردہ خانہ میں عورت ،، کی بھی ایک گونج سنائی دیتی رہی ۔
لیکن پھر بھی کہوں گا کہ یہ سال ہلاکتوں اور ویرانیوں کا سال ثابت ہوا . ہمارے بیچ سے ادب کے بڑے بڑے نام گم ہوگئے ۔
راحت اندوری جو اپنے قہقہوں اور طنزیہ اشعار سے ادبی انجمن میں سناٹا بکھیر دیا کرتے تھے . جس کے نام سے سیاسی ایوانوں میں زلزلے آجاتے تھے .


سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے


2020 نے ایسے شاعر سے ہمیں محروم کردیا .
روزنامہ ,,سہارا .،، کے سب ایڈیٹر ، متواضع اور منکسر المزاج شخصیت ، مولانا ڈاکٹر عبدالقادر شمس بھی ہمیں تنہا چھوڑ گئے ,, شمع ،، کے مدیر یونس دہلوی مرحوم کی صاحب زادی سعدیہ دہلوی بھی ماضی کا ایک دلسوز قصہ ٹھہریں . افسانے ، تحقیقات اور اردو تراجم کی دنیا کا ایک بڑا نام ، آصف فرخی نے بھی ہمیں الوداع کہہ دیا .
پردہ پڑاہے تبسم کے راز پر
پھولوں سے اوس آنکھ سے آنسو گراکے دیکھ


اور ان جیسی رومانیت سے لبریز غزلی مصرعوں سے اپنے پیمانے بھرنے والا شاعر مظفر حنفی بھی ہمارے درمیان سے رخصت ہوگیا . طنز و مزاح کا ایک حسین سنگم ، پدم شری مجتبی حسین اور بزم صدف کے سرپرست ، دوحہ قطر کے ادبی محفلوں میں جھومنے والے صبیح بخاری جیسی عظیم ہستیوں نے بھی بادشاہ کی طرح مسکراتے ہوئے موت کے قافلے سے دوستی کرلی . ابھی ان ہستیوں کی قصہ گوئی ہو ہی رہی تھی . ادبی انجمنوں کی ہنسی کا رنگ ابھی پھیکاہی تھا کہ 25 دسمبر کو تنقید نگاروں کا بادشاہ شمس الرحمٰن فاروقی بھی انجمن سے اٹھ گیا .
میں 2020 سے گزر چکاہوں . یہاں غم ، آنسو اور نوحہ گری کے سلسلے نے زور پکڑلیا ہے . میں اوس کی زمین پر چت ہوگیا ہوں . کافکا میرے سامنے کھڑا ہے .
,,ہر وہ چیز جس سے تم محبت کرتے ہو ، گم ہوجاتی ہے اور تمہیں کسی اور شکل وصورت میں ہی سہی تمہاری محبت ضرور واپس آجاتی ہے .،،
یہاں سے بھی بہت ساری چیزیں گم ہوگئی ہیں . گڈے اور گڑیا بھی . ملک اور جمہوریت بھی . بادشاہ اور شہنشاہ بھی . ساقی اور میخانہ بھی . کیا وہ مجھے کسی اور شکل وصورت میں واپس مل سکتے ہیں .؟
میں انہیں ڈھونڈتا پھرتا ہوں . کیا کوئی مجھے خط لکھے گا کہ میرے بچے ! رو مت . میں دوسری دنیا گھومنے جاچکا ہوں . میں جلد واپس آکر تجھے اپنے سفر کی حیرت انگیزیاں سناؤں گا .

مضمون نگار کا مختصر تعارف : بقلم خود

میں قسیم اظہر ، میری عمر ٢٥ برس ہے . اسد محمد خان سے لے کر فہمیدہ ریاض ، مستنصر حسین تارّر اور مشرف عالم ذوقی کو پڑھتا رہا ہوں . افسانے میں خوشگوار تجربے کا قائل ہوں . کم لکھتا ہوں .زیادہ پڑھتا ہوں . آجکل ، ایوان اردو ، ندائے ملت ، دربھنگا ٹائمز میں افسانے شایع ہوئے ہیں . کچھ مضامین بھی لکھے ہیں .
 میں گریجویشن کا طالب علم ہوں . اب تک کل آٹھ افسانے لکھے . لکھنے سے زیادہ پڑھنے کاشوق ہے . افسانوی مجموعہ ابھی لانا نہیں چاہتا . ابھی ادب اور فکشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہاہوں . مطالعہ میرا شوق ہے .

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے