میرا کمرہ

میرا کمرہ

ذاکر فیضی

یونیورسٹی ہوسٹل کے میرے اس کمرے میں اکثر محفلیں جمتی تھیں. میرے چند دوست میرے اس کمرے میں آجاتے تھے اور ارادی یا غیر ارادی طور پر کسی بھی موضوع پر بحث و مباحثہ کا آغاز ہوجاتا تھا. یونیورسٹی اپنے ڈبیٹ کلچر کے لیے مشہور تھی. یہاں کا ہر ایک طالب علم اپنے آپ کو دانشور تصور کرتا تھا. کینٹین، ڈپارٹمنٹ ،کلاس یا سیمینار روم کے علاوہ ہاسٹل کے کمرے بھی اس کے گواہ تھے. میرے کمرے میں جب اس طرح کا ماحول ہوتا تو میں زیادہ تر سامع کا کردار ادا کرتا تھا. میں بہت کم گو ہوں. بہت ضروری لگتا یا اندر سے بے چینی ہوتی تو کبھی کبھی اپنے خیالات کا اظہار بھی کر دیتا ہوں.
آج بھی سیاسی گفتگو کا آغاز جس نقطے سے ہوا تھا وہ آگے جاکر زمانہء قدیم کی تہذیب و ثقافت تک پہنچ چکا تھا. اچانک بجلی گل ہوگئ. کچھ دیر تو ہم بجلی کٹ جانے کے مدعے کے سہارے عہد حاضر کی زوال آمادہ تہذیب کا نوحہ کرتے رہے. بعد ازاں گرمی نے پریشان کیا تو ہم سب کمرے سے باہر نکل آئے.
اس وقت ہم پانچ دوست تھے. ہاسٹل سے باہر جاکر چائے پینے کا ارادہ ہوا. مگر ارشد کے کہنے پر "چلو یارو، چھت پر چلتے ہیں. ” ہم سب چھت پر چلے آئے. چھت کا موسم کمرے کے مقابلے قدرے خوش گوار تھا. سورج پوری طرح نہیں ڈھلا، مگر دھوپ میں شدت باقی نہ تھی. وہ چھت کی دیواروں کو چھوتی ہوئی نہایت آہستگی سے اپنے طے شدہ مقام کی جانب گامزن تھی. ہوا جسم کے پسینے سے ٹکرا کر لطف دے رہی تھی. چند اور لڑکے بھی وہاں موجود تھے.
دو لڑکے ایک طرف کی دیوار سے چپکے ہوئے نیچے جھانک رہے تھے. وہ کسی بحث میں الجھے ہوئے تھے. مجھے بحث بے معنی مگر دل چسپ معلوم ہوئی. ان کی بحث تھی کہ سیکنڈ فلور کی بائیں ہاتھ والی کھڑکی اس کے روم کی ہے، مگر اس کے ساتھی کا کہنا تھا کہ یہ کمرہ تیرا نہیں ہے. تجھے دشا بھرم ہوا ہے. تیرا کمرہ ادھر کی طرف ہے.
ہم سب ان کی بحث میں شامل ہوگئے. اچانک مجھے بھی خواہش ہوئی کہ میں بھی پتہ لگاؤں کہ میرا کمرہ کدھر ہے، میرے کمرے کی کھڑکی کون سی ہے. میں اپنے اندازے کے مطابق ایک طرف کی دیوار کی جانب جھانکنے لگا. تب ہی اختر بھائی میرے پاس آئے اور بولے… "آپ بھی اپنے کمرے کی لوکیشن جاننے کی کوشش کر رہے ہیں؟”
میں نے بے وجہ کی ہنسی ہنستے ہوئے کہا… ” جی… میں سوچا، دیکھوں کہ میری…..”
میں نے اپنی بات مکمل بھی نہ کی تھی کہ انھوں نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا…. "ارے تو بھائی ادھر کاہے کو دیکھ رہے ہیں.”
انھوں نے دوسری طرف اشارہ کیا…” ادھر کو آؤ نہ بھئ… ادھر ہوگا آپ کا کمرہ.”
ہم لوگ دوسری طرف گئے. مجھے لگا ہم بھی دشا بھرم کا شکار ہیں.میں نے کہا ۔۔ادھر کہاں اختر نھائی ، ادھر نہیں ،ادھر ہی ہوگا۔‘‘

فیروز ہنستے ہوئے بولا۔۔’’ارے بھئی، اگر چھت سے کھڑکی یا دوسرا کوئی لینڈ مارک نظر آجائے گا تو کیا ہوگا۔۔۔آپ بھی بچوں کی طرح بات کرتے ہیں۔‘‘ 

میں اپنی جھینپ مٹانے کے لئے کوئی بہانہ تلاش کرہی رہا تھا کہ سمیع بول پڑا ۔۔۔’’لگتا ہے ذاکر بھائی کا کام مکمل ہوچکا ہے ۔ پی ایچ ڈی جمع کرنے والے ہیں ، جب ہی تو۔۔۔۔۔‘‘

ان سب نے میری بات کو مذاق کا موضوع بنا لیا تو معصوم سا منھ بناکر بولا۔۔۔’’ یار بس یوں ہی ۔۔۔ویسے میرے دو چیپٹر ابھی باقی ہیں۔‘‘

پھر ہم سب اپنی اپنی پی ایچ ڈی کے تعلق سے باتیں کرنے لگے ۔ اسی درمیان بجلی آگئی ۔۔۔ ہم سب نیچے آکر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے ۔

میں اپنے کمرے میں داخل ہوا اور موبائل میز پر رکھ کر کمرے کی کھڑکی سے باہر گردن نکال کر اوپر کی طرف دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں یہ سمجھنا چاہتا تھا کہ ابھی کچھ دیر پہلے چھت پر میں جس رخ سے اپنے کمرے کو تلاش کر رہا تھا ، کیا وہ درست تھا۔ میں نے کھڑکی سے باہر گردن نکالے ہوئے ہی دائیں، بائیں، اوپر ، نیچے دیکھا۔

اب مجھے لگ رہا تھا کہ چھت سے اپنے کمرے کی لوکیشن جاننے کی تجسس نے چھوٹی سی خواہش کا روپ اختیار کر لیا ہے۔

میں نے کمرے میں تالا لگا یا اور چھت پر چلا آیا۔

میں اپنے اندازے کے مطابق چھت کی اس دیوار کی جانب پورے یقین کے ساتھ لپکا کہ میرا کمرہ اسی رخ پر ہے ۔میں نے نیچے جھانکا اور دوسرے فلور کی کھڑکیوں کا جائزہ لیا۔ ایک کھڑکی پر میری نگاہ ٹھہر گئی ۔۔۔’’یہی میرا کمرہ ہے۔‘‘

ہلکی سی خوشی کا احساس ہوا، مگر دوسرے ہی لمحے وہ معدوم ہوگیا۔ کیوں کہ نیم کے پیڑ کی ایک شاخ اس کھڑکی کی پٹ کو چھو رہی تھی، جب کہ میرے کمرے کے آگے جو پیڑ تھا ، وہ نیم کا نہیں تھا۔ 

میں نے چھت کی باقی دونوں دیواروں کی جانب بھی غور کیا مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔ معمولی مایوسی کے ساتھ میں نیچے چلا آیا۔ کمرے کا دروازہ کھولا اور کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔ چند لمحوں کے بعد پانی کی بوتل اٹھائی۔ میں پانی پیتے ہوئے مسکرا نے لگا۔ خیال گزرا، آخر کیوں، مجھے یہ خواہش ہورہی ہے کہ چھت سے میں اپنے کمرے کی شناخت کروں۔ ہے تو وہ میرا ہی کمرہ۔ کیوں بچوں کی طرح مچل رہا ہوں۔ پھر میں بدبداتے ہوئے اپنے آپ سے کہنے لگا۔۔۔ارے یار، اگر چھت سے تیرا کمرہ نظر آجائے گا، کھڑکی دکھ جائے گی تو کیا بدلاؤ آجائے گا، تیری زندگی میں؟ 

کیا جلدی ہی تجھے نوکری مل جائے گی؟ کیا کسی حسین لڑکی سے تیرا تعلق ہوجائے گا یا پھر گھر کی زمین جائیداد کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ 

نہیں۔۔۔میں نے نفی میں سر ہلادیا۔

پھر۔۔۔۔اس سے پہلے کہ میں خود کو جواب دوں، میں غیر ارادی طور پر ایسے اٹھا، جیسے میرا جسم اور میرا دماغ دونوں الگ الگ کام کر رہے ہوں۔ میں نے کمرے کا تالا لگایا اور چھت پر آگیا۔

میں حساب لگانے لگا کہ میرا کمرہ ہاسٹل کے دونوں ونگ میں سے کس سمت میں ہے۔ میں اب بھی دشا بھرم کا شکار تھا۔ مگر اس وقت کسی ضدی بچے کی طرح اس بات کے پیچھے پڑ چکا تھا کہ میرا کمرہ کس رخ پر ہے؟ 

میں پھر ایک دیوار کے قریب نیچے جھانکنے لگا۔ تینوں طرف گھنے جھاڑی دار درخت تھے۔ چار منزلہ اس ہاسٹل میں مجھے اپنا کمرہ نہیں مل رہا تھا۔ اب مجھے کسی نامعلوم بے چینی نے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ میں پھر نیچے آیا اور کمرہ کھول کر بیٹھ گیا۔ پانی پیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ تب ہی ایک ترکیب سوجھی۔ میں نے ایک پرانی پانی کی بوتل اٹھا کر پیچھے کی طرف کھل رہی کھڑکی میں سے نیچے پھینک دی۔ 

میں تیزی سے اوپر آیا اور تینوں دشاوں میں دوڑ دوڑ کر اس بوتل کو تلاش کرنے لگا۔ اس درمیان کئی بار چھت پر بکھرے ہوئے انٹرنیٹ کے تاروں میں الجھ کر گرتے گرتے بچا۔ اب شام گہری ہونے لگی تھی، اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔ 

اسی وقت اچانک میری نگاہ اس بوتل پر گئی، جسے میں نے پہچان کے طور پر پھینکا تھا۔ میں نے حساب لگایا، بوتل گراؤنڈ فلور والی کھڑکی کے نیچے ہے۔ اس لحاظ سے بالکل اس کے اوپر والی فرسٹ فلور والی کھڑکی میرے کمرے کی ہوئی۔ تو یہی ہے۔۔۔یہی ہے میرا کمرہ۔ میں خوش ہوگیا۔ آخر واسکو ڈی گاما کی طرح اپنا کمرہ تلاش کرہی لیا تھا۔ میں نے قدرے سکون کا سانس لیا، میری زبان سے نکلا:’’ یہ میرا کمرہ ہے۔‘‘ میں نیچے اپنے کمرے میں چلا آیا۔

میں کمرے میں آکر کھڑکی، کھڑکی کے نیچے پھینکی بوتل اور کمرے کو ایسے دیکھنے لگا جیسے میں نے پی ایچ ڈی ہی نہں مکمل کرلی ہو بلکہ میں نوکری بھی حاصل کرچکا ہوں۔ 

میں نہایت اطمینان سے بیٹھ گیا۔ سوچا اب کچھ کام کرلوں۔ میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا۔ مجھے کام کرتے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی ہوگی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔

میں نے دروازہ کھولا۔ ایک اجنبی شخص کھڑا تھا۔ 

میں نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔۔۔’’جی کہئے۔۔۔؟

’’سوری آپ کو ڈسٹرب کیا ۔۔۔ کئی سال پہلے میں اس کمرے میں رہتا تھا۔ ایک کام سے یونیورسٹی آیا تھا تو ۔۔۔۔۔یہ میرا کمرہ تھا۔‘‘

ذاکر فیضی کا افسانہ ’’نیا حمام‘‘ یہاں پڑھیں:

 

نیا حمام

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے