آہ! شمس الرحمٰن فاروقی!

آہ! شمس الرحمٰن فاروقی!


(تعزیتی توشیحی نظم)

مسعود بیگ تشنہ 

شمس یہ اردو ادب کا بجھ گیا
محورِ علم و ادب اب نہ رہا

ماہنامہ وہ نئے رجحان کا
نام جس کا کیا کہیں ‘شب خون’ تھا

ساتھ تھا شعر و ادب کا مشغلہ
اور پوسٹل سروسیز کا سلسلہ

اردو، انگلش اور ہندی کا گیان
جیسے مٹھی میں ادب کا آسمان

‘لفظ و معنی’، ‘شعر، غیر شعر اور نثر’
تخلیقی تنقید کا مضبوط قصر

رہ گزر نکلی نئے رجحان کی
شاعری نکلی نئے سامان کی

حاشیے سے  متن میں جو آ گیا
نقدِ تنقیدی ادب برما گیا


مل گیا فکشن کو اندازِ حیات
دیکھیے ‘قبضِ زماں’ ، قصّوں کی بات

‘ارمغانِ فاروقی’ … اک تہنیت
اختیار’ اطہر’ نے کی اچھی جہت

نہ ادب نہ یہ ادب کے ترجمے
آئینگے ایسے نظر اچھے بھلے

فیض پہنچایا ادب کو بےمثال
میر و غالب کو بنایا لازوال

اس طرح بھی شاعری انگلش میں کی
جیسے انگلش ہو زبانِ مادری

راہ میں آئیں نہ کچھ بھی اڑچنیں
ترجمے ایسے کہ آپس میں سجیں

واہ.’ اردو کی غزل کے اہم موڑ’
آ گئے اپنے سے چل کے اہم موڑ

قطرہء بحرِ اجل کا انفعال
شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال

یہ دعا تشنہ کی ہو یا رب قبول
مغفرت ہو اور رحمت کا نزول

25 دسمبر 2020، اِندور، انڈیا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے