اختلاف تو اختلاف، وہ بھی منظرِ عام پر !

اختلاف تو اختلاف، وہ بھی منظرِ عام پر !




جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com

یہ سچ ہے کہ” اتحاد زندگی ہےاور اختلاف موت ہے ،، اسے سمجھنے کی اور غور کرنے کی ضرورت ہے. اگر جماعت میں اختلاف ہوجائے تو جماعت کی موت، قوم میں اختلاف ہوجائے تو قوم کی موت، آبادی میں اختلاف ہوجائے تو آبادی کی موت، شناخت اور پہچان اور تعداد میں اختلاف ہوجائے تو بھی موت. یعنی پھر کثیر تعداد میں ہوتے ہوئے بھی احساس کمتری کی چادر اوڑھنا بچھونا بن جایا کرتی ہے. سوچ کا دائرہ محدود ہو جاتا ہے. رونا رونے کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا. جب قوم اختلافات کا شکار ہوتی ہے تو اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ کو بھلا دیتی ہے اور جو قوم اپنے آباؤ اجداد کی، اپنے اسلاف کی تاریخ بھلادیتی ہے تو وہ قوم صفحہ ہستی سے مٹنے لگتی ہے پھر اس کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا اور سیاسی پارٹیاں بھی اس قوم کو کرکٹ کے میدان کا بارہواں کھلاڑی سمجھتی ہیں. جب کہ اتحاد سے آنکھوں میں اور پیشانی پر چمک آتی ہے. قوم منظم اور متحرک ہوتی ہے. معاشرہ فعال ہوتا ہے. سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے. احساس برتری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جماعت طاقتور ہوتی ہے تو دل دماغ اتنا روشن ہوتا ہے کہ اسلاف کی، آباؤ اجداد کی تاریخ یاد رہتی ہے اور وہی تاریخ قوم کے لئے رہنمائی کا ذریعہ بناکرتی ہے. مذہب اسلام نے اتحاد کا پیغام دیا ہے اور اتحاد کی تعلیم دی ہے. خلفائے راشدین نے اسی پاکیزہ تعلیم پر عمل کیا تو سربلندی حاصل رہی. ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی، مولا علی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے صداقت، عدالت، سخاوت، شجاعت کا پرچم لہرا کر صبح قیامت تک کے لیے اعلان کردیا کہ امت مسلمہ میں اتحاد کتاب و سنت کی ہی بنیاد پر ممکن ہے اور اسی میں کامیابی و کامرانی ہے لیکن دور خلافت کے آخری مراحل میں جو اختلافات کا سلسلہ شروع ہوا تو پھر بڑھتا ہی گیا یہاں تک کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت بھی ہوئی پھر بھی یہ سلسلہ نہیں ٹھہرا یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بھی شہادت ہوئی اس کے بعد تو ایسا بھی موقع آیا کہ جب ملک شام میں یزید تخت نشین ہوا تو وہ بدبخت آل رسول سے ہی دشمنی کربیٹھا رب کے قرآن اور نبی کے فرمان سے ہی بغاوت کر بیٹھا یہاں تک کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے جانثاروں کو سرزمین کربلا پر قتل کروا دیا. اور آج معرکہء کربلا پر بھی مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوگیا جب کہ جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو امام حسین کے بچپن میں ہی بتادیا تھا کہ آپ کی امت آپ کے نواسے کو قتل کرے گی. کربلا کی مٹی بھی بارگاہ رسالت میں پیش کرنے کی روایت ملتی ہے –
بہرحال اس کے بعد اختلاف شروع ہوا مسلک کے نام پر اور اس کے بعد تو اختلافات کی رفتار اتنی تیز ہوگئی کہ بیان کرنا اور تحریر کرنا اور شمار کرنا انتہائی مشکل ہوگیا. مکتب فکر کے نام پر، فرقہ بندی کے نام پر، مساجد و مدارس کے نام پر، مزاروں و خانقاہوں کے نام پر، بزرگانِ دین کے نام پر، یہاں تک کہ رسول پاک صل اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے مختلف گوشوں کے نام پر اتنا اختلاف کہ اب تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اسلام اتحاد کا پیغام دیتا ہے لیکن اسلام کے ماننے والے اتحاد سے کوسوں دور ہیں. اور یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم جس نبی کا کلمہ پڑھیں تو ان کی حیات مبارکہ پر بھی اختلاف رکھیں. اور اختلاف بھی اتنا شدید کہ تقریریں بھی اختلافی، تحریریں بھی اختلافی یعنی اختلافات اسٹیج پر بھی، کتاب کی شکل میں بھی. ایک تو اختلاف دوسرے زور و شور کے ساتھ اختلافات کا پرچار. یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس سے مذہب اسلام کا اور ملت اسلامیہ کا کس قدر نقصان ہورہا ہے. کوئی بول بول کر نذرانے میں مست ہے تو کوئی اس مقرر آتش فشاں کی تعریف میں مست ہے اور حالت یہ ہے کہ نماز پر اتفاق ہے تو نماز کی ادائیگی پر اختلاف، امام کا ہونا ضروری ہے تو امام کے انتخاب پر اختلاف، تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھنے کے مقام پر اختلاف، ہاتھ باندھنے کے بعد امام کے ساتھ سورہ فاتحہ پڑھنے نہ پڑھنے پر اختلاف، قرآن کے آخری کتاب ہونے پر اتفاق ہے تو قرآن کے ترجمے و تفسیر پر اختلاف، نذر و نیاز پر اختلاف، تراویح کے سنت مؤکدہ ہونے پر اتفاق ہے تواس کی رکعتوں پر اختلاف. اسی کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا ہے کہ

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

افسوس اس بات کا بھی ہے کہ مسلمانوں کے سارے کے سارے اختلافات منظر عام پر ہیں جب کہ دوسرے مذاہب میں بھی اختلافات ہیں لیکن منظر عام پر نہیں ہیں. اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اختلافات باعث رحمت ہیں باعث زحمت نہیں جب کہ یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس طرح کے اختلافات باعث رحمت ہیں. یہاں تو اختلافات کی وجہ سے رشتہ داریاں ختم ہوجاتی ہیں، دل ٹوٹ جاتے ہیں، مانگیں اجڑجاتی ہیں، نکاح، طلاق میں تبدیل ہوجاتا ہے، گالی گلوج مارپیٹ کی نوبت اجاتی ہے مقدمہ بازی تک ہوجاتی ہے پھر اختلافات کیسے باعث رحمت ثابت ہوئے. کبھی آواز اٹھتی ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد ہونا چاہیے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان ذمہ دار رہنماؤں کے ذریعے اور ذمہ دار اداروں کے ذریعے آج بھی اتحاد کی آواز بلند نہیں ہوتی کہ جن کی آواز پر اتحاد قائم ہوسکتا ہے. خانقاہوں سے اتحاد کا نعرہ بلند ہو تو بات بنے، مدارس سے اتحاد کا نعرہ بلند ہو تو بات بنے، ایک مکتب فکر کے ادارے کے جلسے میں دوسرے مکتب فکر کے علماء و ذمہ داران کو مدعو کیا جائے اور شرکت کیا جائے تو بات بنے لیکن ایسا کرنا بہت مشکل ہے اور کبھی اس طرح کی آواز نہیں اٹھتی کیونکہ سب کو اپنی اپنی مسند پیاری ہے اپنی اپنی انفرادیت والی پہچان پیاری ہے چاہے بھلے ہی پوری قوم مسلم خسارے کے دلدل میں دھنس جائے. آج کسی کے اندر اپنی غلطی تسلیم کرنے کا جذبہ نہیں ہے اور اخلاص و و فا کے ساتھ اصلاحی جذبے کا بھی فقدان ہے. یہی وجہ ہے کہ بھائی بھائی کے مابین دشمنی بڑھتی جا رہی ہے. زندگی میں بعض ایسے بھی مواقع آتے ہیں کہ ان موقعوں پر دشمنی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے لیکن اب ایسے مواقع پر بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے جبکہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسليم کے زمانے میں ایک شخص قربانی کرنے کے لیے اپنے جانور کو زمین پر لٹاچکا تھا لیکن اس کی اپنے حقیقی بھائی سے دشمنی تھی. اللہ کے رسول جلدی جلدی اس کے مکان پر پہنچے اور کہا خبردار جانور کی گردن پر چھری نہ چلانا مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے اور تمہارے بھائی کے درمیان دشمنی ہے، بات چیت بند ہے اور تم نے اسے منانے کی کوشش نہیں کی ہے. یاد رکھنا اگر تم دونوں کے درمیان دشمنی بغض اور حسد قائم رہا تو تمہاری قربانی تمہارے منہ پر مار دی جائے گی. بارگاہ خداوندی میں قبول نہیں ہوگی. اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اختلاف، دشمنی، کینہ بغض و حسد کتنی بری چیز ہے. اسلام ایک سچا مذہب ہے. اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے. اسلام نے دنیا کو جو امن پیار اور محبت کا پیغام دیا ہے وہ پوری انسانیت کے لیے ہے. امت اسلامیہ امت دعوت ہے. امت مسلمہ کا ظہور ہی تمام بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ہوا ہے. ملت اسلامیہ کی موجودہ ذلت اور رسوائی و پستی کا اہم سبب امت کا اپنی اصل حیثیت کو فراموش کرنا ہے، اپنے اسلاف کے بتائے ہوئے راستے سے منہ موڑ لینا ہے. آج مذہب اسلام سے متعلق الکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا نے غیر مسلموں میں بہت زیادہ غلط فہمیاں پھیلا رکھی ہیں تو ایسی صورت میں اسلام سے متعلق شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا اور اسلام کی سچی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے. ساتھ ہی ساتھ میڈیا کے ذریعے پھیلائے جارہے غلط پروپیگنڈوں کو بے نقاب کرنا بھی ضروری ہے تاکہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ اسلام انسانیت کا جس قدر محافظ ہے اتنا دنیا کا کوئی اور مذہب نہیں ہے. انسانیت کو امن و سلامتی کی سعادتوں اور برکتوں سے بہرہ ور کرنے اور اسے فتنہ و فساد اور ظلم و ستم سے بچانے کیلئے اسلام کے پاکیزہ نظام امن کی اشد ضرورت ہے. اور اسی سے دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتی ہے. آج بھی کچھ لوگ ہیں جو اس طرح کا فریضہ انجام دے رہے ہیں مگر ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے اور وہ لوگ سیاسی و سماجی پہچان رکھنے والے ہیں، وہ یونیورسٹیوں سے آنے والے لوگ ہیں تو یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ان کے اوپر دوسرا لیبل لگا دیا جاتا ہے اور ان کی اپیلیں بے اثر ہو جایا کرتی ہیں. جب کہ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے. دامے درمے قدمے سخنے تعاؤن ہونا چاہیے –

آج کل مغربی ممالک میں بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں وہ لوگ آج کے مسلمانوں کے کردار و اخلاق اور معاشرے کو دیکھ کر نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی مقدس تعلیمات سے متاثر ہوکر مذہب اسلام قبول کر رہے ہیں اور آج کل قوم مسلم داخلی اور خارجی دونوں سطح پر اسلام دشمن قوتوں کے نرغے میں پھنسی ہوئی ہے اور آج صرف ایک ہی راستہ نظر آرہا ہے کہ قوم و ملت کی حفاظت کے لیے ہر قسم کے آپسی اختلافات کو بھلا کر اتحاد و اتفاق کے ساتھ فرقہ پرستوں کو زیر کیا جائے. آپسی اتحاد و اتفاق کو قائم رکھنے کے لیے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھاما جائے. امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق کتاب و سنت کی بنیاد پر ہی ممکن ہے. جب سبھی لوگ قرآن و حدیث کا حوالہ دیتے ہیں اور اپنی بات کو حق بجانب قرار دیتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ کہیں نہ کہیں اندھیرا ہے اور اسی اندھیرے میں بھولی بھالی عوام کو لے جایا جاتا ہے. اور کبھی کبھی یہ کہہ کر پلہ جھاڑ لیا جاتا ہے کہ نبی نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں 72 فرقے تھے اور میری امت میں 73 فرقے ہوں گے ایک فرقہ حق پر ہوگا اور باقی 72 فرقے جہنمی ہوں گے اور ہر فرقہ اپنے کو حق پر قائم ہونے کا ثبوت پیش کرے گا. تو آج سبھی مکتب فکر کے لوگ اپنے کو حق پر کہتے ہیں لیکن نبی نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ تم فرقوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے پر لعن و طعن کرکے اپنے کو حق پر ہونا ثابت کرنا تو پھر کیوں ایک دوسرے کے خلاف تقریریں ہوتی ہیں، کیوں ایک دوسرے کے خلاف کتابیں لکھی جاتی ہیں. سب لوگوں کو صرف اپنا نظریہ پیش کرنا چاہئیے کہ ہم کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے. کبھی تو سنجیدگی سے غور کیجئے. قرآن کہتا ہے کانہم بنیان مرصوص یعنی شیشہ پلائی دیوار بن جاؤ اور ہم بکھرتے جارہے ہیں، منتشر ہوتے جا رہے ہیں اور نہیں تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر سیاسی اتحاد ہونا چاہیے. شرم آنی چاہیے دین کی بنیاد پر انتشار اور سیاسی بنیاد پر اتحاد. یعنی دنیا میں اقتدار حاصل کرنے کی خواہش ہے اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے سب مسلمان ہیں اور جہاں اسلام کی ترویج و اشاعت کی بات آئے، اللہ و رسول کی بات آئے تو وہاں ایک دوسرے کو مسلمان ہی تسلیم کرنے کو تیار نہیں. یہی وجہ کہ ہم سیاسی، سماجی، دینی و ملی بیداری سے بہت دور ہو چکے ہیں. یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوریت میں وہی قوم سربلند ہوتی ہے جو سیاسی طور پر بیدار ہوتی ہے-

– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –

جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یوپی
رابطہ 8299579972

مضمون نگار کا پچھلا مضمون یہاں پڑھیں :
سیاست سے حمایت تک 
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے