پروفیسر شاداب رضی بھاگل پوری

پروفیسر شاداب رضی بھاگل پوری


طفیل احمد مصباحی


پروفیسر شاداب رضی مایۂ ناز ادیب ، قادر الکلام شاعر ، ماہر مدرس ( ٹیچر ) اور زبان و ادب کے ایک بے لوث خادم کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ ان کی پیدائش ۱۲ / جنوری ۱۹۵۵ ء کو شیخ پورہ ، ضلع مونگیر ، بہار میں ہوئی ۔ اصل نام محمد رضی احمد ہے ، لیکن ادبی حلقوں میں شاداب رضی سے مشہور ہیں ۔ شیخ پورہ کے ڈی . ایم . ایچ . ای . اسکول سے 1969 ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ 1971ء میں کے . ایس . ایس . کالج لکھّی سرائے ، بہار سے آئی . اے . اور بریسویس راما دھین کالج ، شیخ پورہ سے بی . اے . کیا ۔ 1973 ء میں بی . اے . آنرز کیا ۔ 1975 ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے ایم . اے . کا امتحان پاس کیا ۔ ایم . اے . میں وہ پٹنہ یونیورسٹی کے ٹاپر اور گولڈ میڈلسٹ ہوئے ۔ ” اردو تنقید میں نئے رجحانات : صوبۂ بہار کے حوالے سے ” کے عنوان پر 1988 ء میں ڈی . لٹ . کی ڈگری حاصل کی ، جس کے پہلے نگراں ممتاز ناقد پروفیسر کلیم الدین احمد تھے ، لیکن بعد میں پروفیسر لطف الرحمٰن ہو گئے ۔ شاداب رضی کے اساتذہ میں جمیل مظہری ، اختر اورینوی ، سید صدر الدین فضا شمسی ، یوسف خورشید اور اسلم آزاد کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔

جون 1980 ء میں اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا ۔ انہوں نے شعبۂ اردو بھاگل پور یونیورسٹی میں طویل عرصے تک تدریس کے فرائض انجام دیے ۔ 1988 ء میں ریڈر ہوئے اور 1996 ء پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ تین سال تک بھاگل پور یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو بھی رہے ۔ غرض کہ وہ زندگی کے آخری لمحات تک درس و تدریس سے وابستہ رہے اور اردو زبان و ادب کے فروغ میں اپنی خدمات پیش کرتے رہے ۔ اردو تنقید میں نئے رجحانات : صوبۂ بہار کے حوالے سے ، جدیدیت کی جمالیات ( ترتیب و تدوین ) اور خواب دیکھتی آنکھیں ( شعری مجموعہ ) ان کی اہم کتابیں ہیں اور ان کی شعری و نثری مہارت کی آئینہ دار ہیں ۔

( بہار کی یونیورسٹیوں میں اردو کی توسیع و ترقی میں اساتذہ کی خدمات ، ص : 322 ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی )

میرے مخلص اور عزیز ترین دوست جناب محمد نعیم رضا ( ساکن سبحان پور کٹوریہ ، بانکا ، بہار ) پروفیسر شاداب رضی صاحب کے بڑے قریبی اور چہیتے شاگرد ہیں ، انہوں نے دورانِ گفتگو مجھے ایک بار بتایا کہ :
” شاداب رضی سر بڑے اچھے ادیب ، اردو کے باصلاحیت ٹیچر ، اعلیٰ نثر نگار اور باکمال شاعر تھے ۔ اردو کے علاوہ انگریزی زبان سے بھی خوب اچھی طرح واقف تھے ۔ اپنے شاگردوں کے ساتھ حد درجہ مشفقانہ برتاؤ کرتے اور ان کے روشن مستقبل کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ۔ بڑے کم گو ، اصول پسند ، وسیع الظرف اور اعلیٰ سیرت و کردار کے حامل انسان تھے ۔ بھاگل پور یونیورسٹی کو جن باکمال اساتذہ نے پروان چڑھایا ، وہ ان میں سے ایک تھے ۔ شاعری کے ساتھ نثر نگاری میں بھی کامل دسترس رکھتے تھے ” ۔

پروفیسر شاداب رضی کی ادبی زندگی کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک قادر الکلام اور منجھے ہوئے شاعر تھے ۔ جب وہ انٹر میں زیرِ تعلیم تھے ، اسی وقت سے شاعری کرنے لگے تھے اور بہت جلد شاعر کی حیثیت سے متعارف ہو گئے تھے ۔ ماہنامہ شاعر ، سب رس ، شبخون ، مِرّیخ ، زبان و ادب ، آج کل ، علم و ادب اور پاسبان وغیرہ میں ان کی غزلیں اور نظمیں شائع ہوا کرتی تھیں ۔ دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو سے ان کے کلام نشر ہوتے تھے ۔ صوبائی اور ملکی سطح پر ہونے والے درجنوں سیمینار ، سپموزیم اور مشاعروں میں شرکت کی اور اپنی شعری و ادبی مہارت کا ثبوت دیا ۔ افسوس کہ علم و ادب کا چمکتا آفتاب 13 / ستمبر 2020 ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔

پروفیسر شاداب رضی کی شاعری شادابیِ فکر کی ایک اچھوتی مثال ہے ۔ ایک بلند پایہ شاعر کے کلامِ بلاغت نظام میں شعر و سخن کی جو ظاہری و معنوی خوبیاں ہو سکتی ہیں ، وہ ان کے کلام میں موجود ہیں ۔ فصاحت و بلاغت ، تشبیہ و استعارہ ، محاورات کا برمحل استعمال ، شادابیِ افکار ، بلندیِ خیالات ، مضامین کی چستی اور اسلوب و ادا کا بانکپن ان کے کلام کے نمایاں اجزا ہیں ۔

نمونۂ کلام :

( الف )

یہ دنیا ایک تازہ کربلا ہے
یہاں ہر سانس میں کربل کتھا ہے

شبِ مہتاب ہے ، گم صم فضا ہے
تمہاری یاد کا دفتر کھلا ہے

سویرا شام سے پھر جا ملا ہے
دھیان اب تک تعاقب میں لگا ہے

مرا ممدوح مانگے مدح لمبی
گریز اب کے قصیدے میں سوا ہے

بڑھا جب ہاتھ کوئی دوستی کا
تری یادوں کے ہاتھوں دل دُکھا ہے

جلے خود روشنی اوروں کو بخشے
مرا ہمزاد اک جلتا دیا ہے

ہے کرتب وقت کے ہاتھوں کا یہ بھی
ترے قد سے ترا سایہ بڑا ہے

طلب کی بیل ہے شاداب جتنی
شجر امید کا اتنا جلا ہے

( ب )

گم صم ، گم صم لب یاد آئے
تم یکلخت غضب یاد آئے

ایک اداسی ہے پہروں سے
یاد نہیں تم کب یاد آئے

خود کو اکیلا پایا ہوں میں
محفل میں تم جب یاد آئے

رات میں تِل تِل دن کی الجھن
دن میں غبارِ شب یاد آئے

کم نہ آئے اپنے پیارے
یاد آنے کو سب یاد آئے

مسجد میں دنیا کے جھمیلے
میخانے میں رب یاد آئے

بات چلی جب نام وروں کی
کچھ بے نام و نسب یاد آئے

تم شاداب رضی کیا جانو
کیوں بچپن جب تب یاد آئے

( ج )

( احمد فراز کی نذر )

طرب فروز نظاروں سے دور کوسوں دور
جہاں نہ قہقہہ کوئی ، نہ کوئی سرگوشی

فقط سکوت کا اک سلسلہ ہے چاروں طرف
فضا کے ہونٹوں پہ ہے ثبت مُہرِ خاموشی

زبانِ ساز ہے گنگ اور نغمگی چپ ہے
فضائے شہرِ خموشاں میں زندگی چپ ہے

طفیل مصباحی کا پچھلا مضمون : سلیمانی تنقید کے مختلف اسالیب و جہات
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے