مکڑجال(Cobweb)

مکڑجال(Cobweb)

رفیع حیدر انجم

موبائل:8002058079

گزشتہ دنوں سے وہ ایک عجیب و غریب واقعے کی زد میں تھا…….
رات کو اپنے صاف ستھرے کمرے کے بے شکن بستر پر اچھا بھلا سوتا اور صبح سویرے اٹھتا تو اسے اپنے اطراف مکڑیوں کے جالے تنے ہوئے ملتے. کھڑکیوں‌، دروازوں اور گھر کی دیگر اشیا کے درمیان خالی جگہوں‌پر تار عنکبوت سے خود کو گھرا ہوا پاکر اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی ویران اور پرانے کھنڈر میں‌داخل ہوگیا ہے. تھوڑی دیر تک تو وہ تذبذب کے عالم میں‌مبتلا رہتا پھر ڈیڑھ دوگھنٹے کی تھکادینے والی مشقت کے بعد وہ ان جالوں‌کو صاف کرپاتا. لیکن دوسری صبح پھر وہی ماجرا درپیش ہوجاتا. سب سے حیران کن بات تو یہ تھی کہ ان جالوں‌کے درمیان اسے کہیں کوئی مکڑا نظر نہیں آتا تھا. مکڑا نظر آجائے تو شاید صورت حال سے نجات کا راستہ نکل سکے. یہ سلسلہ یونہی رہا تو یہ کمرہ ایک دن بہت بڑا ڈسٹ بن ہوکر رہ جائے گا. اس نے گھر کا کونا کونا چھان مارا. چیزوں‌کو الٹ پلٹ کر دیکھا. پلنگ کے نیچے تاک جھانک کی اور کچن کے ایک ایک گوشے پر نگاہ دوڑائی لیکن ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا. تعجب ہے، چند نادیدہ مکڑیوں نے حیرت انگیز طور پر راتوں رات اس کی زندگی میں داخل ہوکر اس کے شب و روز کو اپنی گرفت میں‌لے لیا تھا. دن بھر کی گہماگہمی میں‌ وہ صبح کا واقعہ بھولا رہتا لیکن شام ڈھلتے ہی اس کےذہن کے خالی گوشوں میں نادیدہ مکڑے کلبلانے لگتے اور رات بستر پر دراز ہوتے ہی وہ ایک انجانے خوف کی آگہی سے اپنی آنکھیں بند کرلیتا تھا.
آج بھی وہ بستر پر لیٹا ہوا اس پر اسرار واقعے کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض کر رہا تھا کہ شاید کسی مثبت نتیجے پر پہنچے لیکن سوچ کا بجھا ہوا ہر کینڈل دھواں‌بن کر اس کے ذہن میں‌بھرتا جارہا تھا. ابھی تک یہ حیرت انگیز مگر ناپسندیدہ واقعہ اس کا ذاتی تجربہ تھا. اس نے اپنے کسی شناسا کو اس میں شریک نہیں کیا تھا. در اصل وہ عجلت میں‌ کسی پر اعتبار کر لینے کا قائل نہیں‌تھا.خواہ وہ کوئی شناسا ہو، کوئی شخصیت یا اس شخصٰت سے جڑی ہوئی کوئی شے…….وہ بالعموم منصوبہ بند طریقے سے زندگی جینے کے بجائے کشتی حیات کو دریا کی روانی پر چھوڑ دینے میں یقین رکھتا لہذا موجوں‌کے بھنور میں‌اس کی زندگی نے کئی بار ہچکولے کھائے مگر مضبوطی سے ثابت قدم رہا. وہ اپنی زندگی کے نشیب و فراز پر از سر نو سوچنے کے عمل کے سے گزرا تو اسے لگا کہ اس کا بچپن کسی غیر معمولی واقعے سے یکسر خالی ہے. وہ ایک مڈل کلاس فیملی میں‌پیدا ہوا اور اس کی جوانی بھی ریل کی پٹریوں کی طرح‌کسی نقطہء اتصال کے بغیر سیدھی گزرتی رہی. اس کے ابا کہا کرتے تھے کہ وہ دوسرے بچوں سے زیادہ حساس طبیعت ہے. حساس تو وہ اب بھی ہے لیکن جذبات کی رو میں بہہ جانا اسے قطعی پسند نہیں‌ہے.استدلال اور قناعت کو اس نے ہمیشہ اپنی پونجی سمجھا اور آج بھی وہ اسی اثاثہ کی بدولت فخر سے سر اٹھا کر چلتا ہے. پچیس سال کی عمر میں اس نے تعلیم سے فراغت حاصل کرلی تھی. اس کے بعد آئندہ دس برس تک اس نے بیروزگاری کے کنکر چنے تھے.پھر اچانک حکومت وقت کی مہربانیوں سے اسے Contract Basis پر اسکول ٹیچر کی نوکری مل گئی. گوکہ اس کے لیے اس نے نہ تو زیادہ دل چسپی دکھائی اور نہ ہی کسی قسم کی تگ و دو کی تھی. بس زندہ رہنے کے لئے چند سکوں کی ضرورت تھی سو پوری ہوگئی.
اس نے اپنی چالیس سالہ زندگی کا محاسبہ کیا تو اس انکشاف پر اسے بصیرت افروز مسرت ہوئی کہ بے روزگاری کے دس برس اس کی زندگی کے سب سے قیمتی دن تھے.اسے اپنے اسکول اور کالج کا زمانہ بھی یاد آیا.لیکن ایک طالب علم کی حیثیت سے جب اس نے اپنا جائزہ لیا تو اسے بڑی شرمندگی محسوس ہوئی کہ کورس کی کتابوں سے اسے وحشت ہونے لگتی تھی. ان کتابوں کے حروف اسے شیشے کے جار میں بند کاکروچ کی طرح نظر آتے تھے. اس نے بے دلی سے یونیورسٹی کی ڈگری لے کر پنی جان چھڑالی. کاکروچ سے تو اس نے نجات حاصل کر لیا ہے لیکن اب یہ ایک نئی افتاد….چہار جانب مکڑی کے جالے؟ ان جالوں کا خیال آتے ہی اس نے خوفزدہ ہوکر اپنی آنکھیں بند کرلیں. آنکھوں پر زیادہ دباؤپڑنے کی وجہ سے اس نے اندھیرے میں رنگ برنگے دائرہ نما شراروں کو رقص کرتے ہوئے دیکھا. چند ثانیے بعد یہ شرارے اپنی ہئیت بدل لیتے تھے. شراروں کی جگہ اب قرطاس و قلم رقص کر رہے تھے. اسے تھوڑا لطف آیا. اسے لگا جیسے میجک رئیلزم سے بھرا کوئی افسانہ سامنے آگیا ہے. اب وہ ایک طلسمی انداز میں‌حقیقت حال کا سامنا کررہا تھا. رفتہ رفتہ طلسم کا ہر ایک واہمہ اس کے آگے سر نگوں ہورہا تھا. اس نے جانا کہ بے روزگاری کا طویل عرصہ در صل اس کے تجربوں اور مشاہدوں کا طلسم تھا جسے اس نے اپنے افسانوں کے ذریعے توڑا تھا. ان افسانوں نے اس کی شخصیت کو وقار بخشا تھا اور اس کی تحریروں نے اسے شہرت کی بلندی عطا کی تھی. حالاں کہ اس عرصے میں اس نے محرومیت کی خاک چاٹ کر اپنی بھوک مٹائی تھی اور نا آسودگی کا سرد لہو پی کر اپنی پیاس بجھائی تھی.لیکن وہ خوش تھا کہ یاسیت اور انتشار کے انہی دنوں میں اس نے شاہ کار افسانے تخلیق کئے اور ادب کے افق پر روشن ستارہ بن کر چمکا.
اپنی کامرانی سے وہ مطمئن، متفق اور مسرور تھا کہ اندر ہی اندر نامحسوس طریقے سے دریا کی روانی نے کشتئ حیات کو ایک نئے جزیرے سے روشناس کیا. اب وہ افسانوں کی تخلیقی لذت سے آگے نکل کر ناقد کے فرائض انجام دینے لگا تھا. ایک کھرے اور سچے ناقد کے طور پر اسے ادبی جلسوں، کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بلایا جانے لگا. ادیب و شاعر مضامین اور تبصروں کے لیے کتابیں ارسال کرنے لگے. ادبی رسائل کے مدیر بھی تبصرہ کے لیے کتابیں بھیج دیتے تھے. اپنا ادبی فریضہ سمجھ کر یہ کام بھی وہ خوش اسلوبی سے انجام دیتا رہا اور بہت جلد ادبی دنیا میں اسے ایک مستند نقاد کا درجہ حاصل ہوگیا. اپنا منصب اونچا ہوتا ہوا دیکھ کر اسے زیادہ خوش ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں …. کشتی کے اس یوٹرن نے اسے طوفانی ہواؤں‌ کی زد میں ڈال دیا. اسے ایسے بہت سے لوگوں کے خطوط، فون کالز اور ای میلز موصول ہونے لگے جو کشتی کے بادبان کو چاک کرنے پر تلے ہوئے تھے.
”نہیں، میں آپ کے خیال سے متفق نہیں ہوں. آپ نے میری کتاب کے تبصرے میں سخت گیر موقف اپنایا ہے.”
”آپ ایک ناکام ادیب ہیں اور اسی وجہ سے آپ نے جانب دارانہ توجیہہ پیش کی ہے.”
”یہ کہاں‌کا انصاف ہے کہ تحریر میں صرف کیڑے ہی ڈھونڈ کر نکالے جائیں.”
” آپ کی کم نگاہی نے آپ کو میری تخلیق کے سر چشمے تک پہنچنے نہیں دیا.”
”آپ کا تبصرہ مجذوب کی بڑ کے سوا کیا ہے؟”
مختلف رسائل میں‌شائع شدہ تبصروں اور مضامین پر موصولہ ادیبوں کا ردعمل پڑھ کر وہ حیران تھا. حیرانی تو اسے عصری ادب کے سمت و رفتار پر بھی ہورہی تھی. کچھ روز قبل شہر کے ٹاؤن ہال میں منعقدہ ایک سیمینار میں اسے مدعو کیا گیا تھا. وہاں ایک ناول زیر بحث تھا. متذکرہ ناول اس کی نظر سے گزر چکا تھا اور اس کا خیال تھا کہ فکشن کی تھوڑی سی بھی شد بد رکھنے والا شخص اسے خش و خاشاک کا پلندہ کہے بغیر نہیں‌رہ سکتا لیکن خلاف توقع وہاں‌اس ناول کی حمایت میں تعریف کے پل بندھے جارہے تھے. اسے لگا کہ یہ سیمینار ادبی منافقوں کی بڑی جماعت ہے جو تخلیق کار کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ یہ دیکھ کر زیادہ حیران ہوا کہ لمحہ بہ لمحہ ناول نگار کا قد اونچا ہوتا جارہا ہے. منافقوں کے کمان سے نکلے ہوئے تعریف و توصیف کے تیر اس کے شکیب و سکون کا لباس تار تار کرنے لگے تو وہ وہاں‌سے چپ چاپ چلا آیا تھا. گھر آتے وقت راستے میں اس کی ملاقات ایک ادبی رسالہ کے مدیر سے ہوگئی.اسے اپنے تار تار لباس کی پیوند کاری کی سخت ضرورت تھی. اس نے سوچا کہ ادب کی تازہ صورت حال پر مدیر سے کچھ گفتگو کی جائے. لہذا بات چیت کی شروعات کرتے ہوئے اس نے مدیر سے دریافت کیا.
”آپ کا رسالہ کس مرحلہ میں ہے؟”
"رسالہ ….؟ وہ تو بند ہوگیا.” مدیر نے اطلاع دی.
"اچھا…..کیوں‌؟” اس نے سوچا،یقینا مالی دشواریاں‌حائل ہوگئی ہوں گی.
"کیا کروں‌؟ غیر طلبیدہ مضامین سے پریشان ہوگیا تھا.” مدیر کے جواب پر وہ چونک پڑا.
"متوازن ادب کی سخت قلت ہے.” مدیر نے وضاحت کی تو اسے لگا جیسے کسی نے کشتی میں‌سوراخ کردیا ہے اور اس کے ذریعہ دریا کا پانی رس رس کر اندر داخل ہونے لگا ہے. اس کے ذہن میں‌ایک خیال شرارے کی طورح کوندا….کمرے کو جالوں‌ سے بھرنے والا مکڑا کشتی کے سوراخ میں‌ تو چھپا ہوا نہیں ہے؟ گھپ اندھیرے میں‌اندیشے کا ایک کم زور سا جالا دیکھ کر اس نے خود کو تھوڑا ہلکا محسوس کیا اور نیند آنکھوں‌ پر غالب ہونے لگی.
خلاف معمول وہ دیر تک سویا رہا لیکن جب جاگا تو یاد آیا کہ آج اتوار کا دن ہے.حسب معمول وہ اپنے کمرے کے جالوں کو صاف کرنے میں منہمک ہوگیا. اس کام کو اب اس نے برش کرنے، چائے پینے اور اخبار پڑھنے کی طرح اپنی عادت میں شمار کر لیا تھا.صبح کی شروعات کرتے ہوئے اچانک اسے اپنے ایک افسانہ نگار دوست کی یاد آگئی جو اسی شہر میں مقیم تھے اور جن سے وہ ایک عرصے سے ملا بھی نہیں ہے. کیوں نہ آج اس سے مل کر پرانے دنوں کی یاد تازہ کرلی جائے . اس نے سوچا اور ایک دم سے اس کے گھر جانے کے لیے تیار ہونے لگا. حالاں کہ اسے اپنے اس ارادے پر تعجب بھی ہورہا تھا لیکن وہ یہ سوچ کر مطمئن ہوا کہ ان دنوں‌وہ عجائبات کے نرغے میں ہے.
وہ تیار ہوکر گھر سے باہر نکلا تو فضا میں دھند چھائی ہوئی تھی. دور کی چیزیں واضح طور پر نظر نہیں آرہی تھیں لیکن دھند کے درمیان سے ہوکر گزرنا ایک الگ طرح کا تجربہ ہوتا ہے. ایسے موسم میں‌دور کی چیزیں آہستہ آہستہ قریب آکر اپنے خد و خال کی وضاحت کرتی ہیں اور اس طرح جذبہ تجسس کی کیفیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے.
مختلف خیالات کی آماج گاہ بنا ہوا تقریبا ایک گھنٹے کی چہل قدمی کے بعد وہ اس ادیب کے گھر تک پہنچ گیا. گھر کے احاطے کا دروازہ کھلا ہوا دیکھ کر وہ اندر داخل ہوجاتا ہے .دن کے گیارہ بج چکے ہیں لیکن دھند کی ناتواں سی لکیر اب بھی گھر کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے. اس نے دیکھا کہ کمرے کا دروازہ بھی کھلا ہوا ہے. وہ برآمدے سے ہوتا ہوا کمرے کے دروازے تک پہنچ گیا. اس نے اندر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی تو اچانک اس کے قدم لڑکھڑا نے لگے اور حلق سے گھٹی ہوئی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی . کمرے کے اندر کرسی پر اکڑوں بیٹھا ہوا دبلا پتلا سا ایک دراز قد شخص میز پر جھکا ہوا کچھ لکھنے میں منہمک نظر آیا . دھند کی ناتواں سی لکیر میں‌لپٹا وہ شخص ہو بہو مکڑے جیسا نظر آرہا تھا.

افسانہ نگار کا مختصر تعارف:
نام : محمد رفیع حیدر
قلمی نام : رفیع حیدر ا نجم
تاریخ پیدائش : 6 اکتوبر 1955
مقام پیدائش: بھا گلپور ( بہار )
والدین: محمد شفیع حیدر ، حمیرہ خاتون
آبائ گاوں : ڈانگول ، کٹیہار ( بہار )
تعلیم : ایم ۔ اے
شریک حیات : نیلوفر پروین
ثمر حیات : نایاب ہارون ، نوید انجم
وسیلہ ء حیات : شعبہ ء اردو اے ، ایم ڈگری کالج ، ارریہ
پہلا طبع زاد افسانہ : شمع ہر رنگ میں ( مطبوعہ ما ہنامہ خو شبوئے ادب ، کلکتہّ 1977)
افسانو ں کا مجموعہ : بے ارادہ ( 1998 )
پتہ : گا چھی ٹولہ ، وارڈ نمبر 24 ، ا رریہ ۔ 854311 ( انڈیا )


افسانہ مکڑ جال ماہنامہ پیش رفت نئی دہلی نومبر ۲۰۲۰ (جلد ۲۸ شمارہ ۴ ) میں شائع ہوا ہے۔
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے