غزل(ہتھیار نہیں)

غزل(ہتھیار نہیں)

مستحسن عزم

تیر و خنجر نہیں ، نیزہ نہیں ، ہتھیار نہیں
اس نے گھائل کیا اور جسم پہ اک وار نہیں

میری غیبت وہ سرِ عام کیا کرتے ہیں
اور الزام کہ ‘ میں’ صاحبِ کردار نہیں

میں ہوں آزاد پرندہ مرا گھر سارا گگن
قصرِ سلطانی سا چھوٹا مرا سنسار نہیں

مجھ کوپڑھناہےاگر،دھیان سےپڑھ حرف بحرف
میں کہ رودادِ غمِ عشق ہوں اخبار نہیں

ایسا فارغ کیا ہے وقت نے مجھ کو کہ جناب
روزِ اتوار بھی میرے لئے اتوار نہیں

اوڑھ مجھکو کہ بِچھا ، ماں کا دو پٹّہ ہوں عزمؔ
” میں کسی حاکمِ مغرور کی دستار نہیں

مستحسن عزم کی دوسری غزلیں اور تعارف یہاں پڑھیں
غزل
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے