ہینگ والا

ہینگ والا

ہندی کہانی: سوبھدرا کماری چوہان
اردو ترجمہ: ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل، تالاب ملا ارم
رام پور ۱۰۹۴۴۲ یو پی
موبائل نمبر:9520576079

”اماں! ہینگ والا!!“ کہتا ہوا ایک خان، لگ بھگ پینتیس سال کا، آنگن میں آکر رک گیا۔ پیٹھ پر بندھے ہوئے پیپے کو کھول کر اس نے نیچے رکھ دیا اور مولسری کے نیچے بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھ گیا۔
اندر برآمدے میں سے ایک نو دس برس کے بچے نے باہر نکل کر جواب دیا: ”ابھی کچھ نہیں لینا ہے، جاؤ۔“
لیکن خان بھلا اتنا ہی کہہ دینے سے کیوں جانے لگا؟ وہ ذرا اور آرام سے بیٹھ گیا اور اپنے صافے کے کنارے سے ہوا کرتے ہوا بولا: ”اماں! ہینگ لے لو۔ اماں! ہم اپنے دیش کو جاتا ہے، بہت دنوں میں لوٹے گا۔“
ساوتری اپنے اس ہم عمر بیٹے کی بات شاید ہی کبھی ٹال سکی ہو۔ کچن سے ہاتھ دھو کر وہ باہر آتے ہوئے بولی: ”ہینگ تو بہت سی رکھی ہے خان! ابھی تو پندرہ دن بھی نہیں ہوئے، تم سے ہی تو ہینگ لی تھی۔“
لیکن ایسا محسوس ہوا کہ خان نے ساوتری کی بات سنی ہی نہیں۔ وہ اسی لہجے میں بولا: ”ہیرا ہینگ ہے ماں! ہم تمھارے ہاتھ کی بوہنی مانگتا ہے۔ ایک ہی تولا لے لو لیکن لو ضرور، ہم دے کر جائے گا۔“ اتنا کہہ کر خان نے ہینگ کے چھوٹے بڑے کئی ڈبے کھول کر رکھ دیے۔ ساوتری ابھی ان ڈبوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ بھی نہ سکی تھی کہ اس نے فوراً ایک ڈبہ ساوتری کے سامنے سرکاتے ہوئے کہا: ”تم اور کچھ مت دیکھو ماں! یہ ہینگ ایک نمبر ہے۔ ہم تمھیں دھوکہ نہیں دے گا ماں!“
ساوتری بولی: ”لیکن میں اتنی ہینگ لے کر کروں گی کیا؟ڈھیر سی تو رکھی ہے۔“
خان بولا: ”کچھ بھی لے لو اماں! ہم دینے کو آیا ہے۔ گھر ہے، پڑی رہے گی۔ پھر آج ہم اپنے کابل کو جاتا ہے، خدا جانے کب لوٹے گا۔“ اور خان جواب کا انتظار کیے بغیر ہینگ تولنے لگا۔ اس پر ساوتری کے بچے بہت ناراض ہوئے۔سبھی بول اٹھے: ”مت لینا ماں! تم کبھی نہ لینا، زبردستی تولے جا رہا ہے۔“
جب خان نے ہینگ تول کر اور پڑیا بنا کر ساوتری کے سامنے رکھ دی تو سب سے چھوٹے بچے نے پڑیا اٹھا کر خان کے پاس پھینکتے ہوئے کہا: ”لے جاؤ، ہمیں نہیں لینا ہے، چلو ماں! اندر چلو۔“
ساوتری نے کسی کی بات کا جواب نہ دے کر ہینگ کی پڑیا اٹھا لی اور پوچھا: ”کتنے پیسے ہوئے خان!“
”سوا چھ آنے پیسے اماں!“خان نے جواب دیا۔
ساوتری نے پانچ پیسے تولے کے بھاؤ سے سوا چھ آنے لا کر خان کو دیے۔ خان سلام کر کے چلا گیا لیکن ساوتری کے بچوں کو ماں کی یہ بات اچھی نہ لگی۔ وہ تینوں بہت ناراض تھے۔ انھیں یہی لگ رہا تھا کہ ماں نے خان کو اتنے پیسے دے دیے لیکن ابھی ہم مانگیں تو کبھی نہ دیں گی۔ سب سے چھوٹا بیٹا، جس کی عمر لگ بھگ چھ سال تھی، بولا: ”بھیا! مانگو تو بھلا ماں سے پیسے، پھر ہم لوگ ملائی کی برف کھائیں گے۔“
بڑے لڑکے نے کہا: ”اماں! تم نے خان کو ویسے ہی سوا چھ آنے پیسے دے دیے ہیں، ہینگ کی کچھ ضرورت نہیں تھی۔“ اس کے آگے کچھ کہنے کی اس کی ہمت نہ ہوئی لیکن چھوٹے کے کانوں میں تو ملائی کی برف والے کی آواز گونج رہی تھی: ”ملائی کی برف، ٹھنڈی برف!“
وہ ماں سے بگڑ کر بولا: ”دو ماں! چھ آنے ہم کو بھی دو، ہم بغیر لیے نہ رہیں گے۔“
لڑکی، جس کی عمر آٹھ سال کی تھی، کچھ سوچتے ہوئے بولی: ”تم ماں سے پیسے نہ مانگو، وہ تمھیں نہ دیں گی۔ ان کا بیٹا تو وہی خان ہے، ہم لوگ نہیں۔“
ساوتری کو ان بچوں کی باتوں سے ہنسی آ رہی تھی۔ اس نے ہنسی دبا کر بناؤٹی غصے میں کہا: ”چلو چلو! تم لوگ بڑی باتیں بنانے لگے ہو۔ کھانا تیار ہے، کھاؤ۔“
چھوٹا بولا: ”پہلے پیسے دو، تم نے خان کو بھی تو دیے ہیں۔“
ساوتری نے کہا: ”خان نے پیسوں کے بدلے میں ہینگ دی ہے، تم کیا دوگے؟“
چھوٹا بولا: ”مٹی دیں گے۔“
ساوتری ہنس پڑی: ”اچھا اچھا! چلو پہلے کھانا کھاؤ۔ پھر میں ایک روپیہ توڑا کر تینوں کو چھ چھ آنے دوں گی۔“
کھانا کھاتے کھاتے حساب لگا۔ ایک روپے میں سولہ آنے، چھ آنے رتن لے گا، چھ آنے منی لے گی، چھوٹے کے لیے تو چار آنے ہی بچیں گے۔ چھوٹا بگڑ پڑا: ”کبھی نہیں، میں چھ آنے لوں گا۔“ اور دونوں میں مار پیٹ ہو چکی ہوتی اگر منی چار آنے پیسے خود لینا منظور نہ کرلیتی۔
کئی مہینے بیت گئے۔ ساوتری کی سب ہینگ ختم ہو گئی۔اسی درمیان ہولی بھی آئی۔ شہر میں کسی جگہ ایک خطرناک فساد ہو گیا۔ بہت سے لوگ مارے گئے۔ ان مرنے والوں میں دو خان بھی تھے۔ ساوتری کبھی کبھی سوچتی: ”ہینگ والا خان تو نہیں مار ڈالا گیا؟“ پھر سوچتی: ”مار ڈالا گیا ہو تو مرنے دو، دوسرے ہینگ والے بھی تو ہوں گے۔“ لیکن نہ جانے کیوں اسے اس ہینگ والے کی یاد اکثر آ جایا کرتی۔
ایک دن ساوتری اس مولسری کے پیڑ کے نیچے چبوترے پر بیٹھی کچھ گھریلو کام کر رہی تھی۔ اسکول کی چھٹی تھی۔ تینوں بچے آس پاس ہی کھیل رہے تھے۔ساوتری نے سنا، اس کے پتی کسی سے اونچی آواز میں کہہ رہے ہیں، کیا کام ہے؟ اندر مت جاؤ، یہاں آؤ!“
جواب ملا: ”ہینگ ہے ہینگ، ہیرا ہینگ!“ اور خان تب تک آنگن میں ساوتری کے سامنے پہنچ چکا تھا۔
خان کو دیکھتے ہی ساوتری نے کہا: ”بہت دنوں میں آئے خان! ہینگ تو کب کی ختم ہو گئی۔“
خان بولا: ”اپنے دیش کو گیا تھا اماں! پرسوں ہی تو لوٹا ہوں۔“
ساوتری نے جواب دیا: ”یہاں تو آپس میں بہت زور کا فساد ہو گیا ہے۔“
اس پر خان نے خفا ہوتے ہوئے کہا: ”سنا، سمجھ نہیں ہے لڑنے والوں میں۔“
ساوتری چونکتے ہوئے بولی: ”خان! تمھیں پتہ تھا کہ شہر میں فساد ہو گیا ہے پھر بھی تم ہمارے گھر چلے آئے، تمہیں ڈر نہیں لگا؟“
اس پر خان نے معصومیت سے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: ”ایسی بات مت کہو اماں!کیا کبھی کسی بیٹے کو بھی اپنی ماں سے ڈر ہوا ہے جو مجھے ہوتا؟“ اور اس کے بعد ہی اس نے اپنا ڈبہ کھولا اور ایک چھٹانک ہینگ تول کر ساوتری کو دی۔ ٹوٹے ہوئے پیسے دونوں میں سے کسی کے پاس نہیں تھے۔
”خان پیسہ پھر آ کر لے جائے گا۔“ کہہ کر ساوتری کو سلام کرکے خان چلا گیا۔ دشہرہ ہندوؤں کا بڑا تہوار ہوتا ہے۔ شہر میں پہلے جھگڑا ہو چکا تھا لیکن ضلع انتظامیہ کے بہترین انتظامات کے باعث اب شہر میں کسی طرح کے فساد کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ شہر میں سب جگہ امن و امان تھا لیکن اس کے باوجود بہت سے ہندو اندر ہی اندر بھرے بیٹھے تھے اور نہایت غصے میں تھے کیونکہ گزشتہ ہولی کے تہوار پر وہ ہولی کو عوامی مقام پر نہ جلا سکے تھے، اس لیے وہ دو گنے جوش و جذبے کے ساتھ دشہرہ منانے کی تیاری میں تھے اور دیگر لوگوں میں بھی وہ، یہ جذبہ بھرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
چار بجے شام کو کالی ماتا کا جلوس نکلنے والا تھا۔پولیس کا کافی انتظام تھا۔ کسی طرح کے فساد کا اندیشہ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت تھی۔ ساوتری کے بچوں نے کہا کہ ہم بھی کالی کا جلوس دیکھنے جائیں گے۔ ساوتری کے شوہر، شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ ساوتری خود بھی بہت سمجھ دار تھی لیکن اس کے باوجود کچھ ڈرپوک تھی اس لیے سوچ رہی تھی کہ وہ بچوں کو جلوس دیکھنے کیسے بھیج دے جب کہ اس کے پتی بھی اس وقت گھر میں نہیں ہیں۔ اس نے بچوں کو پیسوں، کھلونوں، سنیما اور نہ جانے کس کس چیز کا لالچ دیا لیکن بچے کسی طرح نہ مانے اور اپنی ضد پر اڑے رہے۔
ان کا گھریلو نوکر شیامو خود بھی جلوس دیکھنے کو بے چین اور جذباتی ہو رہا تھا۔ اس نے بچوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا: ”بھیج دو نا ماں! میں ابھی دکھا کر واپس لیے آتا ہوں۔ محلے کے اور لوگ بھی تو گئے ہوئے ہیں۔“
اب بچوں نے اور بھی زور پکڑا۔ ان کا ایک حمایتی بھی تو بن گیا تھا۔ مجبوراً، خواہش نہ ہوتے ہوئے بھی ساوتری کو کالی کا جلوس دیکھنے کے لیے بچوں کو بھیجنا ہی پڑا لیکن اس نے بار بار شیامو کو یہ تاکید بھی کر دی کہ دن رہتے ہی وہ بچوں کو لے کر لوٹ آئے۔
بچے تو خوشی خوشی کالی کا جلوس دیکھنے چلے گئے لیکن ادھر بچوں کو بھیجنے کے ساتھ ہی ساوتری کا چہرہ جیسے مرجھا سا گیا۔ اب وہ تھی اور اس کا سال بھر کا گودی کا بچہ۔ اپنے بچوں کو جلوس میں بھیجنے کے ساتھ ہی ساوتری ان کے واپس لوٹنے کا انتظار کرنے لگی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے پورا دن ڈھل گیا۔ اندھیرا بڑھنے لگا لیکن ساوتری کے بچے نہ لوٹے۔ اب ساوتری کو نہ اندر چین اور نہ باہر۔ وہ گھبرائی ہوئی، بچوں کو بھیج دینے کی اپنی غلطی بلکہ بے وقوفی پر پچھتاتی ہوئی کبھی اندر جاتی اور کبھی باہر آتی۔ اتنے میں اچانک اسے کچھ آدمی سڑک پر بھاگتے ہوئے دکھائی دیے۔ وہ دوڑ کر باہر آئی اور ان آدمیوں سے پوچھا: ”ایسے کیوں بھاگے جا رہے ہو؟ کالی ماتا کا جلوس تو نکل گیا نا!“
ایک آدمی نے گھبرا کر کہا: ”فساد ہو گیا ماں جی! بڑا بھاری فساد ہوا ہے۔“
وہ آدمی تویہ کہہ کر بھاگتا ہوا بھیڑ میں گم ہو گیا لیکن ساوتری کے ہاتھ پیر جیسے ٹھنڈے پڑ گئے۔ اسی وقت کچھ اور لوگ تیزی سے جاتے ہوئے دکھائی دیے۔ سب کے چہرے ہونق اور پریشان تھے۔ ساوتری نے التجا بھری آنکھوں سے انھیں بھی روکا۔ ان لوگوں نے کہا: ”فساد ہو گیا ہے ماں! اندر جاؤ۔“
اب ساوتری کیا کرے؟ انہی لوگوں میں سے، ایک سے اس نے کہا: ”بھائی! میرے بچوں کی خبر لادو، ایک لڑکی اور دو لڑکے۔ میں تمھیں منھ مانگا انعام دوں گی۔“
ایک دیہاتی نے بھاگتے ہوئے بے رخی سے جواب دیا: ”اماں جی! ہم تمھارے بچوں کو کب پہچانتے ہیں؟ پھر اپنی جان سے پیارا تو کچھ بھی نہیں ہوتا!“ یہ کہتا ہوا وہ تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
ساوتری سوچنے لگی: ”سچ ہی تو ہے،اتنی بھیڑ میں بھلا وہ دیہاتی میرے بچوں کو تلاش بھی کیسے کرتے؟ ان سے بچوں کی خبر لانے کے لیے کہنا ہی ایک بھول تھی۔“ لیکن وہ کرے بھی تو کیا کرے؟ سال بھر کے گود کے بچے کو نہ تو وہ چھوڑ کر جا سکتی تھی اور نہ لے کر ہی۔محلے پڑوس میں بھی ایسا کوئی نہیں، جسے وہ بچوں کو تلاش کرنے کے لیے بھیج دے۔ اسے رہ رہ کر اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا: ”آخر اس نے بچوں کو بھیجا ہی کیوں؟وہ بچے ٹھہرے، ضد تو کرتے ہی لیکن بھیجنا یا نہ بھیجنا تو اسی کے ہاتھ کی بات تھی۔ اگر وہ نہ بھیجتی تو کیا بچے زبردستی چلے جاتے؟ ہر گز نہیں!“
ساوتری پاگل سی ہو گئی تھی۔ اسے رہ رہ کر جلتے گھروں اور لاشوں کے بیچ اپنے بچے بھی تڑپتے دکھائی پڑتے۔ بچوں کی صحیح و سلامت واپسی کے لیے اس نے نہ جانے کتنی منتیں مان ڈالی تھیں۔ شور و غل بڑھ کر اب کچھ کم ہو گیا تھا۔ کالی بھیانک رات کے ساتھ ساتھ اداسی بھری خاموشی بھی بڑھتی جا رہی تھی لیکن اس کے بچے اب تک لوٹ کر نہ آئے تھے۔ اس کے دل میں مایوسی بھرے خیالات آ رہے تھے اور وہ سوچ رہی تھی کہ اب شاید اس کے بچے کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔ساوتری بے جان سی ہو کر اپنے سوئے ہوئے چھوٹے بچے کے پائینتی گر پڑی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اسی وقت اسے محسوس ہواجیسے کوئی گاڑی آکر اس کے دروازے پر رکی ہو اور اسے وہی جانی پہچانی آواز سنائی دی: ”اماں!“
ساوتری دوڑ کر باہر آئی۔ اس نے دیکھا کہ اس کے تینوں بچے خان کے ساتھ بخیریت واپس لوٹ آئے ہیں۔
خان نے ساوتری کو دیکھتے ہی کہا: ”وقت اچھا نہیں اماں!بچوں کو ایسی بھیڑ بھاڑ میں باہر نہ بھیجا کرو۔“
بچے دوڑ کر ساوتری سے لپٹ گئے۔ چھوٹے نے کہا: ”اماں!خان بہت اچھا ہے۔ فساد ہوتے ہی شیامو تو ہمیں چھوڑ کر بھاگ گیا تھا، خان نے ہی ہمیں بچایا، نہیں تو آج ہم بھیڑ میں مارے جاتے۔“
ساوتری نے پوچھا: ”اچھا،اب تو خان سے ہینگ لینے دوگے نا!“
بچوں نے ایک آواز میں کہا: ”ہاں ماں! ضرور لینے دیں گے۔ خان تو ہمارا دوست ہے۔“
خان نے ڈپٹ کر کہا: ”نہیں، دوست نہیں، ہم تمھارا بھائی ہے،بھائی!“
***
یہ بھی پڑھیں :کتاب: تذکروں کا اشاریہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے