حرفے چند

حرفے چند

مفتی ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، جھاڑ کھنڈ و اڈیشہ 
حضرت امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے ملکی و ملی پیمانے پر جو خلاپیدا ہوا ہے اس کی تلافی مستقبل قریب میں ہوتی نظر نہیں آتی ، علما، صلحا، صوفیا، قائدین اور اہل قلم سے آج بھی یہ ملک خالی نہیں ہے، ہر محاذ پر کام کرنے والے لوگ موجود ہیں، ان کا کام وقیع بھی ہے اورقابل قدر بھی؛ لیکن جو جامعیت حضرت صاحب میں تھی، وہ دور دور تک نظر نہیں آتی، اس اعتبار سے ہندستان خالی ہوگیا، حضرت صاحب مفکر بھی تھے، مدرس بھی، خطیب بھی تھے، قائد بھی، بزرگوں کی مسند پر اکابر کے سجادگی کے مظہر اتم اور سیاست کی دنیا میں جرات و بے باکی کے ساتھ اپنی بات رکھنے میں ممتاز، قلم ہاتھ میں لے لیا تو اچھے صحافی، مقالہ نگار، گفتگو کرنے لگیں تو حکمت و موعظت کے قیمتی موتی سے لوگوں کے دامن بھرنے والے الدین النصحۃ کے عملی شہ سوار، مختلف دماغوں کا ایک انسان، جس کے سارے دروازے بیک وقت کھلے رہتے تھے، ایسا کوئی انسان میری محدود نظر میں اس وقت کوئی دوسرا نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ” توچیزے دیگری” تھے اور انھیں کہنے کا حق تھا کہ
ع ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ایسی عظیم شخصیت کی وفات پر ملت کو رونا تھا، اس نے رو لیا، ملک و بیرون ملک میں ماتم پسرگیا، اہل علم و قلم نے ان کی حیات وخدمات پر بہت لکھا، شعرا نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا، مختلف لوگوں کی طرف سے ان کی زندگی کا مرقع تیار کیا جارہاہے، کئی کتابیں دیر سویر منظر عام پر آنے والی ہیں، جن کی تیاری زوروں پر چل رہی ہے، مہینہ دو مہینہ میں وہ کتابیں نظر نواز ہوں گی؛ لیکن اولیت کی سعادت مولانا ساجد حسن رحمانی قاسمی اور مولانا مفتی محمد موسیٰ قاسمی کی مرتب کردہ کتاب "امیر شریعت سابع:علماء و دانشوران کی نظر میں” کے حصے میں آئی ہے۔ الفضل للمتقدم
مولانا ساجد رحمانی قاسمی اور مولانا محمد موسیٰ قاسمی لکھنے پڑھنے کا اچھا ذوق رکھتے ہیں، انھوں نے جس محنت سے اس مجموعہ کو مرتب کیا ہے، مضامین لکھوائے، منگوائے ہیں وہ انتہائی قابل قدر ہیں، یہ محنت جاں کا ہی اور جاں فشانی اس وقت تک ممکن نہیں ہے؛ جب تک کسی کی محبت سودائے قلب میں جاگزیں نہ ہو، مجھے خوشی ہے کہ حضرت کی محبت و عقیدت، حضرت کے مریدان باصفا ہی میں نہیں مولانا ساجد رحمانی قاسمی اور مولانا مفتی محمد موسیٰ قاسمی جیسے نوجوانوں کے دلوں میں موج زن ہے، اس محبت و عقیدت نے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہے، مجموعہ کے مضامین حضرت صاحب کی حیات و خدمات کے مختلف گوشے ہمارے سامنے لاتے ہیں، اس قسم کے مجموعے میں تکرار فطری اور لازمی ہے، مجھے خوشی ہے کہ مرتبین نے بڑی حد تک تکرار سے بچنے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ کام یاب نظرآتے ہیں۔
مولانا ساجد رحمانی قاسمی بہار یونی ورسٹی میں میرے رفیق درس ماسٹر آل حسن صاحب کے چشم و چراغ ہیں، صالح عالم دین ہیں، میں نے کم و بیش بیس سال مولانا ساجد رحمانی کے دادا حافظ مجیب الرحمن مرحوم کے ساتھ مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں پڑھایا ہے ، اس طرح اس خاندان سے میرے تعلقات قدیم ہیں، ویشالی میں ۱۹۸۳ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد میں نے جو تعلیمی تحریک شروع کی تھی اس کے جواثرات مرتب ہوئے، اس نے ویشالی ضلع کو علم وادب کا گہوارہ بنا دیا ہے، اس تحریک سے قبل ویشالی میں علما کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی، اور لکھنے والوں کی تعداد تو ایک انگلی کے پوروں میں سما جاتی تھی، ۱۹۸۳ء کے بعد سے جو محنت ہوئی اس نے اتنے علما، فضلا، حفاظ اور اہل قلم پیدا کردیے ہیں کہ ان پر مستقل کتاب لکھی جاسکتی ہے؛ بل کہ بعض اہل قلم لکھ رہے ہیں۔
مولانا محمد موسیٰ قاسمی سیتامڑھی کے ہیں، المعھد العالی حیدرآباد سے افتا و قضا کی تربیت لی ہے، سیتامڑھی ماضی بعید سے آج تک علما، صلحا، مدارس دینیہ کے لیے مشہور رہا ہے، اس فضا میں پروان چڑھ کر مولانا محمد موسیٰ قاسمی کی صلاحیت کو صالحیت کے ساتھ پروان چڑھنا ہی تھا، سو مولانا اس کے مظہر بن کر ہمارے سامنے آئے ہیں۔
میں اس مجموعہ کے مرتبین کو مبارکباد دیتا ہوں، اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ان کی تصنیفات و تالیفات کا سلسلہ دراز ہو، میں امارت شرعیہ کے نائب ناظم کی حیثیت سے ان حضرات کا شکر گذار بھی ہوں کہ انہوں نے حضرت صاحب پر ایک اچھی کتاب مرتب کر ڈالی.
ع ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند
۱۳/۱۱/۴۲ھ
۲۵/۶/۲۰۲۱ء

صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی پڑھیں : قربانی نفس امارہ کی بھی دیجیے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے