قربانی نفس امارہ کی بھی دیجیے

قربانی نفس امارہ کی بھی دیجیے

مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پٹنہ

عیدالاضحی کا مہینہ آنے سے قبل ہی قربانی کی تیاری شروع ہوجاتی ہے، بکروں کی منڈیاں لگ جاتی ہیں، جانور خریدے جاتے ہیں، کچھ لوگ خلوص سے توانا وتنومند جانور لے لیتے ہیں، اور کچھ دوسروں سے پیچھے نہیں رہنے کے زعم میں اور اس لیے بھی کہ ہمارا بکرا گاؤں اور سماج میں سب سے نمایاں رہے، خریداری کرتے ہیں. قربانی کم زور جانور کی پسندیدہ بھی نہیں ہے اور اگر ایسا کم زور جانور ہو جو مذبح تک جانہ سکے تو قربانی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے؛ اس لیے کم زور نہیں، اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے مضبوط جانور ہی قربان کرنا چاہئے، پل صراط پر سواری کے کام آنے کا یقین بھی اسی کا متقاضی ہے، گو دوسرے صدقات کی طرح اللہ قربانی کے جانور کو بھی توانا کردیں گے؛ لیکن یہ توانائی گوشت پوست، قد و قامت، اور قیمتوں سے نہیں ہوگی، وہاں تو جانوروں میں توانائی خلوص اور تقوی کی بنیاد پر آئے گی، اللہ تعالی ٰنے قرآن کریم میں بہت واضح طور پر ارشاد فرمادیا ہے۔ یعنی اللہ کے نزدیک جانور کا گوشت اورخون نہیں پہنچتا، تقوی پہنچتا ہے، قربانی تقویٰ، خلوص، للہیت، نمود وریا سے دوری، جذبہ بندگی اور بارگاہ الہی میں خو د سپردگی کا نام ہے. اسی لیے قربانی سے قبل جو آیتیں پڑھی جاتی ہیں، ان کے معنی پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ خود سپردگی کا یہ اظہار لفظوں میں بھی کرایا جاتا ہے، اور بندہ کہتا ہے میں نے اپنا رخ آسمان، زمین کے پیدا کرنے والے کی طرف خالصتا کرلیا اور میں مشرک نہیں ہوں،قربانی کرتے وقت یہ آیت رسماً نہیں پڑھی جاتی ہے، اس لیے پڑھوائی جاتی ہے تاکہ اللہ کی وحدانیت اور اس کی خالقیت کا پورا پورا استحضار ہوجائے. اس کو تقویت دینے کے لیے ایک اور آیت پڑھی جاتی ہے۔ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔یعنی میری نماز یں، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ تمام جہان کے پالنہار کے لیے ہے، یہاں صلاۃ اور نسک کو دو لفظ نہیں؛ بلکہ بدنی اورمالی عبادتوں کا اشاریہ سمجھنا چاہئے، اس خیال کو تقویت”محیا“ اور”ممات“ کے لفظ سے بھی ملتی ہے، بدنی اور مالی عبادتوں کے ذکر کے ساتھ محیا اور ممات کا لفظ یہ بتانے کے لئے ہے کہ زندگی کے تمام معاملات، معاشرت اور تمام امور، شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہی انجام پائیں گے؛ قربانی کرتے وقت ان آیات کی تلاوت صرف ثواب کے لیے نہیں، بل کہ اس وعدہ اور عہد کی تجدید ہے جو ”عہد الست“ میں بندہ نے کیا ہے اور جس کو دن بدن یہاں آکر ”کارجہاں دراز ہے“ کہہ کر بھولتا جارہا ہے. خلوص و للہیت اور اللہ کے لیے کام کرنے کا جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔ سارے کام دکھاوے کے لیے کیے جاتے ہیں اور قربانی میں بھی خلوص سے زیادہ مسابقہ کار فرما ہوتا ہے، یہ مسابقت اور خودنمائی بالکل باقی نہ رہے، اس پر آخری ضرب جانور کو لٹا کر چھری چلاتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہتے ہوئے لگائی جاتی ہے اور اعلان کیا جاتا ہے کہ اے اللہ ترے ہی نام سے ذبح کرتا ہوں اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے. کس کے نام سے؟ اللہ کے نام سے، ہمارے یہاں یہ بھی ایک غلط اصطلاح رائج ہو گئی ہے کہ قربانی کرنے سے پہلے یا قربانی کے وقت کہا جاتا ہے کہ یہ قربانی فلاں کے نام سے ہوگی نعوذباللہ۔ قربانی ساری اللہ کے نام سے ہوگی، اس کے لیے صحیح تعبیر یہ ہے کہ کس کی طرف سے ہوگی یعنی کس شخص کی طرف سے قربانی کی ادائیگی اس جانور کو قربان کرکے کی جارہی ہے۔ چھری حلقوم پرچلی، خون کے فوارے بہے، جانور نے جان، جان آفریں کے سپرد کردیا، آپ کی قربانی آپ کے خلوص کے اعتبار سے اللہ کے پاس پہنچ گئی، اصل اجر و ثواب تو وہیں ملے گا اور آپ کے خلوص کے اعتبار سے دیا جائے گا، مولانا عبد الماجد دریابادی نے لکھا ہے کہ ذبح کے بعد کھال ادھیڑنے کے لیے لے جانے سے پہلے ایک بار غور سے جانور کو دیکھیے، یہ شرعی حکم نہیں ہے ؛ لیکن دیکھیے، اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں، جان نکل گئی، لیکن آنکھ آپ کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی ہے، آپ سے سوال کررہی ہے کہ جناب! میں نے تو آپ کی طرف سے اپنے جان کی قربانی دے دی، لیکن کیا آپ نے بھی اپنے نفس امارہ کی قربانی کے لیے خود کو تیار کیا؟ اللہ کے راستے میں مال ہی نہیں، وقت آنے پرجان دینے کا خیال پیدا ہوا؟ اپنی محبوب اولاد اور اپنی پسندیدہ چیزوں کو خرچ کرنے کا جذبہ پیدا ہوا؟ اگر ایسا ہوا تو میری قربانی رائیگاں نہیں گئی، اور آپ خیر و بھلائی کے پانے والے ہوگئے اور اگر آج بھی مال کی محبت آپ کے دل میں اس قدر ہے کہ حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر سمیٹے جارہے ہیں، دین کی سر بلندی اور دعوت وتبلیغ کے لیے اپنی اولاد کو نکلنے نہیں دے رہے ہیں، آپ کو لگتا ہے کہ نماز کے وقت جماعت میں جانے سے گاہک واپس ہوجائے گا، اور ہم معاشی کساد بازاری کے شکار ہوجائیں گے، آپ پہلے کی طرح گناہوں پر جری ہیں، اور خیر کی طرف رغبت اب بھی نہیں پیدا ہوتی ہے تو سمجھیے کہ میری جان اکارت گئی، آپ کا کچھ بھی بھلا نہیں ہوا، اب بھی موقع ہے، قربانی کی دعا پڑھیے اور جو کمی کوتاہی رہ گئی ہے، اس کے لیے اللہ سے دعا کیجیے کہ اے اللہ! اس قربانی کو قبول کرلے؛ بالکل اسی طرح جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی قبول کی تھی، اس قربانی کو قبولیت کا وہ مقام عطا فرما دے جوانبیاے کرام کی قربانیوں کو تو نے دیا۔ یہ دعا ذبح کرنے والا ہی پڑھتا ہے؛ لیکن قربانی کے اس پورے عمل میں شعوری طور پر شریک ہونے کی غرض سے یہ حکم دیا گیا کہ بہتر ہے کہ آدمی اپنی طرف سے قربانی کا جانور خود سے ذبح کرے اور اگر اس کے لیے کسی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہیں تو وہاں پر قریب میں کھڑا رہے؛ تاکہ قربانی کے عمل کو خود سے دیکھے اور محسوس کرے کہ یہ صرف جانور کا ذبح کرنا نہیں؛ بل کہ سب کچھ اللہ کے راستے میں قربان کرنا ہے، مال بھی جان بھی، اولاد بھی، زندگی اور موت بھی، سوچئے اور بار بار سوچئے، قربانی شعور کے ساتھ کیجیے، جانور کے ساتھ سب کچھ اللہ کے لیے قربان ہوجائے، ایسا ہوا یا نہیں، اس کی پہلی آزمائش قربانی کے گوشت سے شروع ہوتی ہے، آپ نے عزیزو اقربا دوست اور احباب کا حصہ اس میں لگایا؟ غربا اور سماج کے پریشان حال لوگوں کے لیے کچھ حصہ خاص کیا؟ یا بڑا خاندان ہے، گھر ہی میں پورا نہیں ہوتا، کہہ کر سارا رکھ لیا، یقینا آپ ایسا کرسکتے ہیں، شرعی اجازت بھی ہے، لیکن ایسا کرکے آپ نے سماج کے لیے قربانی نہ دینے کے اپنے احساس کا کھلے عام اظہار کردیا، جانور کے کھال کی قیمت آپ نے غربا، یتامیٰ کے لیے دیا یا بغیر فروخت کیے اپنے لیے جائے نماز بنالیا، اگر ایسا کیا تو معلوم ہوگیا کہ اللہ کے راستے میں دینے کا آپ کا مزاج نہیں بنا، آپ نے اپنی طرف سے قربانی کردی، لیکن بیوی بھی صاحب نصاب ہے، بہو بھی ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے زیور لے کر بیٹھی ہے، بیٹا نے بھی بینک بیلنس اور سامان اتنی مالیت کا جمع کر رکھا ہے، ان کی طرف سے قربانی رہ گئی، اور آپ مرُدوں کی طرف سے قربانی کررہے ہیں، پہلے ان کی طرف سے تو قربانی دے لیجیے؛ جن پر واجب ہے. قربانی کے ایام میں قربانی کے علاوہ کوئی عمل اللہ کو اس قدر پسند نہیں ہے؛ اس لیے قربانی جن پرواجب ہے، سب کی طرف سے دیجئے، تاکہ سب کے نفس امارہ اللہ کے راستے میں حقیقتاً قربان ہوجائیں. یہی عید قرباں کا پیغام ہے اور یہی اس کا مقصد۔
مفتی صاحب کی گذشتہ نگارش :حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے