عنقا سکوں ہے عہدِ رواں میں دماغ کا

عنقا سکوں ہے عہدِ رواں میں دماغ کا

احمد علی برقی اعظمی

عنقا سکوں ہے عہدِ رواں میں دماغ کا
جیسے گذر گیا ہو زمانہ فراغ کا

ناسور بن گیا ہے ہر اک زخمِ خون چکاں
کیا ماجرا سناؤں تمھیں دل کے داغ کا

منزل کی سمت جوشِ جنوں میں ہوں گام زن
بس نقشِ پا ہے اس کے وسیلہ سراغ کا

تاریک کررہا ہے وہ کیوں میرے ذہن کو
دینا ہے کام روشنی گھر کے چراغ کا

گلشن کا باغباں نے بُرا حال کردیا
ہر گُل زباں حال سے کہتا ہے باغ کا

جس گلستاں میں پہلے چہکتی تھیں بلبلیں
اب بے سُرا ہے راگ وہاں صرف زاغ کا

شیرازۂ حیات ہے اس طرح منتشر
برقی ہو جیسے دل پہ تسلط دماغ کا
***
برقی اعظمی کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ ہو : کررہا ہوں پیش میں بابائے اردو کو سلام

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے