ماہ محرم الحرام و یوم عاشورا کی فضیلت و اہمیت

ماہ محرم الحرام و یوم عاشورا کی فضیلت و اہمیت

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشیدپور

اسلامی سال کا پہلا مہینہ جسے محرم الحرام کہا جاتا ہے اپنے گوناگوں پیچ و خم، عشق و وفا، ایثار و قربانی اور بے شمار فضیلت ومرتبت کی دولتِ بے بہا سے معمور و سربلند ہے۔

ماہ محرم اور یوم عاشورہ:
محرم الحرام کے مہینے میں ایک دن ایسا بھی ہے جس کے مراتب و فضائل کلام الٰہی قرآن مجید و احادیث نبویہ اور سیرت و تاریخ کی کتابوں میں بھرے ہوئے ہیں۔ وہ دن یومِ عاشورا کہلاتا ہے۔
ارشادِ باری ہے: ترجمہ: بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں۔ اللہ کی کتاب میں جب سے آسمانوں اور زمین کو بنایا، ان میں سے چار مہینے حُرمت والے ہیں۔ یہ سیدھا دین ہے، تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو‘۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قمری سال کے مہینوں کی تعداد کا ذکر فرمایا اور حُرمت کا اعلان فرمایا ہے اور اس بات کی وضاحت کی ہے کہ بلا شبہ اللہ نے مہینوں کی تعداد بارہ ہی مقرر فرمائی ہے۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے ایسے ہیں جن کو اللہ نے خصوصی فضیلت اور حرمت (بڑائی) سے نوازا ہے ان چار مہینوں کو حرمت والے مہینوں کا نام دیا جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فتح مکّہ سے قبل جب مسلمان مدینہ منورہ پہنچنے لگے تو کہنے لگے کہ کہیں مکہ کے کافر حرمت والے مہینے میں ہمارے ساتھ جنگ نہ شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرً …
نازل فرمائی۔

خطبہ حجۃ الوداع:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن 10 ذوالحجہ کو خطاب کیا اور فرمایا: زمانہ چکر کاٹ کر اسی ہیّت پر آگیا، جس ہیّت (حالت) پر آسمان و زمین کی پیدائش کے دن تھا۔

سال بارہ مہینے کا ہے، جن میں سے چار حُرمت (بڑائی) والے ہیں۔ تین پے در پے یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام اور ایک رجب المرجب (تفسیر مظہری جلد 5 صفحہ 272۔ تفسیر روح البیان جلد 3 صفحہ 421 ) ۔

یومِ عاشورہ کا لفظی معنیٰ دسواں دن یا دسویں تاریخ ہے۔ مگر اب عرف عام میں یومِ عاشورہ کا اطلاق محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو ہوتا ہے جس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے 72 نفوس قدسیہ کے ساتھ مذہب اسلام کی خاطر حق کے لیے راہ خدا میں جامِ شہادت نوش فرمایا تھا۔

یومِ عاشورہ کے فضائل:
یومِ عاشورہ کے فضائل کے تعلق سے صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس پر غالب گمان ہے کہ عاشورہ کا روزہ ایک سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے.

اسی فضیلت کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم ماہِ رمضان کے علاوہ روزہ رکھنا چاہتے ہو تو عاشورہ کا روزہ رکھو کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔

اس ماہ کی فضیلت قرآن پاک میں آئی ہے اور اس مہینہ میں ایک دن ایسا بھی ہے جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور دوسری قوم کی توبہ کو قبول فرمائے گا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس بات کی طرف رغبت دلائی کہ وہ یومِ عاشورہ کو (توبۃ النصوح) کی تجدید کریں اور اللہ کی بارگاہ میں توبہ استغفار کی قبولیت کے لیے خوب گڑ گڑائیں، روئیں، اپنے پروردگار کو منائیں یعنی راضی کریں۔ کیوں کہ اس دن جس نے بھی اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ جس طرح اس سے پہلے والوں کی توبہ قبول فرمائی تھی۔

یومِ عاشورہ پر بزرگانِ دین کی بہت سی کتابیں موجود ہیں۔ یومِ عاشورہ اپنی بے شمارنعمتوں اور ان گنت فضیلتوں سے مالا مال ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دن کو متبرک اور بہت خیر و برکت والا بتایا ہے۔
اس کا اندازہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ کی کتاب ’’ ماثبت بالسنتہ ‘‘ جس میں آپ لکھتے ہیں کہ ’’ ابن جوزی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ذکر فرمایا کہ محرم کی دسویں تاریخ ایسی منفرد اور بے مثال تاریخ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔
اس دن ان کو جنت میں داخل کیا اور اسی دن ان کی توبہ قبول فرمائی۔ اسی دن عرش و کرسی، جنت و دوزخ، زمین و آسمان، چاند و سورج، لوح و قلم کو پیدا فرمایا۔ اور بعض علماے کرام یہ فرماتے ہیں کہ یوم عاشورہ کو یہ نام اس لیے دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن دس انبیاے کرام علیھم السلام کو دس عظمتوں سے نوازا ( غنیتہ الطالبین صفحہ 55)۔

یومِ عاشورہ کا دوسرا نام:

یومِ عاشورہ کو ’’یومِ زینت" بھی کہا جاتا ہے اور اس دن کا یہ نام حدیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے۔

عَنْ اِبْنِ عُمَرِ (رضی اللہ تعالیٰ عنھما) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّیٰ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَنْ صَامَ یَوْمَ الزِّیْنَتِ اَدْرَکَ مَا فَاتَہُ مِنْ صِیَامِ السَّنَۃِ ۔یعنی یومِ عاشورا
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے یومِ زینت یعنی یومِ عاشورہ کا روزہ رکھا اس نے اپنے باقی سال کے فوت شدہ کو بھی پا لیا، ( غنیتہ الطالبین جلد 2 صفحہ 54 ، ما ثبت من السُنَّتہ صفحہ 10)۔

یومِ عاشورہ کے اہم واقعات:
اللہ تعالیٰ نے اس دن آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی، حضرت ادریس علیہ السلام کو اس روزمقامِ بلند کی طرف اُٹھا لیا، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اس روز جودی نامی پہاڑ پر ٹھہری تھی۔ اسی روز حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنا خلیل بنایا اور انھیں اسی روز نارِ نمرود (آگ) سے محفوظ فرمایا۔

اسی روز حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ اسی روز حضرت سلیمان علیہ السلام کو حکومت واپس ملی۔ اسی یومِ عاشورہ کو ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف دور فرمایا، عاشورہ کے دن ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سلامتی سے سمندر پار کرایا اور فرعون کو غرق کر دیا تھا۔ یہی دن تھا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات عطا فرمائی تھی۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا تھا۔
اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹائی گئی اور بنی اسرائیل کے لیے دریا میں راستہ اسی دن بنایا گیا تھا۔ آسمان سے زمین پر سب سے پہلی بارش یومِ عاشورہ کو ہی نازل ہوئی تھی۔
حتیٰ کہ حدیث پاک کے مطابق قیامت بھی اسی دن آئے گی، اسی دن کا روزہ بھی پہلے فرض تھا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے اسی دن کا روزہ رکھا۔

عاشورہ کے نفل روزوں کا بہت ثواب ہے. 9 محروم اور دسویں محرم کو روزہ رکھیں، صرف دسویں محرم الحرام کو ایک روزہ بھی رکھ سکتے ہیں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی ان روزوں کا اہتمام فر تے تھے۔

اسی یوم عاشورہ کے دن قریش خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے اور اسی یوم عاشورہ کے دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ رسول ﷺ و جگر گوشہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کربلا میں شہید کیا۔

اپنے وقت کے نابغہ روزگار و مایہ ناز فقیہ حضرت ابراہیم ابن محمد کوفی نے فرمایا کہ جس نے یوم عاشورہ کو اپنے عزیز و اقارب و اہل و عیال کو خوش رکھا اور ان پر خوش دلی اور دریا دلی کے ساتھ خرچ کیا تو اللہ پاک پورے سال کو اس کے لیے خیر و برکت و فراخی رزق مقرر فرما دیتا ہے۔

مفسرین فقہا و علما فرماتے ہیں کہ عاشورہ کے دن اگر کسی شخص نے یتیم و مسکین کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے بالوں کی مقدار کے مطابق ثواب عطا فرمائے گا۔

یومِ عاشورہ کے فضائل و اعمال:
یومِ عاشورہ کا روزہ بہت فضیلت رکھتا ہے۔ یوم عاشورہ کا روزہ اسلام سے قبل اہل مکہ اور یہودی لوگ بھی رکھا کرتے تھے۔ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُمُ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’ قریش زمانہ جاہلیت میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے. آپ ﷺ بھی زمانہ جاہلیت میں اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔
پھر جب حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے، تب یومِ عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا گیا، جس کا جی چاہے وہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے۔

چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ عاشورہ کے دن انبیاے کرام روزہ رکھا کرتے تھے۔ حضور محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اور فرمایا نو، دس کا رکھو یادس، گیارہ کا رکھو۔

صُوْ ْمُو یَوْمَ عَا شُوْرَآئَ یَوْمَ کَا نَتِ الْاَ نْبِیْآ ئُ تَصُوْ مُہ‘ (ترجمہ) : عاشورہ کے دن کا روزہ رکھو، کیوں کہ یہ وہ دن ہے کہ اس کا روزہ انبیاے کرام رکھتے تھے۔ (الجامع الصغیر جلد 4 صفحہ 215)۔

یومِ عاشورا کا روزہ رکھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عام معمول میں شامل تھا اور آپ اس دن کا روزہ خاص اہتمام کے ساتھ رکھتے تھے۔

ایک حدیث پاک میں حضورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چار معمولات کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ انھیں کبھی ترک نہ فرماتے تھے۔ ان چار معمولات میں ایک یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا بھی ہے۔

روایت اس طرح سے ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ چار چیزیں ایسی تھیں جنھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ترک نہیں کیا۔ یومِ عاشورہ کا روزہ اور ذو الحجہ کا عشرہ یعنی پہلے نو دن کا روزہ اور ہر ماہ کے تین روزے (یعنی ایام بیض) کے روزے اور فرض نماز فجر سے پہلے دو رکعت (یعنی سنّتیں) (رواہ النسائی و مشکواۃ شریف صفحہ 180)۔

جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اسے ایک ہزار شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ اور ایک روایت کے مطابق ساتوں آسمانوں میں بسنے والے فرشتوں کا ثواب ملتا ہے۔ جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں 60 (ساٹھ) سال کی صوم و صلواۃ کی صورت میں عبادت کا ثواب لکھ دیتا ہے۔

یوم ِ عاشورہ میں دسترخوان وسیع کرنا:

عاشورا کے دن سخاوت کرنا یعنی غریب پروری کرنا، اپنے گھر کے دسترخوان کو وسیع کرنا، گھر والوں پر خرچ کرنا، رزق کے اندر وسعت و فراخی کا باعث بنتا ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے سیدنا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے عاشورہ کے دن اپنے اہل و اعیال پر نفقے (خرچ) کو وسیع کیا اللہ پاک سارا سال اس پر رزق کی وسعت فراخی (زیادتی) فرماتا ہے۔

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اسے بالکل ایسے ہی پایا۔ (مشکواۃ شریف صفحہ 170 غنیتہ الطالبین جلد 2 صفحہ 54) ۔

کشادگی رزق والی حدیثیں مختلف روایتوں کے ساتھ ملتی ہیں۔ روایات کی کثرت اس حدیث کو صحیح ثابت کر تی ہے. آج کل سوشل میڈیا پر نئے ہجری سال کے لیے ایک دعا شيئر کی جارہی ہے، یہ حدیث صحیح ہے، البتہ یہ دعا صرف نئے سال کے لیے مختص نہیں ہے بل کہ ہر نئے مہینہ کے شروع ہونے پر یہ دعا پڑھی جاسکتی ہے۔

احادیث میں مذکور ہے کہ جب نیا سال یا مہینہ شروع ہوتا تو صحابۂ کرام اس دعا کو سیکھا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے۔ غرضے کہ اس دعا کو ہر ماہ کے شروع میں پڑھنا چاہیے، اگرچہ نئے سال کے موقع پر بھی پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالأَمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلامَةِ وَالإِسْلامِ وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ وَجوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ (المعجم الاوسط للطبرانی۔ حدیث نمبر، 6410)۔

نئے ہجری سال کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرنا شریعت اسلامیہ میں حرام نہیں ہے، لیکن جس طرح شدت کے ساتھ لوگ یہ کرتے ہیں لگتا ہے یہ بڑے ثواب کا کام ہے ۔

یومِ عاشور اور واقعہ کربلا:

یومِ عاشورہ ماہِ محرم الحرام کا دسواں دن
مندرجہ بالا فضیلتوں و باتوں کے برعکس اپنے اندر ایک بالکل مختلف پہلو بھی رکھتا ہے۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ اسی دن سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوٹے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو میدان کربلا میں شہید کر دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نہایت شفقت آمیز لہجہ میں ارشاد فرمایا کہ ’’ حسن اور حسین میرے لیے دو مہک (خوشبو) دار پھول کی مانند ہیں‘‘۔

اسی حدیث پاک کی ترجمانی مجدد دین وملت عظیم البرکت اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں۔

کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی
زہرا ہیں کلی اور حسن و حسین پھول

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے زیادہ محبوب ان دونوں نواسوں میں حضرت حسین رضی اللہ کو حضور ﷺ کے وفات کے کم و بیش 50 سال کے عرصہ کے بعد 60 ھجری میں 10محرم الحرام کو شہید کر دیا گیا. دسویں محرم یعنی عاشورہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی مٹی شیشی (بوتل) کے اندر خون ہوگئی.

ترمذی شریف جلد دوم میں ہے کہ دس تاریخ (یوم عاشورا) کو ایک عورت حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں مدینہ شریف کے اندر حاضر ہوئی. اس نے دیکھا حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اشک بار ہیں. عورت نے رونے کی وجہ پوچھی تو حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے ابھی ابھی خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور ریش مبارک (داڑھی) مبارک گرد و غبار سے الجھے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا بات ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ابھی میں کربلا سے آ رہا ہوں. آج میر ے حسین کو شہید کر دیا گیا۔
حضرت اُم المو منین رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مجھے وہ مٹی یاد آ گئی جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے وقت حضرت جبرائیل امین نے میدان کربلا سے لا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی مجھے دے کر فرمایا تھا کہ ’’ اے اُم سلمہ اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھو، کیوں کہ جس دن میرا حسین شہید ہوگا یہ مٹی بھی خون ہو جائے گی۔ ‘‘۔
آج جب میں نے دیکھا تو وہ مٹی خون ہو چکی ہے جسے میں نے ایک شیشی کے اندر سنبھال کر رکھا تھا۔
آخیر کیسا تھا وہ اللہ کا بر گزیدہ بندہ جس نے باطل حکمرانوں کے آگے سر نہ جھکایا. بے یار و مددگار ہو جانے کے باوجود اللہ کے شیدائی نے محض اپنے رب سے لو لگائے ہوئے شہید ہو جانے کو نہایت جواں مردی کے ساتھ قبول کر لیا اور اپنے بعد آنے والی اُمت کے سامنے یہ مثال پیش کر دی کہ باطل قوتیں اور طاغوتی طاقتیں اس لیے نہیں ہوا کرتیں کہ امت مسلمہ کا کوئی فرد ان سے خوف کھا کر ان کے سامنے جھکنے کو تیار ہو جائے یا گوارا کر لے۔
امت مسلمہ کے ہر فرد کا تو یہی عمل ہونا چاہیے کہ وہ ہر باطل سے لڑ کر صرف حق کی سر بلندی کی تگ و دو میں لگا رہے اور خالقِ کائنات کے آگے سربہ سجود ہو جائے۔

واقعہ کربلا کے اس واضح پیغام سے ہمیں اپنے آپ کو مالامال کرناچاہیے اور اس تاریخ ساز مبارک دن کو کھیل تماشہ میں نہیں گذارنا چاہیے۔ کیوں کہ اس دن کو ایسی ذات سے نسبت ہے جس کی قربانی ملتِ اسلامیہ کو ماتم و نوحہ خوانی کی طرف دعوت دیتی ہے بل کہ وہ درسِ عبرت دیتی ہے کہ اپنے نظام حیات کے اصولوں پر قائم و ثابت قدم رہیں اور اللہ کی بارگاہ میں یقین و ایمان، جذبہ ایثار، اور امید و رجا کے عظیم سرمایہ حیات کو پیش کرتے رہیں، کیوں کہ اس میں کام یابی و کامرانی کے ر از مضمر ہیں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو یومِ عاشورہ و و اقعہ کربلا شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں صحیح سوچ اور صحیح فکر عطا فرمائے آمین! اور ہم گناہ گاروں کو راہِ راست و راہِ اعتدال پر قائم و دائم فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ طہ ویٰسین صلی اللہ علیہ وسلم !۔
الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ
اسلام نگر کپا لی وایا مانگو جمشیدپور جھاڑکھنڈ پن کوڈ 831020 ۔ رابطہ: 09279996221
hhmhashim786@gmail.com
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش : واقعہ کربلا : دین کی بقا اور اسلام کی سربلندی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے