قران خوانی ضروری یا قرآن فہمی؟

قران خوانی ضروری یا قرآن فہمی؟

مشتاق نوری
جب میں دربھنگہ میں دوسری جماعت کا طالب علم تھا۔ایک دن دوستوں کے ساتھ چپل خریدنے دکان پہنچا۔دکان دار سعودی ریٹرن تھا۔اس نے پوچھ لیا کہ آپ لوگ کیا پڑھتے ہیں۔بتایا کہ ہم لوگ عربی پڑھتے ہیں۔کلاس میں قواعد و لٹریچر کی کتب پڑھائی جاتی ہیں۔ اس نے فورا کہا کہ "بلغ العلی بکمالہ”(مکمل رباعی) کا کیا ترجمہ ہے۔ہم لوگ ایک دوسرے کا منہ تاکنے لگے۔کرتے بھی کیسے، مبتدی طالب علم تھے، ہمارے لیے ترجمہ کر پانا اتنا آسان بھی نہیں تھا۔مگر اس نے ایک بات اچھی کہی کہ آپ جس فیلڈ میں ہیں اس میں ماہر بنیے۔ایسا ٹھیک نہیں کہ پورا کورس پڑھ گیے اور ابھی ابجد کا پتا نہیں۔اس سے مجھے بھی سمجھ میں آیا کہ آدمی سارے موضوعات و جملہ فنون کا ماہر تو نہیں بن سکتا مگر کسی ایک کا ماہر تو ہونا ہی چاہیے۔آج یہی بات ہمارے مدارس و خانقاہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قرآن خوانی اور قرآن دانی دو الگ الگ شعبے ہیں۔بطور امت اجابت ہمیں سب سے زیادہ قرآن دانی پر توجہ دینے، کام کرنے کی ضرورت تھی اور ہے۔امت دعوت کا ایک بڑا حصہ آج بھی خدا کی طرف نمائندگی کا منتظر ہے اور یہ پیغمبرانہ کام ہم کم زور سے بندوں سے تبھی ممکن ہے جب ہم حافظ و قاری بننے سے زیادہ قرآن کے عامل و مدبر بھی ہوں گے۔قران شناسی کا ہنر آۓ گا۔مگر اس اہم شعبے میں حیرت انگیز حد تک ہم ناکام رہے ہیں۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ پچھلی ایک صدی سے ہمارا سارا جسمانی دھیان، تمام تر دماغی انہماک بس قرآن خوانی تک ہی سمٹ کر رہ گیا ہے۔اس طویل عرصے میں ہماری ذہنی التفات و فکری توجہات کا محور محض قرآن خوانی ہی رہی۔قران خوانی کا یہ شعبہ آیات و سور کے مقصد نزول سے بالکل مختلف ہے۔ہم اس سے آگے بڑھ ہی نہیں سکے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قران سائنس کی کتاب نہیں ہے تاہم اسی کتاب کی ربانی تھیوری اور لائف سپورٹ سسٹم ضابطے کے ذریعے تسخیر کائنات کا راستہ نکل سکتا ہے۔قرآن نے بارہا کہا افلا تعقلون، افلا یتدبرون،وھم یتفکرون اور بھی ان جیسے مختلف صیغ کے ذریعے قرآن نے امت کو بحیثیت داعی غور و فکر کی تلقین کی ہے اس کے عجائب و اسرا کے بحر میں اترنے کی دعوت دی ہے۔بل کہ جہاں ترتیل قرآن کا حکم آیا ہے اس میں بھی یہ راز ہے کہ تم ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھو تاکہ اس کی روح تک پہنچ سکو۔اقبال نے کہا ہے
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
ہند و پاک میں حفظ قرآن کے لیے ہر سال الگ الگ نام کے درجنوں مدارس و مکاتب وجود میں آجاتے ہیں۔ان میں تحفیظ قرآن کا سارا انتظام ہوتا ہے مگر قرآن کی ایک آیت کی بھی ایسی اپ ڈیٹ تفسیر وتوضیح پر ایک سیشن بھی نہیں ہوتی جس سے روح قرآن کی تاثیر اور مقاصد قران کا مفہوم عیاں ہو۔مدارس و مکاتب میں بچے ہل ہل کر رٹا تو مارتے ہیں مگر انہیں کسی ایک آیت کا بھی ترجمہ و تفسیر معلوم نہیں ہوتا۔جب کہ یہ ہر مدرسہ چلانے والے کو پتا ہوگا کہ قرآن پڑھنے اور قرآن سمجھنے میں کیا فرق ہے۔آج کل رمضان کی تراویح میں شبینہ سننے سنانے کا بھی رواج زوروں پر ہے۔مگر تعجب خیز امر ہے کہ ایک رات میں پورے تیس پارے قرآن سنانے والے حافظ کو تیس آیت کا ترجمہ معلوم نہیں ہوتا۔آیتوں،سورتوں کی شان نزول اور پس منظر بتانا تو دور کی بات ہے۔اسی فکری زوال کا نتیجہ ہے کہ آج ہم فاضل بریلوی کے ترجمۂ قرآن کے بعد دوسرا کوئی ترجمہ دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔اگر کسی نے اپنی خدا داد صلاحیت سے قرآن کا ترجمہ کر بھی دیا تو ہم لوگ منفیات پروسنے لگ جاتے ہیں۔پروپیگنڈہ مشن چھیڑ دیتے ہیں۔جب کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ مختلف تراجم قرآن سامنے آرہے ہیں۔علما میں سے کچھ لوگ تفہیم قرآن پر کام کر رہے ہیں۔یہ جاۓ مسرت ہے۔
آج کل ہمارے یہاں جو ایک فاسد فکر پروان چڑھی ہوئی ہے کہ قران کا ترجمہ و تفسیر جاننا یہ طبقۂ حفاظ کا کام نہیں ہے، یہ تو علما کا کام ہے۔حفاظ صرف قران خوانی پر توجہ مرکوز رکھیں۔مجھے ایسی سوچ سے سخت اختلاف ہے۔آخر ہم نے ایسی تقسیم کی ہی کیوں؟
مان لیجیے اگر کسی کو روسی زبان پڑھنا لکھنا آتی ہو مگر اس کے معانی و مفہوم پتا نہ ہو، ایسا شخص اگر بھری محفل میں لیو ٹالسٹائی کا ناول یا کوئی ڈراما سناۓ تو کتنا عجیب لگتا ہوگا کہ جو پڑھ رہا ہے نہ وہ کچھ سمجھتا ہے نہ ہی سننے والے کچھ سمجھتے ہیں۔ٹھیک یہی حال ہماری تراویح کا بھی ہے۔اس سے انکار نہیں کہ عوام کو فہم قرآن کا مکلف نہیں کیا جاسکتا، یہ درست ہے، مگر علما و صوفیا کو تو مکلف رہنا ہی چاہیے۔
ایک بات یہ اڑائی گئی کہ قرآن پڑھنا ثواب ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ قرآن سمجھ کر اس میں غور و فکر کرنا اس سے بھی زیادہ ثواب ہے۔ یہ مضحکہ خیز لگتا ہے کہ آج قرآن کا استعمال صرف دو ہی جگہ پر ہوتا ہے۔ایک کسی کا کوئی مر جاۓ تو قرآن پڑھ کر اس کے پاپ دھونے کا،یا روح کی شانتی کا سامان کیا جاتا ہے اور دوئم تعویذ گنڈے تیار کیے جاتے ہیں، کسی کو دم کیا جاتا ہے۔
تعلق بالقران کا سب سے زیادہ نقصان اس مذہبی طبقے کے سبب جھیلنا پڑ رہا جس پر قرآن فہمی کی سب سے زیادہ ذمہ داری تھی۔قابل رحم ہے کہ صوفیا و اہل خانقاہ جو سماج کی بڑی آبادی پر قبضہ رکھتے ہیں، انھیں قرآن مع تجوید پڑھنا ہی نہیں آیا تو تدبر فی القران اور کہاں سے آۓ گا؟ اعداد و شمار پر غور کرنے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہے کہ درگاہیوں، خانقاہیوں، سجادہ نشینوں، باباؤں کی ایک بڑی کھیپ جو ہمارا سرتاج بنی ہوئی ہے اسے مع تجوید و ترتیل قرآن خوانی بھی نہیں آتی۔اگر ان کی اقتدا میں نماز کے لیے اللہ اکبر پڑھ کر ہاتھ باندھ لیے جائیں تو بار بار جی کرتا ہے کہ نماز چھوڑ کر صف سے نکل جائیں، یا اپنے کانوں میں انگلیاں رکھ لیں۔کیوں کہ جب کوئی قرآن کو اتنا بے مخرج اور مجہول پڑھتا ہے تو حلاوت قرآن سے آشنا کسی بھی انسان کو یہ بہت ہی ناگوار گزرتا ہے۔ایسا پڑھنا ذوق سلیم پر لازما گراں گزرے گا۔
اب تو اہل خانقاہ کی اس خراب صورت حال کو بھی کرامت بنانے کے جواز ڈھونڈ لیے گئے ہیں۔ان کے اس زوال کو کمال بنانے کے لیے مارکٹ میں لٹریچر کے ساتھ ساتھ خطبا و واعظین کا گروپ سرگرم ہے۔مسند نشینان درگاہ اگر قرآن غیر مخرج و مجہول پڑھیں تب بھی یہ ان کی کرامت ہے۔
ایک جلسے میں خطیب صاحب جو اب پیر بھی بن چکے ہیں کسی بزرگ کا واقعہ سنا رہے تھے کہ دو جید عالم ان سے ملنے خانقاہ آۓ۔امامت کے لیے اسی بزرگ کو دونوں نے آگے بڑھا دیا۔مگر ان کی قراءت سن کر دونوں اندر ہی اندر سوچنے لگے کہ جنھیں قرآن بھی تجوید کے ساتھ پڑھنا نہیں آیا وہ مستجاب الدعوات بزرگ کیسے بن سکتا ہے۔اتفاقا ایسا ہوا کہ دونوں عالم غسل کے لیے نہر کے کنارے کپڑے رکھ کر پانی میں اترے، اتنے میں ایک شیر ان کے کپڑوں کے پاس آکر بیٹھ گیا۔یہ دیکھ کر دونوں کی سٹی پٹی گم ہوگئی۔وہ خوف کے مارے برف جیسے پانی میں سکڑ کر شیر کے بھاگنے کا انتظار کرنے لگے۔اتنے میں وہ شیخ جی آۓ اور شیر کا کان پکڑ کہا کہ میرے مہمانوں کو پریشان کرتا ہے، چل جا یہاں سے۔شیر وہاں سے چلا گیا۔پھر دونوں کو مخاطب کرتے ہوۓ شیخ نے کہا تم لوگ قرآن کے صرف ظاہری الفاظ و عبارات پر توجہ دیتے ہو ہم لوگ قرآن کی روح میں اتر کر خدا کا پیغام نکال لاتے ہیں. یہی سبب ہے کہ جس شیر سے تم ڈر کر پانی میں چھپے بیٹھے ہو وہی میری فرماں برداری میں لگا رہتا ہے۔
اب بتائیں خطیب نے اس واقعے سے کتنا بڑا دھوکا دینے کی کوشش کی ہے۔سامعین میں کتنا غلط پیغام گیا۔بل کہ یہ کہیے کہ قرآن سے جاہل طبقے کے عیوب کو محاسن، نقائص کو کمال بنانے کی ناپاک جسارت کی ہے اس نے۔کس معتبر کتاب میں ایسے واقعات ملتے ہیں؟جس نے یہ واقعہ لکھا اس کا اعتبار کتنا ہے؟یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ کراے کے ٹٹو مولویوں، خطیبوں کے ذریعے یہ من گھڑت روایات صرف اس لیے وضع کی گئیں تاکہ اہل خانقاہ و مجاورین درگاہ کے جرم کو مذہبی رنگ دیا جاسکے۔اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ طبقہ قرآن خوانی سے اگر اتنا دور ہے تو یہاں فہم قرآن کا مسئلہ اٹھانا تو بالکل ہی عبث ہے۔اور اس طبقے سے تبلیغ کتاب اللہ کی امید بھی فضول ہی ہے۔آج سچائی یہ ہے کہ سارے پیر فقیر اسی قرآن سے دم و دعا کرتے ہیں مگر ان کی ۹۵ فیصد آبادی کو قرآن مع مخارج و تجوید نہیں آتا۔اب صرف ۵ فی صد ہی ہیں جن کو یہ دولت بھی نصیب ہوئی ہے۔
شاید آپ کو یقین نہ آۓ کہ میں بہار کی ایک بڑی خانقاہ کے ایک ایسے پیر کو جانتا ہوں جس نے قرآن بھی ہندی میں پڑھنا سیکھا. وہ بھی تب جب انھیں بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح پدر بزرگوار کی خلافت و اجازت سے مالا مال کیا گیا۔(آج کے ڈیٹ میں خلافت و اجازت سے مالا مال ہونے کا مطلب معاشی طور پر مالا مال ہونا ہے)وہ اسکول کے بی اے پاس تھے۔پہلے دین و خانقاہ سے کوئی لگاؤ نہیں تھا، پیری مریدی سے کوئی سروکار بھی نہیں رکھتے تھے، مگر جب اس فیلڈ میں موٹی کمائی دیکھی تو ان کی مینٹیلٹی تبدیل ہوگئی۔آخر کیوں پیچھے رہتے وہ بھی اسی میں کود پڑے۔اب وہ مریدوں کے درمیان جاکر بڑی شان سے وعظ فرماتے ہیں کہ قرآن کا پیغام گھر گھر پہنچانا ہے۔کیا عجب نہیں کہ کتاب اللہ کی حکمتوں سے آج بھی ہمارا مذہبی طبقہ غافل ہی ہے، جب کہ قران میں چھپی ان حکمتوں کو عوام تک پہنچا دینے کی ذمہ داری بھی اسی کی تھی۔اس کتاب محفوظ کی لازوال حکمتیں بے ثبات زندگی کو بقا و دوام بخشنے کے لیے کارگر نسخہ ہیں۔بقول علامہ اقبال :
آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمتِ او لایزال است و قدیم
نسخہء اسرارِ تکوینِ حیات
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
(۱۰؍جون ۲۰۲۱ء)
صاحب تحریر کا یہ مضمون بھی پڑھیں :قصہ پٹنہ کے دو سروں(Sir) کا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے