زنا کیا ہے

زنا کیا ہے

محمد شمشاد 

اس زمانے میں زنا کے مسئلہ پرعام طور سے بڑی تحقیقات ہوئی ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال پرجنسی تعلقات کے کس قدر گہرے اثرات رونما ہو تے ہیں. اس کے ساتھ یہ بات بھی تحقیق کے ذریعہ سامنے آچکی ہے کہ جو قومیں مردوں اور عورتوں کی عفت و عصمت کی پرواہ نہیں کرتیں وہ تہذیب و تمدن کی کس طرح کی پستی میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور وہ کس طرح زوال پزیر ہو جاتی ہیں. 
قرآن کے مطابق معروف نکاح کے بنا کسی سے جنسی اختلاط کو زنا کہا جاتا ہے. سورۃ الاسراء 17 کی آیت نمبر 32 میں قرآن بیان کرتا ہے وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہ ٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَآءَ سَبِیْلًا َ ”زنا کے قریب نہ بھٹکو، وہ برا فعل اور بڑا ہی برا راستہ“ (تفہیم القرآن)
اس حکم کے مخاطب ایک طرف افراد ہیں تودوسری طرف معاشرہ بحیثیت مجموعی بھی اس کا مخاطب ہے، کسی فرد کے لئے اس حکم کے معنی ہیں کہ وہ محض فعل زنا ہی سے بچنے پر اکتفا نہ کرے بل کہ زنا کے مقدمات اور اس کے ان ابتدائی محرکات سے بھی دور رہے جو اس راستے (زنا)کی جانب لے جاتے ہیں یا کسی انسان کو زنا کرنے کے لئے اکسانے کا کام کرتے ہیں. مثلاً شراب، موسیقی، رقص اور فحش و عریاں ویڈیوز و تصویریں جن کے ذریعہ زنا کو تقویت ملتی رہی ہیں، رہا معاشرہ تو اس حکم کی رو سے اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں زنا، اور محرکات زنا، اور اسباب زنا کا سدباب کرے اور اس غرض کے لئے قانون سے، تعلیم و تربیت سے، اجتماعی ماحول کی اصلاح سے، معاشرتی زندگی کی مناسب تشکیل سے، اور دوسری تمام موثر تدابیر سے کام لے. 
آخر یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام زندگی کے ایک وسیع باب کی بنیاد بنی اس کے منشاء کے مطابق زنا اور تہمت زنا کو فوج داری جرم قرار دیا گیا ہے. اس کے ساتھ ہی پردے کے احکام بھی جاری کیے گئے ہیں تاکہ فواحش کی اشاعت کو سختی کے ساتھ روکاجا سکے. شراب اور موسیقی، رقص اور عریاں تصویر اور ویڈیوز پر (جو زنا کے قریب ترین رشتہ دار ہیں) بندشیں لگائی گئیں اور ایک ایسا ازدواجی قانون بنائے جانے پر زور دیا گیا ہے جس سے نکاح آسان ہو اور زنا کے معاشرتی اسباب کا صفایا ہو سکے اور اس کے جڑ کو کاٹنے کی کوشش کی جائے. 
سورۃالفرقان 25 آیت نمبر 68 میں ہے ( والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر و لا یقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق و لایزنون، و من یفعل ذالک یلق اثاما ۰)”جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو نا حق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔۔۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلاپائے گا“
اپنی منکوحہ بیوی کے سوا کسی اور سے جنسی اختلاط زنا ہے. اسی لئے قرآن کریم میں مومنین کی خصوصیات کے سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ مومنین اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں. 
زنا کا عام مفہوم جس سے ہر شخص واقف ہے یہ ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت جائز رشتہ کے بغیر باہم مباشرت کا ارتکاب کریں. اس فعل کا اخلاقاً برا ہونا، مذہباً گناہ ہونا یا معاشرتی حیثیت سے معیوب اور قابل اعتراض ہونا ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے کے مفکرین متفق رہے ہیں اور اس میں بجز ان متفرق لوگوں کے جنہوں نے اپنی عقل کو اپنی نفس پرستی کے تابع کردیا ہے کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے. اس عالم گیر اتفاق رائے کی وجہ یہی ہے کہ انسانی فطرت خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے اور اسے تسلیم بھی کرتی ہے. نوع انسانی کی بقاء اور انسانی تمدن کا قیام دونوں اس بات پر منحصر ہوتی ہیں کہ عورت اور مرد محض لطف اور لذت کے لئے ملنے پر اتفاق نہ کریں اور پھر الگ ہوجانے میں آزاد نہ ہوں بل کہ ہر جوڑے کا باہمی تعلق ایک ایسے مستقل اور پائیدار عہد وفا پر استوار ہو جو معاشرے میں معروف ہو اور جسے معاشرے کی ضمانت بھی حاصل ہو اور اس کا مستقبل خوش گوار بھی ہو اس کے بغیر انسانی نسل ایک دن بھی نہیں چل سکتی، کیوں کہ اس مباشرت کے ارتکاب سے پیداہونے والا انسان کا بچہ اپنی زندگی اور نشو نما کے لئے کئی برس کی دردمندانہ نگہداشت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے اور تنہا عورت اس بار کو اٹھانے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ مرد اس کا ساتھ نہ دے جو اس بچے کے روپ میں آنے کا سبب بنتا ہے۔
اسی طرح اس معاہدے کے بغیر انسانی تمدن بھی برقرار نہیں رہ سکتا کیوں کہ تمدن کی پیدائش ہی ایک مرد اور عورت کو مل کر رہنے، ایک گھر اور ایک خاندان وجود میں لانے، اور پھر خاندان کے درمیان رشتے اور رابطے پیدا کرنے سے ہوتاہے. اگر عورت اور مرد گھر اور خاندان کی تخلیق سے قطع نظر کر کے محض لطف و لذت کے لئے آزادانہ ملنے لگیں تو پوری بنی نوع انسان بکھر کر رہ جائے گی اور اجتماعی و معاشرتی زندگی کی جڑ کٹ کر رہ جائے گی اور وہ بنیاد ہی باقی نہ رہ پائے گی جس پر تہذیب و تمدن کی عمارت کھڑی ہوتی ہے. ان وجوہات سے عورت اور مرد کا آزادانہ ملن جو کسی معروف مسلم عہد وفا پر مبنی نہ ہو وہ انسانی فطرت کے خلاف ہے. ان ہی وجوہات سے انسان اس ناجائز رشتے (زنا)کو ہر زمانے میں ایک عیب، بڑی بد اخلاقی،اور مذہبی اصطلاح میں ایک شدید گناہ تصور کرتا ہے اور اسی وجہ کر ہر زمانے میں اور ہر انسانی معاشرے میں نکاح کی ترویج کے ساتھ ساتھ زنا کے سدباب کی بھی کسی نہ کسی طور سے ضرور کوشش کی گئی ہے. 
سورۃ المومنون 23 آیت نمبر 5-6 ( والذی ھم لفرو جھم حفظون ۰ الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین ۰) ”اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین میں ہوں ان پر (محفوظ نہ رکھنے میں) وہ قابل ملامت نہیں ہیں“ (تفہیم القرآن ترجمہ مولانا مودودی)اس کے ساتھ ہی سورۃالمعارج 70 آیت نمبر 29 ( والذی ھم لفرو جھم حفظون ۰) ”جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں“ ((تفہیم القرآن)
اس کے علاوہ ان لوگوں کی اور خصوصیات بھی ہیں (مثلا وہ مرد اور عورت دونوں ہی یکساں طور پر) اپنی عصمت کی حفاظت کرتے ہیں یعنی شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد زنا سے پرہیز بھی ہے اور عریانی سے پرہیز بھی ہے. مومن وہ ہیں جنھوں نے اپنی جنسی توانائیوں کو محفوظ رکھا ہے اور انھوں نے اپنی جنسی توانائیوں کو صرف اپنی بیویوں پر صرف کیا یا ان لونڈیوں پر جو (انسداد غلامی کے متعلق قرآنی احکام نازل ہونے سے قبل ان کی ملکیت میں آچکی تھیں لیکن جنھیں نکاح کے بعد بیویوں کے ہم پلہ قرار دیا جا چکا ہے، ان سے زنا شوئی کے تعلقات رکھنے پر کوئی ملامت نہیں). 
اس کے دو مطلب ہیں. پہلا یہ کہ اپنے جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپا کر رکھتے ہیں، یعنی عریانیوں سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے نہیں کھولتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی عصمت اور عفت کو محفوظ رکھتے ہیں، یعنی صنفی معاملات میں وہ آزادی نہیں برتتے اور قوت شہوانی کے استعمال میں بے لگام نہیں ہوتے ہیں. 
سورۃ المعارج 70 آیت نمبر 30 ( الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین ۰) ”بجز اپنی بیویوں یا اپنی مملوکہ عورتوں کے جن سے محفوظ نہ رکھنے میں ان پر کوئی ملامت نہیں“(تفہیم القرآن)
لیکن اس سے یہ مطلب نہیں کہ وہ تجرد کی راہبانہ زندگی بسر کرتے ہیں بلکہ وہ جنسی تعلقات کو حدود خداوندی کے اندر رکھتے ہیں. اس مقصد کے لئے وہ اپنی منکوحہ بیویوں کے پاس جاتے ہیں یا ان لونڈیوں کے پاس جاتے ہیں جو اس سے پہلے (عرب کے عام معاشرے کے مطابق) ان کے ہاتھ لگ گئی ہیں اور جنھیں اب انھوں نے اپنی بیویوں کا درجہ دے کر ان سے جنسی تعلقات کو قانونا جائز قرار دے دیا ہے. 
اس کے بعد سورۃ المومنون 23 کی آیت نمبر 7 میں اللہ بیان کر تا ہے ( فمن ابتغی ورآ ء ذلک فاولئک ھم العدون ۰) ”کہ البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں“ (تفہیم القرآن)
سورۃ المعارج 70 آیت نمبر 31( فمن ابتغی ورآ ء ذلک فاولئک ھم العدون ۰) ”البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہے وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں“(تفہیم القرآن) یعنی جو شخص اس کے علاوہ کسی اور طریقہ سے جنسی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی کوئی اور صورت تلاش کرتا ہے تو وہ حدود شکنی ہے. اسے اس جرم کی سزا ملنا لازمی ہے. 
یعنی جو کوئی اس کے سوا جنسی تعلق کی کوئی صورت اختیار کرے تو وہ قانون شکنی ہوگی اور حدود خدا وندی سے تجاوز ہوگی جسے سنگین جرم میں شمار کیا جاتا ہے. یہ جملہ معترضہ ہے جو اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لئے ارشاد ہوا ہے جو ”شرم گاہ کی حفاظت“ کے لفظ سے پیدا ہوتی ہے. دنیا میں پہلے بھی یہ سمجھا جاتا رہا ہے اور آج بھی بہت سارے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قوت شہوانی بجائے خود ایک بڑی چیز ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنا، خواہ جائز طریقے ہی سے کیوں نہ ہو، بہر حال نیک اور اللہ والے لوگوں کے لئے موزوں نہیں ہے کہ وہ اپنے کردار کے ذریعہ سے سماج کی اس غلط فہمی کو تقویت پہنچاتے رہیں. اگر صرف اتنا ہی کہہ کر بات ختم کر دی جاتی کہ فلاح پانے والے اہل ایمان اپنی شرم گاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں. اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ وہ لنگوٹ باندھے رہتے ہیں، وہ راہب اور سنیاسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور وہ نکاح،شادی بیاہ کے جھگڑوں میں نہیں پڑتے ہیں. اس لئے یہاں پر ایک جملہ معترضہ بڑھا کر حقیقت واضح کر دی گئی ہے کہ جائز مقام پر اپنی خواہش نفس پوری کرنا کوئی قابل ملامت چیز نہیں ہے. البتہ گناہ یہ ہے کہ آدمی شہوت رانی کے لئے اس معروف اور جائز صورت سے تجاوز کر جائے اور احسن طریقہ کو چھوڑ کر کوئی دوسری اور بری راہ اختیار کر لے
A-169/2,A.F.Enclave-2,Jamia Nagar,New

صاحب مضمون کی یہ تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں : مسئلہ فلسطین اور مسلم ممالک

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے