ذاکر فیضی کا افسانہ نیا حمام اور آج کی میڈیا

ذاکر فیضی کا افسانہ نیا حمام اور آج کی میڈیا

نثار انجم

کہانی میں دل چسپی بھی ہے اور اثر انگیزی بھی۔ مصنف نے قاری کے تجسس کو کلائمکس کی تحیر خیزی سے باندھ رکھا ہے ۔
ایک بے حس معاشرے کا سوٹ بوٹ پہنے ضمیر فروش مکروہ چہرہ لوگوں کا ننگا حمام ہے ۔
نیا حمام ایک استعارہ ہے ان بے ضمیر ننگے افکار کے امینوں کا۔ یہاں نیوز چینلز، اسپانسر، ایڈیٹر، دلال اسکرپٹ رائٹر، دانشور رپورٹر ، جرنلسٹ، فلاحی ادارے ،این جی اوز ذرائع ابلاغ کے نئے حمام میں صارفین کے لیے نئ سنسنی خیز پروڈکٹ کے ساتھ موجود ہیں۔یہ صارفیت کلچر کے اژدہے ہیں۔
صارف کے مزاج کے پارکھ ہیں۔ ایک ایسی لڑکی جودیکھ نہیں سکتی، سن نہیں سکتی ،کچھ کہہ نہیں سکتی کو صارف کے لیے ایک نیا پروڈکٹ بناکر لانچ کرنے کے نت نئے ٹرکس اور اسٹنٹس Tricks and stunts کے لئے ذرائع ابلاغ کے حمام میں سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ مصنف نے اس الیکٹرونک میڈیا ہاؤس میں بن رہی کہانی کے تمام مراحل کو اس خوبی سے بیان کیا ہے گویا ایک سانسیں لیتا ہوا منظر سامنے ہو۔
ماں بھی حاکم وقت بن اس بے حس زندگی کو سفاکیت اور ہم دردی کے دار پر پیش کرنے کے لیے تیارہے۔ تین حواس سے محروم لڑکی کو جدید Closseum میں درندوں کے آگے ڈال موت کا تماشہ دکھانے کی پلاننگ میں سبھوں کی چاندی چاندی ہے ۔
اس کولوزیم کے اطراف میں پھیلی ہوئی بھیڑ اور ناظرین کی تحیر خیزی اور ہم دردی کو بھنانے کے لیے ٹی آر پی کی ریٹنگ بھی ہے۔ یہاں جھوٹ سچ بن کر آتا ہے۔یقین کی آنکھ کو گہنا تاہے۔ایک جھوٹ تشکیک سے اوپر اٹھ یقین کا تاج پہن عوام کے سامنے آتا ہےجس پر ہم نشتر چلانے سے قاصر ہیں ۔
مصنف نے یہاں صحافتی اقدار کی تنزلی اور معاشرے کی بے حسی پر طنز کیا ہے۔ وقت کے سلگتے ہوئے موضوع پر اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے سماج کے مکروہ ضمیر فروش چہروں کو بے نقاب ہی نہیں بل کہ اپنے فکر کے نئے حمام میں ان کی striping بھی کی ہے۔
نیا حمام ایک استعارہ ہےبے ضمیر ننگے افکار کے امینوں کا ،صارفیت کے اژدہے کا، منفعت بخش منڈی کا۔
سنسنی خیز خبروں کے پیچھے کی دنیاکا پردہ چاک کر کے ذاکر فیضی نے ایک نئے حمام کو ننگے حقائق کے ساتھ بالکل اچھوتے ڈھنگ سے پیش کیا ہے ۔
یہاں سب سے انوکھی بات یہ ہے کہ حمام کی دیواروں پرآپ کو رنگ برنگے کپڑے ٹنگے نظر نہیں آئیں گے۔
حمام کا اوپری چھت کھلا ہواہے۔
مصنف نے یہاں چھت کی جگہ اپنی آج کی آنکھیں چپکا دی ہیں ۔حمام کے چاروں طرف ایک باریک آئینہ ہے ۔آئینوں میں کپڑوں کی عکس بندی کردی گئی ہے۔
اس حمام میں افراد ننگے ہی غسل کرتے ہیں لیکن یہ آئینے کی کرشماتی طلسم ہے کہ سب اخلاقی اور انسانی کپڑوں میں ملبوس نظر آتے ہیں۔ اس حمام میں ننگے غسل کرنے والے زرد صحافت سے جڑے وہ منفعت بخش دھندہ چلانے والے شرفا ء ہیں، جن کا مقصد ٹی آر پی بڑھانا ہے۔
یہاں مصنف نے تین سالہ اندھی گونگی بہری لڑکی کو پیش کیا ہے. اگر ہم اسے تجسیمی جسم مان لیتے ہیں تو تفہیم ترسیل کا شکار ہوتی ہے۔
میری اپنی تفہیم کے مطابق تین سالہ گونگی اندھی اور بہری لڑکی ایک علامت ہے۔خبر سے پہلے ٹرائل اینڈ error کا ایک عمل.
زرد صحافت کے یہ کارندے خبر سے پہلے خبر کی سنسنی خیزی کے لیے سارا ماحول تیار کرتے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی رشتہ نہیں ہوتا ۔موجودہ میڈیا کا موجودہ رجحان یہی ہے۔ خبروں میں درد، ظلم کی انتہا، ناانصافی، سفاکی،دہشت ناکی اس طرح کوٹ کوٹ کر بھر دیتے ہیں کہ ناظرین ا سے دیکھ کر اسی احساس سے دوچار ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک تین سالہ اندھی, گونگی, بہری, پر ظلم کرکے ہوتا ہے,یہ خبروں میں ظلم کی انتہا ،دردانگیز ی بھرنے کے استعارے ہیں۔نیا حمام اپنی شدت کی تدریجی سیڑھیاں طے کرتا ہوا منی سکرین پر آتا ہے ۔ انسانی درد سے زر بنانے کا دھندا کرتا ہے۔اس دھندے میں پوری اشرافیہ برادری شامل ہے۔ افسانے میں مصنف نے حالیہ دنوں کی زرد میڈیا کی کارستانی کی پوری تفصیل بیان کی ہے. جو پس پردہ چلتا ہے عام ناظرین کو اس کی بھنک تک نہیں لگتی ۔
مصنف نے خبر بننے سے پہلے کی جیتی جاگتی دنیا کو ایک سچ کی طرح المیہ بنا کر پیش کیا ۔۔مطالعاتی حسن سے مزین کہانی میں الیکٹرونک میڈیا اپنی گندی سانسو ں کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ نئی تہذیب کے حواریوں کے ہم راہ خدمت خلق کا موکھٹا لگا کر ہمارے سامنے آتا ہے ۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے