صدقۃ الفطر یعنی فطرانہ درحقیقت کیا ہے؟

صدقۃ الفطر یعنی فطرانہ درحقیقت کیا ہے؟

میمونہ ارم مونشاہ

فطرانہ ایک زکوۃ یا صدقہ ہے جو رمضان المبارک کے روزے ختم ہونے پر واجب ہوتا ہے اور زکوٰۃ کی فطر کی طرف اضافت اس لیے ہے کہ یہ اس کے واجب کا سبب ہے۔
جو مسلمان اتنا مال دار ہے کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہے یا اس پر زکوۃ واجب نہیں، لیکن قرض اور ضروری اسباب اور استعمال کی اشیاء سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں عید الفطر کی صبح صادق کے وقت موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو اس صدقہ کو صدقۂ فطر کہتے ہیں۔
جس طرح مال دار ہونے کی صورت میں مردوں پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اسی طرح اگر عورت مال دار صاحب نصاب ہے یا اس کی ملکیت میں قرضہ اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال وغیرہ ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے، مثلاً اس کے پاس زیور ہے جو والدین کی طرف سے ملا ہے یا شوہر نے نصاب کے برابر زیور عورت کو بطور ملکیت دیا ہے، یا مہر میں اتنا زیور ملا جو نصاب کے برابر ہے تو عورت کو بھی اپنی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے۔
مال دار عورت پر اپنا صدقۂ فطر ادا کرنا تو واجب ہے لیکن اس پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، نہ بچوں کی طرف سے نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے۔ البتہ مال دار آدمی کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں، ہاں اگر باپ ازخود ان کی اجازت سے ادا کردے گا تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔
صدقہ فطر عیدالفطر کے دن جس وقت فجر کا وقت آتا ہے یعنی جب سحری کا وقت ختم ہوتا ہے اسی وقت واجب ہوتا ہے۔ جب کہ صدقہ فطر رمضان المبارک میں بھی ادا کرنا درست ہے اور عید الفطر کے دن عید کی نماز سے پہلے پہلے صدقہ فطر ادا کرلینا چاہیے یہ بہت زیادہ فضیلت کی بات ہے، عید کی نماز سے پہلے ادا نہیں کیا تو عید کی نماز کے بعد ادا کرنا ہوگا، لیکن اس سے ثواب میں کمی ہوگی، اور عید کے دن سے زیادہ تاخیر کرنا خلاف سنت اور مکروہ ہے، لیکن پھر بھی ادا کرنا ضروری ہوگا۔
حدیث مبارک میں ہے کہ
"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْراً لِلصَّيَامِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ” ( رواه ابوداؤد )
"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوں کو فضول و لایعنی اور فحش باتوں کے اثرات سے پاک صاف کرنے کے لیے اور مسکینوں محتاجوں کے کھانے کا بندوبست کرنے کے لیے صدقہ فطر واجب قرار دیا۔”
اس حدیث میں صدقہ فطر کی دو حکمتوں اور اس کے دو خاص فائدوں کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کے جشن و مسرت کے اس دن میں صدقہ فطر کے ذریعہ محتاجوں مسکینوں کی بھی شکم سیری اور آسودگی کا انتظام ہو جائے گا اور دوسرے یہ کہ زبان کی بے احتیاطیوں اور بے باکیوں سے روزے پر جو برے اثرات پڑے ہوں گے یہ صدقہ فطر ان کا بھی کفارہ اور فدیہ ہو جائے گا۔
جب رمضان کے آخری دن کوئی پیدا ہو یا کسی بھی ملکیت میں ہو یا اس کی عیالت میں آجائے اور اسی حالت میں چاند رات شروع ہو تو اس پر ان کا فطرانہ واجب ہوگا۔
اور وکیع بن جراح رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں۔
"رمضان المبارک کے لیے فطرانہ ایسے ہی ہے جیسے کہ نماز کے لیے میرا سجدہ سہو۔ جس طرح سجدہ سہو نماز کی کمی پورا کرتا ہے اسی طرح فطرانہ بھی روزے کی کمی و کوتاہی پورا کرتا ہے۔”
صحیح یہی ہے کہ فطرانہ فرض ہے اس لیے کہ ابن عمررضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتے ہيں کہ
"رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ فرض کیا۔”
جو شخص چاند رات فوت ہوجائے اوراس پر فطرانہ ہو تو امام احمد نے اس کی صراحت کی ہے کہ اس پر فطرانہ واجب ہوگا۔ فطرانہ ہر مسلمان پر واجب ہے۔
ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ
"رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہر آزاد اورغلام مذکر اور مؤنث اور چھوٹے بڑے بچے اور بوڑھے ہرمسلمان پر فرض کیا تھا۔”
امام شافعی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہيں کہ
"نافع والی حدیث میں اس بات کی دلالت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صرف مسلمانوں پر ہی فرض کیا ہے اور یہ کتاب اللہ کے بھی موافق ہے. اس لیے کہ زکوۃ مسلمانوں کے لیے پاکی اورصفائی کا باعث ہے اورپھر پاکی اور صفائی مسلمانوں کے علاوہ کسی اور کے لیے نہيں ہوسکتی۔
امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے
"جس پر بھی شوال کا مہینہ شروع ہوا اور اس کے پاس ایک دن کی اپنی اور اپنے اہل و عیال اور فطرانہ ادا کرنے کی خوراک ہو تو اسے بھی فطرانہ ادا کرنا ہوگا۔ لیکن اگر اس کے پاس سب کا فطرانہ ادا کرنے کے لیے خوراک نہيں بلکہ صرف کچھ کا ادا کرسکتا ہو تو اسے ان بعض کا ہی ادا کرنا ہوگا۔”
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں
"تنگ دست پر بلا خلاف فطرانہ فرض نہيں اور خوش حال اور تنگ دست کا اعتبار تو وجوب کے وقت ہوگا لہذا جس کے پاس اپنی اور اپنے اہل وعیال کی عید کی رات کی خوراک سے زیادہ ہو اس پر فطرانہ فرض ہوگا۔”
اس سال فطرانے کی رقم 2 کلو آٹا کے حساب سے 140 روپے مقرر کی گئی ہے۔ گندم کے حساب سے یہ فطرہ کی کم سے کم رقم ہے۔
صدقہ فطر یعنی فطرانہ کے حق دار وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں، یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اُنہیں صدقہ فطر دے سکتے ہیں اور جنہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُنہیں فطرانہ بھی نہیں دے سکتے۔ مصارِف میں سے بہتر یہی ہے کہ فقراء و مساکین کو ترجیح دی جائے، اِس لیے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد ہے
"أغْنُوْهُمْ فِیْ هَذَا الْيَوْمِ”
’’اس دن مساکین کو (سوال سے) بے نیاز کر دو۔‘‘
مضمون نگار کا یہ مضمون بھی ملاحظہ فرمائیں : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے