اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل

اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل

محمد اویس سنبھلی
گذشتہ ایک ماہ علم و ادب کی دنیا پر قہر بن کر ٹوٹاہے…اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ روز کسی اپنے کی جدائی کا صدمہ غم میں مزید اضافہ کردیتا ہے۔مشرف عالم ذوقی، تبسم فاطمہ، شاہد علی خاں،وجاہت فاروقی،انجم عثمانی، مناظر عاشق ہرگانوی، پروفیسر مولا بخش، رخسانہ نکہت لاری، احسن اعظمی، رضا حیدر، فرقان سنبھلی، مہتاب حیدر صفی پوری،شوکت حیات، پروفیسر منظر عباسی نقوی جیسی ادبی شخصیات گذشتہ چند دنوں میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ مولانا ولی رحمانی، مولانا نورعالم خلیل امینی اور مولانا عبدالمومن ندوی جیسے دین اسلام کے پائیدار ستون گرگئے۔ ان میں سے چند شخصیات کا شمار تو ان عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے جن کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے، اور جن کے رخصت ہوجانے سے جو خلا پیدا ہورہا ہے اس کے پُر ہونے کی حال فی الحال میں کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ان شخصیات کی وفات ہم سب کا مشترکہ صدمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر نازل ہوں۔ آمین۔
۳/مئی ۱۲۰۲ کی صبح عربی زبان و ادب کا انتہائی معتبر نام مولانا نورعلم خلیل امینی کے انتقال کی خبرپڑھ کر بہت افسوس ہوا۔ مولانا صاحب دنیائے علم و ادب کے درخشاں قطبی ستارے تھے۔ ابھی ہم مولانا کے یوں اچانک چلے جانے پر غم زدہ تھے کہ شام ہوتے ہوتے مشفق و مہربان محترم رئیس الشاکری کے سانحہ ارتحال نے مجھے اتنا اداس کر دیا کہ مجھے تو جیسے چپ ہی لگ گئی۔ میں نے یہ رات دکھ کے ساتھ گزاری اور مرحوم کو بہت یاد کیا۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔ آمین۔
سن ٢٠٠٨ء کی بات ہے،میں نے جب اردو کے میدان میں قدم رکھاتو تین لوگ ایسے تھے جن سے بہت جلدی تعارف ہوگیا۔پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی کتاب ’شہرسخن‘ کاکوری آفسیٹ پریس میں چھپی تھی لیکن اس کی بائنڈنگ میرے یہاں ہوئی۔ ملک زادہ صاحب نے اس کتاب کی طباعت و اشاعت کی ذمہ داری ڈاکٹر مخمور کاکوروی کو دی تھی۔ یہی کتاب ڈاکٹر مخمور کاکوروی سے تعلقات کا سبب بنی جو الحمد اللہ آج بھی بدستورقائم ہیں۔دوسری ملاقات برادر محترم رضوان فاروقی سے ہوئی۔رضوان فاروقی صاحب کا مضمون ’لکھنؤ کچھ ماضی کچھ حال‘روزنامہ آگ میں قسط وار شائع ہورہا تھا۔ یہ مضمون مجھے بہت اچھا لگا لہٰذا میں نے رضوان بھائی سے اسے مستقل لکھنے اور کتابی شکل میں محفوظ کرنے کا مشورہ دیا…انھوں نے محنت سے یہ مضمون مکمل کیا۔ بعد میں یہ کتابی شکل میں شائع بھی ہوا۔ ڈاکٹر مخمور کاکوروی اور جناب رضوان فاروقی کے بعد جس شخصیت سے تعارف ہوا،وہ شخصیت محترم رئیس الشاکری کی تھی۔ ٢٠٠٨ء میں کاکوری پریس سے ان کی رباعیات کا مجموعہ القاء شائع ہوا۔ اس زمانے میں میرے مراسلے پابندی سے روزنامہ آگ اور راشٹریہ سہارا میں شائع ہونے لگے تھے۔ وہ میرے نام سے واقف تھے لیکن پہلاباقاعدہ تعارف کام کے سلسلہ میں ہوا۔ ’القاء‘ کی بائنڈنگ کے سلسلہ میں وہ پریس آئے۔میں انھیں پہلے سے اس لیے جانتا تھا کہ وہ ’رحمان فاؤنڈیش‘ کے دفتر میں کام کرچکے تھے۔ میں نے بارہا انھیں وہاں دیکھا تھا لیکن ان سے تعارف نہیں تھا۔وہ پریس آئے اور انھوں نے اپنی کتاب کی بائنڈنگ کے سلسلہ میں بات کی….میں نے خود ان سے اپنا تعارف کرایا۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ بہت دعائیں دیں۔ اس کے بعد تو ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل پڑا۔رئیس الشاکری صاحب نے اپنی کتاب’القاء‘ کا ایک نسخہ مجھے یہ لکھ کرکہ’اپنے اویس کے لیے، جن کو میں بہت چاہتا ہوں اور بس!‘ دیا۔
محترم حسیب صدیقی ایڈوکیٹ نے رئیس الشاکر ی کے مجموعہ رباعیات ’القاء‘ کا اجرا میزبان ہوٹل میں بڑے اہتمام سے کرایا تھا۔جلسہ میں بحیثیت مہمان خصوصی پروفیسر شارب ردولوی صاحب نے شرکت فرمائی اور صدارت کے فرائض مولانا سعید الرحمٰن اعظمی ندوی نے انجائے دیے۔
رئیس الشاکری کو اس کتاب کے توسط سے میں نے پہلی بار پڑھا تھا جب کہ اس سے قبل ان کے تین نعتیہ مجموعے (خیرالامم کی بارگاہ میں، حرا، کوثر)اور ایک نعتیہ تضمین(محمد جب یاد آئے) شائع ہوکر منظر عام پر آچکے تھے نیز ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ ’پایاب‘ کے نام سے ٢٠٠١ء میں شائع ہوا تھا۔ان میں سے کوئی بھی میری نظر سے اس وقت تک نہیں گزرا تھا۔ایک روز میں اپنے والد کی لائبریری میں کسی کتاب کی تلاش میں تھا کہ رئیس الشاکری کی غزلیات کا مجموعہ ’پایاب‘ مجھے مل گیا۔ ۱۳/مئی ٢٠٠٣ء کو انھوں نے یہ مجموعہ راقم الحروف کے والد ماجد کی خدمت میں اپنے دستخط کے ساتھ پیش کیا تھا۔اس مجموعے میں پروفیسر شارب ردولوی اور عرفان صدیقی نے رئیس الشاکری کی غزل گوئی کے بارے میں لکھا تھا۔ان کی آرا کسی طرح بھی سند سے کم نہیں۔پہلی رائے پروفیسر شارب ردولوی کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
”رئیس الشاکری ایک اچھے غزل گو اور ایک مخلص شاعر ہیں، وہ آج کے حالات کو جس طرح محسوس کرتے ہیں اسے اسی طرح نظم کردیا کرتے ہیں۔ صاف گوئی، سادگی، سلاست ان کے شعری مزاج کا حصہ ہے“۔
رئیس الشاکری کی غزلوں میں بیان کی سادگی اور اظہار کا سلیقہ بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔عرفان صدیقی مرحوم نے رئیس الشاکری کی غزلوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی یہ رائے قلم بند کی: رئیس الشاکری کی غزل کا پیرایۂ اظہار سادہ اور راست ہوتے ہوئے بھی شعری حسن اور تاثیر کا حال ہے۔ ان کے لسانی اور تہذیبی پس منظر نے انھیں لفظوں کے انتخاب و استعمال کا سلیقہ اور کلاسیکی روایات سے آگاہی ودیعت کی ہے اور یہ دونوں ہی خصوصیات آج کے دور میں کم یاب ہوتی جارہی ہیں“۔
رئیس الشاکری کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
لذت غم ہے کہ لفظوں میں سماتی ہی نہیں
بے سخن جھوم اٹھے عشق کے آزار سے ہم
دل کو چھو رہی ہے بے گناہی
لہو چپ ہے تو خنجر بولتا ہے
سب ہراساں دکھائی دیتے ہیں
جیسے بستی میں کوئی خطری ہے
کتنا واقف تھا زندگی سے رئیسؔ
غم کی بنیاد ڈالنے والا
ہجر میں کم بھی نہیں پچھلے پہر کی آہیں
موسم گل نہ سہی رقص شرر تو مانگو
کچھ نہ کچھ کہہ گئیں آنکھیں دل مرحوم کا حال
مجھ سے بھی راز محبت کا چھپایا نہ گیا
باغ کے سرخ گلابوں کی جوانی ہے گواہ
اس کا چہرہ کبھی لفظوں میں سجایا نہ گیا
اجڑ جائے نہ پھر غالب کی دلّی
ہزاروں شعر نادر ہوگئے ہیں
رئیس الشاکریؔ موضع ’برہواں‘علی آباد کے ایک متوسط زمین دار گھرانے میں یکم جنوری ١٩٣٤ء کو پیدا ہوئے۔بعد میں انھوں نے یوپی کے ایک قدیم اور روایت پرست قصبہ ردولی کو اپنا وطن بنایا اور ۴/مئی ٢٠٢١ کواسی قصبہ کے قبرستان شیخ صفی الدین میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔رئیس الشاکری کے گھرانے میں شعر و ادب کا چرچا ہمیشہ رہا ہے۔ ان کے والد بزرگوار مرحوم مولوی منظور ؔاحمد صاحب استاد شاعر تھے اور چچا مرحوم فیاض احمد فیاضؔ کو بھی شعر و ادب سے خاصی دل چسپی رہی۔ والد مرحوم مثنوی گوئی اور چچا غزل گوئی میں درک رکھتے تھے۔ والدہ مرحومہ فارسی اور اردو کا پاکیزہ ذوق رکھتی تھیں۔ خود رئیس الشاکری اکثر کہا کرتے ہیں کہ”مولانا روم کا نام اور کلام میری زندگی میں والدہ مرحومہ کا مرہون ہے، وہ زبان کی صحت پر ٹوکا کرتی تھیں جس کا فائدہ میں آج محسوس کر رہا ہوں۔“ گویا اس سے یہ تو صاف ہو جاتا ہے کہ رئیس الشاکریؔ کی تربیت کا اولین نقش اپنے والدین کے ہاتھوں بنا اور شاعری، تصوف، علمی لگن شروع سے مزاج کا حصہ بن گئی۔ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ خانقاہ ابوحمدیہ گل چپہ کلاں قصبہ علی آباد میں ہوئی۔ یہاں سے فراغت کے بعد وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے اور عالمیت کی سند حاصل کی۔ ندوہ سے فراغت کے بعد انھوں نے تقریباً ٣٠/برس تک رودولی تحصیل کے حلیم نگر کی عیدگاہ میں امامت کے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد وہ کچھ عرصہ ’رحمان فاؤنڈیشن‘ سے بھی وابستہ رہے۔ سن ٢٠٠٨ء میں ان کا تقرر ندوۃ العلماء میں ہوا۔ ١٣/برس تک انھوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں لائبریرین کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے اپنی خدمات انجام دیں۔
رئیس الشاکری زمانہ طالب علمی سے شعر کہتے تھے۔ مولانا شاکر ناطقی کانپوری سے انھیں شرف تلمذ حاصل رہا اور اسی نسبت سے رئیس احمد، رئیس الشاکری ہوگئے۔ مولانا ماہر القادری سے انھوں نے بذریعہ ڈاک اپنے کلام پر اصلاح لی۔ ان دونوں بزرگوں کی صحبت کا فیض ہی کہا جائے کہ ان کا ادبی ذوق نکھرتا چلا گیا۔رئیس الشاکریؔ کی شاعری کے اب تک ۶/ مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں اور شعر و ادب کے منظر نامہ میں برائے نام ہی سہی شناخت ان کے حصہ میں ضرور آئی ہے۔انہوں نے تمام ِصنف سخن پر طبع آزمائی کی ہے، غزل ان کی محبوب ِصنف رہی ہے لیکن دوسری کسی ِصنف میں بھی وہ پیچھے نہیں رہے۔نعتیہ شاعری میں انھیں بہت مقبولیت حاصل تھی اور نعتیہ مشاعروں میں انھیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا، نیز ان کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔
رئیس الشاکری اردو غزل کے علاوہ خوب صورت نعت بھی کہتے تھے، حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا دامن سرشار تھا۔وہ سچے اور پکے عاشقِ رسولؐ تھے۔انھوں نے کیا خوب نعتیہ شعر کہے ہیں ؎
اگرکوثر کی خواہش ہے تو ساقی سے جڑے رہنا
کہ ساری قدر کھو دیتے ہیں ساغر بے سبو ہوکر
٭
ممکن ہے تم کو رحمت یزداں نواز دے
تم نے رئیس نعت کو شیوہ بنا لیا

٭
عجب نہیں وہ سر حشر سرفراز کرے
ہمارے ناز شہ انس و جاں اُٹھاتے ہیں
٭
رئیس ہی سہی لیکن فقیر طیبہ ہوں
وہ جانتے نہیں جو انگلیاں اُٹھاتے ہیں
اردو غزل کے گیسو سنوارنے اور نعتیہ شاعری میں اپنا ایک خاص مقام بنا لینے کے بعد رئیس الشاکری صاحب نے رباعی کی ِصنف میں خصوصی محنت کی اور ان کی محنت کا اندازہ ”القاء“ کے مطالعہ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔فنی لحاظ سے رباعی بہت ہی مشکل فن ہے. اس فن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے فنی بصیرت و نظر کی وسعت کے ساتھ ساتھ کافی مشقِ سخن اور پختگی عمر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس صنف میں کامیابی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب شاعر معمر ہوجاتا ہے۔ جوش نے کہا تھا:
”رباعی ایسی کمبخت ِصنف ہے جو سارا جوبن کھالے تو ایک بالک پالے کی طرح چالیس برس کی مشاقی کے بعد کہیں جاکر قابو میں آتی ہے“۔
صنف رباعی کے سلسلہ میں جوش کا یہ قول ”سارا جوبن کھالے تو ایک بالک پالے“ شاکریؔ کو بھی قبول ہے۔؎
ہر لفظ ہو فن کار رباعی کے لئے
جب ذہن ہو تیار رباعی کے لئے
یارانِ سخن اچھی طرح جانتے ہیں
اک عمر ہے درکار رباعی کے لئے
”القاء“ رئیس الشاکریؔ کا چھٹا مجموعہ کلام ہے۔اس میں پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی کی تقریظ بھی شامل ہے، جو رئیس الشاکری کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ فاروقی صاحب نے لکھا ہے:
”رئیس الشاکری کا انداز نظر اخلاقی اور حکیمانہ ہے لیکن وہ شعرکے تقاضوں کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، جگہ جگہ تلمیحات اور قرآنی فقروں کی گونج ان کے کلام کو مزید قوت اور گیرائی بخشتی ہے“۔
رئیس الشاکری نے شعر کی وادی میں اپنا راستہ خاصی لگن اور ریاضت کے ساتھ طے کیا ہے۔ ان کی زندگی اب تک جن پر پیچ راہوں سے گزری ہے، ان سب کی جھلک ان کی شاعری کے آئینے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے جگہ جگہ انسانوں اور انسانی زندگی کے مسائل کو ابھارا ہے اور اسے انتہائی سادہ اور دل کش انداز میں بیان کیا ہے:
مشکل ہو تو جینے کا مزا ملتا ہے
ہر سانس میں پیغام بقا ملتا ہے
دشوار سہی کوئے ملامت لیکن
اک سلسلۂ اہل وفا ملتا ہے
٭
بچوں سے جو مجبور ہوئے ہیں ماں باپ
دیوار کے نقش بن گئے ہیں ماں باپ
بھائی سے لڑے بھائی تو جائیں بھی کدھر
خاموش کھڑے دیکھ رہے ہیں ماں باپ
رئیس الشاکریؔ نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا لیکن رومانی عناصر اور عشقیہ موضوعات پر انہوں نے زیادہ شاعری کی، مگر ان کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ موضوعات روایتی ہیں پھر بھی ان میں ایک نیا پن ہے۔ ان کے عشقیہ مضامین میں جذبہ کی سچائی اور خلوص نظر آتا ہے۔ وہ عشق اور محبت کی زبان میں گفتگوکرتے ہیں۔ ان کی شاعری دبستان لکھنؤ کی نمائندہ ہے، ملاحظہ ہو۔ ؎
آنکھوں کی نگارش کا اثر کیا ہوتا
اشکوں کی سفارش کا اثر کیا ہوتا
پتھر کو سماعت کا سلیقہ ہی نہیں
پھر میری گزارش کا اثر کیا ہوتا
٭
جب ذہن کو یادوں نے جگایا ہوگا
پہروں مجھے اُن آنکھوں نے سوچا ہوگا
آنگن آنگن اداسیوں کا باعث
گھر کے در و دیوار نے پوچھا ہوگا

رئیس الشاکریؔ کی شاعری نہ صرف ہماری نئی نسل کو بلکہ عہد حاضر کے اربابِ نظر کو بھی خوب خوب متاثر کرے گی اورمجھے امید ہے کہ مستقبل  میں ان کی شاعری پر سنجیدگی کے ساتھ گفتگو ہوگی۔
یوں تو رئیس الشاکریؔ کی شخصیت اور ان کی شاعری پرکہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے۔لیکن آج ان سے متعلق بہت سی یادیں اور ان کی باتیں رہ رہ کر ذہن کے پردے پر گردش کررہی ہیں۔میں اکثر ان سے ملاقات کے لیے ندوۃ العلما ء کی علامہ شبلی نعمانی لائبریری جایاکرتا تھا۔ کافی دیر ان کے پاس بیٹھتا…کبھی کبھی ندوہ میں ان کے کمرے پر بھی جانا ہوا۔ وہ بڑی دل چسپ گفتگو کرتے..اشعار سناتے….بزرگوں کے واقعات اور ان کی مجالس کا تذکرہ کرتے۔ لیکن افسوس! وہ آخری زمانے میں اپنے گھر سے ہار چکے تھے۔ گھر جانے کے بجائے ندوہ کے کمرے میں پڑے رہنا زیادہ بہتر سمجھتے تھے۔ اس کا اثر ان کی صحت پر پڑنے لگا تھا۔ ذہنی طور پر بھی کافی کم زور ہوگئے تھے۔ آخری ملاقات کا حال تو یہ ہے کہ میں بھائی احرار الہدیٰ کے ساتھ ان سے ملنے لائبریری گیا…میں اسی انداز میں ان کی طرف بڑھا جیسے ہمیشہ بڑھتا تھا…لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اس مرتبہ انھوں نے بس سلام کا جواب دیا! احرار نے تعارف کرانے کی کوشش کی، میں نے روک دیا….پھر میں نے خود پوچھا کہ پہچانا نہیں….بڑی مایوسی کے لہجے میں کہا کہ نہیں! میں نے تعارف کرایا تو کہنے لگے معاف کرنا! یادداشت بہت متاثر ہوچکی ہے۔پھر یکایک جیب میں ہاتھ ڈالا اور کہا کہ چائے…میں نے معذرت کی..کچھ دیر ان کے پاس بیٹھا.اور واپس آگیا۔ اس کے بعد ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔
موت سے کس کو رستگاری ہے۔ ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ محترم رئیس الشاکری صاحب بھی ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔اب بس ان کی یادیں، ان کی باتیں ہیں جو انھیں ہمارے دلوں میں زندہ رکھیں گی۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ بال بال ان کی مغفرت فرمائے۔ ان کی لغزشوں اور کوتاہیوں کو درگزرفرمائے۔ پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل
لاکھ ڈھونڈے کوئی جلتی ہوئی شمعیں لے کر
٭٭٭
رابطہ: 9494593055

محمد اویس سنبھلی کی یہ نگارش بھی پڑھیں : جواں مرگ ادیب:فرقان سنبھلی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے