وہ بیچ رہے ہیں بھارت کو،میں چین سے کیسے سوجاؤں؟

وہ بیچ رہے ہیں بھارت کو،میں چین سے کیسے سوجاؤں؟


✒️سرفراز احمدقاسمی،حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186

2014 میں ملک کے عوام سے وعدہ کیاگیاتھاکہ اچھے دن آئیں گے،کالادھن لائیں گے،جس سے ملک کے ہرشہری کے اکاؤنٹ میں مفت میں پندرہ پندرہ لاکھ آجائیں گے،وغیرہ وغیرہ لیکن سات سال گذرنے کے بعد یہ سب جھوٹا وعدہ اور جھوٹی لفاظی ثابت ہوئی. جھوٹ، دھوکہ بازی اور مکروفریب میں پہلی پوزیشن یہ حکومت حاصل کرسکتی ہے. سات سال کے عرصے میں اب تک عوام کاکوئی بھلاتو نہیں ہوا لیکن ہرآنےوالا دن بھارت کے شہریوں کےلئے بدسے بدتر ہوتاجارہاہے. یہ صورت حال کب اورکہاں جاکر تھمےگی اس کے بارے میں کچھ کہانہیں جاسکتا. آزادی کے ستر سال بعد اتنی سنگین صورت حال شاید پہلی مرتبہ پیش آرہی ہے. ملک کی اتنی بدتر حالت اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی. آپ کو یاد ہوگا کہ مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد یہ اعلان کیاتھاکہ”جو 70سال میں کبھی نہیں ہوا وہ میں کرکے دکھاؤں گا”آج ملک میں جو کچھ ہورہاہے یہ اسی اعلان کانتیجہ ہے. آسمان چھوتی مہنگائی،ریکارڈ توڑتی بے روزگاری اور تباہ وبرباد ہوتی ملک کی معیشت یہ سب اسی کانتیجہ ہے،لیکن ان سب کے باوجود حکمراں طبقہ،ملکی عوام میں یہ جھوٹا بھرم پھیلارہاہے کہ” ملک ترقی کررہاہے”اور”ہرسطح پرترقی ہورہی ہے”ان دنوں ملک کو کئی محاذ پر چیلنجز کاسامناہے. ہماری سرحدیں غیرمحفوظ ہونے کے ساتھ بعض پڑوسی ملک ہٹ دھرمی دکھانےاور قبضہ کرنے میں مگن ہیں. اندورن ملک مسائل کاانبار ہے. تقریباً تین ماہ سے ملک کے کسان سڑکوں پرہیں،اور اب کسانوں کے احتجاج میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے،ایسے میں یہ سنگھی اورمغرور حکومت جوطاقت کے نشے میں چورہے،حالات کی سنگینی کو سمجھنے سے قاصر ہے. یکم فروری کو پارلیمنٹ میں ملک کابجٹ پیش کیاگیا، جس میں پوری توجہ کارپوریٹ طبقے پردی گئی ہے. گویا کارپوریٹ طبقے کے ہاتھوں ملک کوغلام بنانے کی پوری پلاننگ ہے. 2014 سے لےکر اب تک کی حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے تو یہ صاف طور پردکھائی دےگا کہ غریب عوام کےلئے اس حکومت کے پاس کچھ نہیں ہے. نوٹ بندی،جی ایس ٹی،کورونا اورلاک ڈاؤن وغیرہ میں جتنا نقصان ہوا اورجن مشکلات ومصائب کاغریبوں اورمزدوروں کوسامنا کرنا پڑا،اس سے غریب عوام ابھی تک جوجھ رہی ہے. غریبوں اورمزدور طبقے کی پریشانیاں کم ہونے کے بجائے دن بدن اس میں اضافہ ہی ہورہاہے. اس حکومت نے ایسی پالیسی اختیار کررکھی ہے جس سے غریب اور غریب ہورہاہے اوردولت مندوں کی دولت میں مزید اضافہ ہورہاہے. یکم فروری کو وزیرخزانہ نے پارلیمنٹ میں 34لاکھ کروڑ روپے کا مرکزی بجٹ پیش کیا. بجٹ پیش کرتے ہوئے نرملاسیتارمن نے کہا کہ "سرکاری زیرانتظام بینکوں کے سرمایہ میں اضافہ کےلئے 20ہزار کروڑ روپے مختص کئےگئے ہیں،یہ ایسے بینکس ہیں جوخراب قرضوں سے پریشان ہیں اورترقی کے معاملے میں پچھڑے ہوئے ہیں،پبلک سیکٹر یونٹس کو خانگیانے کے ذریعے آمدنی کے حصول کانشانہ ایک لاکھ پچھتر کروڑ روپے رکھاگیاہے،جس میں لائف انشورنس کارپوریشن (ایل آئی سی)کی ابتدائی عوامی پیش کش(آئی پی او)کی منصوبہ بندی کی گئی ہے،سرکاری زیرانتظام کمپنیوں میں ایل آئی سی نمایاں ہے جسے آئندہ مالی سال میں فروخت کیاجائےگا”اسی طرح آئی ڈی بی آئی کے علاوہ دو سرکاری سیکٹر کے بینکوں اور ایک جنرل انشورنس کمپنی کی نجکاری کی جائےگی. بی پی سی ایل،ایئرانڈیا،شپنگ کارپوریشن آف انڈیا،کنٹینر کارپوریشن آف انڈیا،آئی ڈی بی آئی بینک بی ای ایم ایل،پون ہنس،نیلانچل اسٹیل کارپوریشن کی لمیٹیڈ وغیرہ کی اسٹریٹیجک بحالی کا کام 2021 تک مکمل ہوگا”
یہ ہے وزیر خزانہ کی پارلیمنٹ میں تقریر کاایک حصہ. اب سوال یہ ہے کہ جب سب کچھ پرائیویٹ ہی ہوجائے گا توپھر حکومت کس کام کےلئے ہے؟ ستر سال میں گذشتہ حکومتوں نے جوکام ملک کےلئے کئےاور معیشت کی تقویت کےلئے جو ادارے بنائے سب کو چن چن کر مودی حکومت بیچ رہی ہے. کیا یہی ملک کےاچھے دن ہیں؟ایک مقامی اخبار نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ”مودی حکومت ایسا لگتاہے کہ ہرشعبہ کو اپنے حاشیہ بردار سرمایہ داروں اورخانگی کمپنیوں کو فروخت کرنے کا قطعی فیصلہ کرچکی ہے. جب سے اس حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے اس وقت سے سرکاری اداروں اورکمپنیوں کی فروخت کا سلسلہ چل پڑاہے اور ہرگذرتے دن کے ساتھ اس میں تیزی آتی جارہی ہے. پورے ملک میں نیٹ ورک رکھنے والے انتہائی مؤثر ادارہ بی ایس این ایل کوختم کردیاگیا اوراس کی جگہ امبانی کے جیو نیٹورک کو فروغ دیاگیا. حیرت تو اس بات کا ہےکہ اس نیٹ ورک کے اشتہار میں خودملک کے وزیراعظم کی تصویر کااستعمال کیاگیا،جس سے ظاہر ہوتاہے کہ حکومت کے ارادے اورمنصوبے کس نوعیت کے ہیں اور کس طرح قومی اثاثہ جات کو تباہ و تاراج کیاجارہا ہے، ہندوستان بھر میں زندگی کی رفتار کو برقرار رکھنے والی ٹرینوں کو بھی اب خانگی شعبہ کے حوالے کیا جا رہا ہے. ریلوے میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑہا ملازمتیں ہیں،جہاں ملازمین شبانہ روز محنت کرتے ہیں،اس کے علاوہ بھی کروڑہا لوگ ہیں جواس شعبہ سے مربوط تجارت اورکاروبار کے ذریعے اپنی روزی روٹی حاصل کرتےہیں،اس کے باوجود بھارتی ریلویز کو خانگی شعبہ کے حوالے کرنی کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں،بلکہ حوالگی کا آغاز بھی ہوچکاہے. پہلے مخصوص روٹس پر خانگی ٹرین چلانے کی اجازت دی جارہی ہے اورجہاں ٹرینوں پر بھارتیہ ریل یا انڈین ریلویز تحریر کیاجاتارہاہے اب اس جگہ اڈانی ریل دکھائی دینے لگاہے. ملک میں کئی ایئرپورٹس ایسے ہیں جنھیں انتہائی کم عرصے میں ایک کے بعد دیگرے اڈانی گروپ کو سونپ دیاگیا. ہربار حکومت کی جانب سے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرتے ہوئے قومی اثاثے جات کو اپنے حاشیہ بردار کارپوریٹس کے سپرد کیاجارہاہے. سرکاری ملازمتوں کی تعداد کم سے کم کی جارہی ہے،ان کو رضاکارانہ سبک دوشی کےلئے بھی مجبور کیاجارہاہے. اس کی مثال بی ایس این ایل سے ملتی ہے. اس کے علاوہ نئی بھرتیاں بالکل روک دی گئی ہیں،ہرطرح سے کارپوریٹس کو سرکاری کمپنیوں میں اجارہ داری قائم کرنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے”
اس اخباری تراشے سے آپ نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ آخراس حکومت کے عزائم کیاہیں؟دوتین سال قبل مرادآباد کے ایک پروگرام میں وزیراعظم مودی نے کہا تھا کہ”ارے زیادہ سے زیادہ یہ میرا کیاکرلیں گے میں توفقیر آدمی ہوں جھولااٹھاکر چل دوں گاجی”کیا آپ کو لگتاہے نہیں ہے کہ گجرات کا یہ بنیا ملک کو فروخت کرکے راہ فرار اختیار کرلےگا،لیکن پھر اس کے بعد کیاہوگا یہ آپ نے سوچا؟ آخر ملک کوکہاں لے جایاجارہاہے؟ کیا ملک کی عوام نے اسی دن کےلئے اس حکومت کو اقتدار کی باگ ڈور سونپی تھی؟کیا اب بھی ہمیں بیدار ہونے کا وقت نہیں آیا؟ پٹرول ڈیزل اورگھریلو گیاس کی قیمتوں کے علاوہ دیگر اشیائے ضروریہ بھی غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہوتے جارہے ہیں،حکومت مہنگائی پر کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے. ایسے میں ملک کاکیا ہوگا؟کبھی ہم نے یہ سوچا؟اب نیتی آیوگ نے یہ اعلان کیا ہے کہ مزید سرکاری کمپنیوں کی فہرست تیار کی جارہی ہے،جن میں سرمایہ نکاسی کی جائےگی. اس طرح اب مزید کمپنیوں کو خانگی کمپنیوں کے حوالے کرنے کا کام تیز ہوتاجارہاہے. وزیر فینانس سیتارمن نے یکم فروری کو پیش کئےگئے بجٹ میں یہ واضح کیاتھا کہ حکومت سرمایہ نکاسی کےلئے سرگرمی سے کام کر رہی ہے،لیکن اتنی زیادہ پھرتی سے یہ کام ہوگا اور یہ فہرست تیارکی جائےگی یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا. جس طرح سے حکومت کی جانب سے سرکاری کمپنیوں کو فروخت کیاجارہا ہےاس سے یہ اندیشے تقویت پاتے جارہے ہیں کہ آئندہ چند برسوں میں ہندوستان بھرمیں شاید ہی کوئی سرکاری ادارہ رہ جائے گا، اورتقریبا ہرشعبہ پر خانگی اجارہ داری کو مسلط کردیا جائےگا. ائیر انڈیا کو بھی حکومت کی جانب سے خانگی شعبہ کے سپرد کرنے کاعمل شروع کردیاگیاہے اور جواشارے مل رہےہیں ان کے مطابق ٹاٹا گروپ نے اس میں دل چسپی دکھائی ہے، اور حکومت کے ساتھ بہت جلد معاملت کو قطعیت دی جائے گی. ایئر پورٹ تو پہلے ہی سے اڈانی گروپ کو سونپے جارہے ہیں،یہ بھی کہا جا رہاہے کہ مزید ایئر پورٹس بھی ہیں جنھیں خانگی کمپنی کے حوالے کردیاجائے گا. حکومت کئی شعبہ جات میں خانگی سرمایہ کاری کی حدمیں اضافہ بھی کرتی جارہی ہے،اور حد تو یہ ہے کہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی حدوں میں بھی کچھ شعبوں میں اضافہ کردیا گیا ہے. پٹرول پمپوں پر اڈانی گروپ لکھا ہوا بھی نظر آرہاہے. اپوزیشن میں رہتے ہوئے بی جے پی نے دوسری حکومتوں کے جتنے فیصلے کی مخالفت کی تھی اب ان تمام فیصلوں پر پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ عمل کیاجارہا ہے. اس سنگین صورت حال کے پیش نظر کسانوں کی جانب سے جواندیشے ظاہر کئے جارہے ہیں اور جس کی وجہ سے کسانوں کا احتجاج تقریباً تین ماہ سے جاری ہے،اس کو تقویت مل رہی ہے،کسانوں کے خدشے کو بے بنیاد نہیں کہاجاسکتا. قومی اثاثہ جات یہ ہندوستانیوں کی میراث نہیں لیکن ہربھارتیوں کےلئے باعث فخر ضرور ہے. اس لئے قومی اثاثہ جات کی تباہی کے ذریعے کسی مخصوص گروپ یاشعبہ کو فروغ دینے سے گریزکیا جاناچاہئے. بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈران نے اگر یہ کہاکہ یہ بجٹ ملک کو بیچنے کےلئے تیارکیاگیاہے تو اس میں بہت حد تک سچائی معلوم ہوتی ہے. آنے والے دنوں میں بنگال سمیت کئی ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں عوام کو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور ایک ایسی پارٹی جو اقتدار کے نشے میں چور ہے اس کو سبق سکھانے کےلئے تیاررہناچاہئے. بی جے پی کا صرف ایک ہی مقصد ہے وہ یہ ہے کہ ہرقیمت پر صرف لوگوں کو لوٹا جائے اور دولت جمع کیاجائے. عام آدمی،کسان مزدور اگرکھانے کےلئے مررہاہے تو اس سے اس حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا. سوال یہ ہے کہ مرکز کی یہ سنگھی حکومت کیا ایسٹ انڈیا کمپنی کی راہ اور نقش قدم پر چل رہی ہے؟ ایسٹ انڈیا کمپنی والوں نے جس طرح بھارت کو کنگال کردیا تھا کیااسی طرح یہ حکومت پورے بھارت کو فروخت کردےگی؟جب کہ نریندر مودی نے تو کہاتھا کہ "میں دیش نہیں بکنے دوں گا”لیکن کہنے سے کیاہوتاہے سات سال میں جتنی باتیں انھوں نے کہی اس کا الٹا اب تک کرکے دکھایا. راہل گاندھی کا یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہے کہ ملک میں سب کچھ ہم دو ہمارے دو کےلئے ہورہاہے. دیش کو گروی رکھنے اور فروخت کرنے سے بچانے کےلئے ہمیں اسی نعرے کے ساتھ میدان میں آناہوگا جونعرہ کچھ سال قبل مودی نے لگایاتھاکہ 

سوگند مجھے اس مٹی کی میں دیش نہیں مٹنے دوں گا
میری دھرتی مجھ سے پوچھ رہی کب میرا قرض چکاؤگے
میراعنبرمجھ سے پوچھ رہا کب اپنا فرض نبھاؤگے
وہ لوٹ رہے ہیں سپنوں کو میں چین سے کیسے سوجاؤں
وہ بیچ رہے ہیں بھارت کو خاموش میں کیسے ہوجاؤں
ہاں میں نے قسم اٹھائی ہے میں دیش نہیں بکنے دوں گا
وہ جتنے اندھیرے لائیں گے میں اتنے اجالے لاؤں گا
وہ جتنی رات بڑھائیں گے میں اتنے سورج اگاؤں گا
اس چھل فریب کی آندھی میں دیپ نہیں بجھنے دوں گا
میں اپنے دیش کی دھرتی پراب درد نہیں اگنے دوں گا
میں دیش نہیں جھکنے دوں گا میں دیش نہیں بکنے دوں گا
یہ وہ نعرہ ہے جو تقریباً چھ سال قبل مودی نے لگایاتھا اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دیاتھا لیکن کیا ہوا؟ آج کی صورت حال کیا ہے یہ آپ سے مخفی نہیں ہے. آج صرف وکاس مودی،شاہ اور اڈانی امبانی کےلئے ہی ہے، غریبوں کا تو سات سال میں جتنا وناش ہوا شاید سترسالوں میں اتنا نہیں ہوا. اس لئے آنکھیں کھولئے، جاگئے اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔کیا اس کے بعد بھی آپ کوچین کی نیند آرہی ہے، کیا ہم یونہی سوتے رہیں گے؟پھرملک کوبچانے کی فکر کون کرےگا؟ ہمارےبزرگوں نے بڑی محنت اورقربانیوں کے ذریعے ملک کو آزاد کرایاتھا،کیا اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری نہیں ہے؟

(مضمون نگارکل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے