سوالات کے آئینے میں ’’شعر شور انگیز‘‘

سوالات کے آئینے میں ’’شعر شور انگیز‘‘

سلمان عبدالصمد

شمس الرحمن فاروقی کے دیگر کارناموں سے قطع نظر ”شعر شورانگیز“ بھی ان کے ادبی سفر کا ایک اہم سنگِ میل ہے۔ اس میں نہ صرف انھوں نے کلامِ میرکے معانی ومفاہیم متعین کیے بلکہ مطالعہء شاعری کے لیے ایک نپے تلے ”اندازِنقد“ کا انکشاف بھی کیا۔ ا سے ہم کلاسیکی غزل کی شعریات متعین کرنے کی قابلِ تحسین کوشش کا نام دے سکتے ہیں۔ کلامِ میر کی تشریح میں مشرقی شعریات اور کہیں کہیں اسلامی نظریات و مغربی تصورات کوجس طرح بروئے کار لایا گیا اس سے شعری تفہیم کا ایک نیا باب کھلتا ہے۔ انھوں نے میر کو قنوطیت کے پردے سے باہر نکالا۔ان کے چونچال پن اور ان کی زندگی کی رنگینیوں کا عمدہ تجزیہ کیا۔ اس طرح حزن کے پردے سے نکل کرمیر نے”معنی آفرینی اور کیفیت“ کے ایک سے بڑھ کر ایک مظہر پیش کیے۔ نثار احمد فاروقی کہتے ہیں کہ میر کے شعر کی طرح فاروقی کی تنقید میں بھی شور انگیزی ہے۔ یقینابہت سے مقامات پر فاروقی کی تنقید میں میر کی شاعری سے زیادہ شور انگیزی نظر آتی ہے۔
”شعر شور انگیز کے مطالعے کے دوران جہاں ایک حساس قاری ”اسلوبِ انتقادیات“ کی ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے، وہیں اس کے ذہن میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔چوں کہ تشریح و تنقید کے باب میں (دلائل کے ساتھ ساتھ) نکتہ رسی اور باریک بینی کی حیثیت بھی مسلم ہے۔ اس لیے راقم نے فاروقی صاحب کی نکتہ رسی پر غور کیا تو بہت کچھ سیکھا، سمجھا، باربار پڑھا(پھر بھی بہت کچھ سمجھنے سے رہ گیا)۔ ان کے عالمانہ رویوں سے سیکھنے کے بعد راقم نے اس کتاب پر فکری نہ سہی ’تاثراتی سوالات‘ قائم کیے(ضروری نہیں کہ ان سوالوں کی کوئی علمی حیثیت بھی ہو، البتہ سوال آخر سوال ہوتا ہے)۔ اس کتا ب پر لکھے گئے پروفیسر نثاراحمد فاروقی اور پروفیسرعبدالرشید(اورپروفیسر شارب ردولوی)کے مقالات کا میں نے گہرائی سے مطالعہ کیا۔ ان دونوں حضرات نے علمیت، تاریخی پہلواور الفاظ ولغات کی طرف گراں قدر اشارے کیے ہیں۔ ان کی نظروں سے میں اس کتاب کو دیکھنے اور پڑھنے کی کوشش نہیں کروں گا۔
پہلے مضمون ”خدائے سخن، میر کہ غالب“ میں کلامِ میر سے متعلق بہت سے مشہورمفروضات پر منطقی بحث کی گئی۔ اسی مضمون سے میر کی جامعیت، سخن طرازی اورشعری اصناف میں ان کی ہمہ گیری سامنے آنے لگتی ہے۔ مفروضہء ”خدائے سخن“ کا کسی حدتک جواز ہاتھ آجاتا ہے۔یعنی’میر نے غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، رباعی، شہر آشوب، واسوخت اور ہجو تما م تر اصناف میں طبع آزمائی کی…غالب کا تخیل آسمانی اورباریک تھا، میر کا تخیل زمینی اوربے لگام‘۔شاید فاروقی کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ”خدائے سخن کا خطاب میر کو ہی زیب دیتا ہے“۔چوں کہ اس مضمون میں متعدد مفروضات پر بحث ملتی ہے اس لیے اس مضمون کا نام بجائے ”خدائے سخن، میر کہ غالب“،”مفروضاتِ میر“ ہونا چاہیے تھا۔ جب کہ اسی میں بہت سی ایسی باتیں بیان کردی گئی ہیں جن کا”مفروضہء خدائے سخن“ سے کوئی علاقہ نہیں۔ البتہ غالب کے متعلق فاروقی کا یہ اعتراف قابل تحسین ہے”… اس دیوان کے مرتب ہوتے وقت ان [میر] کی عمر پچاس سے متجاوز تھی۔ اتنی مشق کے باوجود وہ بیدل کے مضمون کو آگے نہ لے جاسکے۔ اس کے برخلاف انیس بیس برس کے غالب نے بھی بیدل سے یہی مضمون لیاتو اس میں ایک بات پیدا کردی…غالب نے جہاں جہاں میر سے مضمون یا کسی بات کاکوئی پہلو مستعار لیا ہے تو ہمیشہ اس میں نئی بات پیدا کی ہے، یا پھر مزید معنویت داخل کی ہے..“فاروقی یہ مانتے ہیں کہ مستعار لینے میں غالب، غالب ہیں۔ انھوں نے میر(دیگر بزرگ شعرا) سے بھی کچھ لیا تو اس میں جدت اور تنوع پیدا کردی،مگر دوسرے شعرا سے میر نے استفادہ کیا تو وہ اکثر قدیم مضمون کوآگے نہ بڑھا سکے۔
دوسری بات یہ کہ اس اعتراف سے فاروقی کا مقصد فقط اثر لکھنوی اور یگانہ چنگیزی کو رد کرنا تھا(کہ غالب کاکلام ”چربہء میر“ نہیں بلکہ انھوں نے اپنے پیش رو میر کے مضمون کو بھی آگے بڑھایا) یا پھر اس اعتراف سے”کائناتِ خدائے سخن“ میں غالب کی حصے داری بھی ثابت ہوتی ہے؟بندہ حقیر کا خیال ہے کہ شعرائے ماقبل کے مضمون کو غالب نے آگے بڑھایا ہے تو اس میں خود غالب کے’تخیل آسمانی اور باریک بینی‘ کا کردار ہے۔ اس لیے غالب کے تخیل آسمانی اور باریک بینی پر میر کے ” بے لگام تخیل زمینی” کو ترجیح دینا زیادہ مناسب بات نہیں لگتی۔
فاروقی صاحب کے اس وقیع مضمون سے کسی طور پر ”خدائے سخن“ کا مسئلہ تو حل ہوتا ہے، لیکن اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہوسکتی ہے کہ ادب کی مختلف اصناف(نثر یا نظم،نظم ونثر) پر طبع آزمائی سے کسی کی ہردرجہ فوقیت ثابت نہیں ہوتی۔ میر کے برعکس (غالب کی طرح) چند اصناف پر کمال حاصل کرنا ہی معراج کی بات ہے، جیساکہ اردو کو فاروقی کی تنقید سے معراج نصیب ہوئی۔ البتہ مختلف اصناف پر طبع آزمائی سے تحسین کا پہلو ابھر تو سکتا ہے، مگر”خدائے سخنی“ کے لیے بھی کوئی بڑی دلیل ہاتھ آئے، ایساکوئی ضروری نہیں۔اصناف کی رنگا رنگی کی وجہ سے غالب (جیساکہ آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بہت سے معاملات میں میر سے بہت آگے ہیں) پر فوقیت دیتے ہوئے میر کو ”خدائے سخن“ کہنا کہاں زیب دیتا ہے۔
مضمون”غالب کی میری“ میں کئی اہم پہلوؤں کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔ اس عنوان سے اندازہ ہوتاہے کہ اس میں فاروقی صاحب نے میر سے غالب کے استفادے کا موضوع اٹھایا ہو گا۔ واقعہ یہ ہے کہ سترہ صفحات کے اس مضمون میں بہ مشکل دو صفحات پر یہ موضوع غالب ہے۔ ورنہ پورے مضمون میں ان دونوں عظیم شاعروں کا بھر پور موازنہ کیا گیا(یہ موازنہ میر سے استفادے کے تناظر میں نہیں)۔بلاشبہ موازنہء میروغالب میں بھی بہت سے اہم مسائل زیربحث آئے جو دوسرے ناقدوں کے یہاں کم ہیں۔ انھوں نے اس مضمون میں ”مضمون آفرینی اور بلند خیالی“ کے فرق کو جس انداز سے واضح کیا، وہ انتہائی اہم ہے۔ فاروقی کے مطابق معنی آفرینی دراصل ایسا طرز بیان ہے جس میں ایک ہی بیان میں کئی طرح کے معنی ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں۔اس کے برعکس بلندخیا لی جس میں معنی کے زیادہ امکانات نظر نہ آتے ہوں۔ فاروقی نے ان اصولوں کے علاوہ کیفیت ومناسبت لفظی کی روشنی میں کلامِ میر کی تشریح کا نادر نمونہ بھی پیش کیا ہے۔
اسی مضمون میں انھوں نے آڈن اور والیری کے حوالے سے روز مرہ کی بحث قائم کی اور لکھا”زبان کی عملی یا مجرد استعمالات میں بیان ناپائدار ہوتا ہے، یعنی زبان کی ہیئت، یا اس کا وہ طبعی، ٹھوس حصہ، جسے ہم گفتگو کا عمل کہہ سکتے ہیں، افہام کے بعد قائم نہیں رہتا…والیری کا کہنا ہے کہ یہ زبان شاعری کے کام نہیں آسکتی۔ شاعری کی حیثیت زبان بنانی پڑتی ہے۔“ واضح رہے کہ آڈن اور والیری کو اس مضمون میں اس لیے موضوع بحث بنایا گیا کہ روز مرہ کی بحث کی جائے، مگر سچی بات یہ ہے کہ ان دونوں کی باتوں سے کسی بھی سطح پر روز مرے کا استعمال متعین ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی تعریف۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ فاروقی صاحب نے یہاں مغربی نظریہ ساز وں کے ذکر سے اپنے مضمون کے فقط عالمانہ پہلو کو واضح کیا، نہ کہ کوئی علمی بحث کی۔ واقعہ یہ ہے کہ والیری نے تشکیلات ِ زبان کے متعلق جو نظریہ پیش کیا،اس سے میر کی نہیں،غالب کی زبان قابل اعتبار نظر آتی ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں ”واضح رہے کہ والیری کی تہذیب میں ”روزمرہ“ نام کی کوئی اصطلاح نہیں ہے“۔ اس لیے یہ سوا ل بھی ہوتا ہے کہ جب والیری /آڈن کی تہذیب میں روز مرے کا ذکر ہی نہیں تو روز مرے کے تناظر میں ان کے نظریات پر بحث کی کیا ضرورت ہے؟ ان دونوں کے حوالے کے بغیر بھی روزہ مرے کی بحث ہوسکتی تھی۔ جیسا کہ خود انھوں نے ”میر کی زبان،روزمرہ یا استعارہ“کے تحت ان کے روز مرے کی انفردیت ثابت کی اور پراکرت،عربی وفارسی کے مانوس فقروں کے استعمالات کو واضح کرتے ہوئے میرکی لسانی عظمت قائم کی۔ ان میں انھوں نے آڈن اور والیری کا کہیں ذکر تک نہیں کیا، مگر ”غالب کی میری“ والے مضمون میں پیوند کی طرح آڈن اور والیری کو حوالہ بنایاہے۔
اسی مضمون”غالب کی میری“ کے اس جملے”…ا س وقت کی مروج شعری زبان سے انحراف اور روز مرہ کو شاعری بنانے کا علم جو میر نے سر انجام دیا، وہ غالب کے کارنامے سے کم وقیع نہیں تھا۔“سے ایک اور بحث ہوسکتی ہے اور اسی جملے کو واضح انداز میں کچھ یوں لکھا جا سکتا ہے:
اول: زبان کو شاعری کی زبان بنانے میں غالب نے کارنامہ انجام دیا۔
دوم:میر نے اپنے زمانے کی مروج شاعرانہ زبان سے انحراف کیا۔
سوم: تشکیل ِزبان میں غالب کا کارنامہ کیوں کر سامنے آتا ہے؟ اس لیے کہ انھوں نے اپنے زمانے کی مروج زبان سے انحراف کیا۔
چہارم: یعنی میر اور غالب دونوں نے اپنے اپنے زمانے میں رائج زبانوں سے انحراف کیا۔
ان چاروں پہلوؤں کے بعد تھوڑی توجہ دیں۔میر نے بھی زبان بنانے میں کارنامہ انجام دیا، مگر غالب سے کم۔اب سوال یہ ہے کہ غالب کے اس کارنامے کا اطلاق کہا ں ہوگا؟ میر سے بہت سے معاملات میں (سوائے اصناف کی تعدادکے)غالب،غالب ہیں تو ”خدائے سخنی“ میں ان کا مقام کیوں نہیں بلند ہوتا؟
اسی ضمن میں دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ میر کے زمانے میں (سودا اور حاتم کے علاوہ) زبان کے زیادہ نمونے نہیں تھے۔ جتنے بھی تھے ان سے میر نے انحراف کیا، مگر غالب کے زمانے میں بہت سے نمونے تھے۔ بہت سی روایتیں تھیں۔ جیساکہ خود فاروقی صاحب تسلیم کرتے ہیں اور ادبی تاریخ بھی یہی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اپنے زمانے کے اکا دکا نمونوں سے انحراف کرنے والے کی اہمیت زیادہ ہوگی یا پھر مروج رنگا رنگ نمونوں سے خود کو منفرد ومختلف بنانے والے کی برتری تسلیم کی جائے گی؟ گویا جب غالب اس معاملے میں ”بھی“ غالب نظر آتے ہیں تو غالب کے مقابلے میں میر کی عظمت کیسی؟ اپنے آسمانی تخیل کے سہارے قدیم شاعروں کے مضمون کو آگے بڑھانے میں بھی میر سے غالب کا مقام بلندتر، زبان بنانے کے معاملے میں بھی میر سے غالب افضل… اس افضلیت سے کیا خدائے سخنی میں غالب کی عظمت نہیں بڑھے گی؟
اسی مضمون ”غالب کی میری“ میں فاروقی نے انتظار حسین کے اس قول سے اتفاق کیا کہ میر میں ایک ناول نگارنظر آتا ہے، مگر آل احمد سرور کے اس بیان ”غالب ہمارے سامنے وہ محفل سجاتے ہیں جس میں زمین سے آسمان تک ہر چیز نظر آجاتی ہے“کی تردید کی اور لکھا کہ ”سرور صاحب کا بیان بالکل درست ہے، لیکن غالب کی محفل محفل ہی رہتی ہے۔ کائنات نہیں بنتی ہے“۔ حالاں کہ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ آل احمد سرور نے غالب کی محفل سے ”آسمان وزمین“ کو جوڑا ہے۔ ظاہرہے کہ جس کی شاعری میں ”آسمان وزمین تک کی چیز“ کا تذکرہ شامل ہو تو کائنات کا مفہوم ازخود شامل ہوجاتا ہے۔اس لیے سرور صاحب کی بات نہ صرف قرین عقل ہے بلکہ قریبِ کلامِ غالب بھی۔
مضمون ”غالب کی میری“ میں والیری اور آڈن کا حوالہ مناسب نہیں ہے، مگر شعر شورانگیز کی جلد دوم کی تمہید (انتہائی جامع مضمون) میں جب والیری کاحوالہ آیا تو اس میں جان پیدا ہوگئی۔ پھر ان کا ہی ذکر کیا، متن اور منشائے مصنف کے ضمن میں جتنے بھی مغربی مفکرین کے بیان کا جائزہ لیا گیا ان سب کا ذکر(حوالہ) ناگزیر تھا۔ خاص طور سے رچرڈس، الیٹ، ومزٹ، بیرڈسلی، اسپنگارن کیٹس، رومن یاکبسن، دریدا، فوکو، جیر لڈ گریف،ٹموٹھی،ولیم پرن، پال دمان وغیرہ کے نظریات کا نہ صرف تذکرہ وتجزیہ کیا گیا،بلکہ والیری اور رچرڈس سے اختلاف کے مواقع پر فاروقی صاحب نے علمیت اور نکتہ شناسی کا قابل ذکر نمونہ بھی پیش کیا۔اس مضمون میں فاروقی کی علمیت کی شور انگیزی، علمیت کی اعلی مثال پیش کرتی ہے۔ جن جن مغربی نظریہ سازوں کے جتنے حوالے پیش کیے گئے،(ایسا محسوس ہوتاہے کہ) اگر ان میں سے کسی ایک کا بھی حوالہ چھوٹ جاتا تو شاید مضمون اور متن ومعنی کی بحث میں کسر رہ جاتی۔ اس لیے ”غالب کی میری“ والے مضمون میں آڈن اور والیری پیوند کی طرح تھے، مگر یہاں ان کے ساتھ ساتھ دیگر مغربی مفکرین وناقدین کا ذکر انتہائی ضروری تھا۔اس طرح مشرقی نظریہ سازوں کے واقعات اور جملوں سے ”متن سے معنی کی برآمدگی“ کے مسئلے پر جو نتیجہ اخذ کیا گیا، وہ نہ صرف فاروقی کی نکتہ رسی کی اعلی مثال ہے بلکہ مشرقی روایات کی اہمیت (اور فکری بحث کی اولیت) بھی ثابت کرتی ہے۔
ہمیں یہ تسلیم ہے کہ میر کی شاعری میں یاسیت ومحرومی کے برخلاف متنوع موضوعات وکیفیات موجود ہیں۔ ”شعر شور انگیز“کے مطالعے سے پہلے ان تمام موضوعات یا خصوصیات کی طرف، میر کو سرسری پڑھنے والوں کا، ذہن منتقل نہیں ہوا ہوگا۔ کیوں کہ ان پر لکھنے والوں نے بیشتر ان کی محزونیت کا اس قدر ڈنکا بجایا کہ اسی میں میر کی بہت سی منفرد آوازیں دب کر رہ گئیں،مگر اس بات سے انکار نہیں کہ یاسیت بھی شاعری کا ایک حسن ٹھہرسکتا ہے۔ یاسیت بھی دلوں میں عاجزی وفروتنی کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔ منشائے منصف کے برخلاف یاسیت سے لبریز شاعری میں بھی کئی معنی چھپے ہوتے ہیں۔ محزونیت کی فضا بھی بسا اوقات ایسی فضا ہوتی ہے جس سے حسی لطافت میں تازگی آجاتی ہے اور انسان کی ذہنی پرواز بھی تیز تر ہوجاتی ہے۔ میر کو گہرائی سے پڑھنے والے اس بات کو ضرور محسوس کریں گے کہ یاسیت ومحرومی میں وہ خود کو تنہا تنہا محسوس نہیں کرتے بلکہ قرأت کے دوران ایک غیر مرئی قوت ان قارئین کو مضبوطی و تازگی کا احساس دلاتی رہتی ہے، ساتھ ہی میر اپنے حزن کے برملا اظہار سے خودبھی شگفتگی آمیز لطف لیتے ہوں گے۔ (آگے کسی مقام پر چند اشعار سے اس بات کی تائید ہوجائے گی) اس لیے شاعری کے اس حزنیہ احساس سے کسی عظیم شاعر کوکاٹ کر الگ کردینا قرینِ عقل بات نہیں لگتی۔ میر کی متنوع خصوصیات کو اجاگر کرتے وقت وہ نہ صرف میر کے متعلق حزنیہ رائے کی تردید کرتے ہیں بلکہ میر کی اس خصوصیت کے منکر بھی نظر آتے ہیں۔ اگر کہیں دبے لفظوں میں اس حزن کا اعتراف کربھی لیتے ہیں تو محض سرسری، گویا یہ شاعری (یا میر)کی کوئی اہم خصوصیت ہوہی نہیں سکتی۔ میر کے کلا م کی تازگی میں اس خصوصیت کو کوئی دخل ہی نہیں ہے۔ میر اخیال ہے کہ فاروقی صاحب نے میرکی زبان کو چونچال،پرلطف اور کثیر الاستعمال ثابت کرنے کے لیے روزمرہ کے موضوع پر جتنی بحث کی اور”میر کی زبان، روزمرہ یا استعارہ“ کے عنوان سے دو شان دارمضامین تحریر کیے، اتنی ہی بحث یاس ومحرومی کے دلائل کے بطلان پر بھی کرتے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ جس طرح میر کے محاورے میں قول محال اور ان کے استعاروں میں طنزیہ اسلوب نظر آتا ہے، اسی طرح میرکی یاسیت سے کوئی نغمگی یا موسیقی کی کوئی روایت بھی جڑی ہوئی نظر آتی، مگر انھوں نے شعوری طور پر میر کو اس خاص وصف سے محروم کردیا۔ انھوں نے ”شعر شور انگیز“ والے مضمون میں میر کے لہجے کا دھیمان پن، نرمی، آواز کی پستی اور ٹھہراؤ کو موضوع بحث بنایا اور میر کی مروجہ ان خصوصیات کی تردید کی۔ اسی طرح وہ ”یاسیت“ کے مشرقی متعلقات اور عالمی انسلاکات کو موضوع بناتے ہوئے کوئی مضمون اس کتاب میں شامل کرتے تو اس میں میر کی انفرادیت بھی واضح ہوتی اور اردو والے ”یاسیت ومحرومی“ کے صحیح مفہوم سے آشنا ہو جاتے۔
جیسا کہ اوپر کہیں میر کے حزنیہ پہلو اوراس کے انفرادی مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی۔ اس لیے ذیل میں چند اشعار پیش کرکے ان کے حزنیہ پہلو کو اجاگر کیا جارہا ہے (شاید یہ رائے صائب ہو)۔
درہمی حال کی ساری ہے مرے دیواں میں
سیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا
اگر فاروقی صاحب میر کی یاسیت کو باقی رکھتے ہوئے اپنے دل نشیں انداز میں اس شعر کی تشریح کرتے تو یہ شعر کہاں سے کہاں پہنچ جاتا اور حزن کی کیفیت سامنے آ جاتی۔ میر نے ”مجموعہ پریشانی“ سے بھی اپنے دکھ درد، برہمی و درہمی اور حزنیہ لے کا اعتراف کیا ہے۔ اس لیے ان کے حزنیہ لَے سے ہمارے لیے انکار کیسے ممکن ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میر کے حزن کی انفرادیت ”سیر کر… تو بھی…“ سے بھی سامنے آتی ہے۔ یعنی میر اپنے حزن سے خود کو ہلاک کردینا نہیں چاہتے۔گھٹ گھٹ کر جینا قبول نہیں کرتے بلکہ اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ کہایہ بھی جاتا ہے کہ غم کے اظہار سے غم ہلکاہوتا ہے۔شاید میر اسی اصول پر عمل کررہے ہیں۔ وہ بھی کسی ایک سے دکھ کا اظہار نہیں کررہے ہیں،بلکہ اس سے دو قدم آگے بڑھ کر اپنے دکھ درد کے مجموعے لوگوں میں بانٹ رہے ہیں۔ ”توبھی..“ بھی تواس جانب مشیر ہے کہ پریشانی کے باغ کی سیر کے لیے اذن عام ہے۔ میر کے اس خوب صورت حزنیہ پہلو کو اس لیے نظر انداز کرنا کہ دوسروں نے اس پہلو کو اپناتے ہوئے رائے قائم کرلی ہے، کوئی مناسب بات نہیں لگتی۔
فاروقی کے مطابق غالب عشقیہ یا جنس کے معاملے میں میر کے مقابلے اس لیے کمزور ہیں کہ غالب کی معشوقہ تصوراتی اور تجریدی نظرآتی ہے اور جرأت اس باب میں اس لیے نہیں ٹھہر سکتے کہ ان کے یہاں چو ماچاٹی کی فضا ہے۔ میر کے دیگر جنسی پہلو کے ساتھ فاروقی صاحب کو میر کا پھکڑپن بھی بہت پسند ہے۔سوال یہ ہے کہ پھکڑ پن اور چوما چاٹی میں کوئی بہت زیادہ فرق ہے؟کھینچا تانی اپنی جگہ، تاہم چوما چاٹی کی قبیل سے ہی پھکڑپن ہے۔ یہ کیسا تضا دہے کہ ایک کے پھکڑپن سے غایت درجہ محبت اور دوسرے کی چوما چاٹی سے نفرت! فاروقی صاحب عشقیہ اشعار میں معنویت پیدا کرنے کے لیے جرأت کو سخن طرازی کا مشورہ دیتے ہیں، مگر غالب اس باب میں سخن طرازی کا نمونہ پیش کررہے ہیں تو بھی انھیں تصوراتی اور تخیلاتی محبوب والے کا طعنہ دے کر(بلکہ بید سے پھٹکار کر) باہر کردیا جاتا ہے! میر کو پرکھنے کے لیے فاروقی صاحب کے بنائے گئے”اصول“ میں ”پھکڑ پن اور چوما چاٹی کے فرق“ کی کوئی واضح بحث ہوتی تو شاید ہم سب بھی پھکڑ پن کی تحسین سے لطف اندوز ہوتے۔ اسی طرح، اس مضمون میں، فاروقی صاحب میر کے اس پہلو کی بہت تعریف کرتے ہیں کہ وہ محبوب کے تئیں ”نانبائی“ بن جاتے ہیں، مگر اسے برہنہ نہیں کرتے ہیں، جب کہ جرأت اور ان جیسے دیگر شعرا برہنگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ دوسرے شعرا (کہیں کہیں) اپنے محبوب کو برہنہ کرتے ہیں، میر کا حال تو یہ ہے کہ وہ ”ننگا، ننگا، ننگا“ لفظ کچھ اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ محبوب کی برہنگی سے ابکائی آنے لگتی ہے۔
مضمون”بحرِ میر“میں میر کی اس لیے تحسین کی گئی کہ انھوں نے ایک بحر سے اردو کے دامن کو وسیع کیا ہے۔ حالاں کہ بہت سے لوگوں نے اسی بحر کو ”بحرمتقارب“ تسلیم کیا اور کچھ لوگ اسے ہندی سے ماخوذ سمجھتے ہیں۔ ان دونوں نظریات کے بطلان کے لیے فاروقی صاحب نے جو دلائل پیش کیے ان سے ان کی عالمانہ حیثیت واضح ہوتی ہے۔ان کی عرق ریزی اور نکتہ رسی یہاں اس طور پر بھی سامنے آتی کہ میر نے۸۳۸۱غزلوں سے ۳۸۱غزلیں زیر بحث بحر میں کہی ہیں۔تنقید میں اس طرح اعداد وشمار پیش کرنا ایک قابل تقلید مثال ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ مصرعے بتیس حروف، ماترائیں اور مصرعہ کے وقفوں کی مثالوں سے میر کی اس بحر کو ممتازثابت کرنا کوئی آسان نہیں تھا مگر خودانھوں نے کئی حوالوں سے لکھا کہ علی عادل شاہ ثانی،میر جعفر زٹلی،سودا، جرأت، وغیرہ نے بھی اس بحر میں اشعار کہے(کم ہی سہی)۔ظاہر ہے جس بحر میں قدیم شعرا نے بہت سے اشعارکہے ہوں اسی بحرکو ”بحرمیر“ کہنا تو شاید بہت مناسب بات نہیں ہوسکتی ہے۔
فاروقی صاحب نے”شعر شور انگیز“ جلددوم کی تمہید میں مولانا اشرف تھانوی ؒکا برمحل حوالہ دیا اورژاک دریدا کابھی۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں ”دونوں کے یہاں واضح طور پر یہ بات موجود ہے کہ اگرمتن سے ’کوئی‘ معنی برآمد’ہوسکتے‘ ہیں تو وہ حقیقی معنی ہیں۔ دونوں کے یہاں عندیہء مصنف کا کوئی ذکر نہیں…گویا جو بات دریدا نے ١٩٧٨میں کہی اسے مولانا تھانوی ساٹھ پینٹھ برس پہلے(١٩٢٢)میں کہہ چکے تھے۔“
اس حوالے سے دو باتیں سامنے آتی ہیں:
(۱) متن ومعنی کی بحث میں مولانا تھانوی کی رائے کی اہمیت ہے
(۲) دریدا سے کوئی چھ دہائی قبل رائے قائم کرنے کی(مزید) اہمیت
اس اہمیت کو اجاگر کرنے کے بعد ”بحرِ میر“ کے موضوع پر غور کیجیے۔ یعنی میر سے پہلے بھی اسی بحر میں کئی شعرا کے کلام موجود تھے۔ لفظ ومعنی کی بحث میں ”اولیت وقدامت“کے تناظر میں مولانا تھانوی کے لیے تحسین آمیز اسلوب اپنا یا گیا، مگر میر سے پہلے جن شعرا نے موضوع بحث بحر کو اپنایا تو ان کی کوئی وقعت نہیں؟ اس سے انکار نہیں کہ میر نے اس بحر میں جدتیں پیدا کیں۔ جدت کی بنیاد پر کسی کو”مجدد“ تو کہہ سکتے ہیں مگر ”مخترع وبانی“ نہیں۔
شعر شور انگیز جلد دوم کی طولانی نہیں ”تمہیدِ معلوماتی“ پڑھ لینے کے بعد کوئی فرد منشائے مصنف سے کلام کے معنی کو جوڑنے کی قطعاً وکالت نہیں کرسکتا۔لیکن تصوف کے حوالے سے ایک سوال ذہن میں آتا ہے جس کا تعلق منشائے مصنف سے بھی ہوسکتا ہے۔ اگر نہیں بھی ہو، تو کم از کم ”سراغِ مصنف“ سے ہے ہی۔ پہلے ایک مثال:
مجھ کو نہ اپنا ہوش نہ دنیا کا ہوش ہے
بیٹھا ہوں مست ہوکر تمھارے خیال میں
تاروں سے پوچھ لو میری رودادِ زندگی
راتوں کو جاگتا ہوں تمھارے خیال میں
ا ن اشعار پر غور کریں تو اس میں بازاری پن ظاہر ہوگا۔ معنی میں کوئی گہرائی نہیں اور لفظیات میں بھی دل کشی نہیں۔جب تک یہ معلوم نہ ہوکہ یہ شعر کس کا ہے تو اس کے موضوع(=مضمون) سے پردہ اٹھانا بہت مشکل ہے۔ اگر کسی نامور ادیب یا کسی عارف باللہ کی طرف اس کا انتساب کردیا جائے تو ازخود اس میں معنویت آجائے گی، یعنی عشق مجازی اور عشق حقیقی۔اگر مصنف نامعلوم ہو تو شاید اک دل جلے کا شعر تسلیم کیا جائے گا۔ سچائی یہ ہے کہ یہ اشعار مولانا عارف پرتا پ گڑھی کے ہیں اور پیر ذوالفقار نے فنافی اللہ کے تناظر میں اس کا ذکر کیا ہے۔ گویا اس کے خالق کے ذکر بعد اس شاعری کی عظمت بڑھ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں ”سراغِ مصنف“ کی کیا اہمیت ہوگی؟
حصہ سوم ”شعر شور انگیز“ میں کلاسیکی شاعری کی جو شعریات متعین کی گئی ہیں، ان سے فی زمانہ شاعری کی تشریح میں مد د لے سکتے ہیں۔ کیوں کہ شعریات سے الگ ہٹ کر نہ شاعری کو مضمون آفرینی کا بہترین نمونہ بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی معنی آفرینی کا۔ تیسری جلد میں شامل چار مضامن(بشمول تمہید جلد سوم اور تین ابواب)ایسے ہیں جن کی قرأت کے بغیر غزلیہ شاعری کی تفہیم مشکل ہے۔ ان مضامین میں فاروقی صاحب نے کلاسیکی شعریات کا نہ صرف ’احیا‘ کیا بلکہ اس شعریات کی روشنی میں اشعار کی تشریح بھی کی۔ ان کے مطابق کلاسک کے مطالعے کے لیے تہذیبی شعور سے آگاہ ہونا لازمی ہے۔ تہذیبی شعور کے بغیر ادب کی تفہیم ممکن نہیں۔ اسی طرح ان کا خیال ہے کہ کلاسیکی اور غیر کلاسیکی ادبی سرمایہ کے جائزے کے لیے کوئی”آفاقی اصولِ ادب“ مرتب نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ ہر ادب کا الگ الگ تہذیبی پس نظر اور شعریات ہوتی ہیں۔ ان مباحث کے علاوہ استعارے کی حقیقت خوب صورت انداز میں واضح کی گئی۔ ساتھ ہی روانی اور کیفیت کو مثالوں سے سمجھایا گیا۔ معنی اور مضمون کی روایت اور ان دونوں کے درمیان پائے جانے والے فرق کو مدلل پیش کیا گیا۔
ان تمام باتوں کے علاوہ تیسری جلد میں فاروقی نے ولی اور سعد اللہ گلشن کے موضوع پر روشنی ڈالی اور اس ضمن میں کئی امکانی اور عقلی دلائل پیش کیے ہیں۔ زیر بحث کتاب کے علاوہ انھوں نے اپنی معرکۃ الارا کتاب ”اردو کا ابتدائی زمانہ“ میں ولی کی آمد اور سعداللہ گلشن کے مشورے پر بحث کی ہے۔ چوں کہ دونوں کتابوں میں اندازِ پیش کش مختلف ہے (مگر منشا ایک ہے)، اس لیے پہلے ”اردو کا ابتدائی زمانہ“ سے ایک اقتباس:
”ہمیں اس بات پر حیرت لازمی ہے کہ آخر میاں صاحب [سعداللہ گلشن] عرصۂ دراز تک اس بات کے منتظر کیوں رہے کہ ولی، یا دہلی کے باہر والا کوئی آئے تو اسے اپنا قیمتی مشورہ دیں؟…سترہویں صدی کے اواخر کی دلی میں شاہ گلشن کا شمار بڑے فارسی گویوں میں ہر گز نہ تھا۔ریختہ بھی وہ بس یوں ہی کہہ لیا کرتے تھے۔ اس وقت میرزا عبدالقادر بیدل (١٦٤٤تا١٧٢٠ء)خود موجود تھے،پھر دوسرے نمبر پر محمد افضل سرخوش (١٦٤٠تا١٧٤٤ء) کو رکھا جاسکتا ہے..بیدل تھوڑی بہت ریختہ گوئی بھی کرلیتے تھے…اگر کوئی شخص کسی نئے شاعر کو شاہ گلشن سے منسوب مشورہ دینے کے لیے ہر طرح سے استحقاق ومجاز رکھتا تھا، تووہ بیدل تھے، نہ کہ شاہ گلشن۔“(اردو کا ابتدائی زمانہ)
مشہورِ زمانہ کتاب ”اردو کا ابتدائی زمانہ:ادبی تہذیب وتاریخ کے پہلو“میں کئی ایسے مباحث موجود ہیں جو اردو کی عام تاریخی روایتوں سے متصادم ہیں۔یہاں ان تمام کی طرف اشارہ مقصود ہے اور نہ ہی محمود۔البتہ ولی سے متعلقہ باتوں پر نظر ڈالنا ناگزیر ہے۔ کیوں کہ انھوں نے و لی کی دلی آمد کے بعد سعداللہ گلشن سے ملاقات کو کوئی اہمیت نہیں دی،بلکہ اس تناظر میں چند سوالات بھی قائم کردیے،تاہم ان سوالات کی بنیاد تاریخی نہیں محض عقلی ہے۔اس سلسلے میں ان کا پہلا سوال یہ ہے کہ سعداللہ گلشن عرصۂ دراز تک اس بات کے منتظر کیوں رہے کہ ولی، یا دہلی کے باہر والا کوئی آئے تو اسے اپنا قیمتی مشورہ دیں؟ فاروقی صاحب کے اس سوال کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے:
اول،یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ سعداللہ گلشن مشورہ دینے کے لیے منتظر بیٹھے تھے۔
دوم، مشورے کا معاملہ حالات سے جڑا ہوتا ہے۔ حالات کے مدنظر کوئی کسی فرد کو مشورہ دے دیتا ہے۔یہاں معاملہ یہ ہے کہ دہلی آمد کے بعد ولی نے سعداللہ گلشن کو اپنے چند اشعار سنائے۔گویا نہ انتظار کا کوئی معاملہ ہے اور نہ ہی مشورے کے لیے دہلی سے باہر کے کسی فرد کا مسئلہ۔ بس ایک اتفاق تھا کہ ولی کے کلام میں میاں گلشن کو ایک امکان نظر آیا اور ولی کا کلام سن کرانھوں نے برجستہ مشورہ دے دیا کہ ”یہ سب مضامین فارسی،کہ بیکار پڑے ہیں، انھیں اپنے ریختہ میں استعمال کرو“۔ گویا فاروقی صاحب کے سوال کا یہ ایک جواب ہوا۔ ساتھ ہی ان کے مذکورہ سوال پر یہ سوال بھی ہوسکتاہے کہ کیا غالب منتظر تھے کہ کوئی حالی آئے گا اور وہ ان کو شعر کہنے کا مشورہ دیں گے۔ غالب اور حالی کے معاملے میں بھی اتفاقیہ حالات کی کارفرمائی(پسندیدگی) ہے۔اگر غالب،حالی کے یہاں امکانات نہ دیکھتے تو قطعاً مشورہ نہیں دیتے۔ بالکل یہی معاملہ ”پیر“ گلشن اور ”مرید“ ولی کا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کے دوسرے سوال کا لب لباب یہ ہے کہ جو مشورہ سعداللہ گلشن نے ولی کو دیا،اس مشورے کا مجاز بیدل تھے کیوں کہ بیدل گلشن سے بڑے فارسی گو تھے۔اس سوال کی نوعیت بھی محض عقلی ہے، تاریخی نہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ اگر یہ سوال کلیتہً تاریخی ہوتا تو راقم کی طرح نئے لکھنے والوں کے لیے اس پر کلام بہت مشکل ہوتا، مگر عقلی ہے تو بہت کچھ کہاجاسکتا ہے۔فاروقی صاحب انتہائی معزز ہیں اور میرے لیے تو اِتنے کہ اُن جیسا ناقد فی الحال میری نگاہ میں کوئی نہیں۔ الہ آباد میں وہ مقیم ہیں اور وہیں سید محمد عقیل بھی مقیم تھے۔اب کوئی اپنے اندر ادبی امکان رکھنے والا نوجوان الہ آباد پہنچ کر فاروقی صاحب سے نہ ملے اور سید محمد عقیل(یاپروفیسر فاطمی) کے یہاں حاضر ہوجائے۔ ادبی گفتگو کے دوران اگر سید محمد عقیل یا پروفیسر فاطمی انھیں کوئی ادبی مشورہ دیں تو کیا اس مشورے کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی؟ کیا ان کے اس مشورے کو یہ کہہ کر رد کردیا جائے گا کہ الہ آباد میں فاروقی صاحب کی موجود گی میں کوئی کسی ادیب کو کیوں مشورہ دے سکتا ہے یا پھر فاروقی کے مشورے کی ہی اہمیت ہوگی اور عقیل صاحب کے مشورے کی نہیں؟ راقم کا خیال ہے کہ ہرذی علم فرد یہی کہے گا کہ دونوں کے مشوروں کی اہمیت ہوسکتی ہے۔ کچھ یہی صورت ہے سعد اللہ گلشن کے مشورے کی۔ یہاں پر فاروقی صاحب کی یہ بات بھی قابل توجہ ہے: ”اس بات کا قوی امکان ہے کہ ولی اور گلشن ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے رہے ہوں۔“ ((اردو کا ابتدائی زمانہ))اگر یہ پہلو مسلّم ہے تو میاں گلشن کا مشورہ اوربھی بہتر طریقے سے سامنے آئے گا۔بایں معنی کہ ولی کے گلشن سے مراسم تھے۔ اس لیے ولی جب آئے تو ان کے پاس(بیدل کے پاس نہیں۔ اور دلی آنے سے پہلے بھی وہ ان کو مشورہ دیتے رہے ہوں) گئے ہوں۔میرزا بیدل کے پاس نہیں۔ولی اور گلشن کے درمیان قربت تھی۔ چناں چہ ولی کے یہاں پائے جانے والے نئے امکانات سے سعداللہ گلشن واقف ہوں گے،اسی لیے انھوں نے ایسا مشورہ دیا جس سے ولی کی شاعرانہ ولایت معتبر ہونے لگی۔ جہاں تک سعداللہ گلشن کی شخصیت کا سوال ہے تو وہ اتنے حقیر، غیر معروف یا غیر ریختہ شناس اور غیرزبان آشنا نہ تھے کہ کسی کو بہتر مشورہ بھی نہ دے سکیں۔انور سدید نے لکھا ہے ”پھر شاہ گلشن کوئی غیر معروف شخصیت نہیں تھے“(7)اس لیے یہ کہنا پڑتا ہے کہ پیر سعداللہ گلشن نے نہ صرف ولی کے گلشنِ کلام کو معطرکر دیا بلکہ ولی کی ولایت وکرامت کوبھی استحکام عطا کیا۔
یہ تمام باتیں ”اردو کا ابتدائی زمانہ“ سے ماخوذ ایک اقتباس کے مدنظر کی گئیں مگر ”شعر شور انگیز“ میں بھی ولی اور گلشن کا موضوع مکمل آب وتاب کے ساتھ موجود ہے، اس لیے اس کتاب کے ضمن میں مذکورہ باتوں کو پیش کیا گیا۔اس بحث کے بعد ان دونوں کے حوالے سے ”شعر شور انگیز“ کے مزید چند پہلوؤں پر گفتگولازمی ہے۔ کیوں کہ فاروقی صاحب نے ولی اور گلشن کے متعلق سلسلے وار کئی سوالات اٹھائے۔ ذیل میں چار نمبروں کے تحت من وعن فاروقی صاحب کے سوالات پیش کیے جارہے ہیں اور ہر نمبر کے تحت لکھے گئے سوال کے بعد ”مفروضے“ کے عنوان سے راقم کی ناقص رائے بھی ہوگی۔
(۱) بقول فاروقی: ”اگر سعد اللہ گلشن نے ولی کے کلام کی تحسین وتوصیف کی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں ولی کا کلام پسند آیا۔ پھر اس بات کی کیا ضرورت تھی کہ وہ انھیں ”مضامین فارسی“ برتنے کا مشورہ دیتے؟“
مفروضہ:فاروقی صاحب کے مذکورہ سوال کا جواب بہت آسان ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اکثر اسی کو مشورے دیتے ہیں جس کو ہم پسند کرتے ہیں۔ غالب نے حالی کو مشورہ اس لیے دیا کہ”حالی کا کلام“ غالب کو کسی حد تک پسند آیا۔ اسی طرح سعداللہ گلشن نے ولی کے کلام کو پسند کیا، اس لیے انھوں نے بھی ولی کو مشورہ دیا۔ چناں چہ یہ مطلب نکالنا کہ پسندیدگی کے بعد مشورے کا جواز ختم ہوجاتا ہے، شاید مناسب بات نہیں۔
(۲)بقول فاروقی:”میاں گلشن کے مشورے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ وہ اس بات سے واقف نہ تھے کہ اردو کے شعرا عرصۂ دراز سے فارسی مضامین برت رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میاں گلشن کو اردو ادب کے بارے میں کچھ خبر نہ تھی۔ یہ بات قرین قیاس نہیں۔“
مفروضہ:بالکل، سعداللہ گلشن کو معلوم تھا کہ ہندوستانی شعرا ء فارسی مضامین، اردو یعنی ”سبک ہندی“ میں برت رہے ہیں۔ ولی بھی برت رہے تھے (جیسا کہ ولی کے عہد کے”گجرات ودکن“ میں ہندوستانی اور ایرانی شعریات کی کشمکش نظر آتی ہے)۔ اس لیے یہ کہا جاسکتاہے کہ ولی کے یہاں بھی ایرانی اورہندوستانی شعریات کی کشمکش جاری ہو۔ گلشن نے ولی کے یہاں پائی جانے والی اسی ”کشمکش“کو پسند کیا ہو اور اسی ”پسندیدگی“ کی بنیاد پر ولی کو مشورہ دیا ہوکہ ”اور زیادہ فارسی مضامین“ اپنے اشعار میں لاؤ۔
(۳)بقول فاروقی”شاہ گلشن ایک متدین اور ثقہ شخص تھے۔یہ بات قرین قیاس نہیں کہ انھوں نے ایسی غیر اخلاقی بات کہی ہو کہ فارسی والوں کے مضامین اردو میں لکھو، تمھیں پکڑنے والا کوئی نہیں؟ پھر جب خان آرزو، بیدل، ٹیک چند بہار سیالکوٹی مل دار ستہ، آنند رام مخلص جیسے لوگ موجود تھے، جو فارسی اور اردو میں ذولسانین تھے تو یہ کہنا بے معنی تھا کہ مضامین خوب نظم کرو، محاسبہ کرنے والا کوئی نہیں۔“
مفروضہ:اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ سعداللہ گلشن نے فارسی مضامین کو من وعن اردو میں منتقل کرنے یعنی اپنے نام سے فقط ترجمے کا مشورہ نہیں دیا تھا۔ برتنے کا مشورہ دیا۔”برتنے“ کے لفظ سے ترجمے یا چوری کا پہلو نکالنا قرین عقل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ یہ کہنا شاید مناسب نہیں کہ گلشن جیسے متدین شخص ولی کو”غیر اخلاقی بات“ کی تعلیم کیسے دے سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ استفادہ یا متقدمین کے مضمون کو آگے بڑھانے کی روایت اردو میں موجودہے۔ میر سے غالب نے بھی استفادہ کیا۔ پھر غالب نے دیگر فارسی اور ہندی شعرا کے مضمون کو اپنے کلام میں باندھا، یعنی استفادہ کرتے ہوئے انھوں نے متقدمین کی پرانی بات میں ایک نئی بات پیدا کر دی۔(شعر شور انگیز کی پہلی جلد کے پہلے مضمون ”خدائے سخن، میر کہ غالب“ میں بھی یہ بحث موجود ہے۔) اس لیے سعد اللہ گلشن کے مشورے کو فارسی مضامین کے ”ترجمے یا چوری“ کے پس منظر میں دیکھنا کوئی بہتر بات نہیں۔
(۴)بقول فاروقی:”اصل بات یہ ہے کہ ولی کا اپنا کارنامہ ہے کہ انھوں نے دکن والوں کی ملی جلی طرز کو ترک کیا اور سبک ہندی اختیار کیا۔“
مفروضہ: یہ بات مسلم ہے کہ ”مشورہ“ اور ”کارنامہ“ دونوں الگ الگ چیز ہے۔ یقینا ولی نے ”سبک ہندی“ میں فارسی مضامین کو برتاہے تو یہ ان کا ”اپنا کارنامہ“ ہی ہے۔لیکن اتنی بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ سعداللہ گلشن کے مشورے سے ولی کا کارنامہ ”مسخ، مجروح، کم تر، نا قابل اعتبار“ نہیں ٹھہرتا۔ یعنی اگر ولی ان کا مشورہ قبول کرلیں تو بھی ان کے ”کارنامے“ پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی دقت نہیں کہ یقینا ولی (دلی آنے) سے پہلے بھی کارنامے کا نمونہ پیش کر رہے تھے مگر زیر بحث مشورے کے بعد ولی کو”مکمل کارنامہ“ انجام دینے میں مزیدآسانی ہاتھ آئی ہو۔
”شعر شور انگیز“ میں شامل تمام مضامین (بہت سے اشعار کی تشریح) پڑھنے کے بعد سلسلے وار مزید چند ثاتراتی پہلوؤں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ ان پہلوؤں میں طنز بھی ہے اور کچھ حقیقت بھی، کچھ لفاظی بھی،کچھ سچائی بھی:
(۱) جس کی عربی، فارسی اور انگریزی انتہائی شا ن دار (تقریباً مادری-باپ کی -زبان) نہ ہوجائے،وہ اگر تنقید لکھے گا تو بلاشبہ وہ تنقید کا حق ادا نہیں کرپائے گا۔ گویا تنقید (اردو میں)لکھنے کے لیے مادری زبان کے ادب کو ہی پینا کافی نہیں بلکہ عربی وفارسی کے ساتھ ساتھ انگریزی کا دریا بہانا ازحد ضروری ہے۔
(۲) مجھے”شعر شور انگیز“ کی پہلی جلد کے علاوہ بقیہ تینوں جلدوں کے مضامین زیادہ عالمانہ معلوم ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان مضامین میں ”کھینچم کھانچ“کم نظر آتی ہے۔ ’ان سب کے اس قدر جامع ہونے کی یہ بھی وجہ ہوسکتی ہے کہ مکمل آب وتاب کے ساتھ ان میں ”ممدوح میر“ موجود نہیں۔ان مضامین میں کسی ایک بحث کو پھیلا کر اختتام میں شان دار طریقے سے مربوط کردیا گیا یا پھر ان میں جو بحث کی گئی، اس بحث کا پورے مضمون سے گہراؤلگاؤ واضح ہوتا ہے۔
فاروقی کی تنقید کی یہ بھی انفرادیت ہے کہ وہ ایک مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے متعدد دلائل پیش کرتے ہیں اور نتیجتاً آخر میں اسی مفروضے کو ثابت کرلیتے ہیں۔ اس لیے ان کے مضامین میں پھیلاؤ کی صورت نظر آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ”غالب کی میری“ اور ”خدائے سخن میر کہ غالب“ میں فاروقی کی انفرادیت والا کوئی پھیلا ؤ نہیں،بلکہ ایک ہی مضمون میں کئی ایسے بیان بھی ہیں جن کا نفسِ مضمون سے کوئی تعلق نہیں، یا پھر مضمون کے لیے منتخب کیے گئے عناوین سے کوئی علاقہ نہیں۔
(۳).میرا ذاتی خیال ہے کہ کہیں کہیں کلام ِ میر سے زیادہ فاروقی کے اندازِ تشریح میں دل کشی نظر آتی ہے۔کبھی کبھی تو ایسا بھی محسوس ہوتاہے کہ فاروقی صاحب نے کلامِ میر کے مطالعے کے بعد اپنی رائے قائم نہیں کی بلکہ اپنی علمیت کے سانچوں میں ان کے اشعار کو ڈھال دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی علمیت حاوی نظر آتی ہے اور اشعار پھیکے (میر کی روح سے معافی)۔ اکثر غالب کے اشعار کی معنویت مجھ پر واشگاف ہوتی ہے تو ایک عجیب ”کیفیت“ کا احساس ہوتا ہے،یک گونہ خوشی بھی ہوتی ہے اورغالب کی شرح بتانے والا شارح ذہن ودماغ سے اوجھل ہوجاتا ہے، غالب کے اشعار کی معنویت اور تازگی کا احساس دیر پا ہوتاہے، مگر میر کے اشعار کا معاملہ ذرامختلف ہے۔ ان کے بہت سے اشعار کی تشریح کے بعد اشعار پھسپھسے لگتے ہیں اور فاروقی کا اندازِ نقد ذہن پر چھایا رہتا ہے۔ (یہ میری ذاتی کیفیت ہوسکتی ہے)۔
(۴)رومن یاکبسن کاکہنا ہے کہ نظم[تخلیق] میں معنی اس وقت بھی پوشیدہ رہتا ہے،جب کسی نظم سے ذہین سے ذہین فرد بھی معنی نکال چکا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ”شعر شورانگیز“کے بعد بھی میرکے بعض اشعار میں ’امکاناتِ جہانِ معنی‘ موجود ہوں اور وہی فرد ان معنی کو قابو میں کرسکے جو تنقید لکھنے کا اہل ہوجائے، یعنی مختلف زبانوں کی ہزاروں کتابوں پر نوٹ لکھ کر پیش کر سکے۔
الغرض شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی امتیازات میں ان کی عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔ یہ عظمت ان کے تنقیدی دعوؤں اور دلائل سے واضح ہوتی رہتی ہے۔ کیوں کہ انھوں نے بے شمار مروجہ ادبی تاریخ کو الٹ پلٹ کردیا، فکر کے روایتی بتوں کو ڈھادیا۔ اسی طرح اندازِ تشریح، معانی کی گہرائی اور مطالب کی گیرائی سے اپنی تنقید کو امتیازی شان کا حامل بنا دیا۔ تاریخی حوالوں سے اپنے دلائل کو مضبوطی عطا کرنا اور اسی کے سہارے بت شکنی کرتے چلے جانا بھی ان کا ایک عجیب علمی کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ فکری، نظری اور اصطلاحی مباحث کو تجزیاتی عمل سے مدغم کرتے ہوئے مضمون کو اختتام تک پہنچانابھی ان کی تنقید کا نادر پہلوہے۔فاروقی کی تنقید کا تحقیقی ولغوی پہلوبھی اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ کیوں کہ انھوں نے تنقیدی مضامین(تشریحات) میں جس طرح لغات سے استفادے کے بعد معانی متعین کیے وہ بھی انتہائی مفید رویہ ہے۔ ان تمام اوصاف سے متصف ہونے کے بعد ان کی تنقید میں علمیت کے ساتھ ساتھ ایک کشش پیدا ہوجاتی ہے۔ جس طرح قاری بہت سی تخلیقات کے سحر میں ڈوب جاتا ہے، بالکل اسی طرح فاروقی کی تنقیدقاری کو خود سے لپٹا ئے رکھتی ہے۔فاروقی کی تنقید قدیم وجدید، مغرب ومشرق اور افکار وشعریات سے لبریز ہے۔ اس لیے ان کی تنقید نہ صرف ہمیں متاثر کرتی ہے بلکہ قائل ہوجانے پر بھی مجبور کردیتی ہے۔

شیئر کیجیے

One thought on “سوالات کے آئینے میں ’’شعر شور انگیز‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے