ہریا کی حیرانیاں

ہریا کی حیرانیاں


ڈاکٹر ذاکر فیضی

مداری سڑک کے کنارے مناسب مقام دیکھ کر تماشے کی تیّاری کر رہا تھا۔ جمورا اس کی مدد میں لگا تھا۔ مداری نے ایک پوٹلی کھولی، اس میں سے کالی چادر نکال کرزمین پر بچھا دی ۔ پھر وہ پوٹلی سے دوسرا سامان نکال کر جمورے کو دینے لگا۔ جمورا استاد کے بتائے مقام پر اس کو رکھتاجا رہا تھا۔ بڑے دانوں کی رنگ برنگی مالائیں،ٹیڑھی میڑھی عجیب سی دکھنے والی پلاسٹک سے بنی انسانی کھوپڑی، کالا کانسہ، المونیم کی بد رنگ سی پلیٹ اور ہاتھ سے بُنی گئیں دو ٹوکریاں۔
تماشے کی تیّاری مکمّل ہو چکی تھی۔ مداری نے اپنا سب سے اہم اوزار ڈگڈگی نکالا اور شروع ہو گیا۔
”ڈگڈگ ڈگڈگ۔۔ڈگ ڈوگ ۔۔۔۔“ ڈگڈی کی آواز کے ساتھ ہی مداری کی زبان سے رٹے ہوئے جملے اپنے مخصوص انداز میں نکلنے لگے۔ ”دکھائے گا۔۔۔ دکھائے گا۔ یہ جمورا طرح طرح کے کرتب دکھائے گا۔
”ڈگ ڈگڈگ۔۔ڈگ۔۔۔“ ڈگڈگی بجاتے ہوئے مداری نے جمورے کو اپنے سامنے کھڑے ہونے کا اشارہ کیا۔
”صاحبان۔۔۔۔ آپ ہیں قدردان اور مہربان۔۔۔۔۔آیئے آیئے جمورے کا تماشہ دیکھتے جایئے۔۔۔یہ جمورا کتّا بنے گا، گدھا بنے گا۔۔ اور شاہ رخ خان بنے گا۔۔۔۔اور حضور آپ جو کہیں گے، یہ وہ بنے گا۔۔۔۔۔آیئے، آج اس البیلے جمورے کا تماشہ دیکھتے جایئے۔۔۔۔ ایسا تماشہ جو آپ نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔۔۔۔۔ڈگڈگ۔۔ڈگ ڈگ۔۔“
ڈگڈگی کی تیز آواز اور مداری کے لہجے کا اثر ہوا، قریب کھیل رہے چند بچّے مداری اور جمورے کے ارد گرد کھڑے ہو گئے۔
”ڈگ ڈگ ڈگڈگ۔۔“ مداری جمورے سے مخاطب ہوا۔۔۔”بول جمورے! آج کیا تماشہ دکھائے گا۔“
”جو آپ کہوگے استاد۔“ جمورے نے اپنی ترنگ پکڑ لی تھی۔ اس نے استاد لفظ ہونٹوں کو خم دے کر زور سے کہا۔
مداری نے غور کیا مجمع جمنے لگا ہے۔۔۔ ایک ایک دو دو کرکے لوگ تماشے میں اُگنے لگے ہیں۔ آس پاس کے آوارہ نوجوان، چائے خانوں میں بیٹھے گپ لڑاتے لوگ، راہ چلتے مسافر تماشے کا حصّہ بنتے جا رہے تھے۔
”بول جمورے بندر بنے گا۔۔۔“
”بنوں گا استاد۔۔۔“جمورا نے مشینی انداز میں دہرایا۔
”کتّا بنے گا۔۔۔؟“ مداری نے بڑھتی پبلک کو دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”ضرور بنوں گا استاد۔۔۔“ جمورے نے کتّے کی طرح آواز نکالی۔ اپنے جسم کو کتّے میں ڈھال کر اپنی دم ہلانے لگا اور زبان باہر لٹکا دی۔ ”دیکھا آپ نے صاحبان، مہربان، قدردان۔۔۔ آپ کا یہ جمورا ابھی بنا کتّوں کا پہلوان“مداری مجمع کو باندھے ہوئے تھا۔
”اچھّا یہ بتا۔۔۔۔۔۔ڈگڈگ ڈگ۔۔۔“ مداری نے بڑے حکیمانہ انداز میں دریافت کیا۔”تو اور کیا کیا بن سکتا ہے۔“
”حکم کرو استاد ۔۔۔۔ جو کہوگے، وہی بنوں گا استاد۔۔۔۔“جمورے نے پہلوان کی طرح ٹہلتے ہوئے کہا۔۔۔پبلک ہنسنے لگی۔
”گدھا بنے گا۔“ مداری چیخا۔
”جی بنوں گا استاد۔“
”مرغا بنے گا۔“
”جی بنوں گا استاد۔“
”پاگل بنے گا۔“
”جی ضرور بنوں گا ستاد“ جمورا پاگلوں کی طرح حرکتیں کرنے لگا۔ پبلک تالیاں بجانے لگی۔
مداری خوش تھا۔۔ تماشہ صحیح جا رہا تھا۔
مداری آگے بولا۔۔۔۔”قدردانوں! پاپی پیٹ کا ہے سوال
جمورے کی زندگی ہے ایک جنجال“
مداری نے ڈگڈگی کو تیزی سے بجا کر چھوڑ دیا۔
”مہربان لوگو اور بچّہ پارٹی
اب زور سے بجاؤ تالی
جمورے کی مر گئی ہے سالی
اب یہ گائے گا قوّالی۔“
مداری نے تالی، سالی اور قوّالی الفاظ کو لمبا کھینچا۔جمورے نے لہک لہک کر، ٹھمک ٹھمک کر قوّالی سنائی۔
پبلک نے سکّے اچھالے۔ تماشہ تمام ہوا۔
مداری نے سکّے سمیٹ لئے۔۔۔۔۔جمورا تماشے کا سامان سمیٹنے لگا۔
مداری اپنے گھرچلا گیا۔۔۔جمورا بھی اپنا حصّہ لے کر اپنے جھونپڑے کی طرف چل پڑا۔
جمورے کا نام ہریا تھا، اس کا تعلق دور دراز کے کسی گاؤں سے تھا۔ چھ سال قبل وہ اس مہا نگر میں روزی روٹی کی تلاش میں آیا۔ جب اس نے اس شہر میں قدم رکھا ، اس کے ہم راہ چھ سال کی بیٹی چُنیا، تین سالہ بیٹا بالو اور بیوی چمکی تھی۔ وہ اپنے پریوار کے ساتھ مہینوں ریلوے اسٹیشن، بس اڈّوں، میٹرو پل کے نیچے پڑا رہا۔ جو کام بھی ملتا تھا، کر لیتا تھا۔اینٹ گارا ڈھونا، چائے کے ہوٹل پر برتن دھونا، جیسے کاموں پر اس کا گھر چل رہا تھا۔
چار سال ہوئے چائے کی ڈھبری پر اس کی ملاقات مداری سے ہوئی۔ مداری کو ایک جمورے کی تلاش تھی۔ ہریا کام کی تلاش میں تھا۔ مداری نے ہریا میں کچھ ایسا دیکھا کہ اس نے ہریا کو جمورا بننے کی تجویز رکھی، جسے ہریا نے بنا سوچے سمجھے قبول کر لیا۔ مداری نے ہریا کو جمورے کاکام سکھایا۔ ہریا کو جمورا بن کر لوگو ں کو ہنسانا برا نہیں لگتا تھا۔ چند روپئے مل ہی جاتے تھے۔ اسے تکلیف تھی تو یہ کہ سب اسے جمورا ہی کہنے لگے تھے۔ جتنے لوگ بھی اسے جانتے تھے سب کے لئے وہ جمورا ہو گیا تھا۔ تماشے کے دوران بھی مداری کے علاوہ جب کوئی اسے آواز لگاتا ’اوئے جمورے ذرا ٹھمکا تو لگا۔‘ اسے بہت ذلّت کا احساس ہوتا تھا۔
ہریا اکثر حیران و پریشان رہتا تھا۔ جہاں ہریا جمورا بن کر اپنے کرتبوں کی وجہ سے پبلک کو حیرت زدہ کر دیتا تھا، وہیں وہ وقت بے وقت خود بھی حیران ہو جا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پاتا تھا کہ:
یہ ’اے سی سی‘ کیا ہوتاہے۔
’این آر سی‘کسے کہتے ہیں۔
یہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ کیا ہوتا ہے۔
اتنے بڑے بڑے عالیشان بنگلوں میں کون رہتا ہے؟
اتنی اونچی اونچی عمارتیں کیسے بن جاتی ہیں؟
اتنی بڑی گاڑیاں کہاں سے آتی ہیں؟
لوگوں کے پاس اتنا پیسہ کیسے آ جاتا ہے؟
پیسے والوں کے بچّے اتنے گورے، گلابی سے اور خوب صورت کیسے ہوتے ہیں؟
ہریا گاڑیوں میں اور راہ چلتی حسین، اسمارٹ لڑکیوں اور عورتوں کو دیکھتا تو اس کے دل میں خیال گزرتا، اس کی بیوی چمکی ایسی کیوں نہیں ہے۔ ان سولات کی تلاش میں کبھی کبھی وہ راہ چلتے رک جاتا تھا اور کھو جاتا تھا۔ راہ چلتے لوگوں کو گھورنے لگتا تھا۔
جہاں کہیں چند لوگ اسے گفتگو کرتے نظر آتے، وہ چپکے چپکے ان کی باتیں سننے کی کوشش کرتا تھا۔
کچھ دن پہلے اس کی چمکی سے لڑائی ہو گئی تھی۔ٹریفک سنگنل پر جام لگا ہوا تھا۔ وہ دونوں بچّوں اور چمکی کے ساتھ ٹریفک کی وجہ سے رکے ہوئے لوگوں کو کھلونے، پلاسٹک کے پھول وغیرہ بیچ رہا تھا۔ کار میں بیٹھے ایک صاحب کے جوتوں کو دیکھ کر وہ حیران ہو گیا۔ صاحب کے بال اور کالے جوتے چمک رہے تھے۔ ہریا کے پاس جوتے نہیں تھے۔ اس نے بے خیالی میں اپنے سر پر ہاتھ پھیرا، اس کے بال آپس میں چپکے ہوئے، بری طرح چکٹ رہے تھے۔ ہریا کھو گیا۔ اسے ہوش تب آیا جب صاحب کے برابر میں بیٹھی میم صاحب نے اسے چور سمجھ کر ڈانٹ کر بھگایا۔ چمکی نے اس بات کو دیکھ لیا تھا۔
رات کو کھانا بنانے سے پہلے چمکی ہریا پر بجلی کی طرح کڑک پڑی۔۔۔۔”کاہے، گاڑی میں بیٹھی میم ساب کو گھورے جا رے تھے؟“
”چمکی، کتنے مزے ہیں ان ساب لوگ کے۔“ ایسا لگتا تھا جیسے ہریا ابھی تک وہیں تھا۔۔۔” چمکے چمکے جوتے، کھلے کھلے بال،ساپ ستھرے کپڑوں میں کام پر جانا اور کرسی پر بیٹھ کر ٹھنڈے کمرے میں کاگج ادھر ادھر کرتے رہنا۔“ ہریا نے ایک لمبی سانس چھوڑی۔
”اُوہو۔۔۔“ چمکی نے چڑکر کہا۔۔۔”بڑے آئے ساب لوگ کے بارے میں سوچنے والے۔۔۔۔۔ استاد تو بن نہیں سکت، ساب بنیں گے۔“
”تو جیادا بک بک نہ کیا کر چمکی۔۔۔۔کہاں کہ بات کہاں لے جات ہے۔“ چمکی نے ہریا کہ دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اس نے غصّے کو قابو میں کرتے ہوئے دھوتی کی انٹی میں سے بیڑی کا بنڈل نکالا۔ بیڑی جلائی اور اپنی جھنجھلاہٹ کو بیڑی کے دھوئیں میں اڑانے لگا۔
”کیا بک بک کر رئی ہوں میں۔۔“ چمکی بھڑک اٹھی۔۔۔”کب سے کہوں استاد سے کہہ، پیسے بڑھائے، ہمرا گزر نہ ہوئے اس میں۔۔۔کتنی مہنگائی۔۔۔۔۔“
”چمکی اب میں تجھے کیا سمجھاؤں۔۔۔۔“ ہریا نرم پڑ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ بچّے اور چمکی سگنل پر کھلونے اورپھول نہ بیچیں تو گزارا مشکل ہو جائے۔۔۔۔”کیا کہوں میں تجھ سے۔۔۔۔ ان تھوڑے سکّوں کے لئے کتنا جلیل ہونا پڑتا ہے۔۔۔۔ تو کیا جانے کتّا، گدھا اور جنانہ تک بننا پڑتا ہے۔“ وہ اپنی چمکی کے سامنے شرمندگی محسوس کرنے لگا۔ اس نے جلدی جلدی بیڑی کی تین چار کش لگائے۔
”تو۔۔۔۔ کیا۔۔۔ میں بھی تو بچّوں کے سہارے آگ اگلتے سورج کے نیچے اور جلتی دھرتی کے اوپربھکاریوں کی طرح گڑ گڑا کر کھلونے بیچتی ہوں۔“ چمکی نے نفرت سے تھوک گٹکا۔۔۔”حرام کے جنے، کچھ تو ایسے بھگاتے ہیں جیسن ہم نالی کے کیڑے ہوں۔۔۔۔اور جو خریدے ہیں، ایسے احسان دکھائیں جیسے بھیک تو دے رئیں۔۔۔“
ماں کی آواز سن کر باہر کھیل رہے دونوں بچّے جھونپڑی میں آگئے۔ اور ماں باپ کو تکنے لگے۔
”اب بتا۔۔۔۔ میں بھی کیا کروں؟“ ہریا چمکی کے قریب آ گیا۔۔۔ ”میں برابر تو محنت کر رہا ہوں نا۔“
”تجھ سے کتنی بار بول چکی کہ تو بھی استاد بن۔۔۔۔“ چمکی نے خود پر قابو پا لیا تھا۔۔۔”اپنا تماشہ لگانا شروع کر دے۔ کسی چھورے کو گاؤں سے لے آ اور جمورا بنا لے۔۔۔۔اور نہ ملے تو مجھے ہی اپنی جموری بنالے۔۔۔“ چمکی کے پسینے سے نہائے کالے چہرے پر پیلے پیلے دانت چمکے۔
”مجھے ہی جموری بنا لے۔۔۔“ ہریا نے منھ چڑاتے ہوئے چمکی کی نقل اتاری۔ ایسی نقل جس میں چمکی کے لئے محبت ہو، جیسا کہنا چاہتا ہو ’ارے تو تو ہے ہی میری جموری۔۔۔۔ او میری چمکی‘۔۔۔ مگر وہ بولا۔
یہ سب اتنا آسان نہ رے چمکی۔۔۔ تماشہ لگانے کے لئے اور بھی چیجوں کی جروت ہو۔“
”صاف کیوں نہیں بولتا۔۔۔۔تیرے بس کی نئیں۔۔تو ناکارہ ہے۔۔۔۔ بے کار آدمی۔۔۔“ چمکی پھر بھڑک اٹھی۔ چیختے ہوئے بولی۔۔۔”استاد تو بن نہیں سکتا۔۔۔۔خواب دیکھے، ساب لوگ کے۔۔۔جمورے کا جمورا ہی رہے گا تو تمام جندگی۔۔۔“
اس سے پہلے کہ ہریا کچھ بولے، وہ اٹھی اور رات کی روٹیاں بنانے کے لئے، برابر کے پارک سے لگے، چھوٹے سے جنگل سے لکڑیاں بیننے کے لئے جھونپڑی سے نکل گئی۔
ہریا بیٹھا بدبداتا رہا۔۔۔۔ ”ہائے، یہ میری چمکی بھی۔۔۔۔۔ اسے جمورا ہی سمجھتی ہے۔وہ کافی دیر یوں ہی گردن لٹکائے بیٹھا رہا اور
سوچتا رہا۔۔۔۔ دنیا کا سب سے گھٹیا، بے ہودہ اور خراب کام جمورا بننا ہی ہے۔
شانتی نگر سے تھوڑا آگے مہان چوک ٹریفک سگنل ہے۔ اس چوک کی سڑکیں کافی چوڑی ہیں۔ دو طرف فٹ پاتھ سے لگی دور تک جھاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اور دو جانب پبلک پارک ہیں، جو بہت کم استعمال میں آتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس چوراہے کے چاروں جانب ختم ہوتا جنگل ہے۔ فٹ پاتھ سے لگی جھاڑیوں کو کاٹ کر کچھ بنجاروں نے اپنا ٹھکانا بنا لیا ہے۔ انھیں میں سے ذرا ہٹ کر ایک جھونپڑی ہریا کی بھی ہے۔ لال بتّی ہونے پر بنجاروں کی دیکھا دیکھی ہریا کی بیوی بچّے بھی کچھ سامان ٹریفک سگنل ہونے پر بیچنے لگے ہیں۔ یہ لوگ مقامی کمپنی کے ایئر فون، پلاسٹک کے پھول، پھولوں کے ہار یا گلدستے، رنگ برنگے چمکیلے کاغذ یا لکڑی سے بنے کھلونے فروخت کرتے ہیں. چھبّیس جنوری یا پندرہ اگست پر جھنڈے بیچنے کے علاوہ کبھی کبھار لمبا جام لگ جانے پر بسلیری پانی کی نقلی بوتلیں بھی بیچتے ہیں۔
آج شانتی نگر روڈ پر ایکسیڈینٹ ہوجانے کی وجہ سے مہان چوک ٹریفک سگنل پر لمبا جام لگا ہوا تھا۔ ہریا بھی پانی کی بوتلیں لے آیا تھا۔ وہ بوتلیں لیے گاڑیوں اور بائک سواروں سے پانی کے لئے پوچھ رہا تھا۔ جام دور تک پھیل گیا تھا۔ جو بائک اور رکشہ فٹ پاتھ کے قریب تھے وہ اپنی گاڑیوں سے اتر کر فٹ پاتھ سے لگی چائے کی ڈھبریوں، کھونچوں پر سے چائے،پانی، گٹکا یانمکین وغیرہ لے کر کھا پی رہے تھے۔ ساتھ ہی اپنے ساتھیوں سے سکھ دکھ، فلم، سیاست، کرکٹ، رومانس یا پھر اپنی اپنی کاروبار یا نوکریوں کی الجھنیں، پریشانیاں اور تکلیفیں بتا رہے تھے۔ ہریا عادت کے مطابق پانی کی بوتلیں کم بیچ رہا تھا اور لوگوں کی باتیں زیادہ سننے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہریا صرف ان لوگوں کی باتیں ہی سننے کی کوشش کر رہا تھا جو اپنی نوکری یا کاروباری پریشانیوں سے جھوج رہے تھے۔ باقی لوگوں کی باتیں ان سنا کر آگے بڑھ جاتا تھا۔
چا چا بھتیجا محو گفتگو تھے۔”چاچا ِ! اب کیا بولوں، زندگی سے گھن آنے لگی ہے۔۔۔۔۔میں ، بہت ہی۔۔۔۔۔“
چاچا نے بھتیجے کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔۔۔”ہاں بیٹا، میری بھی حالت ایسی ہی ہے۔ میں بھی زندگی سے تنگ آچکا ہوں۔“
چاچا کی نگاہیں کار میں بیٹھی اس عورت پر تھیں، جو موبائل میں ڈوبی ہوئی تھی۔ جس کا آدھے سے زیادہ سینہ بلاؤز سے باہر تھا اور باقی باہر آنے کے لئے تڑپ رہا تھا۔
بھتیجا اپنا غم بھول گیا۔۔۔”کیا ہوا چاچا، آپ تو بہت اچھّے ہوٹل میں کام کرتے ہیں نا۔۔۔ اچھّی تنخواہ ہوگی آپ کی۔۔۔۔۔؟“
”اچھّی تنخواہ کیا ہوتی ہے بھائی۔۔۔ مہنگائی آسمان کو چھو تی جا رہی ہے۔۔۔اور سیدھی بات یہ ہے آپ کتنا بھی کما لو بیوی بچّے تو کچھ سمجھتے ہی نہیں۔۔۔۔۔امبانی، ٹاٹا برلا کی باتیں کرتے ہیں۔ اوپر سے سسرا ذلّت بھرا کام۔۔۔۔ بس۔۔۔ نہ پوچھ یار۔۔۔“
”آپ اپنے کام سے خوش نہیں شاید۔۔۔۔“ بھتیجا چاچا کا دکھ جاننا چاہتا تھا تاکہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکے۔
”ہاں بھئی، بڑی اکتاہٹ ہوتی ہے۔ روز صبح ہوٹل پہنچو۔۔۔وردی پہنو، پگڑی باندھو، نقلی داڑھی مونچھیں لگاؤ اور دروازے پر کھڑے ہوجاؤ ویلکم کرنے۔۔۔ ایسے جیسے اسٹیچو ۔۔۔۔ ایک دم مورت بن کر۔۔۔۔۔۔دکھنے والوں کو سانس بھی لیتے نظر نہ آؤ۔۔۔۔حد تو تب ہوتی ہے، جب کوئی کوئی حرامی مذاق میں یا یہ جاننے کے لئے یہ انسان ہے یا کوئی مورتی ہی ہے۔ پیچھواڑے میں آل پن، سوئی وغیرہ چبھو دیتا ہے۔۔۔۔ مگر ہل نہیں سکتے، ورنہ گئے کام سے۔۔۔۔ بہت ذلّت ہوتی ہے یارا۔۔۔۔خیر چھوڑو۔۔۔تم بتاؤ۔ کیا ہو رہا ہے ان دنوں؟“
”چاچا، میں ان دنوں کام کی تلاش میں ہوں۔۔۔۔کوئی کام ہو تو بتانا۔۔۔۔“ بھتیجے کو چاچا نے اب غور سے دیکھا۔۔۔ وہ بے حد
کمزور لگ رہا تھا۔
”ہوا کیا۔۔۔ تو تو۔۔تیری نوکری کا کیا ہوا۔۔۔۔۔؟“
”کوئی بھی کام کروں گا۔۔۔جو مالک، بوس کہے گا کروں گا۔۔۔ اتنا جان گیا ہوں۔ بے روزگاری سے بڑی کوئی گالی نہیں ہوتی دنیا میں۔۔۔۔جب ہم کام کرتے ہیں تو کچھ ہی لوگوں میں ذلیل ہوتے ہیں مگر۔۔۔ جب کام نہیں ہوتا تو انسان تو انسان گلی محلے کے کتّوں تک کے سامنے خوار ہونا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔بچّوں کا چہرہ نہیں دیکھا جاتا۔“ بھتیجا سسکنے لگا۔
”تو۔۔۔ تو اچھّی بھلی نوکری کر رہا تھا۔۔۔ پھر کیسے گئی۔۔۔؟“ چاچا نے اپنی گردن کا پسینہ پونچھا۔
”غلطی ہو گئی۔۔۔ اب کوئی بھی کام کروں گا۔۔۔۔۔“ بھتیجا رونے لگا۔
”رو۔۔ رو نہیں، یہ بتا بات کیا تھی؟“ چاچا نے بات سمجھنے کی کوشش کی۔
”چاچا، میرا بوس شوق رکھتا تھا۔۔۔کسی نہ کسی بہانے کیبن میں بلا لیتا تھا۔۔۔اور۔۔۔۔کپڑے اتروا کر۔۔۔۔کسی حد تک تو میں نے برداشت کیا۔۔۔۔مگر۔۔۔مگر جب وہ بولا۔۔۔۔گندے پن کی تمام حدیں پار کر رہا تھا وہ۔۔۔۔ میں نے گھنیا کر نوکری چھوڑدی۔۔۔۔۔“
چاچا کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ اوپروالے کا دل ہی دل میں شکر ادا کرتے ہوئے بھتیجے سے بولا۔۔۔
”پریشان مت ہو۔۔۔ جو ہوا سو ہوا۔۔۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ انھوں نے بیگ سے نکال کر پانی کی بوتل بڑھا دی۔
ہریا چاچا بھتیجا کی گفتگو سن کر پھر حیران ہو گیا۔اور سوچنے لگا۔۔۔۔ رات کو چمکی کو بتاؤں گا۔۔۔ دیکھ کیا کیا ہوتا ہے۔۔۔اس شہر میں۔“ ہریا کو خیال آیا۔ پانی کی بوتلیں گرم ہونے لگی ہیں۔ اس نے سوچا، جلدی ان کو بیچوں ورنہ یہ بالکل ہی گرم ہو جائیں گی۔ ہریا فٹ پاتھ پر چلتا ہوا آگے آگیا۔
ایک چائے کی ڈھبری پر انل ٹریفک کھلنے کے انتظار میں کھڑاسگریٹ پی رہا تھا۔ تب ہی پیچھے سے آواز آئی:
”اکیلے ہی اکیلے پیوگے سگریٹ۔۔۔“ انل کا دوست راشد کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ آفس کا ساتھی ستیش بھی تھا۔
انل نے راشد سے پوچھا۔۔۔”آپ دونوں ایک ہی کمپنی میں ہیں نا؟“
”ہاں، یہ اب میری کمپنی میں آگیا ہے۔“ راشد نے بتایا۔۔۔”پہلے کسی اور جگہ کام کرتا تھا۔“
”کوئی خاص بات؟۔۔ کیوں چھوڑ دیا وہاں سے کام۔“ انل نے ستیش سے بات کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے ایسے ہی معلوم کیا۔
” بھائی کیا بتاؤں۔۔۔۔ آفس میں چاروں طرف سی سی ٹی وی کیمرے لگے رہتے ہیں۔۔۔۔ اب کیا بولوں۔ انگڑائی یا جمائی بھی لو تو اس کی وجہ بتاؤ۔۔۔۔بس کرسی سے چپک کر کام کرتے رہو۔۔۔۔ کسی کا پیٹ خراب ہو اور وہ کئی بار واش روم چلا جائے تو طلبی ہو جاتی تھی۔۔ایک دن میری سنک گئی اور میں منیجر پر سوار ہو گیا۔۔۔ خوب توتو میں میں ہوئی۔۔۔۔۔“
”آپ نے نوکری چھوڑ دی۔۔۔۔۔یہی نا؟“ انل نے اندازہ لگایا۔
”جی۔۔۔۔“ ستیش کے پاس کچھ کہنے کو نہیں بچا تھا۔
”اور یہاں۔۔ راشد کے آفس میں، سب ٹھیک ہے۔۔۔؟“ انل کی اس بات پر راشد اور ستیش نے ایک دوسرے کے چہرے دیکھے۔
”اب ٹھیک اور صحیح کیا یار۔۔۔ کام تو کرنا ہی ہے۔۔۔۔“ راشد شکایت والے انداز میں بولا۔
”ویسے سب صحیح ہے۔۔۔ سیلری بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔۔۔۔۔“ ستیش کچھ کہنا چاہتا تھا کہ بات کو راشد نے لپک لیا۔۔۔
”مگر یہ کہ۔۔۔۔ریسرچ ہم کرتے ہیں۔پرزینٹیشن ہم تیار کرتے ہیں اور منیجر بوس کو سلائڈ پر دکھاتے ہوئے اس طرح پیش کرتا ہے کہ سارا کام اس نے کیا۔ ہم نے بس۔۔۔“
’’جھک ماری ہے۔۔۔۔“ ستیش نے جل کر راشد کی بات مکمّل کی۔
”اینکریمینٹ، پرموشن۔۔۔سب منیجر کا اور ہم۔۔۔۔“ راشد نے جل کر،جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”ہم الّو کے الّو۔۔۔ وہاں کے وہیں۔۔۔۔“ ایسا لگتا تھا جیسے دونوں کوئی پریزنٹیشن ساتھ میں تیار کر کے لائے ہیں۔
”بھائی، سب جگہ ایسے ہی ہے، بس پوچھو مت۔۔۔۔“ انل نے ٹھنڈی سانس بھری۔
”ابے، تو تو اسکول ٹیچر ہے، تجھے کیاپریشانی۔۔۔“ راشد نے ہریا سے پانی کی بوتل خریدتے ہوئے کہا۔ ہریا ان کے آس پاس ہی منڈلا رہا تھا۔۔۔ اسے تینوں دوستوں کی گفتگو دلچسپ لگ رہی تھی۔
”یار، بچّوں کو پڑھانا بھی کوئی کام ہے۔۔۔۔ کھیل ہے کھیل۔“ راشد اور ستیش کی اس بات پر انل نے جلدی سے اپنی چائے ختم کی اور کپ بنچ پر رکھتے ہوئے بولا۔
”بھائی، سب کو ایسے ہی لگتا ہے، مگر ہم کتنی مشکل سے گزرتے ہیں۔۔۔۔ آپ کیا جانو۔۔۔آپ اگر دو دھاری تلوار پر چل رہے ہوتے ہیں تو ہم پرائیویٹ اسکول ٹیچر تین دھاری تلوار سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔“ انل کا درد زبان پر آگیا۔
”کیا مطلب۔۔۔۔“ ستیش نے لاپرواہی سے پوچھا۔
”مطلب؟؟؟۔۔۔ بس یوں سمجھ لو ہم لوگوں کا کام سرکس کے جوکر سے کم تھوڑی ہوتا ہے۔“ انل بنا روکے بولتا چلا گیا جبکہ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ستیش اور راشد اس کی باتیں بے دلی سے سن رہے ہوں۔۔۔ جلد سے جلد ٹریفک کھلے اور ان کو چھٹکارا ملے۔ ”اسکول ٹیچر ہونا ایک عذاب ہے۔۔۔۔ پرنسپل اپنی ہانکتی ہے۔۔۔۔ کو اورڈینیٹر سے زیادہ قابل دنیا میں کوئی نہیں ہوتا۔۔۔جب لیسن تیار ہو جائے تو۔۔۔۔۔ بچّے؟ سارے پلان کی ایستی تیسی کر دیتے ہیں۔ ایسے ایسے بد تمیز بچّے ہوتے ہیں کہ پوچھو مت بس اتنا سمجھ لو کہ ہمیں بچپن میں ٹیچر نے ڈرایا، دھمکایا اور اب بچّوں سے خوف آتا ہے۔۔۔۔سرکار کا قانون الگ۔۔۔ کبھی کبھی تو کسی ٹیچر کے جیل جانے تک کے حالات ہو جاتے ہیں۔۔۔ کسی بھی بچّے کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔۔۔۔۔پھر پیرنٹس میٹینگ میں ایسے ایسے ماڈل لوگوں سے سامنا ہوتا ہے کہ بس۔۔۔۔ فٹ بال کی طرح کبھی پرنسپل، کو اوڈیییٹر، کبھی بچّے اور کبھی پیرنٹس۔۔۔۔زندگی عذاب ہے۔۔۔ میں تو کب کا نوکری چھوڑ دیتا مگر یہ ایک کے بعد ایک ای ایم آئی پیچھا نہں چھوڑتی۔۔۔۔۔۔گھر، کار۔۔۔“
ہریا ان دوستوں کی باتوں سے جتنا حیران ہونا تھا،ہو چکا تھا۔۔۔ اب وہ وہاں سے جانے ہی والا تھا کہ اس نے ایک ایسی بات سنی کہ اب تک کی ساری حیرانیاں معمولی معلوم ہوئیں۔
”بھائی، بس ہوں سمجھ لو کہ۔۔۔ اسکول ٹیچر ایک جمورا ہوتا ہے جس کے کئی مداری ہوتے ہیں۔۔۔۔ پرنسپل مداری۔۔۔کو اوڈینیٹر مداری، پیرنٹس مداری اور۔۔ اور سب سے بڑے بچّے مداری۔۔۔۔ ہمیں انگلیوں پر نچاتے ہیں۔۔۔۔“ انل بولتے بولتے تھک گیا تو اس نے چائے کی ڈھبری والے سے ایک سگریٹ مانگا۔
”حقیقت تو یہ ہے دوست۔۔۔۔ہم سب جمورے ہیں۔۔۔۔ جسے کوئی نہ کوئی مداری نچاتا رہتا ہے۔۔۔۔“ راشد نے فلسفیانا انداز میں کہا۔ ”سب سے بڑا مداری تو وقت ہوتا ہے دوست۔۔۔“ ستیش نے راشد سے بھی زیادہ فلسفیانہ چہرہ بنا کر کہا۔۔”جو ہمیں حالات نامی ڈگڈگیوں سے الگ الگ طرح کے عجیب عجیب طریقے سے نچاتا رہتا ہے او رہم لاچار اس کا کہا ماننے کو مجبور ہوتے ہیں۔“
ہریا اب حیران ہونے سے زیادہ الجھن کا شکار ہو چکا تھا۔۔۔۔اس نے بہت سے مداریوں کو دیکھا تھا۔۔۔مگر یہ وقت کون ہے؟
اور وہ سب سے بڑا مداری کیسے ہو گیا۔۔۔۔وہ جلدی جلدی گھر کی طرف چل پڑا۔۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا چمکی سے پوچھے گا۔ تو کسی وقت نام کے مداری کو جانتی ہے، شاید اسے پتہ ہو۔
وہ تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا جھونپری کے پاس پہنچا۔چمکی باہر ہی کھڑی تھی۔ وہ اپنی پانی کی بوتلیں اور دوسرا سامان بیچ چکی تھی۔
ہریا نے پانی کی بوتلوں کا تھیلا زمین پر رکھتے ہوئے چمکی سے پوچھا۔۔۔۔۔”اے چمکی، کیا تو کسی وقت نام کے مداری کو جانتی ہے۔۔۔ بہت بڑا مداری ہے۔۔۔۔نام سنا ہے تو نے کبھی اس کا۔۔۔۔۔“
چمکی کی نگاہیں پانی کے اس تھیلے پر تھیں جو ہریا نے ابھی ابھی زمین پر رکھا تھا۔۔۔وہ آگ بگولہ ہو تے ہو ئے بولی۔۔”میں نہ جانتی کسی وکت نام کے مداری کو، ہوگا کوئی۔۔۔۔۔۔ تو یہ بتا، تو نے یہ بوتلیں کیوں نہ بیچیں۔۔۔۔ سب گرم ہو گئیں۔اب تیرا باپ ٹھندا کرے گا اسے۔۔۔۔دوکاندار نے پہلے ہی کہہ دیا تھا میں واپس نہیں لونگا۔“
ہریا حیران وپریشان تھیلے اور چمکی کو باری باری دیکھے جا رہا تھا۔

ذاکر فیضی کا پچھلا افسانہ یہاں پڑھیں: میرا کمرہ
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے