سیّد الشعراء سیّد نور الحسن نورؔ فتح پوری کی نعتیہ شاعری

سیّد الشعراء سیّد نور الحسن نورؔ فتح پوری کی نعتیہ شاعری



محمد طفیل احمد ؔمصباحی


ادبؔ ایک تہذیبی عمل ہے اور شاعری اس کی لطیف ترین شکل ہے جو انسان کے جذبات و احساسات کو برانگیختہ کرنے کے ساتھ اس کے فکر و شعور کو تازگی اور بالیدگی عطا کرتی ہے۔ ادبؔ خواہ نظم کی شکل میں ہو یا نثر کی صورت میں، اس کی حیثیت تفریحی نہیں، بلکہ تربیتی ہے۔ شعر کی معنی خیز نغمگی دل و دماغ میں ایک وجدانی اور روحانی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ غزل اگر شاعری کی آبرو ہے تو حمدؔ و نعتؔ اس کی شان اور شعر و سخن کی معراج ہے۔ دینی نقطہء نظر سے اگر دیکھا جائے تو اردو کی یہ تقدیسی شاعری (حمد، نعت، منقبت) موجبِ خیر و برکت اور باعثِ تقویٰ و صلاح ہے۔ ادبی لحاظ سے اردو کی حمدیہؔ و نعتیہؔ شاعری، اردو زبان و ادب کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اردو شاعری کی ابتداء حمدؔ و نعتؔ اور منقبتؔ سے ہوئی۔ دکنؔ، دہلیؔ، لکھنؤؔ، عظیم آبادؔ، مرشد آباد کے ادبی مراکز کے وہ قدیم شعراء جو اردو کے ”سابقین اوّلین“ شعراء میں شمار کیے گئے، ان کے دواوینؔ و کلیات میں حمدؔ و نعتؔ اور منقبتؔ کے اشعار وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔
اردو کی اصنافِ شاعری میں صنف ”نعت گوئی“ سب سے مشکل ترین صنف ہے۔ اس کے لیے فن کے اصول و مبادی سے گہری واقفیت اور وسیع دینی مطالعے کے ساتھ عقیدت، محبت، خلوص، ایمان داری، جذبہء عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور طہارتِ فکر و روح کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ ہند وپاک سے تعلق رکھنے والے ”نعت گو شعراء“ کی ایک لمبی فہرست ہے جنھوں نے اس فن کے دینی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے کامیاب ”نعتیہ شاعری“ کی ہے اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہٖ وسلم کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے فکر و فن کے جوہر دکھائے ہیں۔
عصر حاضر کے ”نعت گو شعراء“ میں فتح پور، یوپی سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز اور صوفی نعت گو شاعر جناب سید نور الحسن المتخلص بہ نورؔ دام ظلہ العالی بھی ہیں۔ اپنی خاندانی شرافت و وجاہت اور صوفیانہ مزاج و مشرب کے حامل اس درویش صفت عالم و شاعر نے ”نعت گوئی“ کے میدان میں بڑی شان دار کامیابی حاصل کی ہے۔ سید نور الحسن صاحب قبلہ ایک علمی و روحانی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور اپنے اسلاف کی دینی، علمی، ادبی و روحانی اقدار و روایات کے امین و ترجمان بھی۔ عالمانہ وقار، صوفیانہ مزاج اور قلندرانہ شان رکھتے ہیں۔ دینی و عصری علوم کے باہمی امتزاج نے آپ کی شخصیت کے چاند کو اور زیادہ روشن و تابناک بنا دیا ہے۔ آپ کے والد محترم شمس العارفین حضرت الحاج صوفی سید نواب علی شاہ حسنی عزیزی ابو العلائی علیہ الرحمہ اپنے وقت کے ولی کامل، مرشدِ طریقت اور عظیم رہبرِ شریعت تھے، جن کی مساعی جمیلہ سے دین و مذہب کی گراں قدر خدمات انجام پائیں۔ جناب سید نور الحسن نورؔ فتح پوری کے برادرِ مکرم حضرت صوفی سید محمد عزیز الحسن شاہ عزیزؔ نوابی لیاقتی دام ظلہ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں۔ نورؔ صاحب قبلہ نے انھیں کی نگرانی میں اپنی ادبی زندگی اور شعری سفر کا آغاز کیا اور آگے چل کر جادہء شعر و ادب کے ایک پُر عزم اور کامیاب مسافر کی حیثیت سے منزل آشنا ہوئے۔
شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں ماحول اساسی کردار کا حامل ہوا کرتا ہے۔ انسان اپنے ماحول کا پروردہ ہوا کرتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے:
جیسی سنگتؔ (ماحول) ویسی رنگتؔ (اثر)جناب نور الحسن نورؔ کو ادبِ عالیہ اور شعر و سخن کا پاکیزہ ذوق وراثت میں ملا ہے۔ خانقاہی ماحول میں نشو و نما پانے کے سبب مزاج میں صوفیانہ رنگ غالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ خانقاہ کی شعری و ادبی روایت کو اپنے سینے سے لگا کر گلشنِ شعر و سخن کی بھر پور آبیاری فرما رہے ہیں۔
حضرت نورؔ نے اپنی شاعری کی ابتدا حمدؔ و نعتؔ اور منقبتؔ سے کی۔ بعد ازاں ”غزل گوئی“ کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ لیکن ”نعت گوئی“ ان کی شاعری کا طرّہء امتیاز اور سرمایۂ افتخار ہے۔ سادگی و پرکاری کے ساتھ اگر جذبہء خلوص اور فکر و فن کی گہرائی ”شعر و سخن“ کی جان بن جائے تو پھر شاعر اپنے وقت کا محض فنکار ہی نہیں، بلکہ انسانیت کا مسیحا اور انسانی روح کا معمار بن جاتا ہے۔ راقم الحروف یہ بات بلا مبالغہ کہہ رہا ہے کہ حضرت نورؔ فتح پوری کے کلام میں سلاست و روانی اور سادگی و پرکاری کے ساتھ جذبہء خلوص اور فکر و فن کی گہرائی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اس جہت سے نورؔ صاحب ایک عظیم شاعر و فنکار اور انسانی روح کے معمار ہیں۔ آپ کی شاعری اور بالخصوص ”نعتیہ شاعری“ خلوص و وفا پر مبنی اور عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی حرارت تیز کرنے والی شاعری ہے۔ توحید و رسالت کے دینی و شرعی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے آپ نے اپنی نعتیہ شاعری میں محبت، خلوص، ایمان داری اور طہارتِ فکر و روح کا بڑے دلکش انداز میں مظاہرہ کیا ہے۔
حمد و مناجات کے مندرجہ ذیل اشعار پڑھ کر شبستانِ ایمان و یقین میں ضرور اجالا پھیلے گا اور دین و ایمان کی کھیتی لہلہا اٹھے گی۔
حمد
خالق تو ہے، داتا تو
ہم سب کا رکھوالا تو
ماں سے زیادہ ربِ کریم
ہم کو چاہنے والا تو
دشت آتش ناک میں دے
آبِ خنک کا چشمہ تو
ذرّہ ذرّہ تیرا ظہور
چمکے قطرہ قطرہ تو
مناجات
کرم اس قدر میرے غفار کردے
منور مری بزمِ کردار کردے
بچالے فریب شیاطیں سے مجھ کو
منافق کے حربوں کو بے کار کردے
مرے دامنِ دل میں جتنے خذف ہیں
خدایا اُنھیں دُرِّ شہوار کردے
جناب نورؔ صاحب کی شاعری تقدیسی شاعری کے ایمانی و عرفانی جلوؤں سے آراستہ ہے۔ ان کا پیغام ایک سرمدی و روحانی پیغام ہے۔ ان کی شاعری کا پیکر عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اجزاء سے تیار ہوا ہے۔ ان کے نعتیہ کلام کی سطر سطر بلکہ لفظ لفظ سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو پھوٹتی ہے اور مشامِ فکر و جاں کو معطر کر دیتی ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار کا مطالعہ کریں اور نورؔ صاحب کے عشقِ حقیقی کا اندازہ کریں:
درِ شاہِ مدینہ دیکھتا ہوں
زمیں پر عرشِ اعلیٰ دیکھتا ہوں
چلی آؤ مدینے کی ہواؤ!
تمہارا کب سے رستہ دیکھتا ہوں
ملی ہے جب سے اُن کی راہ مجھ کو
ہر اک جانب اُجالا دیکھتا ہوں
نہ جانے کیا ہوا مجھ کو کہ ہرسو
مدینہؔ ہی مدینہؔ دیکھتا ہوں
ابھی مت ٹوکنا اے نورؔ مجھ کو
ابھی روضہ نبی کا دیکھتا ہوں
بلا شبہ جناب نورؔ صاحب فتح پوری عصرِ حاضر کے ایک عظیم نعت گو شاعر ہیں۔ اکیسویں صدی کے نصفِ اول میں ہند و پاک کے نعت گو شعراء کی جب ادبی و شعری تاریخ مرتب کی جائے گی، تو جناب سیّد نورؔ فتح پوری صاحب کا نام صف اول کے شاعروں میں ضرور آئے گا۔
نورؔ صاحب اپنی ”نعتیہ شاعری“ کو اپنے لیے سرمایۂ آخرت اور باعثِ فخر گردانتے ہیں اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مذہبی زندگی کا جزوِ لاینفک سمجھتے ہیں اور یہی حقیقت بھی ہے اور ایمان و اسلام کا لازمی تقاضا بھی۔ وہ گستاخِ نبی سے دور و نفور رہنے کی تعلیم دیتے ہیں اور ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو راحت قلب و جاں محسوس کرتے ہیں۔ غرض کہ ”نعتیہ شاعری“ کی جو لازمی اور بنیادی خصوصیات ہونی چاہیے، وہ ان کے نعتیہ کلام میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یہ اشعار دیکھیں:
ہونٹوں پہ نعت پاکِ امیر حجازؔ ہے
اس بات پر ہے فخر مجھے اس پہ ناز ہے
ذکرِ رسولِ پاک سے ملتی ہیں راحتیں
ذکرِ رسولِ پاک مرا چارہ ساز ہے
خوشبو بہشتؔ کی نہ ترے ہاتھ آئے گی
گستاخِ مصطفی سے اگر ساز باز ہے
جو چاہتے ہو بہاروں سے سلسلہ رکھنا
نبی کے عشق کا پودا ہرا بھرا رکھنا
جناب سیّد نورؔ صاحب قبلہ کے شاعرانہ کمال کی ایک روشن دلیل یہ بھی ہے کہ انھوں نے دشوار اور سنگلاخ زمین میں بھی اپنے فکر و فن کے جوہر دکھائے ہیں اور شعر و سخن کے نوع بہ نوع پھول کھلائے ہیں۔
اہلِ علم و ذوق اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ جس قافیے کا آخری حرف زاءؔ ہو، مثلاً: حجازؔ، گداز، دراز وغیرہ۔ اس قسم کے قافیہ میں ”ہم قافیہ الفاظ“ کی اردو زبان میں بڑی قلت ہے۔ مگر نورؔ صاحب نے اپنی فنکارانہ مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے بڑی روانی کے ساتھ تیرہ اشعار نکالے ہیں۔
جناب نور الحسن صاحب نورؔ کے کلام میں روایتی انداز سے ذرا ہٹ کر ندرتؔ اور تازہ کاریؔ کے نمونے بھی ملتے ہیں۔
”زہے نصیب“ اور ”فلک“ کی ردیف پر لکھی گئی نعتیں شاذ و نادر ہی نگاہوں سے گذرتی ہیں، لیکن نور صاحب کی شعری عظمت اور کمالِ فن کی داد دیجیے کہ انھوں نے اپنی نعتیہ شاعری میں ”زہے نصیب“ اور ”فلک“ جیسی ردیفؔ پر نعتیہ کلام لکھ کر اردو زبان و ادب کے ذخیروں میں ایک بیش قیمت اضافہ کیا ہے:
ردیف ”فلک“ کے یہ چند اشعار نذرِ قارئین ہیں:
بیان کرتا ہے یہ نطقِ اعتلائے فلک
ہیں نقش پائے نبی باعثِ ضیائے فلک
اگر غرور ہو اپنی بلندیوں پہ بہت
فرازِ گنبد خضریٰ کو دیکھ جائے فلک
وہ رازِ کن سے رہے بے خبر کہاں ممکن
چھپا نہ جس کی نگاہوں سے خود خدائے فلک
سحر کے موڑ پہ بامِ افق پہ روز اے نورؔ
چراغِ عشقِ شہِ دوجہاں جلائے فلک
سبحان اللہ! نورؔ صاحب کی اس نعت میں زبان و بیان کا زور، ندرتِ خیال، اسلوب کی دلکشی، صوتیاتی رنگ و آہنگ، بلندیِ افکار، شعری و ادبی جمال، فنی کمال اور لسانی بانکپن اپنے نقطہء انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔
اس عاشقِ زار نے اپنے ممدوح جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف میں بڑے حسین، دلکش اور کیف آگیں شعری پیکر تراشے ہیں اور اپنے اعلیٰ فکر و فن کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ اس نعتِ پاک کے تمام اشعار اور مصرعے اپنی جگہ ”ادبِ عالیہ“ کا نمونہ اور ”ادبی شہ پارے“ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خاص طور سے یہ شعر تو اپنا جواب نہیں رکھتا:
ہے دسترس میں علوئے جہانِ عز و شرف
کہو کہ قد پہ ہمارے نہ مسکرائے فلک
”زہے نصیب“ کی ردیف پر مشتمل یہ اشعار بھی ملاحظہ کریں:

سرکار کا ہوں میں بھی ثنا خواں زہے نصیب!
حاصل ہے مجھ کو گوہرِ ایماں زہے نصیب!
نعتِ رسولِ پاک کی خوشبو نے آج پھر
چھیڑا ہے میرا سازِ رگِ جاں زہے نصیب!
اُن کے کرم کے پھول کھلے ہیں روش روش
روشن ہے میرے دل کا گلستاں زہے نصیب!
مجھ پر ہے مہرباں، مری جانب سے ملتفت
اے نورؔ! مدحِ شاہِ رسولاں زہے نصیب!
سائنسی انقلاب کے اس دور میں جہاں ہر شعبہء حیات میں نمایاں ترقی و تبدیلی رونما ہوئی ہے، وہاں علوم و فنون اور شعر و ادب کا شعبہ بھی شاہراہِ ترقی پر گامزن ہے۔ شاعری کے مختلف اصناف میں موضوعات و اسالیب کے لحاظ سے جو اہم تبدیلیاں سامنے آئی ہیں، اس نے صنف نعتؔ کو بھی متاثر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دن بدن اس پاکیزہ صنف میں بھی ترقی ہو رہی ہے۔ اور یہ بات بلا تامل کہی جاسکتی ہے کہ ”نعت گوئی“ کے فن کو موضوعات و اسالیب، نت نئے لہجے اور تازگی بخشنے میں دیگر نعت گو شعراء کی طرح سید الشعراء جناب سید نور الحسن نورؔ فتح پوری دام ظلہ نے بھی بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ ان کے مجموعہء کلام پر غائرانہ نظر ڈالنے والے افراد راقم الحروف کے دعویٰ کی صداقت کو ضرور تسلیم کریں گے۔ جناب نورؔ فتح پوری کی ”نعت گوئی“ داخلی کیفیات کے بیان اور اظہارِ شیفتگی کا ایک دلکش مرقع اور ان کی بلاغت فکر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ نورؔ صاحب نے اپنی نعت گوئی سے ”عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم“ کی بزمِ پر نور سجا کر اصلاحِ فکر و عمل کا کام لیا ہے۔ ان کے کلام میں جہاں اسلام کے بنیادی عقائد کا تذکرہ ملتا ہے، وہیں کردار و عمل کا آئینہ بھی پوری تابانی کے ساتھ جگمگاتا نظر آتا ہے۔ اسی لیے تو ببانگِ دہل کہتے ہیں:
رسولِ پاک کا کردار کہہ رہا ہے یہی
کسی سے بات ہو، لہجہ گلاب سا رکھنا
شاعری اور بالخصوص ”نعتیہ شاعری“ کے میدان میں اپنے فکر و فن کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے کے سبب راقم الحروف محمد طفیل احمد مصباحی، جناب سید نور الحسن نورؔ فتح پوری کو اکیسویں صدی کا ”سید الشعراء“ قرار دیتا ہے۔ امید ہے کہ اہلِ علم و ادب اس مبنی بر حقیقت خطاب کو تسلیم کریں گے اور ان کی جبین نیاز پہ ”سید الشعراء“ کی کلاہِ افتخار ضرور سجائیں گے۔
کلامِ نورؔ کی ادبی خصوصیات:
شرعی نقطہء نظر اور زبان و بیان کے لحاظ سے کلامِ نورؔ میں راقم آثم کو کہیں انگلی رکھنے کا محل نظر نہیں آیا۔
نظم اور نثر میں جو فنی محاسن اور ادبی خصوصیات ہونی چاہیے، وہ سید نور الحسن نورؔ کے نعتیہ کلام میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ ان کے پاکیزہ کلام میں ادب اور فن کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ موصوف کی فن کاری اور جولانیِ طبع کے گوہرِ نایاب سے اہلِ شعر و سخن اپنے ذوق کی تسکین کر سکتے ہیں۔ ان کی نعتیہ شاعری میں الفاظ کا شکوہ و بانکپن، خیالات کی پاکیزگی اور اندازِ بیان کی لطافت و جدت دیکھنے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اپنے لطیف جذبات و احساسات کی کامیاب مصوری کر کے سید نورؔ صاحب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ”نعت گوئی“ جیسی مشکل ترین فن کو برتنے میں انھیں استادانہ کمال اور فنی ملکہ حاصل ہے۔ اردو شعر و ادب کی تاریخ میں قادر الکلام، کہنہ مشق، پُر گو اور ایک عظیم نعت گو شاعر کی حیثیت سے وہ ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔
نورؔ صاحب کی شاعری میں زبان و بیان کا لطف، خیالات کی پاکیزگی، جذبات کی شدت و حرارت، الفاظ و محاورات کا برمحل استعمال، صنائعؔ و بدائعؔ، فکر انگیز تشبیہات و استعارات کی جلوہ ریزی، لہجہ و اسلوب کا نیا پن، نغمگی و سحر آفرینی، خوب صورت الفاظ و تراکیب کی بھر مار، سادگی و صفائی اور سلاست و روانی جیسی اعلیٰ ادبی و فنی خصوصیات بہر گام نظر آتی ہیں اور قارئین کو مسحور کردیتی ہیں۔
”کلامِ نورؔ کی ادبی خصوصیات“ ایک مستقل عنوان ہے، جس پر تفصیل سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ ان شاہ اللہ! اگر زندگی نے وفا کی تو راقم الحروف اس موضوع پر پوری ایک کتاب لکھ کر اہلِ علم و ادب کی بارگاہ میں پیش کرے گا۔
”کلامِ نورؔ کی ادبی خصوصیات“ میں راقم کو جو خصوصیت سب سے نمایاں نظر آئی، وہ ان کے کلام کی سلاست و روانی، صفائی و برجستگی، سادگی اور خوب صورت الفاظ و دلکش تراکیب ہے۔ جناب سید نور الحسن نورؔ دام ظلہ کے کلام میں یہ ادبی خصوصیات جگہ جگہ نظر آتی ہیں اور قارئین و سامعین کے دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ نورؔ صاحب کی شاعرانہ عظمت اور ان کے اعلیٰ فکر و فن کو دیکھتے ہوئے ان کے حق میں بے ساختہ زبان پر یہ شعر مچلنے لگتا ہے ؎
علم و ادراک و سخن دانی و طرزِ تحریر
ایک مرکز پہ سمٹ آئے ہیں جوہر سارے
وقت اور صفحات کی قلت کے پیشِ نظر ہم تفصیلات سے گریز کرتے ہیں اور سرِ دست ”کلامِ نورؔ“ کی دو چند ادبی خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
سلاست و روانی، سادگی و برجستگی:
سید نور الحسن نورؔ صاحب کے کلام کی نمایاں ترین خصوصیت سلاست و روانی اور سادگی و برجستگی ہے۔ صرفؔ و نحوؔ اور زبانؔ و بیانؔ کی خامیاں ان کے کلام میں نظر نہیں آتیں۔ غیر مانوس الفاظ و تراکیب سے احتراز کیا گیا ہے۔ سلیس، سادہ اور رواں دواں اسلوب میں اشعار نظم کیے گئے ہیں، جن میں سلاست و روانی اور سادگی کے ساتھ برجستگی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ سادگی و صفائی اور سلاست و روانی کی مثالیں ملاحظہ کریں:
خالق تو ہے، داتا تو
ہم سب کا رکھوالا تو
ماں سے زیادہ رب کریم
ہم کو چاہنے والا تو
کالی رات کے سینے پر
جگنو رکھنے والا تو
آگے بڑھنے والوں پر
کھولنے والا رستہ تو
مانگے قطرہ کوئی اگر
بخش دے اس کو دریا تو
نورؔ کی آنکھوں کا ہے نور
دل کا ہے سرمایہ تو
مندرجہ بالا حمدیہ اشعار سادگی و صفائی، سلاست و روانی اور برجستگی کی عمدہ ترین مثال ہیں۔ اس کے علاوہ ذیل کے نعتیہ اشعار بھی اس ادبی خصوصیت کے حامل ہیں:
درِ شاہِ مدینہ دیکھتا ہوں
زمیں پر عرشِ اعلیٰ دیکھتا ہوں
نبی کی یاد شاید آرہی ہے
کھلا دل کا دریچہ دیکھتا ہوں
جہانِ کن کی ساری وسعتوں کو
نبی کے زیرِ سایہ دیکھتا ہوں
نہ جانے کیا ہوا مجھ کو کہ ہرسو
مدینہ ہی مدینہ دیکھتا ہوں
ہے تیرے سر پہ تاجِ مدحِ آقا
ترا قد سب سے اونچا دیکھتا ہوں
ابھی مت ٹوکنا اے نورؔ مجھ کو
ابھی روضہ نبی کا دیکھتا ہوں
خوب صورت الفاظ اور دلکش تراکیب:
شاعری میں تاثیر کی کیفیت پیدا کرنے اور تاثر کے عمل کو گہرا کرنے کے لیے الفاظ کا موزوں و متناسب اور انتخابی ہونا ضروری ہے۔
ڈاکٹر عنوان چشتی کہتے ہیں:
اس میں شک نہیں کہ شاعری میں الفاظ کی اشاریت، بنیادی تاثر یا شعری تجربہ کی ترسیل کا فرض انجام دیتی ہے اور تاثر کو گہرا کرتی ہے….. شاعری میں لفظی صوتیت بھی شعری تجربہ کے آہنگ سے پھوٹتی ہے۔ لہٰذا اچھا شاعر، شعری تجربہ کے اظہار کے لیے انھیں الفاظ کو استعمال کرتا ہے جو صوتیاتی نقطہء نظر سے موزوں اور مناسب ہوں۔ (نئی غزل، نئی جمالیات، ص:۷۵)
جناب سید نور الحسن نورؔ صاحب کی تقدیسی شاعری کا ایک نمایاں ترین پہلو ”موزوں و متناسب الفاظ اور دل کش تراکیب کا استعمال“ ہے۔ نعتیہ شاعری جیسی پاکیزہ صنفِ سخن کے لیے جس قسم کے پاکیزہ خیالات، لطیف احساسات اور بلند آہنگ الفاظ و کلمات کا استعمال ہونا چاہیے، نورؔ فتح پوری نے اس کی بھر پور رعایت کی ہے اور اپنی شاعری میں خوبصورت الفاظ و تراکیب اور دل کش پیرایہء بیان کا استعمال کر کے صفحہء قرطاس کو ”زعفران زار“ بنا دیا ہے۔
خوب صورت تراکیب اور دل کش الفاظ کا یہ حسین امتزاج ملاحظہ کریں:
کرم اس قدر میرے غفار کردے
منور مری بزم کردار کردے
ودیعت کر اپنی ولا کے اُجالے
مرا قریہء جاں ضیا بار کردے
حبّؔ و ولاءؔ کے اجالے سے ”قریہء جاں کو ضیا بار“ کرنے کی یہ شعری ترکیب بڑی اچھوتی اور دل کو چھو لینے والی ہے۔ اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبسم کے صدقے ”ساعتِ زندگی کو چمک دار“ کرنے کی یہ ترکیب بھی بڑی دل فریب اور نورؔ صاحب کے شاعرانہ کمال کی منھ بولتی تصویر ہے:
نبی کے تبسم کا صدقہ عطا کر
مری ساعتوں کو چمک دار کردے
یہ شعر بھی دیکھیں:
سرِ صحرائے دل عشقِ نبی کا
پنپتا ایک پودا دیکھتا ہوں
خوب صورت الفاظ اور دل کش تراکیب پر مشتمل یہ اشعار ملاحظہ کریں اور جناب نور فتح پوری کی شاعرانہ عظمت کی داد دیں:
کرم ہے خاکِ کوئے مصطفی کا
جوپہنے ہیں ستاروں کی قبا ہم
کوئے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاک پاک کے صدقے اپنے وجود اور ہستی کو منور ثابت کرنے کے لیے اس کی تعبیر ”ستاروں کی قبا پہنے ہیں ہم“ سے کرنا، کس قدر اچھوتی تعبیر اور عمدہ ترکیب ہے۔
وہ مرا دشتِ خرد ہے، وہ مرا دشتِ خیال
عشقِ سرکار کے آہو جہاں رَم کرتے ہیں اللہ اکبر! خوبصورت الفاظ و تراکیب کی گنگاؔ کتنی روانی کے ساتھ بہتی جارہی ہے۔
استاذ الشعراء جناب نور الحسن نورؔ دام ظلہ کے کلام کے الفاظ و تراکیب، صوتیاتی نقطہء نظر سے بڑی موزوں و مناسب اور سامعین کے دلوں میں گدگدی پیدا کردینے والی ہیں۔
طاقِ انفاس پہ روشن ہیں درودوں کے دیے
نورؔ ہم اس طرح طے راہِ عدم کرتے ہیں
………….
معراج کے سفر پہ روانہ ہوئے حضور
ہر شے جہانِ ہست کی نغمہ طراز ہے
میں اور گیسوئے شہِ طیبہؔ کا سائباں
وہ اور شامِ حزن کی زلفِ دراز ہے
ہے جس کے سر پہ خاکِ دیارِ نبی کا تاج
ہر بزمِ عزّو جاں میں وہ سرفراز ہے
………….
مدت سے میرے طاقِ دل و جاں میں ہے مقیم
عشقِ نبی کی شمعِ فروزاں زہے نصیب!
شاخِ کرم ہوا نے ہلائی تو یہ ہوا
دامن میں آگیا گلِ خنداں زہے نصیب!
گلزارِ مصطفی کا ہے مسکن اسی لیے
ہے فکر میری خلد بداماں زہے نصیب!
خوب صورت الفاظ اور دل کش تراکیب کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
نغمگی و سحر آفرینی:
شاعری، فنونِ لطیفہ کی ایک مقبول ترین قسم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فنونِ لطیفہ کے دیگر اقسام (مصوری، نقاشی، موسیقی) کی طرح شاعری میں بھی بالیدگی و شیفتگی اور نغمگی و سحر آفرینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ لیکن شاعری میں یہ کیفیت پیدا کرنا ہرکس و ناکس شاعر کا کام نہیں۔ استاد اور فنکار شاعر ہی اپنے کلام میں ”نغمگی و سحر آفرینی“ کا روح پرور اور کیف آگیں جمال پیدا کر سکتا ہے۔ کلامِ نورؔ میں نغمگی و سحر آفرینی کی کیفیت قلوب کو تازگی اور دلوں میں فرحت و سرور پیدا کرتی ہے۔ موصوف کے گذشتہ نعتیہ اشعار میں نغمگی و سحر آفرینی کے نمونے اہلِ ذوق جگہ جگہ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
مزید ایک مثال ملاحظہ کریں:
جب خیالوں میں نبی کا نقشِ پا روشن ہوا
حجرہء دل کا مرے اک اک دیا روشن ہوا
کائناتِ رنگ و بو میں خوشبوؤں کی موج میں
نام ان کا دائرہ در دائرہ روشن ہوا
مسجدؔ احساس میں ذکرِ نبی چھیڑا کہ بس
دفعتاً محرابِ دل میں آئینہ روشن ہوا
مسکرائے مصطفی یوں تیرگی کے دشت میں
رحمت و انوار کا اک سلسلہ روشن ہوا
جناب سید نور الحسن نورؔ کے نعتیہ کلام میں ”صنائع و بدائع“ کا استعمال بھی کثرت سے ہوا ہے۔ راقم الحروف طوالت کے خوف سے انھیں چند ادبی خصوصیات پر اکتفا کرتا ہے۔

مضمون نگار ماہنامہ اشرفیہ کے سب ایڈیٹر رہ چکے ہیں. ان کی پچھلی تحریر یہاں پڑھیں: لائبریری کی اہمیت و ضرورت

پیش نظر مضمون کی پی ڈی ایف فائل ڈاؤن لوڈ کریں:http://ishtiraak.com/wp-content/uploads/2021/01/Saiyad-Noorul-Hasan-001.pdf

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے