اشعار کی من بھاتی شرح

اشعار کی من بھاتی شرح

ایس معشوق احمد

1. الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام
کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
میر تقی میر

تدبیریں الٹی ہو جائیں یا الٹی ہوجائے دونوں واقعات سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ الٹی سے بیمار بندہ شفا پاتا ہے لیکن عموما ایسا نہیں ہوتا۔ الٹی تدبیریں ہوں تو دوا کام نہیں آتی البتہ الٹی کا علاج دوا سے ضرور ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ دوائی اصلی ہو۔ میر بھی فرما رہے ہیں کہ کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ گویا یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آج ہی کی طرح میر کے دور میں بھی دوائی نقلی ہوا کرتی تھی۔ گویا نقلی اور جعلی دواؤں کا کاروبار نیا نہیں بہت پرانا ہے۔ یہ نقلی دوا کا ہی اثر ہے کہ بیمار دل ٹھیک نہیں ہوا اور کام تمام ہوا۔ ورنہ اگر دوائی اصلی بنی ہوتی تو یقینا اثر کرتی، دل کا درد ٹھیک ہوتا اور کام تمام نہ ہوتا۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بیمار دل شخص ڈھنگ سے کوئی کام کر ہی نہیں سکتا۔ کوئی بھی کام ٹھیک ڈھنگ سے انجام دینے کے لیے تازہ اور مضبوط دل کے ساتھ ساتھ طاقت ور جسم بھی چاہیے۔ بیمار جسم اور بیمار دل سے کام نہیں بلکہ کام تمام ہی ہوتا ہے۔

2.عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند

یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
میر تقی میر

افسوس ہے ایسی جوانی پر جو رو رو کاٹنی پڑے۔ خدائے سخن نے تو زندگی کے حسین و جمیل اور سنہرے دور یعنی بچپن کو سرے سے ہی حذف کردیا اور سیدھے جوانی میں رونے لگ گئے۔ بچپن کے وہ حسین لمحات پالنے میں جھولنے سے لے کر توتلی زبان میں بات کرنے تک ، معصومیت سے بھرے کھیل کھیلنا، غموں اور فکروں سے آزاد زندگ ، کسی چیز کے لیے مچل جانا ، کلکاریوں سے لے کر کسی ضد کے پیچھے رونا دھونا، ان سب لمحات اور معاملات کا گھٹاؤ تو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ خیر جوانی بھی دیوانی ہوتی ہے اس میں بھی ایسی کیا افتاد پڑی کہ رونا پڑا۔ ایسا بھی بھری جوانی میں کیا خطرناک روگ لگانے پڑے کہ ہونٹوں سے ہنسی ہی غائب ہوجائے۔ کچھ نہ کچھ سنگین ہی ہوگا ورنہ عہد جوانی کون رو رو کاٹتا ہے۔ ترتیب یہ ہے کہ انسان پیدا ہوتا ہے اس کا بچپن آتا ہے، لڑکپن کی دہلیز پار کرتا ہے، جوان ہوتا ہے، ظالم بڑھاپا آتا ہے اور آنکھیں موند کر اس دنیا کو خیرباد کہتا ہے۔ قاعدہ یہ نہیں کہ کوئی بوڑھا انسان جوان ہوا پھر اس کا لڑکپن آیا اور پھر بچپن۔ گویا یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ بوڑھاپے میں ہی آنکھیں بند کرنے کا وقت آتا ہے۔ کوئی کوئی بد نصیب ہوتا ہے جو بچپن میں فوت ہوتا ہے یا جوان مرگ ہوتا ہے۔
رات کو دیر سے سونے والے یا نہ سونے والے پھر دن کو بھی نہ سوئیں تو بیمار ہوجائیں گے۔ پہلے تو رات کو نہیں جاگنا چاہیے۔ رات آرام کے لیے بنی ہے۔ آرام کرنا چاہیے۔ فضول میں الو کی طرح جاگنا کس لیے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو رات کو دیر تک جاگتے ہیں وہ صبح دیر سے اٹھتے ہیں۔ زندگی میں یہ اصول اپنانا چاہیے کہ رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا چاہیے تاکہ صبح دیگر کام انجام دیے جا سکیں۔

3.سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
احمد فراز

پہلی بات تو یہ ہے کہ سنی سنائی باتوں میں یقین اور بھروسہ کم ہی کرنا چاہیے۔ کیا پتا جو بات سنی ہے وہ سچ ہے یا محض افواہ۔ سنا ہی تو ہے دیکھا تو نہیں۔ یہاں بعض آنکھوں دیکھی چیزیں بھی جھوٹ نکل آتی ہیں. کچھ حرکات محض نظر کو فریب دینے اور دوسروں کا دھیان اپنی اور کھینچنے کے لیے بھی کی جاتی ہیں۔ لوگ جیسے بھی دیکھتے ہیں آنکھ بھر کر ہی دیکھتے ہیں اس میں حیران ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے اس کے جسم میں کوئی نقص ہو جب ہی لوگ اس کی طرف بڑی توجہ سے دیکھتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اکثر لوگ آنکھ بھر کر ہی دیکھتے ہیں جو کسی لحاظ سے پاشکستہ ہوں۔ ہو سکتا ہے اس میں بھی کوئی کمی ہو جب ہی تو لوگ آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں۔ امکان یہ بھی ہے کہ لوگ ہمدردی کا اظہار کر رہے ہوں اور ہمدردی کی نگاہ سے ہی اسے دیکھتے ہوں۔ رہی بات اس کے شہر میں ٹھہرنے کی یا قیام کرنےکی۔ حضور یہ سب کے علم میں ہے کہ بنا کام کے کوئی کسی شہر میں نہیں جاتا۔ انجانی جگہ پر ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں۔ شہر میں جانکار کے بغیر قیام کرنا دانش مندی نہیں۔ ویسے بھی شہروں میں چور و چکاری ، لوٹ مار اور قتل و غارت گری ہوتی رہتی ہے۔دانائی اسی میں ہے کہ انجان شہر میں ٹھہرنا نہیں چاہیے ہاں اگر کوئی جان پہچان والا شہر میں موجود ہو تب کوئی مضائقہ نہیں۔

4. سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف

سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

احمد فراز

ہر انسان کو کسی نہ کسی کام سے شغف ہوتا ہے۔ شعر و شاعری سے بھی ہو سکتا ہے۔ کسی کو مطالعے کا شوق ہوتا ہے تو کوئی سیر و تفریح سے حظ اٹھاتا ہے۔ کوئی تنہا اور گوشہ نشیں ہوکر سکون سے رہتا ہے تو کسی کو بزم طرب پسند ہے۔اپنے اپنے شوق اور اپنی اپنی پسند ہے۔ ایک کی پسند دوسرے کی ناپسندیدگی ہو سکتی ہے۔ جس طرح پسند الگ الگ ہے اسی طرح ہنر بھی الگ قسم کے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ ہنر کے معجزے دیکھنے آیا ہو۔ اس کو ہنر کے معجزوں کو دیکھنے کے سوا اور کام بھی ہوسکتے ہیں۔ آخر انسان اپنے مشغلوں میں مصروف بھی تو ہو سکتا ہے۔ البتہ اگر اپنے ہنر کے معجزے خود ہی بند کمرے میں دیکھنے ہوں تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں، دوسرے مصروف ہو سکتے ہیں اور ہمیں کسی کی مصروفیت اور تخلیہ کو خراب کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اپنے ہنر کو خود پرکھے اور دیکھے ۔جب اطمینان ہوجائے کہ ہمارا ہنر اب پختہ ہوگیا ہے اور اس لائق ہے کہ ہم یہ دوسروں کو دکھا سکیں تو پھر دوسروں کے سامنے اپنے ہنر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

5.سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
احمد فراز

جھوٹ کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔ یہ سراسر بہتان ہے کہ کسی کو خراب حالوں سے ربط ہو سکتا ہے۔. خراب حالوں سے ہمدردی ہو سکتی ہے۔ ان کی حالت غیر کو دیکھ کر ترس آ سکتا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امیر کی ہم آہنگی امیر سے اور بدحال کے مراسم بدحال سے ہوتے ہیں۔ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے کہ امیر اور غریب میں دوستی ہو اور وہ لگاتار اور آگے بھی قائم رہے۔ کوئی دیوانا اور جنونی خود کو برباد کرنا چاہے تو کرے لیکن یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ یہ حماقت کرنے کے بعد کسی اور کے سر یہ الزام لگائے کہ میں اس کے لیے برباد ہوا کیونکہ اس کو برباد لوگ اچھے لگتے ہیں۔ تباہ و برباد لوگوں کو دیکھ کر ہمدردی اور ان سے عبرت لی جا سکتی ہے ان کی بربادی اور تباہ حالی کی وجہ جان کر۔ خود کو برباد کرنے کے بہت سارے طریقے ہیں کوئی نشے کی لت میں پڑ کر برباد ہوتا ہے تو کسی کو شرط بازی لے ڈوبتی ہے۔ پتا نہیں شاعر کے ذہن میں خود کو برباد کرنے کا کون سا طریقہ گھوم رہا ہے۔ بہرحال یہ فراز کا شعر ہے تو یقینا باد و جام کا طریقہ ہی اپنانے کا سوچا ہوگا۔ مے میں ڈوب کر بڑے بڑے سورما تباہ اور خراب حال ہوئے ہیں۔

6. ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
غالب۔
کمال ہے کوئی شخص مرنے کے بعد کیسے یہ دیکھ اور جان سکتا ہے کہ وہ رسوا ہوا ہے۔ جاں بر شخص رسوا ہو جائے اور وہ اپنے ہوش و حواس میں ہو تو اس کو علم ہوتا ہے کہ وہ رسوا ہورہا ہے۔ جان بحق شخص کے جسم پر مرنے کے بعد کیا کچھ بیتی ہے اس کا علم اسے نہیں ہوتا۔لوگ تو پناہ مانگتے ہیں ایسے مرنے سے جس میں گھر والوں کو لاش نہیں ملتی۔ جس کو کفنانے کے بعد وہ دفنا نہ سکیں. یہاں غرق دریا ہونے کی خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اپنے عزیز کی قبر پس ماندگان کے لیے تحفہ ہے۔ جب عزیز و اقارب جنازے میں شامل ہوتے ہیں تو نہ صرف مرنے والے کے لیے ایصال ثواب کی دعا کرتے ہیں بلکہ خود ان کا غم بھی جنازہ پڑھ کر ہلکا اور کم ہوجاتا ہے۔اب جب جنازہ اور مزار ہی نہ ہو تو نہ ہی مرنے والے کے لیے یہ کوئی اچھا ہے اور نہ لواحقین کے لیے کوئی خوش کن ۔ مرنا تو ہر ایک کو ہے اس کا مرنا افضل ہے جس کو مرنے کے بعد غسل دیا جائے ، جنازہ پڑھا جائے اور گھر والوں اور عزیز و اقارب کی موجودگی میں دفنایا جائے۔ گویا مزار ہونا کسی رحمت سے کم نہیں۔ پتا نہیں مزرا کو ایسا کون سا صدمہ پہنچا کہ وہ یہ خواہش کر رہے ہیں کہ جنازہ اور مزار نہیں ہونا چاہیے۔ ایسا لگتا ہے مرزا جب یہ خواہش کر رہے تھے اس وقت شاید وہ اور ہی سوچوں میں گم اور مگن رہے ہوں گے ورنہ مرزا جیسا عاقل اور دانا شخص ہرگز ایسی خواہش کا اظہار نہ کرسکتا۔

7. تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

علامہ اقبال

مشہور ہے کہ گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھاتا ہے۔ راز داں ہی راز افشا کرتا ہے. بےچارہ انجان شخص راز و نیاز کے بارے میں کیا جانے اور اس کو ان باتوں کا کیا علم۔ وہ تو ہر راز سے بے خبر ہوتا ہے۔ جان پہچان والا ہی ہر راز سے واقف ہوتا ہے۔ وہ مشورے دیتا ہے، آگے کا لائحہ عمل بتاتا ہے۔کبھی کبھار پیامی بن کر پیغام پہنچاتا ہے۔ کچھ تو من و عن وہی پیغام آگے دیتے ہیں جو ان سے کہا جائے لیکن کچھ سندیس میں نون مرچ کا تڑکا لگا کر آگے بیان کرتے ہیں۔ پیامی بھروسہ مند ہوتا ہے اور اس کو بھروسہ مند ہی رہنا چاہیے۔ جو بھی راز اس کے علم میں ہو اس کو اپنے سینے میں دفن کرنا چاہیے۔ پیامی کو چاہیے کہ ایک کے راز دوسروں کو نہ بتاتا پھرے۔ راز بتاکر نہ صرف اپنا وقار کھو دیتا ہے بلکہ اس شخص کے بھروسہ کو بھی توڑ دیتا ہے جو اس پر اعتماد کرتا ہے۔ خطا وار کوئی بھی ہو سکتا ہے لیکن نہ بندے کی خطا ہے نہ فرد کی۔ خطا سرکار کی ہی ہے ۔عوام تو بھولی بھالی ہے۔ جو کچھ کرتی ہے سرکار ہی کرتی ہے۔ سب کچھ کرکے اور سارا کچھ کھاکے سرکار ڈکار تک نہیں لیتی۔ پہلے زمانے میں سرکار گاؤں کو بے وقوف بناتا تھا اور خود ٹھاٹ سے رہتا تھا اب تو سرکار ملک کو بے وقوف بنا کر ٹھاٹ سے رہتے اور موج کرتے ہیں۔

8. نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
غالب

خلد سے آدم کا نکلنا ہم اور آپ سنتے آئے ہیں۔آدم کو کیوں نکالا گیا یہ قصہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں نے بھی سن رکھا ہے لیکن غالب کو بے آبرو کرکے کوچے سے کیوں نکالا گیا۔ کسی کوچے سے ، علاقے سے ،شہر سے ، ملک سے کسی کو کیوں نکالا جاتا ہے۔ جب تک اس شخص مذکور نے کوئی ایسی خطا ، غلطی نہ کی ہوگی تب تک بھلا کیوں کسی کو کوچے سے بے آبرو ہوکر نکالا جائے۔ مرزا غالب کو بے آبرو کرکے کوچے سے اس لیے نکالا گیا ہوگا کیونکہ اس نے چوری کی ہوگی۔ چور کو ہی بے عزت کرکے نکالا جاتا ہے۔ یہ بھی امکان ہے کہ اس گلی کے باسیوں کی بہو بیٹیوں کو نگاہ بد سے دیکھا ہوگا۔ ان کے ساتھ بد تمیزی کی ہوگی۔ ان کے ساتھ بد اخلاقی اور غیر مہذب طریقے سے پیش آیا ہوگا۔ ان کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کئے ہوں گے۔ جب ہی تو اس گلی سے بے آبرو ہوکر نکالا گیا۔ آج تک کسی بھی مہذب انسان کو کسی گلی ،علاقے ، شہر سے بے آبرو ہوکر نہیں نکالا گیا۔مجرم ،گناہ گار ، بد کردار ، خطاوار کو ہی بے آبرو کرکے نکالا جاتا ہے۔
ایس معشوق احمد کی پچھلی تحریر یہاں پڑھیں:
گالی

شیئر کیجیے

2 thoughts on “اشعار کی من بھاتی شرح

  1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    صاحب تحریر سے پیشگی معزرت کے ساتھ کچھ باتیں عرض ہیں
    مجھے یہ مضمون پڑھ کر محسوس ہوا ہے کہ شاید مضمون نگار ابھی طنز و مزاح کے میدان میں نئے ہیں جس کی وجہ سے طنز کرنے کے چکر میں اشعار پر نقد کر جاتے ہیں
    تنقید غلط چیز نہیں ہے لیکن جب ہم طنز ہر رہے ہوں تو طنز ہی کریں تنقید نہ کرنے لگ جائیں اس سے موضوع اور تحریر میں مطابقت نہیں رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے تحریر کو پڑھتے ہوئے قاری کو کلفت ہونے لگتی ہے
    دوسری چیز طنز و مزاح کرتے ہوئے اشعار کے بہترین اور لطیف مضامین کا خاص خیال رکھنا چاہیے ایسا نہ کرنے کے سبب کئی اشعار کے بہترین مضامین کی لطافت ضائع ہو گئی، اور صاحبِ تحریر بھی مزاج نہیں پیدا کر پائے صرف وقت اور الفاظ کا ضیاع ہوا

    تیسری بات
    مشورے کے طور پر عرض ہے کہ طنز و مزاح بھی بہت ہی لطیف فن ہے اس کے لئے الفاظ و تراکیب کا اچھا علم ازحد ضروری ہے اس لئے صاحب تحریر کو چاہیے کہ طنز و مزاح میں جو نام نمایاں ہیں ان کی تحریروں کا مطالعہ کریں اور پھر اپنے عصر شعرا کے کلام پر یہ کام کریں بڑے شعرا کے کلام پر مشق کرنا آپ کے حق میں بہتر نہیں ہوگا البتہ استاد کا نازک مضمون ضرور ضائع ہو جائے گا

    ویسے مضمون پڑھ کر کافی لطف اندوز ہوا کوشش جاری رکھیں ان شاءاللہ ایک تابناک مستقبل آپ کا منتظر ہے اللہ آپ کو خوش رکھے سلامت رکھے ہر میدان میں سرخروئی عطا فرمائے آمین ثم آمین

  2. وعلیکم السلام
    شعیب سراج صاحب آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر یہ تحریر پڑھی اس کے لیے شکریہ اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا یہ
    میرے لیے باعث مسرت ہے۔یہ تبصرہ/مشورے اس بات کا گواہ ہے کہ آپ نے تحریر کا مطالعہ باریک بینی سے کیا۔مزاح نگار نیا ہے یا پرانا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر اس کی تحریر قاری کے دامن کو اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب رہتی ہے۔انسان زندگی بھر طالب علم ہی رہتا ہے۔زندگی کے آخری ایام تک کچھ نہ کچھ سیکھتا ہی رہتا ہے۔ آپ نے صحیح فرمایا کہ طنز اور ںقد دو الگ الگ میدان ہیں اور کلاسیکی شعراء کے اشعار کو یوں طنز کا نشانہ بنایا اچھا بھی نہیں لیکن یہ’ من بھاتی شرح’ ہے.ہمیں اتنا تو حق ہونا چاہیے کہ جو ہم محسوس کریں وہ صحفہ قرطاس کے حوالے کرے۔ آپ تحریر سے اندوز ہوئے میری خوش بختی۔آپ کا شکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے