بھولے بسرے لمحے

بھولے بسرے لمحے

محمد شمشاد، نئی دہلی، انڈیا
7011595123
آج پھر وہ بابا کو دیکھ کر اداس ہو گئی. اس کے تمام سوالات ایک ایک کر کے اسے کریدنے لگے ”تم شادی کیوں نہیں کرتی ہو؟ تم فن کار کی یاد میں کب تک تڑپتی رہوگی۔ کیا اس کا کچھ پتہ چلا وہ لوٹ کر کیوں نہیں آیا؟“ اور…………اور وہ فن کار کی یاد میں کھو گئی۔
ہاں فن کار سے اس کی ملاقات اچانک ہوئی تھی۔ بالکل اچانک، وہ اسے بالکل نہیں جانتی تھی کہ وہ کون ہے بس یونہی اس نے کسی سے اس کا نام سنا تھا اس کے نام میں ایک نیاپن تھا فن کاربالکل نیانام تھا جیسے ہی اس نے فن کار کانام سنا اس کا دل دھڑک اٹھا اور اس کا بدن کانپ گیا معلوم نہیں اس کا دل کیوں دھڑکا وہ اس کی وجہ نہیں جانتی تھی اور نہ ہی اس نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی پھر بھی وہ اس کے بارے میں سب کچھ سنتی گئی بہت کچھ سنا کئی بار سنا جیسے وہ کسی کے بارے میں نہیں بلکہ کوئی کہانی سن رہی ہو اس نے ایسا کوئی پہلی بار نہیں کیا تھا بلکہ اس کی یہ پرانی عادت تھی اسی بنا پر کسی نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور یونہی کھیل کھیل میں اسے اڑا دیا جیسے کوئی لطیفہ یا مزاحیہ کہانی کہی گئی ہو۔
لیکن عزمی کی حالت اس دن سے ا بتر ہوتی جارہی تھی اس سے قبل اسے ایسا کبھی محسوس نہیں ہوا تھا اور نہ ہی کبھی اس کا دل دھڑکا تھا کبھی کبھی تو وہ اس کے بارے میں سوچتے سوچتے جھینپ جاتی تھی اتنے میں وہ اپنے آپ سے کچھ سو ال کر بیٹھی ”مجھے اس کے بارے میں سوچنے سے کیافائدہ“ جس سے اس کا رشتہ ہو رہا ہے وہ جانے میں کون ہوتی ہوں اس کے بارے میں سوچنے والی؟“وہ اسے اپنے دل سے نکالنا چاہتی تھی تہہ دل سے لیکن وہ بھی عجب تھا کہ دور ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ حالاں کہ اس کی فنکار سے ابھی تک ملاقا ت بھی نہیں ہو پائی تھی۔
ایک روز کی بات ہے کہ عزمی اپنی چچی جان کی عیادت کے لیے ہسپتال گئی ہوئی تھی کہ یکایک اس کی نظر کسی نوجوان پر جا کر رک گئی وہ بھی عجب تھا خوبرو، گٹھیلے بدن کا مالک، ہینڈسم بہت ہی اسمارٹ تھاوہ کسی دوسری جانب نہیں بلکہ اسی کی طرف آرہا تھا وہ اس کے قریب آتا گیا بلکہ قریب سے قریب تر بالکل قریب اور وہ جھنپتی چلی گئی، وہ اس کے قریب آکر خالی کرسی کھینچ کر چچی جان کے بیڈ سے لگ کر بیٹھ گیا اس نے آتے ہی چچی جان سے خیرت پوچھا اس کے بعد عزمی سے مخاطب ہو گیا۔ ”آپ کون ہیں، کہاں رہتی ہیں اور کیا کرتی ہیں؟“ اس نے عزمی سے سوالوں کا بوچھار کر دیا اور۔۔۔۔
اور وہ مختصر سا جواب دیتی گئی لیکن اس نے اس کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا یہ بھی نہیں کہ اس کا نام و پتہ کیا ہے؟ اسک ی زبان زراسی بھی نہیں کھلی کہ وہ کون ہے اور ………… اور وہ اس سے اس طرح باتیں کرتا رہا جیسے وہ اس کو بہت دنوں سے جانتا ہو، صدیوں سے وہ کوئی انجان نہیں بلکہ اس کے تعلقات بہت پرانے ہوں وہ باتیں کرتے کرتے یکایک اٹھ کھڑا ہوا اور وہ چچی جان سے اجازت لے کرواپس لوٹنے لگا لیکن وہ چند ہی لمحے بعد پلٹ کے کہنے لگا ”میں بھی عجب بدھو ہوں تم سے میں نے سب کچھ پوچھ لیا لیکن میں نے اپنا نام تک نہیں بتایا۔ بتاؤ میں بدھو ہوں یا نہیں ”اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ”مجھے لوگ حفیظ کے نام سے جانتے ہیں“ اور یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل پڑا۔
اس کے جانے کے بعد چچی جان کہنے لگی ”کتنا پیارا بچہ ہے کتنا ہونہار اور ملنسار ہے عجب ہے یہ لڑکا تم تو اس سے پہلی بار ملی ہوگی لیکن وہ تم سے اس طرح باتیں کرتا رہا تھاجیسے تم سے کوئی نئی نہیں صدیوں پرانی جان پہچان ہو، خدا اسے ہونہار نیک اور سعادت مند دلہن عطا کرے“ اور یہ سنتے ہی اس کے منہ سے بھی آمین نکل پڑا بس وہ بھی اس کے لیے دعاوں کی حامی بھرتی گئی اور نہ جانے وہ اس کے لیے کیا کیا دعائیں دیتی رہیں اسے کچھ بھی یاد نہیں اور ………… اور وہ اس کی باتوں میں کھوئی دروازہ کی جانب تکتی رہی جیسے وہ اس کے آنے کے انتظار میں بیٹھی ہو۔
یکایک چچی جان کی آواز نے اسے چونکا دیا اور وہ ان کی باتوں کو غور سے سننے لگی ”جانتی ہو بیٹی! یہ حفیظ ہے نا حفیظ بہت اچھا اور شریف لڑکا ہے نہایت شریف، خدا اس کی عمر دراز کرے ’آمین وہ ہر ایک پر اس طرح ریجھ جاتا ہے جیسے وہ کوئی غیر نہیں بلکہ اپنا سگا رشتہ دار ہو. جانتی ہو یہ بہت ہی محنتی اور تیز لڑکا ہے اس نے آج تک کسی کے سہارے کچھ نہیں کیا بس اس کی عقل اور محنت کا ہی پھل ہے کہ اس نے آج ایک دوکان کھول دی ہے وہ دوکان، دوکان نہیں بلکہ ایک فرم ہے جہاں وہ خود بھی محنت کرتا ہے اور کئی غریب بچوں کو بھی کام سکھاتا ہے وہاں کام کرنے والے سبھی بچے حفیظ کو دل و جان سے پیار کرتے ہیں اور وہ …… وہ تو اسے کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے اولاد کی طرح مانتا ہے ان کی تھوڑی بھی تکلیف وہ برداشت نہیں کرتا“
اور وہ دھڑکتے دلوں کے ساتھ فن کار کی دوکان پر جاپہنچی. اپنے دوست کی خاطر تاکہ اسے دیکھ کر اس کے بارے میں سمجھ بوجھ کر روبی کا رشتہ کیا جا سکے لیکن روبی کے والدین اس رشتہ کو بار بار یہ کہہ کر ٹالنا چاہ رہے تھے کہ وہ کچھ بھی ہو پینٹر ہے میں اپنی بیٹی روبی کی شادی کسی پینٹر سے نہیں کر سکتا لیکن عزمی بضد تھی کہ یہ رشتہ معقول ہے اگر فن کار صحت مند اور ہینڈسم ہو اور اس کا کاروبار اچھا ہو تو رشتہ کرنے میں کیا مضائقہ. وہ تو اپنے ہنر اورآرٹ کو ابھار رہا ہے اس زمانے میں معقول رشتہ بہت مشکل سے ملتا ہے اور اگر کوئی رشتہ ملتا بھی ہے تو وہ جہیز کے لالچی ہوتے ہیں. ان لالچی سے تو یہ کہیں بہتر ہے اس کا جہیز کے طور پر کوئی مطالبہ بھی نہیں ہے تو یہ رشتہ کرنے میں کیا مضائقہ ہے انہی بنا پروہ بے تکان اس کی دوکان کی جانب چل پڑی وہ روبی سے بہت پیار کرتی تھی اس کی خواہش تھی کہ روبی کی شادی من پسند اور شریف لڑکے سے ہو اور اس کا شوہر نکما اور لالچی نہیں ہو بلکہ خوبصورت، ہینڈسم اور محنتی ہو جو اسے کما کر دو وقت کی روٹی کھلا سکے۔
وہ اسے دیکھ کر بھونچکا رہ گئی اور حفیظ کی نظر اس پر جاتے ہی وہ باہر آگیا اور پوچھا۔ ”خیریت تو ہے تم ادھر کہاں؟ آؤ! اندر چل کر بیٹھو“ اس کے ساتھ کوئی اور لڑکی بھی تھی وہ دونوں کو لے کر اندر چلا گیا اور بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ”بتاؤ تم کیا لوگی گرم یا ٹھنڈا“ لیکن عزمی پریشان تھی اس کے بدن سے پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا ایک تو اسے دیکھ کر وہ بری طرح پریشان تھی،تو دوسری گرمی کی شدت اور اوپر سے پھر چائے نہیں! اسے تو خود بخود پسینہ چھوٹ رہا ہے اگر وہ گرم لینے کی بات کرے تو ٹھیک نہیں مگر ٹھنڈا! وہ ٹھنڈا کی بات کرے تو کیسے اسے زبان کٹنے کا ڈر تھا اس نے اسی پیش و پیش کی حالت میں جواب دیا”آپ جو چاہیں …………“
وہ ان بچوں کو کچھ بتانے کے بعد اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ”دیکھو عزمی یہ ہے میری دوکان پسند آئی یا نہیں۔ اسی سے میری گاڑی چلتی ہے جب میں یہاں محنت کرتا ہوں تب جاکر دو وقت کی روٹی مجھے نصیب ہوتی ہے ورنہ ………… دیکھو عزمی تم تو سمجھتی ہوگی کہ میں جاہل ہوں لیکن میں بی. ایس. سی. پاس کر چکا ہوں اور تم جانتی ہو کہ اس وقت بیکاری اوربے روزگاری کا کیا حال ہے. تم تو دیکھ ہی رہی ہو کہ اچھے اچھوں کی حالت اس زمانے میں خراب ہے میں تو ان سے کہیں بہتر ہوں کہ اپنے ہنر کے ذریعہ ہی جی رہا ہوں اور اس کو آگے بڑھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں اب دیکھو! آج میں اسی بنا پر اچھے سے کھا پی رہا ہوں اورکسی کا محتاج تو نہیں“
اتنا سنتے ہی عزمی کی زبان کھل گئی ”آپ اپنی تعلیم جاری کیوں نہیں رکھتے؟ کیا آپ نے اسی دوکان پر اکتفاء کر لیا ہے؟“ ”نہیں! میں تو بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں لیکن تھوڑا ٹھہر کر پہلے میں اس دوکان کو پوری طرح قائم کر لوں اس کے بعد انشا اللہ تعالیٰ میں پینٹگ تکنالوجی کروں گا تاکہ میں اپنے اس فن میں اور نکھار لا سکوں“۔
اور وہ وہاں سے لوٹ گئی اسے فن کار کی اصلیت معلوم ہو چکی تھی. وہ جان گئی تھی کہ فن کار کون ہے؟ فن کار حفیظ کا قلمی نام ہے فن کار کوئی اور نہیں بلکہ چچی جان کا کا پیارا بچہ ہے وہ وہاں سے اٹھی اور دھڑکتے دل کے ساتھ روبی کے گھر پہونچ گئی لیکن روبی کے والد نے اس رشہ کو نامنظور کر دیا تھا اس نے فوراً کچھ سوچا اور اپنے والدین کو اس رشتہ کے لیے تیار کرنے کا ارادہ کر لیا جب اسے معلوم ہوا کہ اس کے والدین نے اس رشتہ کو منظور کر لیا ہے تو وہ خوشی سے جھوم اٹھی اور اس نے چچی جان کو ساری باتیں بتادیں چچی جان یہ سن کر بہت خوش ہوئیں انہوں نے دونوں کو خوب خوب دعائیں دیں۔
چند ہی دنوں بعد چچی جان نے فن کار کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی اس روز عزمی کی حالت عجب تھی ایک طرف تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی تو دوسری طرف اس کے صبر کا عالم یہ تھا کہ وقت کٹتے نہیں کٹ رہا تھا. وہ دن رات بے صبری سے اس کا انتظار کر رہی تھی جیسے ہی فن کار وہاں پہنچا وہ بے دھڑک بغیر میکپ کیے اس کے پاس پہنچ گئی اور اس نے فن کار سے سوال در سوال کرنا شروع کر دیا ”آپ اس روز کیوں نہیں آئے؟ کل کیوں نہیں آئے؟ آج اتنی دیر سے کیوں آ رہے ہیں؟ آپ چچی جان سے ملنے کیوں نہیں آتے؟ میں آپ کا کب سے انتظار کر رہی ہوں. پہلے آپ میرے سوالوں کا جواب دیجیے اور فن کار کو یہ دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی کہ آج اسے کیا ہو گیا ہے. جو کل تک شرم کے مارے جھکی جاتی تھی آج وہ اتنی چنچل اور بے لگام کیوں ہو گئی ہے؟ پہلے تو اس کے دل میں آیا کہ دو تین طمانچے اس کے منہ پر جڑ دے لیکن اس کے ہاتھ اٹھتے ہی رک گئے ”تمہیں آج کیا ہو گیا ہے؟ تم ایسی کیوں ہو گئی ہو؟“
لیکن عزمی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگی ”آج بہت خوش ہوں بہت خوش، میں خوشی سے پاگل ہو گئی ہوں. بتاؤں کیوں؟ پہلے آپ وعدہ کریں کہ انکار تو نہیں کریں گے؟ آپ دو تین دن میں پنٹنگ ٹکنالوجی میں داخلہ لینے اور وہاں جانے کے لیے تیار ہو جائیں“
”میں یہ سب کیسے کر سکتا ہوں میرے وہاں جانے اور رہنے کا خرچ کون برداشت کرے گا؟ میری دوکان کون دیکھے گا“ اس نے جواب دیا۔
”میں! کیا میں یہ سب نہیں کر سکتی ہوں“؟
”تم !“ فن کار یہ کہہ کر ہنسنے لگا خوب زور سے ہنسا ٹھہاکے مار کر ”تم پہلے اپنا تو دیکھو خود تو اپنے باپ کے سہارے جیتی ہو اور چلی ہو دوسرے کو سہارا دینے کی بات کرنے“
”کیا آپ مجھے سہارا نہیں دے سکتے؟“
”ابھی تو چلی تھی مجھے تعاون کرنے اور فوراً پلٹ گئی سہارا مانگنے کے لیے“اتنے ہی میں اس نے ایک چیک فن کار کی جانب بڑھا دیا ”لیجیے! میں اپنا سارا پیسہ نکال کر آپ کو دے رہی ہوں یہ رقم میری شادی کے لیے جمع کیا گیا تھا جب آپ وہاں سے لوٹ کر آئیں گے تب دیکھا جائے گا“
”یہ کیا!یہ تم نے کیا کیا؟“اور وہ حیرت زدہ رہ گیا ”اس کے علاوہ میں کیا کرسکتی ہوں؟ اس کے سوا میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا“ اوریہ کہتے ہوئے وہ فن کار کے سینے سے لپٹ گئی۔
”کیا آپ وہاں نہیں جائیں گے؟ آپ میرا یہ حقیر تحفہ قبول کر لیجیے“ اس نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
”ارے پگلی! میں نے کب کہا کہ میں نہیں جاؤں گا. میں تو تجھے دیکھ کر ہی پاگل ہو گیا تھا اور اب تو تم مل گئی ہو میں ضرور جاؤں گا ضرور! وعدہ کرتا ہوں تم میرے لیے دعا تو کرو“
”میں تو پہلے ہی آپ کے لیے دعا کر چکی ہوں. چچی جان کے ساتھ یہ بات سچی ہے نا چچی جان“ اتنے میں وہاں چچی جان آپہنچی اور بولیں ”ہاں حفیظ یہ تو تجھے دیکھ کر پہلے پاگل ہو گئی تھی دیکھو تم اس کی بات کا انکار مت کرنا“
”نہیں چچی جان! میں انکار نہیں کروں گا۔ میں تو پہلے ہی وعدہ کر چکا ہوں“
”ارے تو تم دونوں بہت تیز نکلے اور اکیلے ہی اکیلے بات پکی کر لی“ اور ان دونوں کی گردنیں شرم سے جھک گئیں اور کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
اس روز ٹرین بالکل صحیح وقت پر آچکی تھی. بالکل رائٹ ٹائم اور عزمی کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وقت بہت تیزی سے گزر گیا ہو.
حالاںکہ وہ ٹرین کچھ دیر سے آنے کیے لیے دعا کر رہی تھی. ٹرین پلیٹ فارم پر کھڑی تھی. لوگ اپنی اپنی برتھ کی تلاش میں دوڑ دھوپ کر رہے تھے لیکن فن کار ان سبھی سے الگ عزمی سے باتیں کرنے میں مشغول تھا. اس درمیان اس کے دوستوں نے اس کا برتھ تلاش کر لیا تھا اور سبھی سامانوں کو اس کے برتھ کے پاس لے جا کر رکھ دیا تھا. فن کار عزمی کو لے کر ٹرین میں داخل ہوا تو عزمی بولی ”سفر تو بہت مشکل سے کٹے گا. وہاں پہنچتے ہی خط لکھیے گا ہر روز…… میں ہر دن خط کا انتظار کروں گی صحت پر دھیان رکھیے گا۔
”ارے پگلی، تو اتنی اداس کیوں ہوتی ہے چند ہی مہینوں کی تو بات ہے. پھر تو“………… اور گاڑی کی وسل سن کر دونوں باہر آگئے. ٹرین دھیرے دھیرے پلیٹ فارم پر رینگنے لگی تو عزمی نے اس کے کانوں میں خدا حافظ کہا۔
وقت گزرتا گیا ایک ماہ دو ماہ تین اور نہ جانے کتنے ماہ گزر گئے. فن کار کے خط آتے رہے اور وہ اس کا جواب لکھتی رہی لیکن ایک خط نے اس کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا. یہ خط فن کار کا نہیں اس کے Institute کے ڈائریکٹر کا تھا عزمی اس خط کو پڑھ کر بدحواس ہو گئی. فن کار بری طرح مجروح ہو چکا تھا تیزاب اس کے چہرہ پر گر پڑا تھا یہ پڑھ کر وہ تڑپ اٹھی اس کا بس چلتا تو وہ دوڑ کر چلی جاتی اس کے رشتہ داروں کو اس کی کوئی خبر نہیں تھی اور نہ ہی کسی دوست اور احباب کواس نے بتانا۔ وہ اس کے پاس بھاگ کر پہنچنا چاہتی تھی لیکن اس کے والدین کی وجہ کر وہ مجبور تھی کہ وہ کچھ نہ کر سکی اور نہ ہی کسی کو اس کی اطلاع دی کہ فن کار…………
کو رس کی مدت کار کردگی پوری ہو چکی تھی. اب فنکار کے لوٹنے کا وقت آگیاتھا اس نے اس وقت کو گن گن کر گزارا تھا لیکن وہ آج بھی نہیں لوٹا ایک دن گزرا دوسرا، تیسرا،چوتھا اور نہ جانے کتنے دن گزر گئے لیکن وہ نہیں لوٹا اور نہ ہی اس کا کوئی خط آیا بس وہی آخری خط تھا اس کا یا اس کے ڈائریکٹر کا وہ ہر روز اس کی یادوں میں اس کے خطوط لے کر بیٹھ جاتی اور اس کے لیے دعائیں کرتی رہی. اس وقت اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا کہ کتنے دن گزر گئے. وقت گزرتا رہا اور اس کا انتظار کرتی رہی. دن گزرے ہفتہ گزرا مہینے اور نہ جانے کیا کیا گزرا لیکن فن کار نہیں گزرا۔بس وہی بابا آیا اور اس کی یادوں کو کریدنے لگا ”تم اتنی اداس کیوں رہتی ہو تم شادی کیوں نہیں کرلیتی ہو تم اس کی یادوں میں کب تک اس طرح زندگی گزارو گی وہ کب آئے گا“
بابا اس کی زندگی میں یکایک ٹپک پڑا تھا. اس کے چہرہ پر جلے کٹے کچھ داغ ابھر ہوئے تھے اور سر کے بال آدھے کچے پکے اور سادھو سنتوں کی طرح لمبے تھے زبان تیزتھی لیکن وہ تھوڑا تتلا کر بولتا تھا.
بابا نے پھر اسے ٹوکا ”عزمی تم کیا سوچ رہی ہو کیا تم فن کار کے بارے میں کچھ سوچ رہی ہو“
”ہاں بابا میں اسی کے بارے میں سوچ رہی ہوں اسے کیا ہو گیا اس نے زخمی ہونے کے بعد آج تک ایک بھی خط نہیں لکھا۔اس نے ایسا کیوں کیا وہ مجھے بھول نہیں سکتا اس کی دوکان اس کے بنا سونی سونی لگ رہی ہے. کہیں اسے کچھ ہو تو نہیں گیا جو مجھے۔۔۔“وہ ایک ہی سانس میں بول گئی. بولتے بولتے اس کی آواز رندھ گئی اور وہ آہیں بھرنے لگی.
”نہیں عزمی وہ ضرور آئے گا تمہارے پاس،تم اسے معاف کردو وہ ضرور آئے گا شاید وہ کوئی مصیبت میں پھنس گیا ہو“
”بابا تم اسے ڈھونڈ کر لا سکتے ہو میں اس کے بنا جی نہیں سکتی۔بابا اسے جاکر کہہ دو کہ تمہاری عزمی تمہارے انتظار میں تڑپ رہی ہے“اور وہ اس کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلا کر گڑگڑانے لگی.
”عزمی یہ دیکھو“ اور یہ کہتے ہوئے بابا نے اس کے سامنے ایک تصویر رکھ دیا اور بولا ”یہ لو میرا ایک حقیر تحفہ“ اس تصویر کو دیکھتے ہی عزمی تڑپ اٹھی یہ تو میرا فن کار ہے میرا فنکار یہ تمارے پاس کہاں سے آیا؟ بتاؤ بابا! تم اسے کہاں سے لائے ہو۔کیا تم فن کار کو جانتے ہو؟ بتاؤ نا میرا فن کار کہاں ہے؟“ اور اس کی نظر اس کے ہاتھ پر جا پڑی اس کی دی ہوئی انگوٹھی اس کے ہاتھوں میں چمک رہی تھی اور وہ انگوٹھی کو دیکھتے ہی اس پر برس پڑی ”تم جھوٹے ہو تم نے مجھے اتنا کیوں تڑپایا میں بھی کتنی بدھو ہوں کہ اتنے دنوں سے میرا فن کار میرے پاس ہے اور میں نے زرا بھی اسے پہچاننے کی کوشش نہیں کی اور تم نے بھی مجھے نہیں کہا کہ تم ہی میرے فن کار ہو۔ تمہارا چہرہ تیزاب سے جل گیا تھا مجھے معلوم تھا پھر میں نے دھیان بھی نہیں دیا اور نہ ہی تم نے مجھے بتایا تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا جواب دو!کیا یہ سوچ کر کہ میں تمہیں دیکھ کر پہچاننے سے انکار کر دوں گی نہیں یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ میرا…………“
اور یہ کہتے کہتے وہ اس کے سینے سے لپٹ گئی ”تم کتنے مہان ہو تم نے میری خاطر اپنا سب کچھ لٹا دیا اپنے خوبصورت چہرہ کو بھی“
”اور تم! کہاں کم ہو کہ تم مجھ بدصورت کو ابھی بھی نہیں بھلا سکی مجھے تو تم پر فخر ہے کہ میری عزمی ایسی ہے“۔اور دونوں ایک دوسرے کی باتوں میں کھو گئے۔ ٭٭٭

کچھ افسانہ نگار کے بارے میں‌:
نام محمد شمشاد
والد کا نام محمد ایوب
والدہ کا نام فرخندہ خاتون
جائے پیدئش امراھا،چاکند،ضلع گیا، بہار
تاریخ پیدائش ۳ جنوری ۵۶۹۱
آبائی وطن گیا
تعلیم ایم اے، پی جی ڈپلومہ ان جرنلزم
پی جی ڈپلومہ ان این جی او منجیمیٹ
پیشہ تجارت
رہائش شاہین باغ،جامعہ نگر، نئی دہلی
موبائل نمبر 91-7011595123/ 9910613313
موصوف ایک سینئر قلم کار، سیاسی تجزیہ نگار اور دو افسانوی مجموعوں کے خالق ہیں .
محمد شمشاد کے دوسرے افسانے:
ادھوری عورت
آخری داؤ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے