آہ! منوّر رانا: اردو شاعری کی ہم عصر مقبولیت کا استعارہ

آہ! منوّر رانا: اردو شاعری کی ہم عصر مقبولیت کا استعارہ

۱۹۸۰ء کے بعد کے دور میں اردو مشاعروں کی بزم میں بشیر بدر کے بعد منوّر رانا نے حقیقتاً راج کیا۔اردو مشاعروں سے آگے نکل کر عوامی مقبولیت کے معاملے میں ہماری زبان کا شناخت نامہ بن گئے۔ طویل بیماری کے بعد اُن کی رُخصتی بہ قولِ جگر یہ ہے: ’’مدّتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے‘‘

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

اِدھر کئی برسوں سے جس کا دھڑکا لگا ہوا تھا، وہ کل رات انجام کو پہنچا۔ منوّر رانا کئی برسوں سے اپنی متعدد بیماریوں سے لڑتے ہوئے ہمارے لیے بس اِس خبر کے طور پر تھے کہ وہ گھر اور اسپتال کی دَوڑ لگاتے رہے۔ کبھی لکھنؤ سے کوئی تصویر آ جاتی۔ کوئی ادیب یا شاعر اُن کے گھر جا کر تیمار داری کر آتا۔ کبھی کبھی اُن کی لڑکھراتی آواز بھی کسی بہانے ہماری محفلوں تک پہنچ جاتی تھی۔ ذہنی طور پر اردو کا پورا معاشرہ اِس بری خبر کے لیے تیّار ہی تھا کیوں کہ اسپتال اور گھر آنے جانے کا دَورہ جیسے جیسے طویل ہوتا گیا، ہماری خواہشوں پر اور نیک تمنّاؤں پر جبرِ مشیت کا سکون اور صبر بھی سامنے آتا رہا۔ واقعتا یہ اَنہونی خبر نہیں مگر اردو کا کون ادیب اور شاعر یہ کہہ سکتا ہے کہ منوّر رانا کی وفات کی خبر سننے اور لکھنے کے لیے وہ راضی ہے۔ بستر پر ہی صحیح مگر ہمیں معلوم تھا کہ ہماری زبان کے فی الوقت سب سے مقبول شاعر ہمارے بیچ تو ہیں۔ ٹھیک اُسی طرح جیسے بشیر بدر بھی ہمارے بیچ تو ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ ہماری ادبی محفلوں سے تقریباً دو دہائی سے فرصت پر ہیں، مگر یہ کم نہیں کہ بھوپال میں جدید ادب کے سب سے چمکتے ستاروں میں ایک شخص اب بھی اپنی سانسوں اور ڈھڑکنوں کے ساتھ موجود تو ہے۔
منوّر رانا اِس عوامی مقبولیت کے دروازے تک آسانی سے نہیں پہنچے تھے۔ اُن کے ادبی کیریر پر نظر رکھیے تو رائے بریلی، کولکاتا اور پھر لکھنؤ کی ایک تثلیث پیدا ہوتی ہے۔ شاعری اُنھوں نے اوائلِ عمری سے شروع کر دی تھی اور والی آسی جیسا ایک استاد بھی میسّر آ گیا تھا مگر کلکتے کے ادبی ماحول میں اُنھیں پہچان بنانے میں اچھا خاصا وقت لگا۔ شکیل اعظمی نے اپنے ایک مضمون میں لکھنؤ کے اُس مشاعرے کا تذکرہ کیا ہے جب والی آسی نوجوانی کے دنوں میں اُنھیں ایک مشاعرے میں کلام پڑھانے کے لیے لے گئے مگر پوری رات مشاعرہ چلتا رہا اور منوّر رانا کے لیے دو چار لمحے نہیں نکل سکے۔ کلکتے میں ایک سے ایک بزرگ شعرا موجود تھے۔ وہاں کی محفلوں میں آسانی سے داخلہ ممکن نہیں تھا۔ منوّر رانا نے اپنے ٹرانس پورٹ (Transport) کے کار و بار کے ساتھ مختلف طرح کے پروگراموں کی نظامت شروع کی۔ اِس میں کسی طرح کی تشخیص نہیں تھی۔ آرکیسٹرا کے پروگراموں کی بھی نظامت کرتے تھے۔ بزمِ موسیقی کے لیے بھی وہ تیّار تھے اور چھوٹے بڑے مشاعرے مل جائیں تو یہاں بھی وہ میدان میں اتر آتے تھے۔
۱۹۹۰ء کے آس پاس وہ مشاعروں میں بہ حیثیتِ شاعر آنے لگے۔ اِس دوران اُنھوں نے ہندی اور اردو میں اپنی شاعری کے مجموعے شایع کیے۔ ایک طرف اِس سے لوگوں کو یہ سمجھ میں آنے لگا کہ وہ کار و باری اور تفریحی معاملات سے بڑھ کر سنجیدہ ادبی کد و کاوش کے لیے تیّار ہیں۔ شروع کے زمانے میں شعرا و ادبا کی ایک جماعت اُن کے رنگِ سخن پر والی آسی کے اثرات ظاہر کرتی تھی۔ بعض افراد تو یہ بھی کہتے رہے کہ والی آسی منوّر رانا کو اپنا کلام لکھ کر دے دیتے ہیں۔ اُس زمانے میں مشاعروں پر ملک زادہ منظور احمد کی نظامت اور بشیر بدر کی شاعری کا ایسا ٹھپّہ لگاہوا تھا کہ اِس کے باہر کوئی کچھ دیکھ ہی نہیں سکتا تھا۔ بشیر بدر بھی رفتہ رفتہ ترنّم میں کم اور تحت میں زیادہ کلام پڑھنے لگے۔ بیکل اُتساہی بھی ہوا کا رُخ دیکھتے ہوئے تحت اللّفظ کلام پڑھنے لگے۔ یہی موقع تھا جب منوّر رانا نے اپنے اثرات مشاعروں میں قایم کرنے شروع کیے۔
وہ بھاری بھر کم شخصیت کے حامل تھے۔ لباس کا ایک خاص سلیقہ شروع سے تھا جو بعد میں سیہ پوشگی میں بدل کر قیامت ڈھانے والا ہو گیا۔ مدّت تک طرح طرح کے منچوں پر نظامت کرنے میں اُنھوں نے صرف نظامت کا فن نہیں سیکھا بل کہ تحت اللفظ شعر پڑھنے کا اپنا ایک انداز ایجاد کیا۔ ۱۹۹۰ء کے آس پاس یاد کیجیے تو اردو مشاعروں میں ہند و پاک میں شاید ہی کوئی ایسا مقبول شاعر ہوگا جس کو اپنے اشعار پیش کرنے کا یہ سلیقہ ہو۔ سرسری طور پر اِسے ڈرامے کا ایک انداز کہہ سکتا ہے جسے بعد میں راحت اندوری نے کمال یا زوال تک پہنچا کر چھوڑا۔ منوّر رانا نے اشعار میں تاثیر بھرنے کے لیے پیش کش کا انداز اسٹیج کے کسی شاعر سے مختلف پیدا کیا۔ ہمارے اکثر شعرا بالخصوص ترنّم کے ماہرین غم، خوشی، بغاوت اور محبت کے اشعار ایک ہی انداز سے پیش کرنے کے عادی تھے۔ شعرا سامعین کا امتحان لیتے تھے کہ وہ معنیٰ سمجھیں اور شعر کے مقام کو متعین کریں۔ منوّر رانا نے سامعین پر یہ اِضافی ذمہ داری نہیں رہنے دی۔ آپ اُن کے پڑھنے کے انداز سے سمجھ سکتے ہیں کہ شاعر رو رہا ہے یا خوش ہے یا پورے زمانے سے ناراض ہے۔ پیش کش کے اِس انداز نے منوّر رانا کے لیے مقبولیت کے ایسے دروازے کھولے جہاں سے جب تک وہ مشاعروں میں موجود رہے، واپسی کی گنجایش نہیں پیدا ہوئی۔ وہ اُسی معیار، وقار، اعتماد اور ثابت قدمی سے قایم رہے۔
منوّر رانا نے اپنے لیے جو سرمایۂ الفاظ منتخب کیا، وہ سادہ سے تھے۔ بالکل سامنے کے لفظوں پر اعتماد کیا اور اُنھیں اپنے شعر میں آزمانے کی کوشش کی۔ اپنا گھر اور اپنا گانو اور سب سے بڑھ کر اپنا وطن اِس مرحلے میں نہ جانے کتنی نئی جگہوں سے منوّر رانا نے اپنی شاعری کے لیے موضوعات منتخب کیے۔ نہ فارسی عربی کے الفاظ پر بہت اعتماد کیا اور نہ اساتذہ کی طرح تراکیبِ شعری میں خود کو گُم کرنے کی کوشش کی۔ مشاعروں میں یہ بات بڑے کام کی سمجھی گئی کہ ایک شاعر تو ایسا ہے جو ہمارے نئے پرانے گھروں، گانو اور محلّے کی باتیں کرتا ہے۔ یہ محبت کے دُور کے قصّے اور کتابی باتوں سے پرے جا کر ہمارے دروازے اور کھڑکیوں کی حقیقی شکل پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اِسی مرحلے میں منوّر رانا نے رشتوں کی شاعری کی وہ بنیاد ڈالی جس کی نقل اِس زمانے کا کون ایسا شاعر ہے جس نے نہیں تیّار کی۔ منوّر رانا نے اپنی شاعری کے لیے ماں کا ایک ایسا استعارہ وضع کیا جس کے مرکزی کردار کو ہماری شاعری نے اب تک سمجھا ہی نہیں تھا۔ اِسی استعارے نے منوّر رانا کو اردو عوام سے پرے لے جا کر ہندستان کے ہر گوشے میں پہچان دلائی۔ شاعری کس طرح ہمارے دلوں میں بس جاتی ہے، منوّر رانا کی حیرت انگیز کامیابی میں آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہندی کا شاید ہی کوئی مقبول مشاعرہ اور کوی سمّیلن ہو جس میں منوّر رانا کی موجودگی لازمی نہ سمجھی جاتی ہو۔ منوّر رانا سے پہلے ہماری غزل میں محبوب کا تصوّر تو تھا لیکن بڑی مشکل سے کسی شاعر نے ماں کو وہ مقام عطا کیا تھا۔
منوّر رانا نے مشاعروں میں مقدار کے اعتبار سے زیادہ اشعار سنانے کا بھی ایک سلیقہ آزمایا۔ وہ آخیر تک اپنے حافظے سے ہی شعر پڑھتے رہے۔ الگ الگ غزلوں سے تین، چار اور پانچ اشعار سنانے کا جو سلسلہ شروع کرتے تو سیکڑوں بار ایسا ہوا کہ وہ ایک اور ڈیڑھ گھنٹوں تک شعر پڑھتے جا رہے ہیں۔ اِس دوران اُنھوں نے دو سو اور تین سو شعر سنا دیے، کسی کو اِس بات کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اِسی بیچ اچانک مشاعروں میں منوّر رانا نے ہجرت کے موضوع پر اشعار سنانے شروع کیے۔ ہندستان اور پاکستان کے بٹوارے، ہزاروں خاندانوں کے اِدھر سے اُدھر ہونے کے احوال سب کے گھر آنگن کے تھے۔ یہ دُکھ درد صرف ہندستان کا نہیں تھا، جو پاکستان میں بس گئے تھے، اُن کے دُکھ بھی وہی تھے۔ رفتہ رفتہ منوّر رانا نے اِس سلسلے کے کلام کو اتنا پھیلایا کہ پوری کتاب تیّار ہو گئی۔ گذشتہ بیس برسوں میں یہ لازم ہو گیا تھا کہ مشاعروں میں ہجرت کے موضوع پر منوّررانا چالیس پچاس اشعار ضرور سنائیں۔ یہ سادہ سے اشعار ہماری سانس کی لہروں پر کچھ اِس طرح چلتے تھے کہ رہ رہ کر پڑھنے والا بھی غم انگیز ہو جاتا اور سننے والے بھی اِسی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے۔ ہندستان اور پاکستان دونوں جگہوں پر ’مہاجر نامہ‘ کے اشعار سے مقبولیت کا قطب مینار تیّار کیا۔ آج جو چلتے پھرتے گلی کوچے اور سڑکوں پر اور بازاروں میں یا کالج اسکولوں میں اردو کے زندہ شاعروں کا کلام دریافت کرلیں تو معلوم ہوگا کہ سب سے زیادہ لوگوں کو منوّر رانا کے اشعار یاد ہیں۔
منوّر رانا کی شاعرانہ مقبولیت میں اُن کی دو صلاحیتیں دب گئیں یا لوگوں نے اِس طور پر اُنھیں بعد میں پہچانا ہی نہیں۔ منوّر رانا ہماری زبان کے بہترین نثر نگار تھے۔ اُن کی شاعری پر سادہ بیانی اور اکہرے پن کے آپ الزام عائد کر سکتے ہیں مگر ’سفید جنگلی کبوتر‘ پڑھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ یہ یوں ہی سی ایک کتاب ہے۔ منوّر رانا کی مقبولیت نے اُن کے نثر نگار کو کھو دیا۔ مختصر خاکہ نویسی جس میں قصّہ گوئی کے لیے بھی گنجایشیں ہوں، یہ فن منوّر رانا چاہتے تو کافی آگے تک لے جا سکتے تھے مگر مشاعروں نے اُن کی اِس ادبی ترقی کے راستے کو مسدود کر دیا۔ نظامت کے مواقع اُنھیں اِس دوران بہت کم ملے مگر جب بھی کسی شاعر کو اُنھیں بلانے کا موقع ملا، اُن کے تخلیقی اور ایجاد کردہ بیانیے کا ایک الگ جادو تھا۔ بات چیت اور تقریر میں وہ اُسی طرح سے ترشے ہوئے جملے ادا کرتے تھے۔ مجلسی گفتگو میں بھی منوّر رانا اِس زمانے میں غنیمت آدمی تھے۔ تہذیب اور شائستگی کے ساتھ موقعے کی مناسبت سے وہ مشاعروں میں یا کسی مباحثے میں پوری صاف گوئی کے ساتھ اپنی بات پیش کر سکتے تھے۔ اِس زبان دانی اور لسانی تہذیب آشنائی نے بھی اُن کا سکّہ قایم کیا۔
بہ حیثیتِ شاعر اُن کا مقام و مرتبہ ابھی بعد میں طَے ہوگا۔ بے شک نہ وہ غالب اور اقبال تھے اور نہ محمد تقی میر اور انیس کے ہم پلّہ تھے۔ جدید شعرا میں بشیر بدر، ندا فاضلی اور شہریار کی پہچان بھی اُن کی نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اُن کی مقبولیت اِن سب سے بڑھ کر ہو چکی تھی۔ کیا سیاست دان، کیا فلم اسٹار اور کیا کھلاڑی۔ ہندو اور مسلمان ہر طبقے میں اُن کے اشعار پہنچے۔ اُنھیں اردو سماج کا ترجمان اور نمایندہ بننے کا بھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر موقع نصیب ہوا۔ یہ کتنے شعرا کو نصیب ہوتا ہے۔ منوّر رانا کے منہ موڑ لینے کے بعد اردو مشاعرے کے بیچ ایسی مرکزی شخصیت پتا نہیں ہمیں کب میسّر آئے گی۔ آنے والے وقت میں منوّر رانا کے کلام سے ہم انتخاب کرکے ایسا کچھ ضرور نکال لیں گے کہ وہ ایک قابلِ قدر شاعر کے طور پر ہمارے بیچ ہمیشہ موجود ہوں گے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]
safdarimamquadri@gmail.com
***
صفدر امام قادری کی گذشتہ نگارش :یونانی مفکرین اور بادشاہوں کے حقیقی اور عربی ناموں کا قضیہ

شیئر کیجیے

One thought on “آہ! منوّر رانا: اردو شاعری کی ہم عصر مقبولیت کا استعارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے