دھیمے لہجے کا شاعر شاہد کلیم

دھیمے لہجے کا شاعر شاہد کلیم

 امتیاز احمد دانش
احمد ہاؤس، بخشی نگر گیٹ، کھتاڑی محلہ،آرہ، بہار، ہند
Mb.6204056560

جل گئیں ساری کتابیں مٹ گئے سارے حروف
اب مرا چرچہ نہ میری داستاں کچھ بھی نہیں
بہ قول شاہد کلیم ”شاعری خیالات و محسوسات کو حیات و کائنات کے وسیع تناظر میں پیش کرنے کا خوب صورت ذریعہ ہے۔ اچھی شاعری کی سب سے بڑی خوبی اس کی نغمگی ہے۔ جو سوئے ہوئے احساسات کو طبلے کی پرزور تھاپ پر پیدا نہیں کرتی بلکہ لفظوں کی مدھم صوت و آواز کے ذریعے جگانے کی کوشش کرتی ہے.“ شاہد کلیم کا یہی نظریہ انھیں منفرد اور ممتاز بنا دیتا ہے۔ وہ مزاجی طور پر بھی خاموش طبیعت کے مالک تھے اور خود کو پوشیدہ رکھتے تھے۔ اس سے قبل کہ ان کے شعری سفر پر روشنی ڈالوں ان کی زندگی کا مختصر جائزہ پیش کرتا چلوں۔
شاہد کلیم نے ١٢ / جنوری ١٩٥١ء کو آنکھیں کھولیں۔ ان کا بچپن شہر آرہ کے خطہ دولت پور میں پروان چڑھا۔اس دوران ان کے والد نے دودھ کٹورہ محلے میں نیا مکان تعمیر کر لیا تھا، جہاں وہ اپنے کنبے کے ساتھ منتقل ہو گئے۔ شاہد کلیم کامرس کے طالب علم تھے۔ تجارت و صنعت کی تعلیم اور شعر شاعری کا ذوق بہ ظاہر دو متضاد چیزیں تھیں۔ لیکن یہ تضاد ان کی ذوق شاعری کی راہ میں کبھی حائل نہ رہا۔ کامرس ان کی مادی ضروریات کا ذریعہ بنا جب کہ ادب و شعر ان کے لیے روحانی، قلبی اور ذہنی تسکین کا پیغام لے کر آیا۔ ان کی زندگی جس محلے میں پروان چڑھی اس سے متصل ناظر گنج میں کبھی باقر آروی تلمیذ غالب کی زندگی کا لمبا وقفہ گزرا تھا۔ معروف شاعر سلطان اختر سالوں اسی علاقے میں رہائش پذیر رہے تھے۔ مشہور شاعر و محقق عارف ماہر آروی کے بہ قول کبھی یہ میدانی علاقہ تھا۔ شہنشاہ اورنگ زیب نے آسام جاتے وقت اپنے قافلے کے ساتھ یہاں قیام کیا تھا۔ اسی دوران رمضان کا آغاز ہو گیا۔ ان کے قافلوں کا نصف حصہ رمضان بھر یہاں رکا رہا۔ اس جگہ کو سرائے کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ اور جس جگہ عید منائی گئی اور مٹی کی پیالی میں سیوئیاں پروسی گئیں اسے دودھ کٹورہ کے لقب سے نوازا گیا۔ ایک زمانے میں اس علاقے میں تاڑ کے بگان تھے۔ تاڑ کے ان درختوں کے سایے میں یہاں کے شعراے کرام بیساکھ کا لطف لے لے کر قصیدے گڑھتے تھے۔ لیکن بدلتے نظام کے تحت اب سب کچھ بدل چکا ہے اور یہ علاقہ اب گلیاروں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بہ قول شاہد کلیم:
میں سنا سکتا ہوں لیکن اب دکھا سکتا نہیں
نقش ماضی مٹ گئے تمثیل باقی رہ گئی
شاہد کلیم کے خاندان میں کوئی شاعر نہیں تھا، لیکن انھوں نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں، اس کی فضا میں شاعری موجود تھی، جس نے شاہد کلیم کے اندر موجود شاعرکے لیے فضا سازی کا کام کیا۔ مکان آبادی کے آخری سرے پر تھا، جس کے سامنے پانی کا جلہ اور وہاں سے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ شاہد کلیم کی دھیمی آواز شعری پیرایے میں ڈھل کر رفتہ رفتہ فضاؤں میں پرواز کرنے لگی۔ان کے منفرد لب و لہجہ اور جدید کاری نے دنیاے شعر و ادب کو اپنی جانب متوجہ کیا اور ان کا شمار جدید شاعروں کی صفحہ اول میں کیا جانے لگا۔ ان کی تصنیفات میں پانچ کتابیں شامل ہیں۔ تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب ”محرک“ میں آٹھ مختلف عنوانات سے مضامین شامل ہیں۔ مثلاً: جدید شعری جمالیات، شاعری میں مصوری، نئی نظم کاری، شاعری میں وجدان اور جذبہ کا عمل، نئی شاعری اور عناصر حیات، سارترؔ اور اردو ادب جدید ادب، افسانے میں علامت اور تجرید کا مسئلہ اور شیشہ سے تیشہ تک۔ چار کتابیں شاعری کی دو صنف نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہیں۔ مثلاً: زیر بار، پھول جب کھلتے ہیں، موسم موسم روپ۔ ان کے اندر کی مدھم آواز اس وقت ہماری سماعتوں تک پہنچی جب وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوچکے تھے۔ ان کا شعری مجموعہ ”اندر کی آواز“ عالم خورشید کی ادارت میں ٢٠٠٩ء میں منظر عام پر آیا۔ مذکورہ کتابوں میں شامل دو سوچالیس غزلوں اور تقریباً ایک سو اسی نظموں کے خالق شاہد کلیم کے شعری سفر کا آغاز علیم اللہ حالی کے زیر سایہ ہوا تھا۔  لہٰذا انھوں نے اپنا پہلا شعری مجموعہ ”زیر بار“ اپنے استاذی مکرم کے نام انتساب کر حق شاگردی ادا کرنے کی کوشش کی۔
شاعری سماج سے ناطہ توڑ کر پیدا نہیں ہو سکتی، ہر اعلا ادب انسانیت کے درد کی بنیاد پر لکھا جاتا ہے۔ انسان کے آس پاس بے شمار موضوعات ہیں جو پہلے سے زیادہ سنگین ہیں۔ غربت، فاقہ کشی، جہالت، سماجی استحصال، اقلیتوں کے مسائل، فرقہ پرستی اور سماج کو مختلف خانوں میں تقسیم کرنے کی کوشش۔ ایک اچھا شاعر وہی ہو سکتا ہے جس کے اندر یہ تین خصوصیات موجود ہوں۔ قوت حاسہ، قوت متخیلہ، قوت تذہیب۔ اس کے نزدیک جو بھی واقعات رونما ہوں گے اس کا اثر ہونا لازمی ہے۔ شاہد کلیم کے نزدیک خوب صورت مناظر سے لطف اندوز ہونا اور پھر ان کو احساس کی سطح پر شاعری میں پیش کرنا ان کے مزاج کا اہم حصہ رہا ہے۔ گلاب رت، پھول، آبشار، وادیاں، جھیل، جھرنے، پہاڑ، بادلوں کے درمیان پھیلا ہوا کہسار، نیلگو آکاش اور چودھویں شب کی چاندنی۔۔۔۔ یہ تمام مظاہر ان کی فطرت پر ڈوبتے ابھرتے رہے ہیں۔ اپنے مکان کے نزدیک پانی کے نظاروں کو دیکھ کر ممکن ہے کہ ان کے ذہن میں مختلف سوالات ابھرتے ہوں گے۔ کس خوب صورتی سے انھوں نے ان نظاروں کو شعری جامہ پہنایا ہے:
تماشا کچھ دکھاتا ہے ہمیں اس تھیر پانی پر
چلیں گے ڈال کے ہم پاؤں میں زنجیر پانی پر
یہ لہریں کٹ کے پھر اک دوسرے سے مل ہی جائیں گی
چلا کے کیا ملے گا آپ کو شمشیر پانی پر
لہو پہ آدمی کی گفتگو سنتا رہا ہوں میں
سر محفل ذرا اب کیجئے تقریر پانی پر
نہیں میں ہی نہیں پاگل جنونی تو بھی ہے شاید
تری تحریر بالو پر مری تحریر پانی پر
مذکورہ اشعار میں خصوصاً بالو اور پانی کے حوالے سے انھوں نے بڑی بات کہہ ڈالی ہے۔ چند اشعار اور دیکھیں:
تمہارے دور میں ہر آدمی ہے بت کی طرح
ہمارے عہد میں پتھر بھی بے زبان نہ تھا
میں سبز رنگ کا چشمہ پہن چکا تھا کلیم ؔ
مری نگاہ میں منظر لہو لہان نہ تھا
ہمارے یہاں یہ مثل عام ہے کہ ”ساون کے اندھے کو ہر چیز ہری نظر آتی ہے “ اس مثل کے تناظر میں سبز رنگ کے چشمے کو استعارے کے طور پر استعمال کر انسان کی بے حسی پر یہ عمدہ شعر شاید وہی شاعر کہہ سکتا ہے جو ایسی فضا میں جی رہا ہو۔ حواس خمسہ کو ملحوظ خاطر رکھ کر قدرتی مناظر کو شعری جامہ پہنا کر اس میں معنوی تہہ داری پیدا کرنے کا ہنر شاہد کلیم کی شاعری میں بہ خوبی دیکھا جا سکتا ہے مثلاً:
کوئی چہرہ صاف نہیں ہلکورے میں
سطح آب پہ سب کا پیکر الٹا ہے
کاغذ کی ناؤ بھی کوئی اس میں نہ کھے سکے
آنکھوں میں ہم اداس سمندر لئے پھرے
صحرا کے راستے پہ سفر کر رہا ہوں میں
جب پیڑ ہی نہیں ہے تو سائے کی آس کیا
تنکا تنکا لے گئی آخر میرے گھر کا اپنے ساتھ
آندھی کے آگے کیا چلتا بوڑھی دیواروں کا زور
چڑیوں کے جیسا ہی جینا سیکھ لیا ہے ہم نے بھی
آنے والے کل کے لئے سامان کہاں رکھتے ہیں ہم
میں ناؤ کھے رہا ہوں سمندر میں شوق سے
ایسا نہیں کہ کوئی کنارہ کہیں نہیں
میں اپنے فصل کا کوئی ثبوت دوں کیسے
وہ ریت بھی تو نہیں جو گواہ پہلے تھی
سلگتی آگ سے رشتہ ہمارا ختم کیا ہوگا
تہوں میں خاک جاں کے کچھ شرارے ملتے رہتے ہیں
بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں جدیدت کا رحجان شعری ادب کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ اس رحجان کے زیر اثر اظہار کا نیا انداز جو جدت آمیز بھی تھا اور روایت سے قدرے منحرف بھی، تاہم یہ انحراف کسی منفی رویے یا باغیانہ رحجان کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس انحراف نے فکر و اسلوب کی نئی وسعتوں سے میلانات کے مختلف پہلو مثلاً تنہائی، کرب، گھٹن، بے یقینی، خوف تشکیک، عدم تحفظ، محرومی اور انتشار وغیرہ وضع کیے اور داخلی علامتوں کو جنم دیا۔ ترقی پسند تحریک کے بعد جدیدیت کا رحجان بدلے ہوئے حالات کا ہی نتیجہ تھا۔ ایک اچھا فن کار وقت کے ساتھ چلتا ہے۔شاہد کلیم نے بھی وقت کے ساتھ چلنے کی کوشش کی اور ان تبدیلیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ انھوں نے غزلیں اور نظمیں بڑے سلیقے سے کہی ہیں، کہیں گھن گرج سنائی نہیں پڑتی۔ نظم کے متعلق شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں: ”شاہد کلیم کی نظم اپنے اختصار اور ارتکاز کے باعث اور بالواسطہ اسلوب کی بنا پر جدید شاعری میں ممتاز ہے۔ شاہد کلیم زمانے اور دنیا کے مشاہد ہیں۔ حساس مشاہد، لیکن وہ اپنی بات کسی غصے، رنج یا نفرت کے بغیر ٹھنڈے اور پر وقار لہجے میں کہتے ہیں۔صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ سوچتے بہت ہیں۔ تجربات و محسوسات کو اپنے اندر جذب ہونے دیتے ہیں، پھر آہستہ آہستہ بظاہر لاتعلقی کے لہجے میں کسی اور بات کے حوالے سے، معاصر دنیا کے بارے میں اپنے محسوسات پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے مختصر نظم کے صحرا میں بڑی حد تک ایک نئی راہ نکالی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ شاہد کلیم کی نظمیں ہر طبقے اور مختلف نقطۂ نظر کے پڑھنے والوں کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ ان کی جامیعت کی دلیل ہے.“
دوسری جانب مظہر امام لکھتے ہیں : ”شاہد کلیم اپنے آنگن میں کوئی نہ کوئی پیڑ اگاتے رہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تاکہ آتے جاتے موسموں کا پتہ ملتا رہے۔ ان کے احساس زوال میں ان کی شخصیت میں لازوال ہونے کا ولولہ شامل ہے۔ وہ بجھ کر بھی روشنی دینے کا ہنر جانتے ہیں.“
شاہد کلیم نے اپنی نظم کے مجموعے کا اہلیہ کے نام انتساب کیا ہے۔ جو گذشتہ سال وفات پا گئیں:
میری شریک حیات
تو نے، سلگتے لمحوں کے درمیان
مجھ کو سبز پیڑوں کی
چھاؤں بخشی
مگر سکوں کی
گریز پا ساعتو ں سے ہٹ کر
ترے تعلق کی شعلگی میں
جو کو ہ ایام کاٹنے کا
عذاب گزرا
ترے سوا اس متاع ہستی کا
اور حقدار کون ہوگا؟
اسے تری نذر کر رہا ہوں
٭٭٭
ایک دوسری نظم بہ عنوان ”آرزو‘‘
ایک شجر کے سارے پھول
کچھ مندر میں
کچھ تربت پر
کچھ جوڑے میں
کچھ بستر پر
ہر محفل میں سب یکساں مقبول
کاش کہ میں ہو جاتا پھول
٭٭٭
ایک اور نظم بہ عنوان ”گلدان“
ہو بہو
ایسا ہی اک گلدان
میرے گھر میں تھا
میں نے تحفے میں مگر
اس آدمی کو دے دیا
جس سے اب
میرا کوئی رشتہ نہیں ہے
اس سے قبل کہ شاہد کلیم کی شاعری کے متعلق میں کچھ کہوں۔ ان کی تحریر ان کی شاعری کی خود ضامن ہے۔ اور ہم نئی نسل کو شاعری کے گر سکھانے کے مترادف ہے۔ مثلاً اپنی نظم کے مجموعہ ”موسم موسم روپ“ میں لکھتے ہیں کہ ”ہر ادب اپنے دور، اپنے حالات کی پیداوار ہے۔ میری شاعری میں بھی کم و بیش نئے مشینی عہد کا رنگ روپ اور بدلتے ہوئے حالات اور وقت دیکھا جا سکتا ہے۔ تنہائی، کرب، گھٹن، خوف، انتشار، عدم تحفظ، قدروں کی پائمالی اور بے چہرگی کا احساس آج حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ زندگی چمکتے ہوئے شہر کی فضا اور ہماہمی سے گھبرا کر سکون اور اطمینان کی تلاش میں اندھیرے جنگل کی طرف بھاگتی ہے مگر جنگل کے گہرے سکوت اور دبیز تاریکی میں اپنا اصلی رنگ کھو دیتی ہے۔ میری شاعری میں اس کھوئی ہوئی بے چہرہ زندگی کی تلاش کی بہت روشن نہ سہی ملگجی تصویر ضرور دیکھی جا سکتی ہے.“
وہ گفتگو کے دوران شاعری کے متعلق ایسی سبق آموز باتیں اکثر کہہ جاتے تھے، جو آج بھی ذہن نشیں ہیں۔ وہ کسٹم محکمے میں انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ شوگر کے مریض تھے، ایک وقت آیا جب ان کے دونوں گردوں نے کام کرنا بند کر دیا۔ کچھ دنوں تک بستر مرگ پر رہے اور دوران ملازمت ١٣ / اپریل ٢٠٠٦ء کو ہم سے جدا ہو گئے اور اپنے پیچھے پھلا پھولا پریوار چھوڑ گئے۔
میں کھو گیا ہوں اندھیرے کے جنگلوں میں کلیم ؔ
مرے وجود کا پرتو سیاہ رنگ میں ہے
٭٭٭
صاحب مقالہ کی گذشتہ نگارش : عہد غالب میں شہر آرہ کا ادبی و شعری منظر نامہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے