لوڈ شیڈنگ

لوڈ شیڈنگ

تقدیس نقوی
متحدہ عرب امارات
رابطہ: 00971506590427

لوڈ شیڈنگ اک ایسی ابتلا ہے جس پر صبر کرنے کا اجر اسی دنیا میں بجلی کے بل کی صورت میں فوری مل جاتا ہے۔ عموماً بجلی کا بل ملنے پر صارف کو جو کرنٹ لگتا ہے وہ لوڈ شیڈنگ کے باعث بجلی نہ ملنے کی کسر پوری کردیتا ہے۔ آج کل عوام کو دل کا دورہ پڑنے سے زیادہ بل کا دورہ پڑنے کے واقعات سننے میں آرہے ہیں۔ "لوڈ شیڈنگ" اب "لوگ شیڈنگ" بنتی جارہی ہے۔
ستم درستم یہ کہ اکثر صارفین بجلی کے بل کی رقم کے اعداد کو میٹر ریڈنگ سمجھ لیتے ہیں۔ اور جب وہ اس کی تصحیح کرانے کی غرض سے بجلی کے دفتر پہنچتے ہیں تو وہاں ایرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھے کسی افسر سے شکایت کرنے کے بجائے اس کی اور اس کی فیملی کی خیر و عافیت پوچھنا زیادہ مفید سمجھتے ہیں تاکہ وہ چند لمحے ہی سہی ٹھنڈی ہوا سے مستفیض ہوسکیں جس کے لیے وہ لوڈ شیڈنگ کے باعث ترستے رہے ہیں۔ ان کو بجلی کے اس ایرکنڈیشن دفتر میں اک کاونٹر سے دوسرے کاونٹر کے چکر لگانا ذرا سا بھی ناگوار نہیں گزرتا۔ کچھ پل ہی سہی اچھا وقت گزارنا کسے برا لگتا ہے۔
اپنے ایرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھنے کا جواز دیتے ہوئے وہ افسر اکثر کہتے سنے گئے ہیں کہ اگر وہ اس طرح ایرکنڈیشنڈ کمرے میں نہیں بیٹھیں گے تو عوام کی شکایات بھلا کون سنے گا۔ انسانی ہمدردی سے لبریز ان کلمات کو سن کر متاثرین کے جسم پسینے سے تر بہ تر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی آنکھیں بھی نم ہوجاتی ہیں۔
لوڈ شیڈنگ کے فوائد شمارکرنا محکمہ بجلی کے بھی بس کی بات نہیں۔ بجلی کی بچت اور تحفظ نظام بجلی تو ایسے فوائد ہیں جن کی تفصیل اور اعداد و شمار محکمہ بجلی کا کوئی ادنی سا ملازم بھی مہیا کراسکتا ہے۔ مگر لوڈ شیڈنگ کے وہ فوائد جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے وہ تو صرف لوڈ شیڈنگ کے متاثرین ہی بتا سکتے ہیں۔
سب سے پہلا فائدہ تو یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان کو اس زندگی میں کیے گئے اس کے گناہوں کی پاداش میں روز محشر جس جہنم میں جلائے جانے کا خوف دلایا جاتا ہے وہ لوڈ شیڈنگ کے مرہون منت اس کی آگ کی شدت کا اسی زندگی میں ہی گھر بیٹھے بذات خود مشاہدہ کرلیتا ہے۔ اس کے لیے موت آنا شرط نہیں۔ داروغہ جہنم گھر میں بیوی کی شکل میں پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے جو لوڈ شیڈنگ سے بھڑکائی ہوئی جہنم میں اپنی جلی کٹی باتوں اور طعنوں سے مسلسل ایندھن فراہم کرتی رہتی ہے۔ بھلے ہی لوڈشیڈنگ کے سبب گھر کے بجلی کے تاروں میں کرنٹ نہ دوڑ رہا ہو مگر شوہر بچارے کو 440 وولٹ کے پورے کرنٹ پھر بھی لگ رہے ہوتے ہیں۔
لوڈ شیڈنگ کی اذیت و تشدد کی موجودگی میں اب کسی خطیب اور واعظ کو جہنم سے ڈرانے کے لیے اس کی خیالی منظر کشی کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اول تو حالت لوڈ شیڈنگ میں کسی خطیب یا واعظ کا عوام کے سامنے جہنم کی آگ اور اس میں جلائے جانے سے متعلق تفصیل پر کوئی وعظ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی موسلا دھار بارش کے دوران کسی کو یہ سمجھانے بیٹھ جائے کہ آسمان سے پانی کیسے برستا ہے۔ موسم گرما کے دوران ہونے والی مسلسل لوڈ شیڈنگ کے عذاب کو جھیلنے کے بعد تو خود اکثر واعظین کا آخرت میں بھڑکائی جانے والی جہنم پر ایمان متزلزل ہوتے دیکھا گیا ہے اور وہ بھی عام متاثرین لوڈ شیڈنگ کی طرح اس بات پر یقین کرنے لگتے ہیں کہ انسان کو اس کی بداعمالیوں و گناہوں کی سزا اسی دنیا میں ہی لوڈ شیڈنگ کی صورت میں دے دی جاتی ہے۔ روز محشر والی جہنم کی تنبیہ تو صرف دنیا میں ایرکنڈیشن زدہ لوگوں اور محکمہ بجلی کے عملہ اور ذمہ داران کے لیے کی جاتی ہے۔
یوں بھی آخرت میں گناہ گاروں کے لیے تیار کی جانے والی جہنم کا لوڈ شیڈنگ کے ان دیکھے شعلوں سے بھڑکنے والی جہنم کا بھلا کیا تقابل؟
آخرت کی جہنم میں کسی بندہ کو بھیجنے سے پہلے حساب و کتاب کے مرحلہ سے گزارا جائے گا اور اسے اس کا اعمال نامہ بھی دکھایا جائے گا تاکہ وہ خود یہ دیکھ سکے کہ اسے کن گناہوں کی پاداش میں جہنم رسید کیا جارہا ہے۔ اگر کسی طرح توبہ قبول ہوگئی تو اس جہنم سے نجات ملنے کی بھی امید کی جا سکتی ہے۔ مگر لوڈ شیڈنگ کی جہنم کی سزا نازل کیے جانے سے پہلے نہ کوئی مہلت دی جاتی ہے اور نہ ہی ان گناہوں کی نشان دہی کرائی جاتی ہے جن کی پاداش میں اس جہنم میں اس بے گناہ کو دھکیلا جاتا ہے۔ اس کا انحصار متاثرین کے اعمال کے بجائے محکمہ بجلی کی بد اعمالیوں پر ہوتا ہے۔ یہاں توبہ و استغفار بھی لوڈ شیڈنگ کی جہنم کی آگ کی شدت کم نہیں کراسکتے۔ یہاں تو پارسا اور گناہ گار سب ہی یکساں طور سے ایک ہی سزا بھگتے نظر آتے ہیں۔
لوڈ شیڈنگ کا دوسرا فائدہ یہ مانا جاتا ہے کہ جو عوام لوڈ شیڈنگ کی آگ میں اپنی ساری زندگی میں قبل از موت ہی جل جل کر خاک ہوچکے ہوتے ہیں وہ محشر میں حساب کتاب کے بغیر سیدھے جنت میں بھیج دیے جائیں گے کیونکہ کردہ یا ناکردہ گناہوں کی سزا دوبار دی جانا عدل کے خلاف ہوگا۔
کیا معلوم قبر میں لوڈ شیڈنگ کے متاثر کی حالت زار دیکھ کر منکر نکیرین سوالات کرنے کے بحائے اس کو اپنے ہاتھ سے پنکھا جھلتے نظر آئیں۔ کچھ بعید نہیں کہ دونوں فرشتے لوڈ شیڈنگ کے مارے اس مصیبت زدہ کے ترکے میں چھوڑے گئے بجلی کے بل کی ادائیگی بھی خود ہی کرادیں تاکہ اس کا بقیہ ترکہ قرق ہونے سے بچ جائے۔ اب یہ تو روز محشر ہی معلوم ہوگا کہ فرشتے محکمہ بجلی کے اہل کاروں سے بجلی کے ان بلوں کی وصولیابی کس طرح کریں گے۔ دنیا کی عدالتیں، پولیس اور انتظامیہ تو ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ اس دنیا میں تو آج تک کوئی ان کا بال بیکا بھی نہیں کرسکا ہے۔ یہ اک واحد محکمہ ہے جہاں حکومت وقت کا بھی قانون اور حکم نہیں چلتا۔
لوڈ شیڈنگ کے اثرات کا اک مالی فائدہ بھی یہ بتایا جاتا ہے کہ غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ مہمان داری کے اخراجات سے نہایت خندہ پیشانی اور عزت کے ساتھ بچ جاتے ہیں جو بعد میں بجلی کے بل کی ادائیگی میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ ہی اک ایسا مدلل اور قابل قبول جواز مانا جاتا ہے جس کی موجودگی میں بڑا سا بڑا ڈھیٹ اور عادی مہمان بھی کسی کے یہاں آدھمکنے سے پرہیز کرتا بلکہ خوف زدہ نظرآتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے عذاب کے جیتے جاگتے مناظر کے مشاہدے سے مہمان تو مہمان کوئی چور بھی کسی لوڈشیڈنگ زدہ علاقہ میں شب خون مارنے کی ہمت نہیں کرتا۔ لوڈ شیڈنگ کے دوران مہمان اور چور کی حیثیت یکساں مانی جاتی ہے۔ دونوں کو نامراد واپس جانا پڑتا ہے۔
ایسی صورت حال میں صرف شہر کی پولیس اور انتظامیہ ہی چین کی نیند سوتی رہتی ہے کیونکہ شہر کے سارے باشندے خود ہی ساری شب اپنے گھروں کی چوکیداری کرتے پائے جاتے ہیں۔
سنا ہے کہ شہر کے سارے چور اچکے لوڈ شیڈنگ کے سبب اپنے ذریعہ معاش کے اس طرح مفقود ہوجانے کے نتیجے میں اپنے مالی نقصان کا معاوضہ محکمہ بجلی کے عملہ سے بجلی کے تار میں کانٹا ڈال کر مفت بجلی حاصل کرکے کرتے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے عصرحاضر میں بجلی کے تاروں میں کانٹا ڈالنا شرعی طور سے جائز قرار دے دیا گیا ہو ورنہ ملاوں کے گھروں سے تاروں پر کانٹا ڈالے جانے کے واقعات سننے میں نہ آتے۔ ایک مولوی صاحب نے اس کا یہ جواز بھی پیش کیا کہ وہ دراصل یہ کام محکمہ بجلی کی زیادتی اور ناانصافی کے خلاف احتجاج کے طور پر کرتے ہیں اور ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنا ہر شریف شہری کا بنیادی حق ہے۔ یوں بھی لوڈ شیڈنگ کے سبب بجلی آتی ہی کہاں ہے۔ اب ان کی پیروی میں پوری بستی اسی طرِیقہ سے روزانہ احتجاج کرتی رہتی ہے۔
کچھ انصاف کے متلاشی تاجروں کا ماننا ہے کہ جس طرح محکمہ بجلی لوڈشیڈنگ کے ذریعہ ان کے لاکھوں روپے کا نقصان کرنے کا ذمہ دار ہے اس کے مقابل ان کا بجلی کے تاروں میں کانٹا ڈال کر تھوڑی بہت مفت بجلی لے لینا کانٹے پر اوس کے برابر بھی نہیں۔ دیکھا جائے وہ اسی طرح اپنے ہی لوٹے ہوئے پیسے واپس لینے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح اک چور نے کی تھی۔ اس چور نے اک کار کو روک کر اس میں بیٹھے شخص کی کنپٹی پر پستول رکھ کرکہا:
"اپنے سارے پیسے میرے حوالے کردو۔"
وہ شخص کہنے لگا : "تم مجھے جانتے نہیں ہو میں محمکہ بجلی کا جنرل منیجر ہوں۔"
چور نے پستول لہراتے ہوئے ڈپٹ کرکہا:
” پھر تو تم میرے پیسے میرے حوالے کرو"
لوڈشیڈنگ کے سبب شہر کی کم و بیش سب ہی تجارتیں ٹھپ ہوجاتی ہیں سوائے ایک تجارت کے اور وہ ہے موم بتی کی تجارت۔ یہ اک ایسی تجارت ہے جو لوڈ شیڈنگ کے طفیل ہی پھلتی پھولتی ہے۔ ساری رات بغیر بجلی کے گزارنے کے بعد علی الصبح سب لوگ موم بتیوں کا ذخیرہ کرنے کے لیے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ جتنا اسٹاک بازار میں ہوتا ہے وہ چشم زدن میں ختم ہو جاتا ہے۔
دوران لوڈ شیڈنگ موم بتیوں کی شارٹج کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری کالونی کے باہر نکڑ پر موجود چراغ شاہ کے مزار کے احاطے میں اب جمعرات کو بھی کوئی موم بتی جلانے نہیں آتا۔
کیونکہ جب زندوں کی زندگی کو روشن رکھنے لیے موم بتیاں کافی نہیں ہوتیں تو بھلا مردوں کے لیے کیوں فضول خرچی کی جائے۔ ان کو تو یوں بھی اندھیرے سے ڈر نہیں لگتا. وہ تو لوڈشیڈنگ نہ ہونے پر بھی اندھیرے میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ کچھ عقیدت مندوں کو مزار مبارک سے ادھ جلی اور صحیح و سالم موم بتیاں سمیٹتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے، جس سے وہ اپنے اور دوسروں کے گھر روشن کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے قرب میں مزار کی اک برکت یہ بھی مانی جاتی ہے کہ وقت ضرورت بازار میں موم بتیاں نہ ملنے کی صورت میں مزار کے مجاور کو چڑھاوا دے کر موم بتیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مجاور مزار پر نور قلب سے کام چلا لیتا ہے۔
لوڈ شیڈنگ کا اک فائدہ یہ بھی مشاہدہ میں آیا کہ بجلی کے غائب رہنے سے لوگ اپنے موبائیل زیادہ دیر تک چارج نہیں رکھ سکتے جس کے سبب وہ مجبوراً اپنے اہل خانہ سے کچھ بات چیت کرنے کی فرصت نکال سکتے ہیں۔ ہم نے اپنے پڑوسی بجلانی صاحب کے بچوں کو صرف اور صرف لوڈ شیڈنگ کے دوران ہی آپس میں ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ لوڈ شیڈنگ کے چمتکار سے ہی ممکن ہوسکا۔
کچھ ماہر سماجیات کا خیال ہے کہ عصر حاضر میں نئی نسل کے مختصر ترین لباسوں اور بے لباسی کے روز افزوں فیشن کا محرک بھی مسلسل لوڈ شیڈنگ ہی کو قراردیا جاسکتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے دوران گریباں چاک کرنا لوگوں کی صرف فیشن ہی نہیں مجبوری بھی ہوتی ہے۔
یوں بھی شائستہ اور وضع دار حضرات کو بھی لوڈ شیڈنگ کے باٰعث اپنے لباس کو استری کرنے کا کہاں موقع مل پاتا ہے جس کے سبب وہ ہفتوں اک ہی لباس پر گذارا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے کئی ہفتوں مسلسل جاری رہنے کے باعث یہ صورت حال کئی بار بڑی قابل رحم ہوجاتی ہے۔
گذشستہ ہفتے ہماری کالونی کے غیور میاں جب استری نہ ہونے کی وجہ سے جھریوں بھرے ایک ہی لباس کو کئی دن پہننے کے بعد آفس جانے کے لئے نکلے تو کالونی والوں نے اپنی ناک پرہاتھ رکھ لئے۔ مجبوراً انھیں وقت کی تنگی اور بحلی نہ ہونے کے سبب عجلت میں قمیض کی جگہ بنیان کے اوپر اپنے بڑے بھائی کی شادی کی شیروانی پہن کر آفس جانا پڑا۔ یہ بات دیگر ہے کہ آفس والے شیروانی میں ملبوس دیکھ کر انھیں ان کی متوقع منگنی کی مبارکباد دینے لگے تھے۔
اندرون خانہ گرمی اور اندھیرے سے گھبرا کر گھر کے باہر چبوتروں اور چوکوں پر غیر رسمی سماجی اجتماعات اور دیسی چوپالوں کی ترویج اور توسیع کا ذمہ دار بھی اسی بدنام زمانہ لوڈ شیڈنگ کو مانا جاتا ہے۔
اکثر کالولینز اور محلوں میں یہ عام مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جوں ہی بجلی کے تار ٹھنڈے ہوتے ہیں لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کر کھلی فضا میں چوکڑی جماکر گرما گرم مباحث میں رات رات بھر اپنا وقت گزارتے ہیں۔
مردوں اورخواتین کی الگ الگ ٹولیاں بن جاتی ہیں جن میں ساس بہو کے قضیوں سے لے کر عالمی سیاست تک تفصیلی گفتگو ہوتی ہے۔
مردوں کی ٹولی میں ان مذاکرات کی ابتدا عموماً محکمہ بجلی کے ذمہ داران اور اہل کاروں کی ماں، بہن، بیٹیوں کے ان دیکھے اجسام کی پیمائش اور ان کے ساتھ زبانی پیچیدہ رشتے جوڑنے سے کی جاتی ہے۔ ان روح افزا تمہیدی کلمات سے گرمی سے بھبھکتے دلوں کو کچھ ٹھنڈک مل جانے کے بعد دیگر سماجی اور سیاسی مسائل کا حل ڈھونڈتے ڈھونڈتے اکثر مرغ سحر کی آواز سنائی دینے لگتی ہے جو لوڈ شیڈنگ کے باوجود بھی اپنے وقت مقررہ پر بانگ دینا نہیں چوکتا۔ مرغ سحر ہی اک واحد آلہ ندا ہے جو بغیر بجلی کے کام کرتا ہے۔
خواتین کی ٹولیوں میں بھی گفتگو کے آغاز میں محکمہ بجلی کے اہل کاروں کو ایسے القاب سے نوازا جاتا ہے جنھیں عرف عام میں کوسنے کہا جاتا ہے۔ جن کو سننے کے بعد سارے مرد و زن کا ہاضمہ درست ہو جاتا ہے۔ اس کوسنہ تھریپی کے بعد لوگ کافی ہشاش بشاش نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد خواتین کو رات گزارنے کے لیے کسی باقاعدہ موضوع کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
کالونی کے باہر ان جگر سوختہ حضرات کو مصروف مذاکرات دیکھ کر ارد گرد کے خوانچے اور ٹھیلے والے بھی بغیر بلائے وہاں پہنچ کر اپنے ٹھئیے لگا لیتے ہیں اور ساری رات وہاں میلہ کا سا سماں بندھا رہتا ہے۔ چمپی مالش والے بھی ان گھر سے بے گھر ہوئے پریشاں حال بنجاروں کو اپنی خدمات بہم پہنچا کرثواب دارین حاصل کرتے نظر آتے ہیں۔
محلوں کے باہر چوکوں اور نکڑوں پر لوڈشیڈنگ کے ماروں کی اس شب بیداری سے اگر کوئی بری طرح متاثر ہوتا ہے تو وہ ہیں محلے کے آوارہ کتے۔ یہ کتےعموماً ساری رات ان چوکوں اور چوراہوں پر قبضہ جمائے رہتے ہیں۔ مگر لوڈشیڈنگ کے دوران محلے کے لوگ ان کتوں کی جگہ لے لیتے ہیں اوران کے جلسوں کے باعث ان آوارہ کتوں کو مزید آوارہ ہونا پڑتا ہے۔ محلے والوں کی اس بھیڑ میں ہورہی چیخ و پکار کے جواب میں کتوں کے اور زیادہ بھوکنے سے وہاں اک بیت بازی کا سا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ دور سڑک پر گزرنے والوں کے لیے یہ آوازیں سن کر یہ طے کرنا بہت مشکل ہوتا کہ وہاں کتے بھونک رہے ہیں یا محلے والے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:کتاب: کوتاہیاں (انشائیوں کا مجموعہ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے