تنقید و تقلید

تنقید و تقلید

محمد شاہد محمود
( مصنف | ناقد | ایڈیٹر )

نظریات تھوپے نہیں جا سکتے۔ نظریات پیش کیے جا سکتے ہیں۔ لغو کے تقابل میں کافکا بہ طور دلیل پیش کیا جاتا ہے یہ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے۔ کافکا کا لکھا سمجھ سے بالاتر نہیں ہے۔ کافکا اگر لال بیگ کے پیٹ میں وقت گزارتا ہے، کہانی تب بھی سمجھ آتی ہے۔ فی زمانہ منتشر خیالی کو آرٹ کا درجہ دے کر کافکا کے تقابل میں پیش کرنا، پھر تنقید نگاروں کا تخلیق کار کو ایسی ایسی تفہیمات پیش کرنا کہ تخلیق کار بذات خود انگشت بہ دنداں رہ جاتا ہے کہ "ہیں ؟ اچھا ؟ میں نے یہ لکھا ہے؟" اسے اردو ادب میں افسانہ نگاری کی معراج سمجھا جا رہا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ ایسے افسانے پر اگر ۲۰ تفصیلی تفہیمات پیش کی جائیں اور ۲۰ کی ۲۰ ایک دوسرے سے یکسر مختلف نظر آئیں، تخلیق کار سبھی سے ۱۰۰ فیصد متفق نظر آتا ہے۔ یہ متانت کے نام پر نو خیز قارئین کے ناپختہ اذہان میں لغویات کو معتبر بنانے کا گھناؤنا فعل ہے۔ نئے قارئین کو لغو افسانہ نگاری پر بہ طور نمونہ کسی شہرہ آفاق تخلیق کار کا حوالہ دے کر ورغلایا جائے تب نوخیز قارئین کو چاہیے کہ بحوالہ مصنف مرتب کردہ ادب ضرور پڑھیں۔ بلکہ ہمراہ اس کے مذکورہ مصنف کی سوانح حیات بھی لازم مطالعہ میں لائیں۔ ادب کا مترجم ہونا بھی باقاعدہ تخلیق کار ہونے کے مترادف ہے۔ کسی بھی زبان میں رائج الفاظ کے لغوی معنی اور اصطلاحی مفہوم کا رمزداں و دور رس ترجمہ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ کھانا پینا سانس لینا جیسے عوامل ہر زبان میں یکساں ہوں گے۔ لیکن اگر کافکا بہ طور دلیل لغو ادب کے تقابل میں پیش کیا جائے تو اسے صحیح یا غلط کیسے سمجھا جائے؟ کسی بھی افسانہ نگار کا افسانہ معانی کے اعتبار سے ہی مکتفی بالذات نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس کا جائزہ بالواسطہ لیا جانا ممکن نہیں ہے۔ محض ماضی کی بازگشت میں کسی معروف ادیب کا نام حالیہ تقابل میں لینا، ادبی مذاق بے جان کر دیتا ہے۔ ایک افسانہ نگار کا ارتقا ذات کی بلیاں دینے اور اس کی شخصیتی تج میں نہاں ملتا ہے۔ ٹمبکٹو میں بیٹھے لکھ کر کافکا سے موازنہ کرنے والے مافوق فطرت عناصر ہی ہو سکتے ہیں۔ منٹو کی درگت بنانا تو خیر تقریباً سبھی ایسوں پر واجب ہے۔ تنقیدی علمی حصول، سماجی تقریبات میں مباحثے کی شکل میں پروپیگنڈا کی بھاری بھرکم صورت محض جذبات کی ترجمانی ہو سکتا ہے نہ کہ فن، بلکہ گونا گوں جذبات و مفادات کا حاصل ادبی بصیرت سے عاری ملتا ہے۔ دانتے کے تقابل میں ایگے میمنن کی تصریح موزوں ہے کیونکہ ان کا فن عام واقعات کا مطلق فرق ظاہر کرتا ہے کیونکہ یہ زبان و مکاں کے پیش نظر ہے۔ محمد شاہد محمود کا لکھا افسانہ کافکا کی مثل نہیں ہو سکتا اور نہ اس کا موازنہ کبھی کافکا سے کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ محمد شاہد محمود فیصل آباد میں رہائش پذیر ہے۔ اس کے مشاہدات جتنے بھی تیز ہوں، خیالات کا کینوس جتنا بھی وسیع ہو محمد شاہد محمود کافکا نہیں ہو سکتا۔ ایک واقعہ، فرانز کافکا ایک دن برلن کے ایک پارک میں چہل قدمی کر رہا تھا، جب اسے ایک چھوٹی بچی ملی جو رو رہی تھی۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی سب سے پسندیدہ گڑیا کھو گئی ہے۔ کافکا نے بچی کے ساتھ مل کر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ کافکا نے بچی سے کہا کہ وہ کل وہیں ملے اور وہ ایک مرتبہ پھر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔ اگلے دن جب انھیں گڑیا نہ ملی تو کافکا نے بچی کو ایک خط دیا جو اس گڑیا نے لکھا تھا۔ خط میں لکھا تھا "میری دوست، رو مت۔ میں دنیا گھومنے جا رہی ہوں اور میں واپسی پر تمھیں اپنے حیرت انگیز سفر کے بارے میں بتاؤں گی."محمد شاہد محمود جرمنی کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے، اسے جرمن تاریخ بھی ازبر ہے۔ لیکن حالات و واقعات اور رہن سہن پاکستان کے پس منظر میں ہیں۔ محمد شاہد محمود فرانز کافکا کی طرح ۱۸۸۳ میں پیدا نہیں ہوا۔ محمد شاہد محمود نے سنہ ۱۹۰۱ کا ماحول پڑھا ہے جب کہ کافکا نے یہ دور جیا ہے۔ مختلف تجربات جو عملی حقیقت نہیں رکھتے ان میں ارتکاز عمداً پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واقعہ محض ایک مثال ہے۔ فی زمانہ خالص تنقید اب اندھی تقلید نظر آتی ہے۔ ذاتی پسند نا پسند، شخصیت پرستی، ذاتی مفادات کا موجب ہے۔ متعدد معصوم لوگ ایسے بھی نظر آتے ہیں جن کی برین واشنگ چاپلوسی کے پانی میں خوش آمد کے صابن سے کی گئی ہے۔ بساطی کی دانش فروشی محض ذاتی مفادات کی خاطر ہے۔ تنقیدی میدان اغراض و مقاصد سے ہٹ کر لابنگ کے لیے بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ نا دانستہ نئے لکھنے والے بھی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ سوچنے کی صلاحیت سلب کر کے ادبا کے نام پر الجھے اذہان تیار کیے جا رہے ہے۔ سوچیے، سمجھئے، کہ آپ الگ کائنات ہیں۔ آپ کسی دوسرے کی طرح ہرگز نہیں ہو سکتے۔ خالق نے ہر پیس ماسٹر پیس بنایا ہے۔ گذارشات محض کافکا کے تقابل میں نہ ہیں۔ بیمار افسانہ نگاری میں جو پنپ رہا ہے اس تناظر میں ہیں۔ بلا شبہ شاہ کار افسانے بھی تخلیق کیے جا رہے ہیں۔ جن کے مقابلے میں منتشر خیالی خام خام عمدہ ادب کو بھی مشکوک بنانے میں کسر نہیں اٹھا رکھتی۔ سفید و سیاہ شیڈز الگ الگ دکھائی دینے چاہئیں، میمنے کی کھال میں لگڑبھگے ہمیں پہچاننے ہوں گے.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب: دھندلے عکس (ناول)

شیئر کیجیے

One thought on “تنقید و تقلید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے