ڈاکٹر افضال عاقلؔ کی شعری انفرادیت ”پسِ دیوار“ کے آئینے میں

ڈاکٹر افضال عاقلؔ کی شعری انفرادیت ”پسِ دیوار“ کے آئینے میں

ڈاکٹر ارشاد شفق
پوسٹ گریجویٹ شعبۂ اردو، ٹی ڈی بی کالج، رانی گنج، مغربی بنگال
ای میل:irshadansari@tdbcollege.ac.in، فون:8100035441

افضال عاقل اردو ادب کی ایک معتبر شخصیت کا نام ہے۔ بالخصوص نئی نسل کے جن ادبا و شعرا کا نام احترام سے لیا جاتا ہے اس میں ڈاکٹر افضال عاقل بھی ایک بڑا نام ہے۔ اب تک ان کی دس کتابیں منظر عام پر آکر قاری سے داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ”اشک ریز“ کے عنوان سے 2010 میں شائع ہوا تھا۔ اب تقریباً 10سال بعد ان کا دوسرا مجموعہ ”پسِ دیوار“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے، جو اپنے منفرد اسلوب اور شعری خصوصیات کی بنا پر قاری کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے ان دس سالوں میں موصوف کے تجربے میں نہ صرف وسعت پیدا ہوئی ہوگی بلکہ شاعری کو فنّی اوصاف کے ساتھ پیش کرنے کا شعور بھی پختہ ہوا ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے مجموعہ میں افضال عاقل اپنی شعری انفرادیت منوانے میں کامیاب نہیں رہے بلکہ میرے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ اچھی شاعری کے بال و پر تب سنورتے ہیں جب شاعر وقت کے سیل رواں سے ٹکراتا ہوا اپنے تجربات اور فن میں وسعت پیدا کرکے مخصوص طرز احساس اور مختلف طریقِ کار کے فکری اور فنّی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسے مستحسن انداز میں پیش کرتا ہے۔ افضال عاقل کے یہاں بھی پچھلے دس برسوں میں یہ تجربہ کافی وسیع تناظر میں پیش ہوا ہے۔
میرے نزدیک فن پارے کی قدروقیمت موضوع کے بر عکس زبان اور اسلوب پر قائم ہے۔ اچھے ادب کا تعلق ادیب کی زبان اور اسلوب سے ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے کہ ایک دور میں لکھ رہے قلم کاروں کے یہاں موضوع کی یکسانیت شعوری یا لاشعوری طور پر فن پارے میں در آتی ہے۔ لہذا ایک کو دوسرے سے الگ کرنے یا ان کی انفردیت متعین کرنے کے لیے نقاد کو زبان اور اسلوب کی اہمیت کا اندازہ ہونا بہت ضروری ہے، ورنہ وہ کسی بھی شاعر یا ادیب کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے گا۔ ہر شاعر اپنے عصری حالات و رجحانات سے موضوعات اخذ کرتا ہے۔ اس طرح تخلیق کار کے پاس موضوعات کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ موضوعات ادیب کے پیچھے کاندھے پر چل کر آتے ہیں لیکن اس میں کامیاب وہی ہوتا ہے جس کے یہاں الفاظ کو برتنے کا سلیقہ موجود ہو۔ افضال عاقل کے یہاں زبان و بیان کا ایک نیا رنگ و آہنگ موجود ہے جو ان کی شعری کاوش کو ایک نئے رنگ و روغن سے مزّین کرکے قاری کو فنّی حظ عطا کرتا ہے۔ انھوں نے جہاں غزل میں نئی نئی ردیفیں باندھی ہیں وہیں عصر حاضر کی شاعری میں استعمال ہونے والے جیتے جاگتے الفاظ کو شعری پیکر میں ڈھال کر اردو شاعری کو لطافت اور ترفع عطا کیا ہے۔
افضال عاقل کی غزلیں احساس کی شدّت میں شرابور ہیں، جس کے مطالعے سے قاری کو نہ اَنانیت کا پرتو نظر آتا ہے نہ ہی ان کی غزلوں کے مطالعے سے سپاٹ پن کا احساس ہوتاہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں الفاظ کو اتنے سلیقے اور قرینے سے برتا ہے کہ ان کا غزلیہ متن اپنے اندر عصری آگہی کا عرفان لیے ہونے کے باوجود بھی غزل کے فنّی رچاؤ میں مزاحمت پیدا نہیں کرتا۔ حالات کی ستم ظریفی کے باوجود ان کے آہنگ میں اَنا پرستی کا بے دریغ استعمال ان کی غزلوں کو مسخ ہونے سے بچائے رکھتا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جو شاعر اپنے عہد کی ترجمانی کرتے ہوئے غزل کے فنّی پہلوؤں یعنی اس کے جمالیاتی حسن کو مجروح نہیں کرتا وہی اصل میں غزل کی زلف سنوارنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ”پسِ دیوار“ میں ایسے بہت سے اشعار مل جاتے ہیں جو احساس کی شدّت اور تاریک ترین المناک زندگی کو بڑی فن کاری سے اپنے حصار میں لیے ہونے کے باوجود بھی غزل کی اصل روح کو نہ صرف برقرار رکھتے ہیں بلکہ غزل کے اعلا مدارج کو طے کرتے ہوئے قاری کے ذہن و فکر پر ایک دیر پا تاثر چھوڑ جاتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے ؎
تھی اتنی آرزو بس کون کی پہچان ہوجائے
مگر حق بات مجھ کو مہرباں کہنے نہیں دیتا
بالُو پہ تیرنے کا ہنر جانتا ہوں میں
دریا میں تیرنے کا زمانا تو ہے نہیں
جگنو کو ہم رکابِ سفر ہم نے کرلیا
مجبور اس طرح بھی رہے چاندنی سے ہم
قاتل ہے مقتول یہ پہچان ہے مشکل
دامن پہ لہو، ہاتھ میں شمشیر نہیں ہے
ڈاکٹر افضال عاقل کی غزلیں لفظیات اور مضمون آفرینی کے لحاظ سے منفرد اور کامیاب ہیں۔ ان کی شعری انفرادیت اس میں مضمر ہے کہ انھوں نے روایت کی پاس داری سے دامن نہیں چھڑایا۔ عہد حاضر کے بعض شعرا اپنے عہد کی ترجمانی میں نئے الفاظ کا بے دریغ استعمال تو کرتے ہیں لیکن ان کی غزلیں غزل کی ادبی لوچ سے محروم رہ جاتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ افضال عاقل کے اشعار محض روایتی الفاظ و تراکیب سے اپنا خمیر تیار کرتے ہیں بلکہ انھوں نے بھی غزل میں نئے اور منفرد الفاظ کو داخل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ موصوف کی غزلوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے عہد کے دیگر شعرا کے برعکس محض نئی لفظیات کی بھرمار کو ہی شاعری تصور نہیں کرتے۔ ان کی غزلوں میں ہمیں جہاں شجر، پھول، غنچہ، کہکشاں، گلشن شبنم، پیرہن، شمشیر وغیرہ جیسے الفاظ ملتے ہیں، وہیں لہو، چراغ، برسات، خوشبو، جگنو، شرر، چمک، سورج، چاند وغیرہ جیسی لفظیات بھی مل جاتی ہیں جس نے ان کی شاعری میں جدّت اور شدّت کے ساتھ رعنائی اور جمالیاتی کیفیت پیدا کرکے غزلیہ شاعری کے حسن میں نئی روح ڈال دی ہے۔ انھوں نے تلخ و شیریں تجربات اور حسّیات و نفسیات کو غزل کے پیکر میں خوس اسلوبی سے ڈھال کر اسے مستقبل کے تصادمات اور نئی جہتوں سے آشنا کردیا ہے۔ ان کی غزلیں اپنے اندر بھر پور تخلیقی حسّیت لیے ہوئے ہیں جو زبان و بیان کی سطح پر موضوعات کے افہام و تفہیم میں مزاحمت پیدا نہیں کرتیں۔ اس طرح افضال عاقل نے شعری اقدار اور غزل کی پروقار عظمت کو نہ صرف بر قرار رکھا ہے بلکہ شاعری کی توقیر میں اضافہ بھی کیا ہے جو قاری کے لیے ذہانت، علمیت اور تخلیقیت کے نئے نئے باب روشن کرتے ہیں۔
افضال عاقل کو شاعری میں الفاظ کو برتنے پر عبور حاصل ہے۔ وہ شعر و ادب کے مزاج شناش ہیں۔ ادب پارے کی توضیحات اور تسامحات کو وہ فن کاری سے پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں ایک ایسے فرد کی شبیہ اُبھرتی ہے جو اپنے گرد و پیش کے مسائل سے دوچار ہے لیکن اس کے اندر پژ مردگی کی فضا پیدا نہیں ہوتی۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں اپنے اُوپر گزرنے والے واقعات کا اظہار معتدل انداز میں کرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ فکشن کے برعکس شاعری اور بالخصوص غزل میں راوی شاعر خود ہوتا ہے، جو اپنے اُوپر بیتے تلخ تجربات کو شعری پیکر عطا کرکے قاری کو اس سے روشناس کراتا ہے۔ افضال عاقل کی نظموں اور غزلوں دونوں کے مطالعہ سے ایک ایسے راوی کا نقشہ اُبھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے جو زندگی اور اس کے تلخ تجربات سے اُکتانے کے بجائے اس میں لذّت محسوس کرتا ہے۔ اس لذّتِ جذبات کو انھوں نے جس فن کاری کے ساتھ الفاظ کا جامہ پہنایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ موصوف کے شعری متن میں لفاظی اور سطحیت کا عمل دخل نہیں ملتا۔ انھوں نے لفظوں کے استعمال میں بہت مصلحت سے کام لیا ہے۔ چند اشعار دیکھیے ؎
شجر ہو، پھول ہو، غنچہ ہو یا ہو کہکشاں رہ میں
غزل کے بن کبھی کوئی سفر اچھا نہیں لگتا
ہمارے شہر میں مقتول روزہ دار ہوتے ہیں
کہ ان کو چھوڑ کر مجھ سے بھی افطاری نہیں ہوگی
یوں فکر رسا کے گلشن کا ہر شعر مہکتا ہے صاحب
جب نوک قلم کو خون جگر شدّت سے پلایا جاتاہے
دریا کے دو کناروں کا ممکن نہ تھا وصال
موجیں کھڑی تھیں راہ میں دیوار کی طرح
”پسِ دیوار“ میں اگرچہ غزلوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن اس میں موصوف کی نظمیں، دوہے گیت اور ہائیکو بھی شامل ہیں۔ غزل کی فنّی انفرادیت سے ہٹ کر جب ہم افضال عاقل کی نظموں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو یہاں بھی وہ ہمیں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں خلوص و محبت، اخلاق و بھائی چارگی اور اُخوت و محبت کا فن کارانہ استعمال ان کی شعری فضا میں نئی نئی قوس و قزح تیار کرتا ہے۔ ”شجر سایہ دار“، ”چاند نکلا —عید آئی“، ”روشنی کا سلسلہ“ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن میں شدّت جذبات کی فراوانی ہے اور یہ فراوانی قاری کو اپنے حصار میں لیے بغیر نہیں رہتی۔دراصل افضال عاقل کی نظمیں ان کی غزلوں کی طرح ہی الفاظ اور اسلوب کے منفرد استعمال سے اپنے اندر شعری قوت اور مقناطیسی کیفیت کا احاطہ کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنی علمی، ادبی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا ہے، جس کے باعث ان کی فکری اور فنّی بصیرت نئے میزان و وقار سے آشنا ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ الفاظ کے معقول استعمال اور شعری فن پر پوری دسترس کی بنا پر ان کی نظمیں بھی فنّی سطح پر اعلا شعری اقدار کی نمائندگی کرتی ہیں۔
افضال عاقل کی نظموں کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے روایت سے دامن نہیں چھڑایا بلکہ روایتی الفاظ کو اتنی فن کاری سے برتا ہے کہ قاری ان کی شعری انفرادیت کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ان کی نظم ”روشنی کا سلسلہ“ پڑھتے جائیے، اس میں جذبات، احساسات اور اپنوں سے بچھڑنے کی روداد کو انھوں نے جن لفظیات کا سہارا لے کر  لطافت اور ترفع عطا کیا ہے اس کی مثال ملنی بہت مشکل ہے۔ ”سوز وساز“، ”رسمِ جنوں“، ”قدغن“، ”خرد“، ”غزالانِ چمن“ جیسے الفاظ اردو شاعری کی روایت سے جڑے ہونے کے باوجود بھی قاری کے احساس کو بوجھل کرنے کے بجائے اپنی مقناطیسی کیفیت اور شاعرانہ جمالیات میں محصور کرلیتے ہیں۔ میری بات کی تصدیق کے لیے نظم کا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو؎
اب کہاں وہ سوزوساز زندگی
اب کہاں وہ جستجوئے روشنی
اب کہاں دلداریِ رسم جنوں
اب کہاں قدغن خرد کی ہر قدم
اب کہاں پھلوں کی صحبت، اب کہاں کلیوں سے بات
اب کہاں دامن کش دل خارزار
اب کہاں دیوار ودر بھی ہم سخن
اب کہاں بزم ادب کی رونقیں
اب کہاں وہ شفقتوں کی بارشیں
اب کہاں وہ لرزشوں پر سرزنش
خواب ہیں اب تو غزالان چمن کی صحبتیں
(روشنی کا سلسلہ)
افضال عاقل کی ایک نظم ”چاند نکلا—عید آئی“ بھی ”پس ِدیوار“ میں شامل ہے، جو داخلی خودکلامی کی عمدہ مثال ہے۔ اس نظم کا اختتامیہ بہت متاثر کن ہے۔لفظوں کے ہیرپھیر سے انھوں نے جس قسم کا تاثر اُبھارا ہے وہ بہت کم شعرا کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس نظم کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے ؎
چاند نکلا —عید آئی
عید آئی، چاند نکلا
(چاند نکلا—عید آئی)
بہ ظاہر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ”چاند نکلا“اور ”عیدآئی“محض دوالفاظ کی الٹ پھیر سے اس نظم کا اختتام پرُ تاثر انداز میں کیا گیا ہے۔ قاری اگر ایک بار نظم کے عنوان پر غور کرلے تومیری بات کی بھرپور تصدیق ہوجائے گی کہ شاعر تخلیق کی بنیادی و ہیئتی کیفیات سے کس قدر فیض اٹھانے کا ہنر جانتا ہے۔ یہی کیفیت ان کی ایک اور نظم ”فصلِ گل کی بشارت“میں موجود ہے، جو انھوں نے اپنی شریک حیات کے لیے لکھی ہے۔ اس نظم کا خاتمہ بھی الفاظ کی تکرار سے ہوتا ہے لیکن یہ تکرار نظم کو بوجھل نہیں کرتا بلکہ اس سے جو غنائی کیفیت پیدا ہوتی ہے، فنّی سطح پر وہی نظم کا حاصل ہے۔ ملاحظہ ہوں ؎
بشارت ہو رہی ہے اب
حرارت کی، شرارت کی،
مروت کی،
رفاقت کی،
محبت کی،
اسے محفوظ رکھنا ہے!
اسے محفوظ رکھنا ہے!!
(فصلِ گل کی بشارت)
آخر میں اپنی بات اقبال ساجدؔ کے اس شعر پر ختم کرنا چاہوں گا ؎
وہ چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا
کردار خود اُبھر کے کہانی میں آئے گا
٭٭٭
Dr. Irshad Shafaque
PG.Department of Urdu
Trivenidevi Bhalotia College
Raniganj-713347(WB)
Email:irshadansari@tdbcollege.ac.in
Ph: 8100035441
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : کتاب: بنگال میں اردو ناولٹ نگاری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے