سیمینار بہ عنوان پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی : ایک صدی کی آواز

سیمینار بہ عنوان پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی : ایک صدی کی آواز

المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام ہرگانوی کی یوم پیدائش پر سیمینار کا انعقاد
دربھنگہ (پریس ریلیز) المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ دربھنگہ کی جانب سے علامہ اقبال لائبریری (الہلال نرسنگ ہوم ) بی بی پاکر دربھنگہ میں پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی یوم پیدائش کے موقع پر یک روزہ سمینار کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کا آغاز حافظ جمال الدین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ پروگرام کی صدارت سید محمود احمد کریمی نے کی جب کہ اس پروگرام میں بطور مہمانان خصوصی پروفیسر شاکر خلیق (سابق صدر شعبۂ اردو ایل این ایم یو، دربھنگہ)، پروفیسر محمد آفتاب اشرف (صدر شعبہ ، ڈپاٹمنٹ آف اردو، ایل این ایم یو دربھنگہ) اور سلطان شمسی (سابق پبلک ریلیشن انسپکٹر، پوسٹل، دربھنگہ) نے شرکت کی۔ نظامت کے فرائض معروف افسانہ نگار ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے بحسن و خوبی انجام دیا۔ ڈاکٹر منصور خوشتر (سکریٹری المنصور ٹرسٹ) نے پروگرام کی تفصیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ مناظر عاشق ہرگانوی کا ”دربھنگہ ٹائمز“ اور المنصور ٹرسٹ سے گہرا لگاﺅ تھا۔ دربھنگہ ٹائمز کے ابتدائی دنوں سے اس ادارہ سے جڑے رہے اور آخری دم تک اس کی ترویج و اشاعت میں سرگرم رہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے انتقال سے ادارے کا ذاتی نقصان ہوا ہے۔ اپنے صدارتی خطبہ میں سید محمود احمد کریمی نے کہا ”پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ وہ دور جدید کے کثیر الجہات ممتاز بین الاقوامی شاعر، اعلا درجہ کے ادیب، محقق، مورخ، مسلم الثبوت نقاد، عظیم مفکر، شفیق معلم، ماہر افسانہ نگار، بہترین ناول نگار، ڈراما نگار، افسانچہ نگار، خوش طبع طنز و مزا ح نگار، بچوں کے ادیب، نامور صحافی، جاسوسی دنیا کے دشت نورد اور نہایت منکسر المزاح و تواضع پسند شخصیت کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں درد مند دل اور لامحدود علمی لیاقت سے نوازا تھا۔“ پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی پر اپنے قلبی تاثرات کا اظہار فرماتے ہوئے پروفیسر شاکر خلیق نے کہا کہ مناظر عاشق ہرگانوی سے میرے تعلقات نصف صدی سے تھے۔ جس وقت سے انھوں نے لکھنا شروع کیا تھا میں اسی وقت سے انھیں جانتا ہوں۔ مخصوص انداز میں ہم لوگ گفتگو کیا کرتے تھے۔ ان کے لیے میں دعا گو اور المنصور ٹرسٹ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ پروفیسر محمد آفتاب اشرف نے پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے تعلق سے کہا کہ وہ بحیثیت ادیب اور شخص دونوں اہمیت کے حامل تھے۔ نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کرنا ان کا شیوہ تھا۔ شعبۂ اردو میں ان کی تشریف آوری اور بھاگل پور یونی ورسٹی میں وائیوا کے لیے خود بھاگل پور جانے کے دوران مناظر صاحب کے خلوص کا تذکرہ انھوں نے منفرد انداز میں کیا۔ سید احمد قادری (گیا) نے مناظر عاشق ہرگانوی صاحب سے اپنے دیرینہ تعلقات کا تذکرہ کیا اور کہا کہ میں ان کی شخصیت اور ادبی کارناموں سے کافی متاثر رہا ہوں۔ میرے ان سے گھریلو تعلقات بھی تھے۔ ان کے جانے سے ادب میں ایک خلا سا پیدا ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحی (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو، سی ایم کالج دربھنگہ) نے کوہسار جرنل کے حوالے سے مناظر عاشق ہرگانوی کے کارناموں کو سراہا اور انھیں ایک اچھے ادیب کے ساتھ اچھا انسان قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص انھیں کچھ مشورہ دیتا اسے وہ نہایت خلوص کے ساتھ قبول کرتے۔ ان باتوں سے وہ کبھی ناراض نہیں ہوتے تھے۔ ڈاکٹر احسان عالم نے ان کی شخصیت پر مختصرا روشنی ڈالتے ہوئے ان کے دو اہم ناولوں ”شبنمی لمس کے بعد“ اور آتشیں لمس کے بعد“ کے حوالے سے جنسی بے راہ روی کی عکاسی کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور بتایا کہ ان ناولوں میں جنسی فراوانی ضرور ہے لیکن اس کے ذریعہ انھوں نے نئی نسل کو ایک بڑا پیغام دینا چاہا ہے۔ طنز و مزاح کے معروف ادیب مجتبیٰ احمد نے اپنے مخصوص انداز میں مناظر عاشق ہرگانوی کے کاموں کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر وصی احمد شمشاد (اسسٹنٹ پروفیسر، گیسٹ فیکلٹی ، شعبۂ اردو) نے مناظر عاشق ہرگانوی صاحب کے ادبی کاموں پر روشنی ڈالی۔ اس پروگرام میں دربھنگہ ٹائمز کے ”مناظر عاشق ہرگانوی نمبر“ کے کور کی رسم رونمائی بھی عمل میں آئی جس کا تعارف ڈاکٹر صالحہ صدیقی (الٰہ آباد ) نے پیش کرتے ہوئے کہا: ”مناظر عاشق ہرگانوی کی شخصیت اور فن پر مبنی یہ ایک اہم شمارہ ہے۔ جس میں مناظر عاشق ہرگانوی کی سوانحی کوائف کے ساتھ ان کی علمی و ادبی زندگی کے تمام گوشوں پر بھر پورگفتگو پڑھنے کو ملے گی۔ اس شمارے کی ترتیب و تزئین میں ڈاکٹر منصور خوشتر نے جس علمی و ادبی لیاقت کا ثبوت پیش کیا ہے وہ قابل دید ہے، انھوں نے جدید تکنیک کی روشنی میں مناظر عاشق ہرگانوی کی ادبی زندگی کو مختلف حصوں میں منقسم کیا اور اس کے مطابق ملک و بیرون ممالک کے تحقیق و تنقید نگاروں اور اہل قلم کی تحریروں کو یکجا کر اس رسالے میں مرتب کرنے کا تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔“ اس کے بعد پروگرام میں آن لائن اور آف لائن مقالات پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ آن لائم مقالات میں نذیر فتح پوری (پونے ) ڈاکٹر سید احمد قادری (گیا) کامران غنی صبا (پٹنہ ) اور ڈاکٹر صالحہ صدیقی ( الٰہ آباد ) خورشید حیات (دہلی ) ڈاکٹر مستفیض احد عارفی (مظفر پور) غلام نبی کمار (سری نگر ،کشمیر)، ڈاکٹر عارف حسن وسطوی (حاجی پور )، عبدالرحمن، عائشہ ناز، انور آفاقی، اسلم رحمانی، ڈاکٹر مسرت جہاں، سلمان عبدالصمد، ڈاکٹر مطیع الرحمن، قمر اعظم، رقیہ خاتون، شباہت فاطمہ، ترنم پروین، ملکہ خاتون، مکرم حسین، جاوید اختر، فیضان ضیائی، نعمان جود، ڈاکٹر عبدالرافع، خلیق الزماں نصرت ممبئی، ڈاکٹر قیام نیر نے اپنا مقالہ پیش کیا. آف لائن مقالہ پڑھنے سے پہلے دو اہم کتابوں ”سید احمد کریمی: فکر و نظر کے آئینے (مرتب ڈاکٹر احسان عالم )، بچوں کا نبض آشنا: ڈاکٹر احسان عالم (مرتب: ڈاکٹر محمد سالم ) کی رسم اجرا عمل میں آئی۔ اس کے بعد آف لائن مضامین پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا جن میں ڈاکٹر منظر سلیمان، مجتبیٰ احمد، ڈاکٹر ریحان احمد قادری، ڈاکٹر ارشد سلفی، ڈاکٹر منور عالم، سلطان شمسی، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، ڈاکٹر احسان عالم، ڈاکٹر وصی احمد شمشاد، ڈاکٹر عبدالحی، صفی الرحمن راعین، محمد جنید (سکری مدھوبنی) وغیرہ شامل تھے۔ اس پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر احسان عالم نے اظہار تشکر پیش کیا۔ پروگرام میں جنید عالم آروی، عرفان احمد پیدل، انعام الحق بیدار، قمر عالم، ڈاکٹر محمد سرفراز عالم، محمد جمال الدین، محمد دستگیر عالم، واصف جمال، منظر الحق منظر صدیقی، یعقوب امام اللہ (مظفرپور)، محمد آبشار عالم سمستی پور، محمد تبارک راعین (مدھوبنی)، عطاء اللہ احمد، حافظ حیات عبدالحی، ڈاکٹر جمشید امام، محمد حامد انصاری، ڈاکٹر جمشید عالم (اسسٹنٹ پروفیسر، ملت کالج)، محمد اشتیاق نعمانی سلفی، عامر عثمانی، محمد شمشاد، آفتاب عالم غازی، محمد فخر عالم، ڈاکٹر محمد سالم وغیرہ موجود تھے۔
”سید محمود احمد کرمی : فکر و نظر کے آئینے میں“ کی رسم اجرا
سید محمود احمد کریمی پچھلے کئی برسوں سے اردو نظم و نثر کا انگریزی میں ترجمہ کرکے اپنی ذہانت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے مناظر عاشق ہرگانوی کے ناول کا بھی عمدہ ترجمہ پیش کیا ہے۔ کریمی کو ترجمے کی مشین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ باتیں ”سید محمود کریمی: فکر و نظر کے آئینے میں“  مرتب ڈاکٹر احسان عالم کی رسم اجرا کے موقع پر پروفیسر شاکر خلیق نے کہی۔ ڈاکٹر آفتاب اشرف نے کہا کہ ڈاکٹر احسان عالم ایک دہائی سے اپنی تحریروں سے اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کا یہ کارنامہ قابل ستائش ہے کہ اپنے بزرگوں کا احترام کرتے ہوئے سید محمود احمد کریمی پر یہ کتاب ترتیب دی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے محمود احمد کریمی کو نزدیک سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا۔ اس موقع پر ڈاکٹر احسان عالم نے کہا کہ سید محمود احمد کریمی ایک مخلص انسان ہیں۔  ایک عرصے وہ ترجمے کا کام باریک بینی سے کرتے رہے ہیں۔ ان کے خلوص سے متاثر ہوکر میں نے ان کی شخصیت پر کام کیا ۔

بچوں کا نبض آشنا: ڈاکٹر احسان عالم کی رسم اجرا
ڈاکٹر محمد سالم، تارالاہی کی کتاب ”بچوں کا نبض آشنا: ڈاکٹر احسان عالم “ کی رسم اجرا علامہ اقبال لائبریری میں پروفیسر محمد آفتاب اشرف، پروفیسر شاکر خلیق، محمود احمد کریمی، ڈاکٹر عبدالحئی، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، ڈاکٹر منصور خوشتر، عرفان احمد پیدل، انعام الحق بیدار، محمد جنید، اشتیاق نعمانی کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر منصور خوشتر نے کہا کہ ڈاکٹر محمد سالم نے احسان عالم کی کتاب ”بچوں کے سنگ“ پر تحریر کیے گئے مضامین کو یکجا کرکے کتابی صورت دے کر ایک اچھا کام کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر احسان عالم لمبے عرصے سے درس و تدریس سے منسلک ہیں۔ وہ روزانہ بچوں کے ساتھ اپنا طویل وقت گزارتے ہیں۔ اس وجہ سے انھیں بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ ان کی ایک درجن کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ فی الحال انھوں نے بچوں کے لیے ایک خوب صورت اور معلومات افزا کتاب ”بچوں کے سنگ“ تخلیق کی ہے۔ یہ کتاب بچوں کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔ اس کتاب میں بچوں سے متعلق بہت سی جانکاریاں فراہم کی گئی ہیں۔
تصویر
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : ساہتیہ اکادمی کے زیر اہتمام اکبر الٰہ آبادی کے 175ویں یوم پیدائش پر سمپوزیم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے