موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس!

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس!

ڈاکٹر تسلیم عارف
شعبۂ اردو، جی ایل اے کالج، میدنی نگر، پلامو

٢١ /رمضان بہ روز سنیچر فجر کے بعد آرام کرکے جب نیند کھلی تو میرے دوست محمد حسنین اقبال کے واٹس ایپ میسج سے پتا چلا کہ جھارکھنڈ زون کے امیرِ جماعت جناب غلام سرور صاحب نے داعیِ اجل کو لبّیک کہہ دیا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ گھر میں پھسل کر گر پڑے تھے جس کی وجہ سے ان کے کولھے کی ہڈّی بری طرح متاثّر ہو گئی تھی جس کے سبب عالم نرسنگ ہوم میں ان کا علاج چل رہا تھا۔ سنیچر کی صبح یعنی ٢٣/ اپریل کو تقریباً سوا چھ بجے انھوں نے اپنی آخری سانسیں لیں۔
غلام سرور صاحب یعنی امیر صاحب کوہم نے پہلی مرتبہ بریاتو مسجد میں دیکھا۔ یہ ہمارے باضابطہ نمازی بننے کا ابتدائی دور تھا اور تبلیغ جماعت کو کوئی آشنائی نہ تھی۔ امیر صاحب ہماری بستی میں تبلیغی مصروفیات کے سبب تشریف لائے ہوئے تھے۔ بعد ظہر ایک چھوٹی سی تقریر ہوئی۔ جب ہم پروگرام کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ مسجد سے باہر نکلے تو انجنیر عبدالباری چچا سے ہماری ملاقات ہوئی۔ وہ اکثر ہمیں کلمہ کی حقیقت کی طرف متوجہ کرتے اور اس کے بارے میں سمجھاتے۔ انھوں نے ہم سے بات چیت کرتے ہوئے پوچھا: ”آپ لوگ جن کی تقریر سن رہے تھے، آپ کو پتا ہے یہ کون ہیں؟۔“ سبھی نے نفی میں سر ہلایا۔ پھر باری چچا نے امیر صاحب کے بارے میں بتانا شروع کیا: ”یہ غلام سرور صاحب ہیں۔ تبلیغ جماعت کے امیر ہیں۔ ان کی زندگی حیرت انگیز ڈھنگ سے تبدیل ہوئی ہے۔ پہلے یہ ہند پیڑھی کے سب سے بڑے غنڈوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ شراب نوشی بھی کرتے تھے اور بڑے بڑے لوگ ان سے خوف کھاتے تھے۔ ایک مرتبہ کہیں سے جماعت آئی ہوئی تھی۔ جیسے جماعت کے ساتھیوں کی عادت ہوتی ہے، ان کو راستے میں شراب کی حالت میں دیکھنے کے باوجود ایک ساتھی نے ان سے جماعت کی ملاقات کرا دی۔ جب بات ختم ہوئی تو ان سے مسجد چلنے کی گزارش کی گئی۔ غلام سرور صاحب نے معذرت تو کی لیکن جماعت والے کہاں چھوڑنے والے تھے، اس پیار محبت سے ان کومسجد میں آنے کی دعوت پیش کی گئی کہ انھوں نے وعدہ کیا: ”کل آبؤ۔“ زندگی بدلنے کے لیے بس ان کے منھ سے نکلے یہی الفاظ خدا نے قبول کر لیے۔ دوسرے دن جب وہ مسجد پہنچے تو جماعت والوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس کے بعد امیر صاحب نے اپنی پرانی زندگی سے توبہ کی اور پھر امّتِ مسلمہ کی فکر میں اپنی ساری زندگی وقف کر دی۔ ابتدائی عہد میں انھیں شراب کی وجہ سے کافی دقتیں بھی ہوئیں۔ اکثر ان کو پیشاب جاری ہوجاتا اور ناپاکی ہوتی۔ لیکن ان کے ارادوں کے سامنے اس عذر نے ہتھیار ڈال دیے۔“
اس قسم کے قصّے ہمیں کتابوں میں ہی سننے یا پڑھنے کو ملتے ہیں، یہ پہلا موقع تھا جب ہم کسی ایسے شخص کو بہ نفسِ نفیس دیکھ رہے تھے جس کی زندگی کا رُخ اس دعوت کے کام نے پلٹا تھا۔ کہتے ہیں کہ امیر صاحب مولانا یوسف کاندھلوی کے ہاتھوں بیعت ہوئے اور ساٹھ کی دہائی سے دعوت و تبلیغ میں ایسے منہمک ہوئے کہ چھوٹا ناگ پور کے گانو گانو اور قصبے قصبے میں جاکر محنت کی۔ غریب اور نادار طبقے میں دین کا شوق جگایا اور دین الٰہی کے لیے تن من دھن لگانے کے لیے سب کو آمادہ کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ ان کی محنت رنگ لائی اور رانچی اور اس کے اطراف و جوانب میں دین کی طرف رغبت ہوئی۔ ان کی اس محنت کا ہی ثمرہ تھا کہ جب متحدہ بہار کے زمانے میں غالباً ١٩٨٨ء میں شوریٰ قایم ہوئی تو پٹنہ سے کلیم عاجز اور حضرت مولانا ذوالفقار صاحبان کے بعد ان کا ہی شمار کیا گیا۔
ہم جب سے تبلیغ میں جڑے تو غلام سرور صاحب کو ہی بہ طور امیر دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ہند پیٹرھی میں جماعت کے مرکز میں جب ہم مغرب کے اجتماع یا شب گزاری کے لیے جاتے تو دیکھتے کہ امیر صاحب عام طور پر دائیں کونے پر اپنی چھوٹی سی نشست پر تیسری یا چوتھی صف میں بیٹھے ہوتے۔ پان سے ہونٹوں اور منھ میں تھوڑی سرخی رہتی۔ منھ میں دانت نہ کے برابر تھے، سفید داڑھی با رعب چہرہ، لہیم شہیم ڈیل ڈول معلوم پڑتا کہ جوانی میں کافی تگڑے رہے ہوں گے۔ ڈھیلا سا سفید قلی دار کُرتا اور لُنگی ان کا عمومی لباس تھا۔ سر پر مدرسوں والا بڑا رومال پگڑی کی طرح باندھ لیتے یا اسے کاندھے پر ڈال لیتے۔ ان کے بیانات سے آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اس شخص نے کبھی مدرسے کا منھ بھی نہیں دیکھا ہے۔ گفتگو میں وہ سادگی اور دل کشی کہ بات سیدھی دل پر اثر کرتی۔ میری یہ عادت تھی کہ مرکز میں بیان کرنے والے کے قریب سے قریب ہو کر بیٹھتا۔ اسی لیے جب امیر صاحب کے بیان کی باری آتی تو کافی یک سوئی سے باتوں کو سننے اور سمجھنے کاموقع ملتا۔ تقریر ایسی کہ لگتا کوئی فلسفی نہایت نفیس اردو میں اپنے فلسفے کا درس دے رہا ہو۔ بیچ بیچ میں جھاکھنڈی انداز اور مثالوں سے وہ مجمعے کی تفریح کا سامان بھی کرتے۔ ان کے جملوں میں سے محبوب جملہ تھا: ”ایک ہوتا ہے سائکو لوجی، ایک ہوتا ہے تھیتھرو لوجی“، کبھی فرماتے: ”جگ پریشان ہے نیتا سے اور باپ پریشان ہے بیٹا سے۔“ کبھی یہ جملہ استعمال کرتے: ”دنیا دار لوگوں کے لباس دیکھو، اوپر سے شروانی اندر سے پریشانی۔“ طرح طرح کی مثالوں سے دعوت کے کام کی عظمت اور عزیمت کو سمجھاتے۔ ایک مرتبہ بیان کرتے ہوئے فقیر کی عجیب حرف بہ حرف تشریح کی، فرمایا: ”آج کل کے فقیر وہ فقیر نہ رہے جن کا تعلق اللہ سے تھا۔ آج کے فقیر: ف سے فیرنی، ق سے قورمہ، ی سے یکنی، ر سے ربڑی والے ہو گئے ہیں۔ ایک دو مرتبہ تو ان کی تقریر سے دل پر ایسا اثر ہوا کہ زار و قطار رونے سے خود کو روک نہیں پائے۔
جب سے ہم نے ان کو دیکھا، وہ لگ بھگ ستّر سے پچھتر سال کے رہے ہوں گے۔ مثل مشہور ہے سر بڑا سردار کا، یہ بات امیر صاحب پر صادق آتی تھی۔ واقعی ان کا سر کافی بڑا تھا اور شخصیت میں کافی رعب بھی تھا۔ عام طور پر ان کو غصہ ہوتے ہم نے نہیں دیکھا لیکن ایک دو مرتبہ ان کے جلال کو دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ وہ کافی گرج دار آواز سے ڈانٹ پلاتے۔ ان کے کافی قصے ہمیں باری چچا سے ہی سننے کو ملے۔ ایک مرتبہ انھوں نے امیر صاحب کے بارے میں بتایا کہ شروع شروع میں جب وہ دین کی طرف راغب ہوئے تو جماعت میں نماز کے بعد لوگوں سے بات چیت میں بیٹھنے کی گزارش کر رہے تھے۔ جیسا کہ عام طور پر جماعت کے ساتھیوں کا دستور ہے، انھو ں نے پیار سے ایک شخص کا ہاتھ پکڑ کر گزارش کی کہ بات چیت میں بیٹھ جائیں۔ اس شخص نے کافی حقارت سے ان کو جھڑک دیا۔ امیر صاحب کا پارا چڑھ گیا، اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا: ”جانتے نہیں ہم کون ہیں، ایک بار میں انتڑی باہر کر دیں گے۔“ اس شخص کو کاٹو تو خون نہیں، چپ چاپ مجلس میں شریک ہو گیا۔
سال ٢٠٠٧ میں مرکز میں امارت کو لے کر جب تبلیغی جماعت دو مراکز میں تقسیم ہوئی تو ہم لوگ امیر صاحب کے ساتھ ہی رہے۔ امیر صاحب کے قریبی اور بھروسے مند ساتھیوں سے ہمارا ربط ضبط رہا۔ کئی افراد نے کوشش کی کہ امیر صاحب سے کٹ جائیں لیکن خدا کا شکر کہ ہم لوگوں نے امیر صاحب کا ساتھ نہ چھوڑا۔ بعد میں نظام الدین کی جانب سے ذو الفقار صاحب آئے اور پھر ہم لوگ اپنے پرانے مرکز میں امیر صاحب کی امارت کے ساتھ ہی واپس ہوئے۔
ہمارے ماموں شفیع خان عرف صفّو اور ہمارے علاقے کے انجنیر اقبال عالم سے امیر صاحب کے گہرے مراسم رہے۔ اس لیے بریاتو ان کی توجہ کا مرکز رہا۔ وہ خصوصی طور پر جماعتوں کو ہمارے علاقے میں بھیجا کرتے۔ ان کے کئی اسفار اور تبلیغی کاموں میں صفّو ماما ساتھ ساتھ رہے۔ درازیِ عمر کے باوجود ایسا کم ہی ہوا کہ جب ہم ہفتہ وار اجتماع میں یا شب گزاری کے لیے مرکز گئے ہوں اور امیرصاحب کو نہ پایاہو۔ ان سے مصافحہ کرنا بھی ایک سعادت کی بات تھی۔ ہاتھوں کو پکڑ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے روئی کے گالوں سے آپ مصافحہ کر رہے ہیں۔
کورونا نے پچھلے دو برس میں اتنے داغ دیے ہیں کہ کلیجہ چھلنی ہو چکا ہے۔ ہمارے بیچ سے کئی ادبی ہستیاں اٹھ گئیں، کتنے رشتہ دار اُٹھ گئے۔ کیابچّے، کیا جوان، کیا بزرگ۔ جماعت کے ہی اہم ساتھی ہر دل عزیز تاج الدین بابا بھی ہمیں داغِ مفارقت دے کر چلے گئے۔ اب امیر صاحب بھی دین کی ترویج و اشاعت اور اصلاحِ معاشرہ کے مشن کے لیے کوششیں کرتے ہوئے ہمارے درمیان سے رُخصت ہوئے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، لیکن اس بات کا کیا غم کہ انھوں نے اپنی محنت اور دینی فکر سے لاکھوں کے دلوں پر راج کیا اور اولاد سے بڑھ کر محبت کرنے والوں کو اپنے پیچھے چھوڑا۔
آج ان کے جنازے میں شرکت کرکے خود کو خوش نصیب شما ر کرتا ہوں کہ اپنے گناہوں سے نادم ہوتے بہتوں کو دیکھا ہے لیکن اپنی زندگی مکمل طور پر تبدیل کرنے والی ان جیسی شخصیات عام طور پر دیکھی نہیں جاتیں۔ امیر صاحب کے اثر سے ہند پیٹرھی میں ہمارے کتنے جاننے والے لڑکے ہیں جو آوارگی اور نشے میں اپنی زندگی گزار رہے تھے اور اب دین کے داعی اور امت کی فکر کرنے والے بن گئے۔ اللہ ان کے گناہوں سے در گزر کرکے، ان کی خطاؤں کو نیکیوں سے بدل دے، ان کے درجات کو بلند کرے اور ان کے ذریعے کی گئی محنت کے ثمرات کو جاری اور ساری رکھے۔ آمین۔ ان کے جنازے میں جہاں تک میرا اندازہ ہے پندرہ ہزار سے کم کا مجمع نہ رہا ہوگا۔ راتو روڈ عید گاہ اور عید گاہ کے باہر سے لے کر شہر میں جہاں جہاں سے ان کا جنازہ گزرا، وہ کھچا کھچ بھرا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اسی سے ان کی ہر دل عزیزی اور مقبولیت کا اندازہ لگا یا جا سکتاہے، محمود رام پوری کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا:
موت اس کی ہے کرے جس کازمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
٭٭٭
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے