کتاب: دبستان خیر آباد

کتاب: دبستان خیر آباد

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

خیر آباد دوران طالب علمی ہی سے میرے ذہن و دماغ پر چھایا رہا ہے، عربی دوم کے سال مرقات نصاب کا جز تھا، جس کے مصنف مولانا فضل امام خیر آبادی (۱۸۲۱) ہیں، استاذ نے مصنف کے احوال و کوائف سے آگاہ کیا تو خیر آباد کی محبت دل میں بیٹھ گئی، پھر ان کے نامور صاحب زادے علامہ فضل حق خیر آبادی کی علمی خدمات تک رسائی ہوئی، جد وجہد آزادی میں ان کی قربانی سے واقفیت ہوئی تو خیر آباد کی عظمت دل میں بیٹھی اور اب ان دنوں خیر آباد کے میرے مخلص و کرم فرما عارف علی انصاری نے میرے دل و دماغ پر قبضہ جما رکھا ہے، انہی کی دعوت پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کانپور اجلاس کے موقع سے خیرآباد کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، اپنوں کے ستائے ہوئے عارف علی انصاری اکابر کے معتقد، علم کے شیدائی، محبت کے پیکر ہیں، متوسط قد ان کے معتدل مزاج ہونے کی غماز ہے، چہرے پر داڑھی اور پیشانی پر زمانہ کے نرم وگرم، نشیب و فراز کی سلوٹیں ان کی شناخت ہیں، علم لوگوں تک پہنچا نے کے لیے کتاب کی تجارت کرتے ہیں، میں خیر آباد سے واپس ہونے لگا تو ان پر رقت طاری ہو گئی، کتابوں کا اچھا خاصا ہدیہ دیا، ان میں ایک کتاب ’’دبستان خیر آباد‘‘ بھی تھی۔
خیر آباد عربی، فارسی اور اردو شعر و ادب کا ممتاز مرکز رہا ہے، اس مرکزیت کو واضح کرنے اور شعرا کو زندگی نَو عطا کرنے کے لیے فرید بلگرامی نے دبستان خیر آباد کی تصنیف کی ہے، اس میں ۱۵۰۰ء سے تا حال خیر آباد کے دو سو ستہتر مسلم اور دس غیر مسلم شعرا کو جگہ دی گئی ہے، اس فہرست میں نامور اور گم نام مبتدی اور استاذ شعرا کا ذکر نمونۂ کلام کے ساتھ مذکور ہے، کتاب کا انتساب انوں نے اپنی والدہ ہاجرہ بیگم بلگرامی، مفتی سید نجم الحسن رضوی، عبد الشاہد شیروانی، ڈاکٹر رابعہ بصری (بسوانی) کے نام کیا ہے، جن کی کتابوں سے فرید بلگرامی نے فائدہ اٹھایا اور اسے ماخذ کے طور پر استعمال کیا ہے، کتاب کے شروع میں ظفر علی قادری نے ’’دعائیں‘‘، ڈاکٹر عزیز خیر آبادی نے ’’جام نو میں شراب کہن‘‘، پروفیسر سید احسن رضوی نے ’’حرفے چند‘‘ اور ڈاکٹر رابعہ بصری نے ’’حرف حرف معتبر‘‘ کے عنوان سے کتاب کی اہمیت وافادیت، دبستان خیر آباد کی خصوصیت اور تاریخ کے مختلف ادوار میں خیر آباد کی ادبی خدمات سے قارئین کو روشناش کرایا ہے، اسی باب میں فرید بلگرامی نے بھی خیر آباد میں ادب کا ارتقا، خیر آباد کے ادب کے فروغ میں کایستھوں کا حصہ، امیر مینائی اور دبستان خیر آباد، خیرآباد کی صحافتی خدمات، خیر آباد کے ناول نگار، شعراے خیر آباد کی اصناف سخن، خیر آباد کی محفلیں، خیرآبادیوں کی تصانیف و تالیفات کے عنوان سے انتہائی تحقیقی مقالہ لکھا ہے، اسے اس کتاب کا مقدمہ سمجھنا چاہیے، یہ تفصیلات نہ ہوتیں تو قارئین خیر آباد کے در وبست سے واقف نہیں ہو پاتے۔
دوسرے باب میں خیر آباد کے شعرا و ادبا کا تذکرہ مع نمونۂ کلام درج کیا گیا ہے، جن کو بڑی محنت کے ساتھ تلاش کرکے کتاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے، کہنا چاہیے کہ یہ ’’کار‘‘ نہیں ’’کارنامہ‘‘ ہے، چیونٹی کے منہ سے دانہ دانہ جمع کرنا آسان کام نہیں ہوتا، اس قسم کی کتابوں کی ترتیب میں مواد جمع کرنے کا عمل بڑا جاں گسل ہوتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ دبستان خیر آباد پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کے لیے ماخذ و مواد اس قدر جمع کیے گیے کہ پوری لائبریری بن گئی، چنانچہ کتابیات کی فہرست میں آپ دیکھیں گے کہ جہاں سے مواد لیا گیا ہے وہ سب فرید بلگرامی کی ذاتی لائبریری میں موجود ہیں، صرف ایک کتاب انھوں نے خدیجہ لائبریری کی استعمال کی ہے، جس کے بانی ہمارے کرم فرما عارف علی انصاری ہیں۔ اس کتاب کی تصنیف میں جو پریشانی ان کو اٹھانی پڑی اور جن مراحل اور کرب سے مصنف کو گذرنا پڑا، اس کا اظہار انھوں نے ان جملوں میں کیا ہے، لکھتے ہیں: میرا خیال ہے کہ تذکرہ قسم کی کتاب لکھنا دریوزہ گری یاگدا گری سے زیادہ مختلف نہیں ہے، میں اس کام کے لیے دروازے دروازے گیا ہوں اور کئی کئی بار گیا ہوں، کچھ نے تو میرے دامن میں وہ سب کچھ ڈال دیا جو ان کے پاس تھا، کچھ نے بہت بخل سے کام لیا۔ (صفحہ ۲۶)
جن شعرا کی تصویریں ملیں ان کو شامل کتاب کیا گیا ہے، فہرست میں پہلے تخلص پھر پورا نام بھی درج کیا گیا ہے، جس سے اصلی اور قلمی نام تک ایک نظر میں قارئین پہنچ جاتے ہیں، مختلف شعرا کے مجموعۂ کلام کے سرورق کی عکسی تصویر نے بھی کتاب کی اہمیت و افادیت میں چار چاند لگا دیا ہے۔
یہ سارا ذخیرہ سید فرید الدین احمد فرید بلگرامی (ولادت ۱۸؍ ستمبر ۱۹۵۲) کی کاوش دل پذیر کا نتیجہ ہے، ان کی کئی کتابیں پہلے بھی طبع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، ان کتابوں میں حکیم عابد علی کوثر خیر آبادی، بلگرام کی شعری وادبی خدمات، آقائے سخن وسیم خیر آبادی، متاع وسیم خیرآبادی، اردو اور بلگرام ’’راجنیتک ایوم ساہتیک اتہاس‘‘ ہندی میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں، فرید بلگرامی کی تحریر میں سادگی اور سلیقہ مندی وافر مقدار میں موجود ہے۔
چار سو چھ صفحہ کی یہ کتاب نعمانی پرنٹنگ پریس سے چھپی ہے، سرورق دیدہ زیب ہے عارف عزیز خیر آبادی نے کمپوزنگ اور اس کی ڈیزائننگ کی ہے اور چاروں طرف مختلف شعرا کے تخلص کو ایک خاص ترتیب سے سجا کر سرورق کی معنویت میں اضافہ کیا ہے، اتنی تحقیقی اور ضخیم کتاب کی قیمت چار سو پچاس روپے سے زائد نہیں ہے، خصوصا اس صورت میں جب کتاب فروشوں کو اچھی خاصی کمیشن بھی دینی پڑ رہی ہو، ملنے کے پتے تین ہیں، آپ چاہیں تو عارف علی انصاری بک سیلر لطیف مارکیٹ خیرآباد ضلع سیتا پور سے اسے حاصل کر سکتے ہیں، لکھنؤ میں ہوں تو دانش محل، امین الدولہ پارک، امین آباد لکھنؤ اور خود مصنف کے پتہ بلگرام بلڈنگ میاں سرائے، خیر آباد سیتاپور سے بھی یہ کتاب مل سکتی ہے۔ ڈاکٹر عزیز خیر آبادی کے ان جملوں پر اپنا یہ تبصرہ ختم کرتا ہوں، لکھتے ہیں کہ ’’مجھے یقین ہے کہ آپ اس کتاب کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور خیر آباد سے متعلق تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ کتاب مشعل راہ ثابت ہوگی‘‘۔
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :اردو صحافت: دو سو سال کا تاریخی سفر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے