استقبالِ رمضان اور غربا و مساکین کے لیے فیاضانہ توجہ

استقبالِ رمضان اور غربا و مساکین کے لیے فیاضانہ توجہ

وبا کی ماری ہوئی دنیا میں ابھی کروڑوں لوگ بے روزگار اور دو وقت کی روٹی کے حصول سے دورپڑے ہوئے ہیں، رمضان میں اصحابِ حیثیت کو آغاز سے ہی ان کی طرف اپنی دولت کا رُخ کر دینا چاہیے۔

صفدرامام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

پھر ایک بار رمضان عوامی مشکلات کے دور میں آیا ہے۔عبادت اور روحانی مشقّتوں سے جہاں تطہیرِ نفس کا ہر مسلمان ایک نشانہ رکھتا ہے، اُسی کے ساتھ عوامی فلاح، صدقات، زکوٰۃ اور فیاضی کے ساتھ غربا و مساکین کے لیے اپنے حصّے کی کمائی سے زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کا وہ خاص خیال رکھتا ہے۔ یہ تیسرا برس ہے جب کورونا کی وبا کے انتشار میں یہ رمضان اور اس کے بعد عید کا موقع ہمیں میسّر آئے گا۔ دنیا کچھ تو کھُلی ہے مگر زیادہ خوف، دہشت اور اندیشوں میں گھبرائی ہوئی بھی ہے۔ سماج اور زندگی کا نظام کچھ اتنا اُتھل پُتھل کا شکار ہے کہ سماج کی کیفیت: ’پانو پھیلاؤں تو دیوار سے سر لگتا ہے‘ کی طرح سے ہے۔ ایسے میں ہر صاحبِ استطاعت مسلمان کو سماج میں اپنی حیثیت کے مطابق فیاضی کے ساتھ سامنے آنے کی ضرورت ہے۔
کورونا نے ایک طرف کھاتے پیتے گھروں کو اچانک مفلوک الحالی کے دائرے میں لا کھڑا کر دیا۔ بڑے بڑے شہروں میں مزدوری اور محنت کر کے جو لوگ اپنے خاندانوں کا ذمّہ اُٹھائے ہوئے تھے اور لاکھوں خاندان کے کروڑوں افراد ہنسی خوشی سے اپنی زندگی گزار رہے تھے، وہ اچانک در بہ در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے۔ دیکھتے دیکھتے ان کی زندگی بے بسی اور کسمپُرسی کی دہلیز پر پہنچ گئی۔ ایسے لوگ اِن دو سوا دو برسوں میں بھوک اور بے روزگاری کی مار سے آدھے پیٹ کھا کر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ لوگ دلّی، ممبئی اور پنجاب میں نہیں بلکہ ہر گانو اور محلّے میں دو چار دس اور بیٖس کی تعداد میں موجود ہیں۔ ممکن ہے وہ ہمارے پڑوسی ہوں، ہمارے رشتہ دار ہوں یا دوست آشنا بھی ہوں۔ کچھ تو ایسے بھی ہوں گے جو اپنی کھوکھلی معاشی صورتِ حال کو چھپانے کے لیے کچھ بھی ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتے۔ رمضان کا استقبال کرتے ہوئے اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے خاندانوں کو پہچانیں اور ذاتی طَور پر ان کی ضرورتوں کو سمجھیں اور اپنے حصّے میں سے ان کی ضرورت کا حصّہ بھی متعین کرکے ان کے پاس اُسے کچھ اس طرح سے پہنچائیں جیسے یہ ہماری کمائی میں ان کا حصّہ ہو۔ یہ احسان نہیں، تاریخ نے ایک خوش گوار فریضہ ادا کرنے کے لیے ہمیں چن رکھا ہے۔ ہم نے بڑھ کر اس طرف توجّہ کر لی تو خدا کے سامنے سرخ روٗئی کا شاید یہی کامیاب ذریعہ ہو جائے۔
استقبالِ رمضان کا ایک اور بڑا سماجی مصرف ہمیں لینا چاہیے۔ ملک میں ہزاروں اور لاکھوں مدارسِ اسلامیہ موجود ہیں جو صدقات، زکوٰۃ اور عوامی چندے کی بنیاد پر ہی چل رہے ہیں۔ ان کے فارغین ہی ہماری مسجدوں میں موذّن اور امام ہوتے ہیں، میلاد خواں اور چھوٹے بڑے مدرِّس ہو کر اپنا مذہبی پیغام عوام تک پہنچاتے ہیں۔ کورونا کی وبا اور اس سے پیدا شدہ صورتِ حال میں سرکاری ادارے تو جیسے تیسے چلتے رہے مگر اِن مدارس کے حالات بہت دِگر گوں ثابت ہوئے۔ جو بہت چھوٹے مدارس تھے، وہ ایک ایک کرکے بند ہوتے چلے گئے۔ جو بڑے مدارس تھے، ان کے بھی ہاسٹل خالی رہے اور اساتذہ بھی چھٹّیوں پر بھیج دیے گئے۔ کہیں آدھی تنخواہ دی گئی، کہیں بچّوں کو آدھا پیٹ کھانا نصیب ہوا اور اکثر اساتذہ یا سینیر طلبہ تو روزی روزگار کے دوسرے ذرایع کی تلاش میں اب تک بھٹکتے نظر آ جاتے ہیں۔ جب ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ان مدارس سے اور ان کے اساتذہ اور طلبہ سے ہمارا مذہبی نظام اور بالخصوص مذہبی تعلیم کا طَور قایم ہے تو یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اس نظام کو پورے طَور پر بچا لینا بھی ہمارا فرض ہونا چاہیے۔
جب زندگی معمول پر تھی تو ایسے مدارس کے محصّل اور اساتذہ ہمارے دروازوں تک آتے تھے اور ہم انھیں اپنے عطیات سے فیض پہنچاتے تھے مگر اِس وبا نے اِس نظام کو پورے طَور پر درہم برہم کر دیا ہے۔ آدھے اساتذہ تو بے روز گار ہو کر کہیں کھیتی کر رہے ہیں یا کہیں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ جو مدارس کرائے کے مکان میں تھے وہ پورے طَور پر بند ہو گئے۔ کچھ جگہوں پر طلبہ واپس نہ آ سکے۔ کہیں ایسی بھی بات معلوم ہوئی کہ طلبہ دوبارہ آنے کے لیے تیّار تھے مگر اس مدرسے کے پاس اتنی گنجایش نہیں تھی کہ وہ دارالاقامہ میں بچّوں کو رکھ کر ان کے کھانے پینے کے انتظامات مکمّل کر سکے۔ اس سے ایک ایسا بکھراو پیدا ہوا جس کے سنبھلنے کے آثار مستقبل قریب میں بہ مشکل سمجھ میں آتے ہیں۔
اس صورتِ حال میں ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے آس پاس، اپنے گانو اور شہر کے ایسے مدارس اور مکاتب کی پہچان کریں اور انھیں مالی معاونت دے کر پھر سے اپنے پانو پر کھڑا ہونے کا موقع فراہم کریں ورنہ جیسے ہزاروں مدارس بند ہوئے ہیں، اب اور ہزاروں مدارس اپنے آخری انجام تک پہنچ جائیں گے۔ اس کے بعد کوئی اِس کے لیے شکوہ سنج نہ ہو کہ ہمیں امام اور موذّن نہیں مل رہے یا قرآن پڑھانے کے لیے ہمارے بچّوں کو کوئی مدرّس موجود نہیں ہے۔ میلاد کے موقعے سے کل مولوی کا بھی اکال ہوگا اور بارات پہنچ جائے گی مگر نکاح پڑھانے والا مولوی دستیاب نہ ہو سکے گا۔ اس لیے یہ خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کا وقت ہے اور اپنے چھوٹے چھوٹے مذہبی اور تعلیمی اداروں کو زندہ کرنا یا مستحکم کرنا، ہمیں خود پر لازم کر لینا چاہیے۔
رمضان میں ثواب کے وسائل اور خاص طَور سے اس کی قیمت میں خدا اضافہ کرتا ہے۔ اس لیے یہ ترغیب پیدا کرنے اور اپنی بساط سے بڑھ کر خیرات و صدقات بہم پہنچانے کا مہینہ ہے۔ ہر شخص اپنی حیثیت اور اصول کے مطابق زکوٰۃ کی رقم مختص کر لے، فرداً فرداً فطرے کی ادائیگی ہو جائے اور زندگی میں اپنے جینے سے بڑھ کر دوسرے کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہو جائے تو یہ رمضان ہمارے اور آپ کے لیے، بے بسی اور مشکلوں میں گھِری ہوئی دنیا کے لیے واقعتا اُسی طرح باعثِ رحمت ہو جائے جس طَور پر یہ مہینہ ہماری قوم کے لیے مخصوص ہوا تھا۔ مسلمانوں نے اسلام کا رفاہی، فلاحی اور سماجی مزاج سمجھنے میں بڑی کوتاہی کی ہے۔ اپنی عبادتوں اور تزکیۂ نفس پر تو سب متوجّہ ہوتے ہیں مگر یہ بھی یاد رہے کہ اگر حقوق العباد کو ٹھیک سے سمجھا نہ گیا اور ہماری تجوریاں تو بھری رہیں مگر رمضان میں ہمارا پڑوسی افطار کے لیے ایک کھجور بھی حاصل نہ کر سکا تو شاید روزِ قیامت ہم سے سخت باز پُرس ہوگی۔عیسائیوں اور سکھ بھائیوں میں مذہبی طَور پر عوامی فلاح کے کاموں کا ایک اجتماعی شعور نظرآتا ہے۔ گرو نانک نے تو بابا فرید کے آستانے سے غرباومساکین یا عام لوگوں کے کھانے پینے کے وسیع انتظام کا ایک تصوّر پایا تھا مگر اب یہ شعور ہی ہم میں نہیں ہے۔ کورونا نے جگہ جگہ اس بھولے ہوئے سبق کو ہمیں پھر سے یاد کرنے کا موقع عطا کیا ہے۔ جب سڑکوں پر بے یار و مددگار لوگ مرتے جیتے اپنے گھروں تک واپس ہو رہے تھے، اس زمانے میں سڑک کے کنارے کے مدارس اور مسجدوں سے جتنی معاونت ہوئی، وہ تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے مذہب کے اُس فلاحی تصوّر کو اپنائیں اور رحمت اللعالمین کے اُمّتی ہونے کا ثبوت فراہم کریں۔ یہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی شبیہہ سے کھلواڑ کرنے والوں کے منھ پر ایک طمانچہ بھی ہوگا اور لوگوں کو سمجھنے کا موقع ملے گا کہ یہ مذہب امن، محبّت، بھائی چارہ اور عوامی فلاح سے عبارت ہے۔ یہ رمضان اور اس عید کو ہمیں بہ طَورِ مجاہدہ قبول کرنا چاہیے اور اپنے مذہب کے اس فلاحی رُخ کو عام کرکے دکھا دینا چاہیے۔
مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ میں اردوکے استاد ہیں۔
Email.safdariamamquadri@gmail.com
گذشتہ عرض داشت :اسپن گیند بازی کا موسیقارِ اعظم خاموش: الوداع شین وارن!!!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے