رسم اجرا: خواتین ادب تاریخ و تنقید از صالحہ صدیقی

رسم اجرا: خواتین ادب تاریخ و تنقید از صالحہ صدیقی

ڈاکٹر صالحہ صدیقی کی کتاب ”خواتین ادب تاریخ و تنقید“ کی پولیہ پارلیمنٹ، پریاگ راج میں رسم اجرا 

ڈاکٹر صالحہ صدیقی کی تازہ تصنیف ”خواتین ادب:تاریخ و تنقید“ کی بہ تاریخ 27 فروری 2022 بروز اتوار دوپہر دو بجے رسم اجرا پریاگ راج کے تاریخی مقام اے۔جی آفس کے پولیہ پارلیمنٹ پر ہوئی۔ اس مقام کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندستان کے آئین کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ اے۔جی آفس کے کارکنوں نے بھی ٢٦جولائی ١٩٥٠ کو پولیہ پارلیمنٹ کی شروعات کی گئی تھی۔ جس میں باقاعدہ وزیر اعظم اور مرکزی وزیر کا انتخاب کیا جاتا تھا، اس تاریخی مقام پر وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ ساتھ کئی تاریخی شخصیات مثلا اندرا گاندھی اور اس زمانے کے ماہرین سیاست بھی میں شرکت کیا کرتے تھے۔ہندستان کے اس قدیم رواج کا ذکر سلیم شیروانی سمیت کئی راج نیتاؤں نے سنسد میں   کیا ہے۔ اے جی آفس کے اسی تاریخی مقام پر الٰہ آباد یونی ورسٹی کے مشہور و معروف استاد، محقق و ناقد پروفیسر سنتوش بھدوریہ صاحب، پریاگ راج میں اردو افسانوں سے فکشن کی جوت جلانے والے معروف افسانہ نگار اسرار گاندھی صاحب، ہندی کے معروف ڈراما نگار، ہدایت کار پروین شیکھر صاحب، ڈاکٹر صالحہ صدیقی، ڈاکٹر دھیرندر دھول، معروف انگریزی، ہندی صحافی ڈاکٹر ریاض خان اور ریسرچ اسکالر الٰہ آباد یونی ورسٹی ریحان احمد کے دست مبارک سے رسم اجراعمل میں آئی۔ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کی تمام اہل علم و نظر نے مبارک باد پیش کرتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔
پروفیسر سنتوش بھدوریہ صاحب نے کہا ”میں اس اہم کتاب کے لیے ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، یقینا اردو ادب میں خواتین کی خدمات کا مطالعہ کرنے کے لیے یہ کتاب نہ صرف قارئین بلکہ طلبا کے لیے بھی انتہائی معنی خیز کتاب ثابت ہوگی۔اسی طرح اسرار گاندھی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، اس کتاب کو دیکھ کر ہی ڈاکٹر صالحہ صدیقی کی محنت و کاوش کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس اہم کام کو دیکھ کر دل خوش ہو گیا، اردو ادب میں خواتین ادب پر مبنی یہ کتاب یقینا دستاویزی اہمیت رکھتی ہے۔خواتین ادب: تاریخ و تنقید“بلا شبہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے، جس میں بہترین موضوعات کو قلم بند کیا گیا ہے۔ میں صالحہ صدیقی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اسی طرح ادب کی خدمت کے لیے گام زن رہیں گی۔ اس کتاب کے سلسلے میں ڈاکٹر ریاض خان نے کہا، ڈاکٹر صالحہ صدیقی کی کتاب ”خواتین ادب: تاریخ و تنقید“ یقینا ایک اہم تصنیف ہے۔جس میں خواتین کی نثری، غیر نثری اور شعری جہات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس تصنیف میں بہت ہی سلیقے سے خواتین ادب کی تاریخ و تنقید کو پیش کیا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب بھی اردو حلقے میں مقبول ہوگی۔ میری نیک تمنائیں اور روشن مستقبل کے لیے دعائیں۔ اس موقع پر پروین شیکھر صاحب نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کو دیکھ کر ہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ یقینا بار بار پڑھی، سنی، گنی جانے والی بے حد ضروری کتاب ہے، میں اس اہم کارنامے کے لیے ڈاکٹر صاحبہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
بتاتے چلیں کہ ڈاکٹر صالحہ صدیقی کا شمار اردو کے سنجیدہ نوجوان قلم کاروں میں ہوتا ہے، اس سے قبل بھی ان کی مختلف موضوعات پر کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں شامل ہیں: اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں (2013) پاکستانی ایڈیشن، کتابی دنیا، لاہور (2021)، علامہ اقبال کی زندگی پر مبنی ڈراما ”علامہ“ پہلا ایڈیشن (2015) دوسرا ایڈیشن (2016)، ضیائے اردو ”ضیاء ؔ فتح آبادی“ ایڈیشن اوّل (2016) ایڈیشن دوم (2021)، "سورج ڈوب گیا کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ"،”ضیاء فتح آبادی کا افسانوی مجموعہ“ (2017)، سورج ڈوب گیا (ہندی ترجمہ)۔ (2017)، ڈراما ”علامہ“ (ہندی ترجمہ)،(2017)، نیاز نامہ ”نیاز جیراج پوری: حیات و جہات، (2017)، کرونا و کانگو وائرس(بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ) (2020)۔
ان کی تازہ تصنیف ”خواتین ادب تاریخ و تنقید“ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے ”ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلشنگ ہاؤس پریاگ راج سے شائع ہوئی ہے۔ جو دس ابواب پر مشتمل ہیں۔ اس کتاب میں نثری، غیر نثری، شعری، تنقیدی، تحقیقی اور دیگر اصناف میں اردو ادب کی خواتین قلم کاروں پر، مبنی ڈاکٹر صالحہ صدیقی کے اکتالیس مضامین شامل ہیں۔ جن میں سے بیش تر مضامین ہندستان و بیرون ممالک کے مختلف رسائل و جرائد کی زینت بن چکے ہیں۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے