غزل کی جب بھی لکھی داستان کاغذ پر

غزل کی جب بھی لکھی داستان کاغذ پر

سید اسلم صدا آمری، چنئی

غزل کی جب بھی لکھی داستان کاغذ پر
ابھر کے زخموں کے آۓ نشان کاغذ پر

میری غزل کی زمیں پر ستارے ٹوٹ پڑے
تو جگمگانے لگا آسمان کاغذ پر

سمجھ کے آیت قرآن چوم لیتا ہوں
زمیں پہ دیکھوں جو اردو زبان کاغذ پر

ہیں منحصر اسی کاغذ پہ سارے اہل قلم
سبھوں کی چلتی ہے خاصی دکان کاغذ پر

قلم قلم پہ ہے اک امتنان کاغذ کا
ہرایک فن کا سجا گلستان کاغذ پر

تمہارے ذکر سے میرے قلم کی ہے رفتار
تمہاری یادوں کا ہے کاروان کاغذ پر

ورق ورق پہ نمایاں ہے میرا رقص قلم
مچل رہی ہے مری جان_جان کاغذ پر

مشاعرے کا پڑھا اشتہار جب میں نے
لگا کہ شعراء کی ہے اک دکان کاغذ پر

بڑے سلیقے سے کاغذ کو برتا جاتا ہے
ضیافتوں میں ہے اب کھان پان کاغذ پر

فلک سے گرنے لگی کٹ کے جب بھی کوئی پتنگ
تو مسکرانے لگا آسمان کاغذ پر

زبانِ حضرتِ ناقد پہ پڑ گئے تالے
مرے قلم کی چلی جب زبان کاغذ پر

بساطِ شعر و سخن میں ہے جن کو دعویٰ بہت
قلم دو ہاتھ میں، لو امتحان کاغذ پر

تری غزل نے مچایا بہت ہے شور”صدا”
رہیں گے اس کے نشاں جاودان کاغذ پر
Syed Aslam SADA aamiri,#32B, maroof Saheb street, Mount Road, Chennai-600002.
صاحب غزل کی یہ غزل بھی ملاحظہ فرمائیں :پئے بہ پئے آپ نے جب”میم" کا محمل باندھا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے