مشکل سیاسی اور سماجی ماحول میں بزرگوں کے آثار کی حفاظت لازم

مشکل سیاسی اور سماجی ماحول میں بزرگوں کے آثار کی حفاظت لازم

ہندستان میں بزرگانِ دین، مجاہدینِ آزادی اور مشاہیرِ ادب وغیرہ کے آثار کو محفوظ کرنے کے لیے ذاتی اور اجتماعی کوششیں نہ کی گئیں تو آنے والے وقت میں مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

بابری مسجد مسمار کر دی گئی، تھوڑے بہت دانش وروں اور کچھ سیاست دانوں کے علاوہ مسلمانوں کا کوئی طرف دار نہ ہوا۔ ٢٨/برس کے بعد اگر چہ سُپریم کورٹ نے بابری مسجد کی تعمیر کے سوالوں پر خاموشی اختیار کی مگر مسمار شدہ مسجد کی زمین کو قانونی داؤں پیچ کے ساتھ رام للا کے نام پر عطیہ کر دیا۔ اب کی بار تو سُپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے افراد مسلم سماج سے باہر سو اور ہزار میں رہ گئے۔ ملک کے ہر شہر اور گانو میں مسلمانوں کے قبرستانوں کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا اور گنجائش پیدا ہو جائے تو تمام و کمال ہڑپ کر لینا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ بے شک اِس کام میں دس پانچ فی صد مسلمان بھی ہوتے ہیں مگر زیادہ بڑی تعداد ہم وطن دوستوں کی ہے۔ کہتے ہیں کہ لینڈ اوور بلڈنگ مافیا خاص طور سے ایسی زمینوں پر نظر رکھتے ہیں اور جب جیسی ضرورت ہوتی ہے؛کبھی وقف بورڈ، کبھی اوقاف کے ارکان یاواقف کے خاندان کے افراد سے مل جل کر اِس سلسلے سے سودے بازی کرتے ہیں اور ہزار اور لاکھ خرچ کرکے اربوں کی رقم کماتے ہیں اور بڑی باریکی سے مسلم سماج کے آثار ایک سلسلے سے صفحۂ ہستی سے مٹا دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
کانگریس کی حکومت نے وزیرِ اعظم کے پندرہ نکاتی پروگراموں میں قبرستانوں کی حصار بندی کو شامل کر کے ٨٠ کی دہائی میں ایک بے حد سنجیدہ کام کیا تھا۔حکومت کی نگاہ میں یہ بات تھی کہ ملک میں ہزاروں قبرستانوں کی زمین کے سلسلے سے تنازعات اور مقدمے قایم ہیں۔ آئے دن کے فسادات میں بھی یہ چیز بنیاد میں شامِل تھی۔ حکومت نے یہ طے کیا کہ اپنی دیکھ ریکھ میں زمین کی پیمائش کرکے قبرستانوں کی حصار بندی کر دی جائے گی۔ جگہ جگہ سے ایسی شکایتیں بھی ملتی رہیں کہ قبرستان کی زمینوں کی پیمائش درست طریقے سے نہیں ہو سکی یا ناجائز قبضوں کو ختم کیے بغیر اُنھیں درست سمجھتے ہوئے حصار بندی کر دی گئی۔ غلط طریقے سے لوگوں نے قبرستان کے پیچ سے راستے بنا لیے تھے، اُسے بھی ہزاروں جگہوں پر اُسی طرح چھوڑ دیا گیا تھا۔ اِس مرحلے میں مسلم اوقاف کے تحت آنے والے ہزاروں اور لاکھوں ایکڑ زمینیں برباد ہوئیں۔ اِس کے باوجود یہ سچائی ہے کہ لاکھوں چھوٹے بڑے قبرستان در اندازوں سے محفوظ ہوئے اور کم از کم اُن کی حفاظت کے مسائل زیادہ مشکل نہیں رہے۔ اِس کا سب سے اچھا اثر یہ ہوا کہ ایک قومی بیداری سامنے آئی اور چھوٹی چھوٹی جگہوں پر مقامی کمیٹیوں نے اپنے بزرگوں کی قبروں کو محفوظ کرنے کے لیے کوششیں شروع کیں اور اُن کی کمیٹیوں نے مقامی افسروں سے مِل کر اپنے بزرگوں کے آثارمحفوظ رکھنے کے لیے سرکاری امداد  حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
ملک میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی ہے، یہ سب کو معلوم ہے کہ اُس کے کچھ کھُلے اور کچھ پوشیدہ مقاصد ہیں۔ کچھ مقاصد فوری طور پر ظاہر ہو جاتے ہیں اور کچھ احتیاط سے سات پردوں میں بچا کر رکھے جاتے ہیں۔ اِس کے لیے اُن کے پاس رہ رہ کر آزمائے جانے والے زہر آلود نعرے ہوتے ہیں جن کے سہارے عوام کو مشتعِل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا اندازہ لگایا جاتاہے کہ اِس کا کتنا اثر ہوگا اور کہاں کہاں فائدہ یا نقصان۔ تمام موضوعات کی منتہا ایک ہے۔ ہندو راشٹر۔پہلے ناگپور سے آر۔ایس۔ایس کا کوئی لیڈر اظہارِ خیال کرے گا اُس کے بعد چھوٹے بڑے سادھو سنت اور دوسرے ساسی لیڈر اظہارِ خیال کرنا شروع کریں گے۔ آر۔ایس۔ایس کے چیف موہن بھاگوت کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ہندستان میں ہندو دھرم اور ہندو مذہب کے ماننے والے افراد مشکلات میں ہیں جس کا واحد حل ہندو راشٹر کی تعمیر و تشکیل ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی، اُتر پردیش کے وزیرِ اعلا یوگی آدتیہ ناتھ اور اِس انداز کے بڑے لیڈر بھی ہوش مندی کے ساتھ لفظوں کے ہیر پھیر سے اس  بات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ہندستان کو وہ ہندو راشٹر کے راستے پر لے جانا چاہتے ہیں مگر اُن کے لیے رُکاوٹ ہندستان کا وہ آئین ہے جو سیکولرزم کی وکالت کرتا ہے۔ اسی لیے بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر۔ایس۔ایس کو آئینِ ہند سے ایک چڑھ رہتی ہے۔ اُس کی تبدیلی یا چھیڑ چھاڑ کے لیے اُنھوں نے ماضی میں کئی بار کوشش بھی کی۔ اٹل بہاری واجپئی نے تو پورا ماحول تیّار کر دیا تھا اور آئینِ ہند کا جائزہ لینے کے لیے فاضل ججوں کی ایک صف تیّار کر دی تھی مگر چھیڑ چھاڑ کے لیے کوئی گنجائش نہیں پیدا ہو سکی۔ آنے والے وقت میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
ہندو راشٹر بنانے میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہندستان کی سب بڑی اقلیت آبادی مسلمان ہیں۔ بیس پچیس کروڑ لوگوں کو نہ تہِ تیغ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُن کے بغیر قومی زندگی کا کوئی کام مکمّل ہو سکتا ہے۔ دشواری یہ ہے کہ ہندستان کی دھرتی پر رہتے ہوئے ہندستانی مسلمانوں کو تقریباً چودہ پندرہ سو برس بیت گئے۔ہزاروں بزرگانِ دین، مشاہیرِ علم وادب اور سماج اور ملک پر جان لٹانے والے مسلمان اسی خاک میں دفن ہیں۔ کتنے بادشاہ اور شہنشاہ اِسی خاک میں مِل کر اپنے وطن کا حصّہ بنے ہوئے ہیں۔ پانچ سو برس سے زیادہ مدّت تک مسلمان بادشاہ یہاں حکمراں رہے۔ وہ اوّلاً حملہ آواروں کی شکل میں آئے مگر اُن کے خاندان کے خاندان ہندستان کی مٹی کا حصّہ بن کر آج تک اپنی وفاداری ثابت کیے ہوئے ہیں۔ اُن بادشاہوں کو دورانِ حکومت جتنا موقع ملا عوامی فلاح اور قومی زندگی کی تعمیر و تشکیل کے ہزاروں منصوبوں پر عمل در آمد کرنے میں کامیابی ملی۔عہدِ وسطیٰ کے مورخین چاہے وہ انگریز ہوں، سناتن دھرمی یا مسلمان، سب یک زبان ہو کر اعلان کرتے ہیں کہ ترقّی اور خوش حالی، عوامی فلاح اور انتظامیہ کے معیاری نظام کے پہلوؤں سے یہ عہد گوناں گوں خوبیوں اور ہزار توصیفات کے لائق ہیں. فنِ تعمیر کے اعتبار سے قطب مینار، لال قلعہ، آگرہ قلعہ اور تاج محل کے آثار جن کی شہرت اور قبولِ عام کی حیثیت عالمی ہے، وہ بھی اُسی دور سے وابستہ ہیں. یہ عمارتیں ہرگز ہر گز کسی مذہبی تصّور سے آراستہ ہو کر نہیں قائم ہوئی تھیں۔
علّامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم ’جبریل و ابلیس‘ میں ابلیس کی طرف سے یہ مصرع پیش کیا ہے: ”میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح۔“ بار بار تاج محل کے بارے میں کوئی ایسی خبر آ جاتی ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ عمارت عہدِ قدیم میں کسی راجا نے تعمیر کرائی، شاہ جہاں نے صرف اُس کی مرمت کرائی۔ پشاور سے لے کر ڈھاکا تک شیر شاہ سوری نے جو سڑک بنوائی، اُسے بھی اشوک کے عہد سے جوڑنے کی کوشش رہ رہ کر ہوتی ہی رہتی ہے۔ ایک بابری مسجد کو صفحۂ ہستی سے مٹایا گیا ہے مگر روئے زمین پر ہزاروں ایسے آثار ہیں جو چیخ چیخ کر اعلان کرتے رہتے ہیں کہ اِس ملک کی تعمیر و تشکیل میں ہمارا بھی خونِ جگر اُسی طرح صرف ہوا ہے۔ حکومتوں کو بڑی آسانی ہوتی ہے کہ مسلمان مجاہدینِ آزادی کے وہ مجسمے نہیں بنواتیں۔ مذہبِ اسلام میں اِس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے مگر یہ بات یاد رہے کہ ہندستان مذہبِ اسلام کے اُصولوں سے ہرگز ہرگز نہیں چلتا ہے اور نہ ہندستان کے مسلمان ایسی کوئی خواہش رکھتے ہیں۔ اِس طرح بہت آسانی سے ہمارے مجاہدینِ آزادی کے مجسمے نہیں لگائے گئے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارے یہاں دفنانے کی وجہ سے مرنے والوں کے آثار ایک مختصر تعداد میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔وہاں بھی مسلکی تنازعات اتنے ہیں کہ بختہ، نا پختہ اور قبرستان میں جگہ کی کمی کے مسائل سے ایک فی صد بھی بزرگوں کے آثار محفوظ نہیں ہیں۔ اِس سے ایک ایسا منظر نامہ سامنے آتا ہے کہ نئے ہندستان کی تعمیر و تشکیل میں آثار کے اعتبار سے مسلمان ہزار قربانیوں اور جاں فشانیوں کے با وجود حاشیے پر ہی رہے۔
ہندستانی مسلمانوں کی غیر سنجیدگی، غفلت شعِاری اپنے آبا و اجداد کی حفاظت کے معاملے میں جگ ظاہر ہے۔ ذوقؔ اور غالبؔ کی قبروں کے واقعات کتابوں میں محفوظ ہیں۔ میرؔ کی قبر ہم نے ضائع کر دی۔ آتشؔ، انیسؔ اور دبیرؔ کے مقبرے یہ ثابت نہیں کرتے کہ ہم اُن سے محبت کرتے ہیں۔ شادؔ عظیم آبادی کی قبر کے ساتھ اُن کی کوٹھی اہلِ خاندان نے بیچ ڈالی تھی۔ آج ’گیا‘ کی ایک گلی میں ’انجمؔ مانپوری‘ کی قبر دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا کہ یہ اپنے عہد کا صاحبِ طرز ظرافت نگار نہیں بلکہ یہ شخص کوئی ماہر سوز خواں تھا جو اب ماتم کرنے کے لیے قبر کے اندر سے موجود ہے۔ یہ تمام کیفیات اُن لوگوں کے ساتھ اپنے شہر اور اپنی بستی کے لوگوں نے رَوا رکھی۔ عوامی بیداری نہ ہوئی تو ہمارے آثار ایک ایک کرکے مٹتے جائیں گے یا مٹا دیے جائیں تب اِسے ہندو راشٹر کے طور پر اعلان کرنے کی صرف ایک نمائش باقی رہ جائے گی۔
safdarimamquadri@gmail.com
مضمون نگار پٹنہ کے کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس میں شعبۂ اردو کے استاد ہیں

گذشتہ عرض داشت : کسانوں کے بعد ملک کے بے روزگار نوجوان مرکزی حکومت کو سبق سکھانے کے لیے تیار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے