کسانوں کے بعد ملک کے بے روزگار نوجوان مرکزی حکومت کو سبق سکھانے کے لیے تیار

کسانوں کے بعد ملک کے بے روزگار نوجوان مرکزی حکومت کو سبق سکھانے کے لیے تیار

بھارتیہ جنتا پارٹی نے کچھ حکمتِ عملی ہی ایسی بنائی ہے کہ بے روزگار اور پس ماندہ طبقات کے افراد اپنے حقوق سے محروم ہو جائیں۔

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے مختلف مکاتبِ فکر کے افراد بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں کی گہرائی سے جانچ کرتے ہوئے اور ان کے دکھائے ہوئے اشارے اور حقیقی امور کے فرق کو گہرائی سے محسوس کرنے لگے ہیں۔ الگ الگ فیصلوں کے اجتماعی فوائد یا نقصانات کیا ہیں، اس پر ہر طبقے میں منتھن شروع ہورہا ہے اور مندر مسجد یا ہندو مسلمان کے خانوں کی تقسیم سے نکل کر حقیقی زمین پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے کاموں کا جائزہ لیا جانا شروع ہوچکا ہے۔ کورونا کی وبا نے سی۔اے۔اے۔ اور شہری ترمیماتی قانون کے ردِعمل میں اٹھے ملک گیر ہنگاموں کو اگرچہ روک دیا، مگر یہ بھی ہوا کہ حکومت کو بھی ابھی تک اس سے پیچھے رہنے پر ہی مجبور ہونا پڑا۔ ان دو برسوں میں عجلت میں کئی پالیسیاں ایسی بنائی گئیں، جنھیں بتایا تو یہ گیا کہ کورونا کے سبب عوامی مفاد میں مستقبل کو دیکھتے ہوئے ایسے فیصلے کیے جارہے ہیں مگر نتائج ٹھیک اس سے مختلف اور بعض اوقات معکوسی نظر آرہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی طرف سے نوجوانوں کے مفاد کے نام پر سب سے پہلا فیصلہ مالی اعتبار سے کم زور ان افراد کے ریزرویشن دینے کا فیصلہ ہوا جو اعلا طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سلسلے سے بل ایک دن میں پارلیامنٹ میں آیا اور دوسرے دن دس فی صد ریزرویشن دینے کے لیے منظوری عطا ہوگئی۔ اشارے اشارے میں جو مرکزی حکومت نے اپنی حلیف جماعتوں اور اپنے زیرِ انتظام ریاستوں کو غیر رسمی حکم نامے پیش کیے اور یہ ملک کے دو تہائی صوبوں میں بھی صوبائی ملازمتوں کے نافذ ہوگیا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے فیصلے کے پہلے ملک کے طول و عرض میں عوامی بحث ہوتی ہے، صوبائی حکومتوں کی آرا لی جاتی ہے اور  تب مرکزی سطح پر کوئی فیصلہ لینے کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ اس پورے پروسس کو آزمائے بغیر حکومت نے جس شب خونی انداز میں کشمیر کے لیے پالیسی نافذ کی، ٹھیک اسی طرح راتوں رات یہ فیصلہ نافذ کردیا۔ یہاں یہ چیز قابلِ ذکر ہے کہ منڈل کمیشن کی سفارشات کے نفاذ کے لیے دس برسوں تک حکومت نے انتظار کیا تھا مگر بغیر کسی کمیشن اور بغیر کسی ہمہ جہت جانچ پڑتال کے یہ فیصلہ کیا گیا۔
کہنے کو یہ فیصلہ بے روزگاروں کی موافقت میں تھا اور اعلا طبقات کے مالی اعتبار سے کم زور حلقے کو اس کا فائدہ ملنا مقصود تھا۔ اب تک ہمارے پاس جو اعداد و شمار ہیں، یہ واضح کرتے ہیں کہ دس فی صد کا جو کوٹہ مخصوص ہوا، وہ ریزرویشن کے کل تناسب کے اعتبار سے غیر متناسب ہے۔ اس کا نتیجہ ہزاروں ملازمتوں کے کٹ آف میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں پس ماندہ طبقات کے کٹ آف سے بہت نیچے تک ای۔ڈبلیو۔ایس۔ (مالی اعتبار سے کم زور طبقات) کے نمبر پہنچ جاتے ہیں۔ اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اتنی عجلت میں یہ فیصلہ کیوں کیا گیا اور اسی زمانے میں ماہرین نے اسے حکومت کی سازش قرار دیا تھا، وہ درست تھا۔ لوگوں نے اسے بجا طور پر ریزرویشن کے قانون میں سیندھ ماری تسلیم کیا تھا۔
کورونا کے پہلے ہی مرحلے میں اس زمانے میں جب لاک ڈاؤن قائم تھا اور عوامی سواریاں نہیں چل رہی تھیں، اس زمانے میں وزیرِ تعلیم اور وزیرِ داخلہ نے مل کر قومی سطح کے نیٹ امتحان کو یقینی بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ وہ امتحان آن لائن لیا گیا اور حکومت نے اعلان کیا کہ کسی بھی طالب علم کا سنٹر دو سو کیلو میٹر سے زیادہ دور نہیں ہوگا۔ جب عوامی ذرایع کے وسائل نہ ہوں تو دو سو کیلو میٹر اور دو ہزار کیلو میٹر کی دوری کی یکساں اہمیت ہے۔ حکومت نے کم زور طبقے کے لوگوں کو یہ موقع دیا کہ وہ امتحان چھوڑ دیں۔ جن کے پاس نجی گاڑیاں ہیں انھیں امتحان مرکز تک پہنچنے کی سہولت تھی اور انھوں نے ہی امتحان دیا اور کام یاب ہوئے۔ اس زمانے میں بھی یہ سوالات اٹھے تھے کہ اتنی مشکل صورت حال میں حکومت کو امتحان لینے کی ایسی بے صبری کیوں ہے؟ ان بچوں کی دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات نہیں کرائے جاسکے تھے مگر نیٖٹ کا امتحان ان کے لیے سب سے ضروری امتحان تھا کیوں کہ اس کی بنیاد پر لوگوں کو ڈاکٹر بننا تھا۔ جب جینے مرنے پر عام لوگ سولی پر چڑھے ہوئے تھے، تب ان کی اولا کس قدر پڑھ سکی ہوگی اور مقابلہ جاتی طور پر مارچ سے اگست تک خود کو تیار کرسکی ہوگی۔ لاکھوں بچوں کے ماں باپ کی روزی سلب ہوچکی تھی اور کروڑوں گھروں میں بھوک مری کی کیفیت تھی۔ اس طبقے سے آنے والے بچوں نے کیا خاک آنے والے امتحان کی تیاری کی ہوگی۔ سرکار نے فوری طور پر امتحان لینے کی سازش کرکے خاموشی سے یہ کھیل کردیا کہ بھرے پُرے خاندان کے بچے میڈیکل کی آسامیاں لوٹ لیں۔ ہر چند کہ حالات معمول پر اب تک نہیں آسکے ہیں مگر ٢٠٢١ء میں بھی اسی طرح امتحانات ہوئے اور ٢٠٢٢ء میں بھی مئی مہینے میں ایسے امتحانات کی تاریخوں کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں کہ تین برس اگر اعلا طبقات کے افراد بڑی تعداد میں میڈیل کالجز میں بھر جائیں اور کم زور لوگوں کے لیے محدود وسائل اور مشکل صورت حال کے سبب پچھڑ جانے کی مجبوری ہو تو اسے آخر کیا کہا جائے گا۔ سرکار کی طرف سے سماجی انصاف پر اور مساوی مواقع فراہم نہیں کرنے کا الزام بہ ہر صورت لگے گا۔
گذشتہ دنوں مرکزی حکومت نے گروپ سی اور گروپ ڈی کے امتحانات کے لیے کورونا کی بنیاد پر ایک نئی صورت کا اعلان کیا کہ دونوں کے لیے ایک ہی امتحان ہوگا۔ اپنے آپ میں یہ صریحاً غلط فیصلہ تھا مگر اس سے بھی بڑی مشکل تب آئی جب گریجویٹس کے لیے طے شدہ کٹ آف مارکس پر ہی انٹرمیڈیٹ لیول کے لوگوں کے انتخاب کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان ہوا۔ جو لوگ کم ڈگری اور کم تنخواہوں کے لیے امیدوار ہوں، انھیں جان بوجھ کر کامیاب ہونے سے روکنے کی یہ ایک نئی سازش پیدا ہوئی۔ ملک کے مختلف حصوں میں امیدواروں نے سخت سردی کے باوجود ہنگامے کیے اور حکومت تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی۔ ہرچند بہار اور یوپی میں پولیس نے ان بے روزگاروں پر بے رحم لاٹھیوں کی بارشیں بھی کیں مگر نوجوانوں کے غصے کو دیکھتے ہوئے حکومت کو اصلاح کے نقطۂ نظر سے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کرنا پڑا۔ امیدوار انتظار میں ہیں اور اگر ان کی ملازمتوں کو لوٹ لینے کی  یہ سازش پھر سے کھڑی ہوتی ہے تو وہ مزید طاقت سے سڑکوں پر آئیں گے۔ یہ کم عمر کے نوجوان بہار، یو پی، بنگال اور مدھیہ دیش جیسے معاشی اعتبار سے کم زور صوبوں میں کئی کروڑ کی تعداد میں ہیں۔ انھیں رفتہ رفتہ یہ احساس ستا رہا ہے کہ مرکزی حکومت قانون بنا کر سازش کرتی ہے اور ان کے حصے کی روزی چھین لی جاتی ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اگر مختلف صوبوں میں ایسے امیدوار پھر سے سڑکوں پر آئیں گے تو سوئی ہوئی حکومت کو صرف بے دار نہیں کریں گے بلکہ انھیں کرسی سے اتار پھینکنے میں بھی وہ کام یاب ہوں گے۔ یہ یاد رہے کہ ٢٠١٤ء کے انتخاب کے بارے میں یہ عام تصور تھا کہ نئے ووٹروں یعنی پہلی بار ووٹ کرنے والے لوگوں کی طاقت پر نریندر مودی نے فتح حاصل کی تھی اور پہلے پانچ برس تو اسی جوش اور جذبے میں بیت گئے. بھارتیہ جنتا پارٹی نے لوگوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر پھر سے کام یابی حاصل کرلی۔ مگر کیا اب کی بار وہ نوجوان ٹھگے ہوئے محسوس نہیں کررہے ہیں؟
مرکزی حکومت  اعلا انتظامی عہدوں کے لیے لیٹرل انٹری کے نام پر اپنے منہ بولے افراد کو سیدھے جوائنٹ سکریٹری کے عہدوں پر تقرر کررہی ہے۔ تقریباً پچاس کے آس پاس ایسے افراد اپنی منزل تک پہنچ چکے ہیں جنھوں نے کوئی امتحان نہیں دیا، صرف ایک انٹرویو دے کر مرکزی حکومت میں جوائنٹ سکریٹری بن گئے۔ انھیں ہی پالیسیاں بنانی ہیں اور گاؤں دیہات یا شہر کے عام بچے جنھوں نے اپنی ہڈیاں گلا کر آئی۔اے۔ایس۔ بننے کا خواب پورا کیا، ان منتخب لوگوں کے نیچے اور ماتحتی میں گزارنا ہے۔ یہ سازش تو ہے ہی، ایک طرح سے غیر جمہوری اور غیر آئینی انداز سے حکومت کو چلانے کے لیے اشارہ بھی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اسی طرح اپنے پوشیدہ سیاسی مقاصد پورے کرنے ہیں۔ کورونا کے دور میں اربوں اور کھربوں کے جو کھیل ہوئے، وہ سب کے سب مالی اعتبار سے مضبوط اور سماجی اعتبار سے ملائی دار طبقے کے حق میں ہوئے۔ مرکزی حکومت کو عام آدمی کی زندگی اور عام آدمی کی ضرورتوں سے کوئی مطلب نہیں۔ اگر عوامی بیداری نہ ہوئی تو اور آگے کیا کیا ہوگا، یہ کہنا مشکل ہے۔ سرکاری ملازمتیں تو بہ تدریج کم ہوئیں، ان میں کم زور لوگوں کا تناسب گھٹا اور اب اوپر سے بغیر کسی امتحان کے لوگوں کو داخلہ دے دینا ہے۔ رفتہ رفتہ ملک کے بے روزگار کسان بھائیوں کی طرح حکومت کی سازش کو سمجھنے لگے ہیں اور انھیں یہ بات بھی پتا ہے کہ اقتدار سے بے دخل کیے بغیر عام آدمی اور کم زور لوگوں کو انصاف نہیں مل سکے گا۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com

گذشتہ عرض داشت یہاں پڑھیں:انتخاب کے ماحول میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیر اعظم کا بہ تدریج کمزور ہونا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے