خواتین اور غیرت مسلم

خواتین اور غیرت مسلم

مریم جمیلہ فلاحی 

خواتین کے سلسلے میں دین اسلام کو ہمیشہ ہدف تنقید بنایا گیا اور آج بھی بنایا جارہا ہے۔ کبھی ظلم و ستم کے نام پر، تو کبھی مراعات و حقوق نہ دینے کی صورت میں، تو کبھی حمیت و غیرت کے نام پر؛ ہر طرح سے اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کرنے کی کوشش جاری ہے۔ مگر جب ہم اسلامی تعلیمات اور تاریخ کامطالعہ کرتے ہیں تو حقیقت کچھ اور نظر آتی ہے۔ اسلام نے جہاں عورتوں کے تحفظات کی بات کی ہے وہیں ان پر ہورہے ظلم کو روکنے کےلیے مسلمانوں کی غیرت و حمیت کو بھی للکارا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
’’وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِى سَبِيلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا مِنْ هَـٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِن لَّدُنْکَ وَلِيّاً وَاجْعَلْ لَّنَا مِن لَّدُنْکَ نَصِيراً‘‘
’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا دیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیداکردے ۔‘‘
جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں حجاج بن یوسف، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد اور معتصم باللہ جیسے گورنر، سپہ سالاراور خلیفہ کے واقعات ملتے ہیں جن کی غیرت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ بہن و بیٹی پر ظلم و ستم کا پہاڑ تو ڑا جائے اور وہ خاموش رہیں۔
مگر آج چہار جانب ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے. عورتوں کی عصمتوں کو لوٹا جارہا ہے اور ان پر بے پناہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ گوانتا ناموبے اور ابو غریب جیسی بے شمار سلاخوں کے پیچھے سے ان بے گناہوں کی چیخیں ہماری روح کو جھنجھوڑ رہی ہیں اور فریاد کررہی ہیں کہ ہے کوئی حجاج بن یوسف، کوئی محمد بن قاسم، طارق بن زیاد اور معتصم باللہ بن کر اپنی اس بہن بیٹی کی عصمت و ناموس کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑا ہو لیکن افسوس! آج کے مسلم حکمراں اقتدار اور ذاتی مفاد کے چکر میں قومیت اور جمہوریت کے فرسودہ نعروں کے پیچھے ایسا گم ہیں کہ ان کو اپنی حکومت میں عورتوں پر ہورہے ظلم خود انھیں بھی نہیں سنائی دیتے۔
ایک مرتبہ سعد بن عبادہ نے کہا اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھوں تو اسے اپنی سیدھی تلوار سے قتل کر ڈالوں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا تمھیں سعد کی غیرت پر حیرت ہے یقیناً میں اس سے بھی زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔
ایک مرتبہ بنو قینقاع کے یہودیوں نے ایک مسلم عورت کو سر بازار برہنہ کردیا تو وہ چیخ اٹھی اور اس نے فرمایا کہ ظالموں نے میرے ساتھ بدسلوکی کی ہے تو اسی وقت امت کا ایک غیرت مند جوان اٹھا اور اس شر پسند ظالم کو جہنم واصل کیا اور بدلے میں اپنی جان کو اسلام پر قربان کردیا۔ اللہ کے رسولؐ کو جب اس کی خبر پہنچی تو آپؐ نے فوراً بنوقینقاع کو مدینہ سے دربدر کرنے کا حکم دے دیا۔ یہ تھا اسلام میں غیرت و حمیت کا حال. آپ کی آمد نے خواتین کی عزت و ناموس کو بچایا اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کاخاتمہ کیا. یہ عظیم کارنامہ صرف محسن انسانیت کی تعلیمات کی روشنی میں پہلی بار رونما ہوا۔ اس کے بعد اس مشن کو آپ کے متبعین نے جاری رکھا۔
جب ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹتے ہیں تو وہاں بھی ہمیں ملّی غیرت نظر آتی ہے۔
آئیے ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ان خواتین کے تعلق سے اسلامی غیرت و حمیت کے سلسلے میں مسلم حکمرانوں کا کیا طرز عمل رہا ہے۔
حجاج بن یوسف اگرچہ بڑا ہی سفاک، ظالم بادشاہ تھا لیکن اس کے باوجود اس میں اعلا صفات بھی تھیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے اندر اسلامی غیرت و حمیت زندہ تھی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ولید کے دور حکومت میں کچھ مسلمان تاجر سری لنکا میں آباد ہوگئےتھے ان میں سے جب ایک کا انتقال ہوا تو وہاں کے راجا نے اس کے پس ماندگان کو جہاز پر سوار کرکے عرب بھیج دیا. جب یہ جہاز دیبل کی بندرگاہ کے قریب پہنچا تو سندھ کے بحری لٹیروں نے حملہ کرکے مال و اسباب لوٹ لیا۔ عورتوں اور بچوں کوقیدی بنالیا۔ اس گرفتاری کے وقت ایک عورت کے منھ سے بے اختیار نکل پڑا ’’واحجاجاہ‘‘ اے حجاج میری مدد کر. قید خانے سے مسلم دوشیزہ کا فریاد نامہ جب حجاج کو موصول ہوا تو وہ بے چین ہو اٹھا اور سندھ کے راجا داہر کو لکھا کہ ڈاکوؤں کو گرفتار کرکے ان کو سزادی جائے اور مسلمان عورتوں اور بچوں کو واپس کردیا جائے۔ راجا نے حجاج کے حکم کو نظر انداز کردیا۔ تب حجاج نے محمد بن قاسم کو سندھ پر حملہ کرنے کا حکم دیا. راجا داہر مارا گیا اور محمد بن قا سم نے سندھ کو فتح کرکے اسیروں کو رہا کرایا۔ یہ تھا حجاج اور محمد بن قاسم کا ظلم کے خلاف لڑنے کا جذبہ اور یہ تھا اسلامی تاریخ کے ایک سفاک بادشاہ کا ضمیر اور ملت اسلامیہ کی ایک بیٹی کی عصمت و عفت کو بچانے کے لیے اس کی ملّی غیرت کا مظاہرہ ۔
عباسی دور حکومت میں ایک مسلم حکمراں معتصم باللہ نے عورتوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کی. اس نے سرزمین روم پر کئی بار چڑھائی کی اور ہر دفعہ متعدد علاقے اور قلعہ فتح کئے۔ جب قیصر روم نے سرحدی شہر زبطرہ کو برباد کردیا اور وہاں کے مسلمان باشندوں کو قتل کر ڈالا، پھر ملیطہ کو فتح کرکے وہاں کے باشندوں پر شرمناک مظالم ڈھائے، بہت سی مسلمان عورتوں کو گرفتار کرلیا، جو بھی مرد ہاتھ آیا اس کی آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر کر اندھا کردیا اور ناک، کان کاٹ ڈالے۔ چنانچہ انھی میں ایک بوڑھی عورت کو رومی بیڑیوں میں جکڑے لیے جارہے تھے وہ پکار اٹھی ’’وامعتصماہ ‘‘ ’’اے معتصم ہماری مدد کر ‘‘ جب معتصم کو اس کی خبر ہوئی تو وہ غصّے سے بے تاب ہوگیا۔ وہ لبیک کہتے ہوئے تخت سے کود پڑا اور اسی وقت اپنی فوجوں کو روانگی کا حکم دیا۔ بوڑھی عورت اور دیگر قیدیوں کو رہا کرایا۔
اسی طرح اسپین کے ظالم بادشاہ راڈرک نے جب جولین کی بیٹی کے ساتھ دست درازی کی تو جولین نے موسیٰ بن نصیر سے اسپین پر مسلم افواج کے حملے کی سفارش کی تاکہ عوام الناس کو اس ظالم بادشاہ کی چیرہ دستیوں سے نجات مل سکے۔ چنانچہ طارق بن زیادہ کے ہاتھوں اسپین فتح ہو کر اسلامی مملکت کا حصہ بنا۔
ان کے علاوہ تاریخ میں بہت سے واقعات ملتے ہیں جن سے امت مسلمہ کی عورتوں کے سلسلے میں غیرت و حمیت کا پتہ چلتا ہے.
یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :عورت سیرت رسولؐ کے آئینے میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے