شبلی بہ نام سرسیّد: اختلاف و اختلاف

شبلی بہ نام سرسیّد: اختلاف و اختلاف

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

علی گڑھ تحریک ہندستانی مسلمانوں کی ذہن سازی کے مرحلے میں جن کثیر المقاصد جہات سے وسیع تناظر اختیار کرتی چلی گئی، اس میں سر سیّد کی تحریکی اور بہت حد تک ذہنی قیادت کو دخل ہے لیکن حالی، شبلی، ذکاء اللہ، نذیر احمد، محمد حسین آزاد اور اکبر الہٰ آبادی کے مجموعی کاموں سے اس تحریک کی ہمہ گیری قائم ہوتی ہے۔ محمد حسین آزاد تحریک سے براہِ راست متعلّق نہیں تھے۔ نذیر احمد حسبِ ضرورت نکتہ چینی بھی کرتے رہے اور اکبر الٰہ آبادی کی مخالفت تو سب کو معلوم ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب نے جو کچھ بھی سرمایہ یادگار چھوڑا، وہ کہیں نہ کہیں علی گڑھ تحریک کے کام کا نیا رُخ یا اس کی توسیعی صورت ہی ہے۔ کسی بڑے تحریک کار کی اصل کامیابی یہی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے کاموں کو بھی اپنے اجتماعی کام کا حصّہ بن جانے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ ہندستان کی قومی تحریک میں بھگت سنگھ اور گرم دَل کے لوگ گاندھی سے مختلف تھے لیکن آج کا مورّخ یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ گاندھی کی قیادت میں جو تحریک چلی، اسی کا ایک جزو بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی تھے۔
شبلی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس اور ایم۔اے۔او۔ کالج سے براہِ راست متعلّق تھے لیکن علی گڑھ کے زمانے میں ہی شبلی کا بعض امور میں سرسیّد سے الگ نقطۂ نظر کا حامل ہونا ثابت ہے۔ اسی لیے علی گڑھ سے علاحدگی کے بعد شبلی زندگی کے باقی پندرہ سولہ برسوں میں دو تعلیمی اداروں کے بنیاد گزار اور سرگرم کارکن بنے: ”ندوۃ العلما“ اور ”دارالمصنفین“۔ یہ دونوں ادارے علی گڑھ تحریک کی معلوم سمت سے الگ راستوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ سر سیّد سے مطالعۂ تاریخ اور گذشتہ کے احتساب کا جو پیمانہ وضع ہوا، حالی اور شبلی دونوں نے اسے اپنے ڈھنگ سے قائم رکھا۔ شبلی نے تاریخی مطالعے کو کچھ یوں بنیادی کام سمجھ رکھا کیوں کہ بہ قولِ مہدی افادی:”شبلی سے تاریخ لے لیجیے تو قریب قریب کورے رہ جائیں گے۔“ شبلی کی پہلی مختصر تصنیف سے لے کر ’سیرۃ النبی‘ تک؛ تاریخی مطالعہ، قومی فکر اور اجتماعی زندگی کو اپنی کوششوں سے بہتر بنانے کا اُن کے ہاں جو جذبہ کارفرما نظر آتا ہے، اسے سرسیّد کی قیادت میں اس عہد کی اجتماعی فکر کا حصّہ سمجھنا چاہیے۔
علی گڑھ تحریک کے تمام مقاصد کی بنیاد تعلیم میں سمجھی گئی اور سر سیّد اپنے عہد کے دانش وروں کے ذہن میں یہ بات ڈالنے میں کامیاب ہوئے کہ قومی ترقّی اور انقلاب کے لیے تعلیم کے بغیر کامیابی نہیں حاصل کی جاسکتی۔ ایسا نہیں ہے کہ سرسیّد، نذیر احمد، حالی، شبلی، محمد حسین آزاد اور ذکاء اللہ سب کے سب سرسیّد کے چوکھٹے میں ہی رہ کر تعلیم کے تصوّرات کو سمجھتے تھے۔ سرسیّد سے کچھ نے حسبِ ضرورت اختلاف کیا، کسی نے بَرملا اور کسی نے ضمنی طور پر۔ علی گڑھ کالج سے نکل کر شبلی جب ’ندوۃ العلما‘ کی نظامت سنبھالتے ہیں اورپھر’دارالمصنفین‘ تک کا سفر طے کرتے ہیں تو اسے عَلَی الاعلان سر سیّد کے تعلیمی نقطۂ نظر سے اختلاف ہی کہنا چاہیے۔ نذیر احمد اور حالی ادارہ جاتی طور پر ایم۔اے۔او۔کالج سے متعلّق ہوئے بغیر رفقا میں شامل رہے تو اس سے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حالی اور نذیر احمد سرسیّد کے کاموں میں شریک رہتے ہوئے بھی اس ادارے یا تحریک کی مخصوص سمت سے مکمل طور پر اتّفاق نہیں رکھتے تھے یا تمام کاموں میں سرسیّد کے ساتھ موجود نہیں رہنا چاہتے تھے۔ سر سیّد کی وفات کے بعد حالی اور شبلی سولہ برس زندہ رہے اور قومی کاموں میں نہ صرف یہ کہ سرگرم رہے بلکہ ملکی قیادت اور سربراہی کی فکری ذمّہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتے رہے۔ آخری وقت تک قومی تعلیم کے فروغ اور توسیع کے معاملات سے دونوں کا شوقِ بے پایاں کم نہ ہوا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم کو بنیادی کام بنانے کی مہم جو سرسیّد کے زمانے میں شروع ہوئی تھی، وہ اب بھی قائم رہی۔
بہت سارے اختلافات کے باوجود شبلی سرسیّد کی عظمت اور خدمات کے قائل رہے۔ حالی نے بھی ’حیات جاوید‘ میں کبھی ضمنی طور پر یا بعض اوقات بین السطور میں سر سیّد کے سلسلے سے اپنے تحفّظاتِ ذہنی کے اشارے کیے ہیں۔ شبلی اور حالی کی وفات کے سو برس پورے ہوئے اور سر سیّد کی پیدایش کے اب دو سو برس ہونے کو آئے؛ ایسے میں کیا یہ موزوں نہیں معلوم ہوتا کہ سر سیّد، حالی اور شبلی کے مثلث کو بہ غور سمجھا جائے اور اس بات کا محاسبہ کیا جائے کہ اواخرِ انیسویں صدی میں علی گڑھ تحریک کے پلیٹ فارم سے جس نئی قومی شیرازہ بندی اور نشاۃ الثانیہ کی داغ بیل پڑی، سرسیّد کے رفقا بالخصوص حالی اور شبلی نے ان کے ساتھ کتنی دور تک سفر کیا اور کیا سر سیّد سے مختلف راہ اختیار کرنے میں بھی وہ کامیاب ہوئے؟ کون کس حد تک خود بدل رہا تھا یا قوم کو بدل رہا تھا یا اپنے عقائد میں تبدیلی چاہتا تھا؟ کَج مَج راستوں اور پیچیدہ عملی مواد کے ساتھ اس موضوع کا معروضی جائزہ ہمارے لیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج یہ احتساب کا موقع ہے کہ حالی اور شبلی سر سیّد کے بتائے راستوں پر کس حد تک ساتھ ساتھ چلے اور کس قدر اس سے مختلف راہ پر گامزن ہوئے؟ یہ کام شبلی اور حالی کے تعلیمی نقطۂ نظر میں آئی تبدیلیوں کے جائزے کے بغیر ممکن نہ ہوگا۔
شبلی کی 1881ء میں سر سیّد سے پہلی ملاقات ہوئی۔اس وقت سرسیّد کی مدح میں ایک عربی قصیدہ بھی انھوں نے پیش کیا جو علی گڑھ گزٹ کے 15/ اکتوبر 1881ء کے شمارے میں شایع ہوا۔ 1883ء میں شبلی عربی و فارسی کے استاد کی حیثیت سے چالیس روپے ماہ وار تنخواہ پر پہلی فروری 1883ء سے خدمات انجام دینے لگے۔ بہت جلد اُن کی تنخواہ سو روپے ہو گئی۔ شبلی چند مہینوں کے بعد سرسیّد سے قریب ہی رہنے لگے۔ شبلی کو عربی ادب اور مذہبی علوم میں قدرت حاصل تھی اور سر سیّد کو بعض معاملات میں علمی طور پر صلاح و مشورے کی ضرورت ہوتی تھی۔ اسی کے ساتھ شبلی کو سر سیّد کے بہترین ذاتی کتب خانے سے فیض یاب ہونے کا شوق بھی تھا۔ انھی اسباب سے سر سیّد نے اپنی رہایش سے بالکل قریب کی کوٹھی میں شبلی کے لیے رہنے کا انتظام کیا تاکہ استفادے کا یہ عمل مستقل شکل اختیار کر سکے۔ عبد الحلیم شرر کے ایک مضمون سے جو ماہنامہ ’دل گداز‘ بابت دسمبر 1914ء میں شایع ہوا، اس پر واضح روشنی پڑتی ہے۔
علی گڑھ کی ابتدائی زندگی میں شبلی ایک شاعر کے طور پر اُبھرتے ہیں اور بالخصوص اُن کی فارسی شاعری کی شہرت پھیلتی ہے۔ علی گڑھ کالج کے ہر جلسے میں شبلی اپنی نظمیں پیش کرتے۔ رفتہ رفتہ اُن کی فارسی اردو شاعری میں قومی خیالات داخل ہونے لگے۔ شبلی کی شاعری کا عروج دورِ اوّل میں مثنوی ’صبحِ امید‘ سے سامنے آیا۔ 1885ء میں ’صبح ِ امید‘ اور اس طرح کے قومی جذبات سے لبریز دیگر کام سامنے آئے۔ شبلی جب علی گڑھ پہنچے تو وہ ایک عالِم ضرور تھے لیکن علی گڑھ کے تعلیمی ماحول نے انھیں نئے خیالات اور تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ کیا۔ وہ رفتہ رفتہ اپنے تاریخی کاموں کی طرف سرسیّد کی ذہنی قیادت میں ہی بڑھے جسے آج شبلی کا اختصاص سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی امور میں بھی سرسیّد کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ ان موضوعات پر سب سے پہلے نئے انداز میں کام کرنے والوں میں عظمت کے حامل ہیں۔
شبلی کی پہلی تصنیف ’مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم‘ 1887ء میں سامنے آئی۔ اسی سال اُن کی دوسری تصنیف ’المامون‘ بھی شایع ہوئی۔ 1891ء میں ’سیرت النعمان‘ منظرِ عام پر آئی اور شبلی کی مقبولیت میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا۔ اس دوران میں سر سیّد کے ساتھ حیدرآباد اور بھوپال ریاستوں میں تنظیمی سفر میں شبلی شریک رہے۔ کشمیر کا سفر اور 1892ء میں روم اور شام کے علمی اور سیاحتی سفر کے لیے شبلی تنہا نکل پڑے۔ قسطنطنیہ، مصر اور ترکی میں دورانِ سفر انھوں نے اسلامی علوم و فنون اور اپنے اسلاف کے کارناموں کے سلسلے سے قدیم لائبریریوں میں جو کارآمد چیزیں ملاحظہ کیں، شبلی تمام عمر اس ذہنی ارتقا سے مسرور و شاداں رہے۔ مصر و روم کے سفر سے واپسی پر شبلی نے متعدّد رسائل تالیف کیے اور اس سفر کے دوران جس نئے خزینۂ علم سے انھوں نے استفادہ کیا تھا، اس کے اثرات ان کی تازہ تحریروں پر پڑنے لگی۔ مسلمانوں کے عالمی طور پر کارناموں کے اعتراف میں سرسیّد کسی سے کم نہ تھے اور اسی کے ساتھ انگریزوں کی تعلیمی اور محقّقانہ سازشوں یا نفرت انگیز تحریروں سے بے خبر نہ رہ سکے شبلی کے دل میں یہ موضوع اس طرح گھر کرگیا جیسے اب اُن کی زندگی کا یہ کوئی خاص مقصد ہو۔ اسلام کے تعلّق سے وہ اس بات کی گرہ باندھ چکے تھے کہ ان یوروپی یا کلیسائی سازشوں کا بطلان بھی کریں گے۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ شبلی نے اسے اپنی تصنیفی زندگی کا سرنامہ بنایا اور آخری دَم تک اِنھی موضوعات کے مختلف پہلوؤں پر دادِ تحقیق دیتے رہے۔
شبلی اور سر سیّد کی عمر میں چالیس برس کا فرق تھا اور اس لیے فطری طور پر دونوں دو نسلوں کے تسلیم کیے جائیں گے جن کی درمیانی کڑی الطاف حسین حالی ہیں لیکن ہم عصر دستاویزات شاہد ہیں کہ شبلی سرسیّد اور حالی سے تقریباً ہم مشربانہ رفاقت رکھتے تھے۔ شبلی کی علمی حیثیت ایسی تھی جس کے سبب ان کے بزرگ بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ سیّد سلیمان ندوی نے ’حیاتِ شبلی‘ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے جس سے اس بات کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہو سکتی کہ شبلی کا علمی پایہ کیا تھا اور سر سیّد اُن سے کس انداز میں استفادہ کرتے تھے:
”مولانا فرماتے تھے کہ ایک دفعہ سیّد صاحب بو علی سینا کی’اشارات‘ جو فلسفہ کی اہم کتاب ہے، دیکھ رہے تھے۔ کوئی الجھاو ایسا تھا جس کو وہ حل نہیں کر سکتے تھے۔ اتنے میں وہ (شبلی) جا پڑے۔ سیّد صاحب نے کہا، خوب آئے، یہ مقام سمجھ میں نہیں آتا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ بِلا قصد میری زبان سے نکل گیا کہ آپ سمجھ بھی نہیں سکتے تھے۔ کہنے کو تو کہہ دیا مگر شرمندگی ہوئی۔ سیّد صاحب چُپ رہے، مولانا نے کتاب کا مطلب سمجھایا تو اُن کے چہرے پر بشاشت آئی۔“ (حیاتِ شبلی، ص ۶۲۱)
شبلی کی وفات پر عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے میں جو دو مضامین لکھے، ان میں شبلی اور سرسیّد کے تعلقات کا کچھ آنکھوں دیکھا حال درج ہوا ہے جس میں ان کے نتائج کچھ اس طرح سامنے آتے ہیں:
”جس قدر سیّدصاحب کی دقیقہ رَسی اور وسعتِ نظر کے مولانا قائل ہوتے جاتے تھے، اس سے زیادہ سیّد صاحب ان کی تلاش و جستجو اور جلبِ روایات کے معتقد و معترف ہوگئے تھے۔“ (حیات ِشبلی، ص ۷۲۱)
شبلی نعمانی نے ’المامون‘ کے بعد حضرتِ عمر فاروق کی سوانح یعنی ’الفاروق‘ کی تصنیف کا سلسلہ شروع کردیا تھا لیکن بعض کتبِ حوالہ کی عدم دستیابی کے سبب ابتداً اس کا سلسلہ روکنا پڑا اور پہلے انھوں نے ’سیرۃ النعمان‘ مکمل کی اور پھر حضرتِ عمر کی سوانح کی تکمیل کی جانب مُڑے۔ شبلی کی تصنیف کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد شاید ہی ہو کہ وہ تاریخِ اسلام سے عظیم کرداروں کو چُن کر جدید تحقیقات کی روشنی میں وافر معلومات کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کررہے تھے۔ اس میں نہ بغضِ معاویہ کا معاملہ تھا اور نہ ہی حبِّ علی کا۔ یہ محض جذبۂ قومی اور دادِ تحقیق کا اَمر تھا۔
شبلی کو علی گڑھ پہنچے اب ایک دہائی ہوچکا تھا اور سر سیّد اپنی یونی ورسٹی کی توسیع و اشاعت کے مرحلے میں مورّخ، مصنّف اورمفّکر سے بڑھتے ہوئے ایک منتظم بن چکے تھے۔ اسی لیے ’الفاروق‘ کی تصنیف و اشاعت کے سلسلے سے سرسیّد کے تحفّظات ابھر کر سامنے آئے۔ سرسیّد کو اس بات کا خدشہ تھا کہ حضرتِ عمر فاروق کی سوانح سے کہیں آفت نہ پیدا ہوجائے اور شیعہ سنّی اختلافات ابھر کر ہماری گمراہی کا سامان نہ بہم پہنچا دیں۔ اس سلسلے میں نواب عماد الملک سیّد حسین بلگرامی سے سر سیّد کی مراسلت بعض دل چسپ حقائق پر روشنی ڈالتی ہے جس کے بارے میں سیّد سلمان ندوی نے یہ درست نتیجہ اخذ کیا:
”اتّفاق سے سرسیّد کے خطوط میں نواب عمادالملک کے نام ایک خط مل گیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نواب عمادالملک کو ’الفاروق‘ کی تالیف سے جتنا اختلاف تھا، اس سے زیادہ خود سرسیّد ہی کو تھا۔“ (حیاتِ شبلی، ص ۱۳۲)
سرسیّد کے تحفّظات، منشی سراج الدین کے اسی دوران ’سیرۃ الفاروق‘ نام سے ایک کتاب ١٨٩٣ء میں شایع کرنا اور شبلی کی دیگر تدریسی، تحقیقی و تصنیفی مصروفیات اور چند ماخذات کی تلاش و جستجو ایسے اسباب رہے جن سے ’الفاروق‘ کی تصنیف و اشاعت ٹلتی رہی۔ مولوی سمیع اللہ کے نام خط میں ١٨٩٢ء کو ہی شبلی نے ’الفاروق‘ کی تصنیف کا عزمِ مصمم ظاہر کیا اور ١٨٩٤ء میں ’الفاروق‘ کی تصنیف کا قطعی فیصلہ کرلیا لیکن اس کی اشاعت سرسیّد کی وفات کے بعد ١٨٩٩ء میں ہی ممکن ہوسکی۔ ’الفاروق‘ شبلی کی وہ تصنیف ہے جو مصنّف کو سب سے زیادہ پسند تھی اور وہ بجا طور پر اس پر ناز کرتے تھے۔ سر سیّد کو اس بات کا اشتیاق تھا کہ شبلی کن خاص خاص امور کو زیرِ بحث لارہے ہیں لیکن شبلی کا دستور یہ تھا کہ اپنے مسوّدات اشاعت سے پہلے کسی کو دیکھنے کا موقع نہ دیتے تھے۔ سیّد سلیمان ندوی نے شبلی کے حوالے سے لکھا ہے:
”فرماتے تھے کہ سرسیّد مرحوم ’الفاروق‘ کا مسوّدہ اور اس کے چھپے اجزا دیکھنے کا اشتیاق ظاہر کرتے تھے اور میں مسکرا کر یہ جواب دیتا کہ ”مشاعرے سے پہلے غزل نہیں سنائی جاتی“ مگر افسوس کہ سرسیّد اس غزل کو نہ پڑھ سکے“۔ (حیاتِ شبلی، ص ۷۳۳)
اس سے بعض افراد کو یہ غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ شبلی اس مسوّدے کو سرسیّد سے پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ شبلی اپنی کسی کتاب کے مسوّدے کو اشاعت سے پہلے کسی دوسرے کو دیکھنے کا موقع نہیں دیتے تھے۔ مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی کا ایک اقتباس سیّد سلیمان ندوی نے اس سلسلے سے نقل کیا ہے جو اتّفاق سے ’الفاروق‘ کے بارے میں ہی ہے، ملاحظہ ہو:
”مجھ کو ایک ملاقات میں ’الفاروق‘ کے ایک حصّے کا مطبوعہ پروف اپنے ہاتھ میں لے کر اس شرط سے دکھایا کہ میں صرف اس کا حسنِ طبع دیکھوں، پڑھوں نہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا“۔ (حیاتِ شبلی، صفحہ ۷۳۳)
شبلی جب علی گڑھ پہنچے تھے، اس وقت وہ علم و ادب کے آفتاب و ماہتاب میں شمار نہیں ہوتے تھے لیکن وہاں کے ماحول اور سرسیّد کی ہمہ جہت ترغیبی قیادت نے انھیں ادیب، شاعر اور مفّکر و مدبّر تمام حیثیات سے امتیاز کا حامل بنادیا۔ ان کی شہرت اور عظمت کا سکّہ اس طَور پر بیٹھ گیا کہ برطانوی حکومت بھی قدردانی کے لیے آگے بڑھی۔ انھیں ١٨٩٤ء میں ٣٧/برس کی معمولی عمر میں شمس العما کا خطاب ملا۔ یہ یاد رہے کہ ان سے عمر میں بزرگ تر افراد مثلاً نذیر احمد کو ١٨٩٧ء اور الطاف حسین حالی کو ١٩٠٤ میں یہ اعزازات حاصل ہوئے تھے۔ شبلی کی قدردانی اور مالی معاونت کے سلسلے سے ریاستِ حیدرآباد نے بھی قدم بڑھائے۔ اس طور پر شبلی کا جلوہ اب ملک گیر طور پر سامنے آیا ہی چاہتا تھا۔
سرسیّد سے ’الفاروق‘ کے معاملے میں نقطۂ نظر میں اختلاف کا جو سلسلہ قائم ہوا، اس کے بعد کے معاملات میں یہ باتیں مختلف ملکی اور قومی امور میں واضح ہونے لگیں۔ یہاں اختلاف یا اتّفاق کی کوئی سوچی سمجھی صورت نہیں تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سرسیّد احمد خاں کا ’الفاروق‘ کے سلسلے سے اختلاف محض تنظیمی تھا۔ کیوں کہ سر سیّد کو یہ اندازہ تھا کہ اگر کہیں سنّی شیعہ اختلافات کی کوئی بنیاد اس مرحلے میں قائم ہوگئی تو اس سے کالج کی ترقّی میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ سر سیّد اپنے خوابوں کی تعمیر میں سب کچھ چھوڑ سکتے تھے لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ کالج میں نقصان دہ اختلاف کی گنجایش پید ا ہونے دیں۔ ہمیں یہ یاد رہنا چاہیے کہ شبلی علی گڑھ کے کالج کے ایک استاد ہی تھے جب کہ سر سیّد اُس ادارے کے بانی۔ لیکن اسی کے متوازی ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ شبلی اپنے علم اور عمر کی اُن منزلوں تک بہت تیزی سے پہنچ گئے تھے جہاں اپنی آزادانہ فکر بال و پَر نکالتی ہے۔ اب وہ سرسیّد کے کاموں میں معاون تو ہوسکتے تھے لیکن وہ اپنے تصوّر کی علاحدہ دنیا بھی تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ اپنی تصنیفی زندگی میں علی گڑھ میں رہتے ہوئے ہی وہ اپنا علمی اور فکری رُخ واضح کررہے تھے جس کا پہلا مستحکم پڑاو ’الفاروق‘ جیسی کتاب ہے لیکن سر سیّد سے الگ راہ کے نہ جانے کتنے اور پہلو رفتہ رفتہ سامنے آنے والے تھے۔
شبلی ١٨٩٦ء میں جب دوسری بار حیدرآباد گئے تو حلقۂ علی گڑھ کو یہ اندازہ ہونے لگا کہ اب یہاں سے علاحدگی کی صورت قائم ہورہی ہے۔ ١٨٩٤ء میں ’تحریک ندوہ‘ پر مولانا کی طرف سے لبیک کہنا پہلے سے بھی کالج کے افراد کو پسند نہیں تھا۔ حیدرآباد سے جو وظیفہ مقرّر ہوا، اس نے شبلی کی تصنیف و تالیف کے لیے بعض آسانیاں بھی پیدا کیں۔ شبلی علی گڑھ کالج سے وابستہ تو تھے لیکن عملی زندگی میں اُن کے راستے بدل رہے تھے۔ کالج کے یونین کے مختلف جلسوں میں شبلی کی تقریروں سے یہ باتیں ظاہر ہوتی رہی تھیں کہ شخصی سلطنت کے مقابلے وہ جمہوریت کے طرف دار ہیں۔ کانگریس کی سرگرمیوں کو شبلی امید افزا طور پر دیکھتے تھے۔ علی گڑھ کے ایک جلسے میں انھوں نے ایک نظم پڑھی جس کا یہ شعر مختلف حلقوں میں انگریزی حکومت کی مخالفت سے تعبیر کیا گیا:
نوجوانو! یہ حریفوں کو دکھا دینا ہے
اپنی قوّت کو کیا قوم نے یکجا کیسا
١٨٩٦ء میں شبلی نے ندوہ کو ایک قصیدے میں اس طرح یاد کیا: زیں سپس ندوہ تدریسِ علومِ عرب است۔ یہ بات بھی حلقۂ سر سیّد میں اختلافات کا باعث سمجھی گئی۔سرسیّد سے شبلی کے اختلافات کی نوعیت پر غور کریں تو یہ بات ازخود واضح ہوجاتی ہے کہ دونوں کا ذہنی سانچہ بالکل مختلف تھا۔ علی گڑھ پہنچنے کے بعد جو اُن کا پہلا رسالہ سامنے آیا یعنی ’مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم‘؛ اس میں ترجمے کی زبان، حکومت کی زبان اور عمومی تعلیم جیسے مسئلوں پر سر سیّد کے سلسلے سے شبلی کے تنقیدی تاثرات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ مسائل کے حل کے لیے دونوں کی تجویزیں مختلف ہیں۔ آگے چل کر حکومت پرستی اور انگریز پرستی سے جب مقابلہ ہوا تو دونوں میں بُعدِ مشرقین نظر آتا ہے کیوں کہ کبھی شبلی کو انگریزوں کی تعلیمی جستجو اور ترقّی پسند آتی تھی لیکن کئی بار انگریز اپنی بعض کج ادائیوں کی وجہ سے ناپسند ہوتے ہیں۔ سرسیّد اس معاملے میں برطانوی حکومت کے صالح عقیدت مند تھے۔
شبلی اور سرسیّد میں اکثر ہدف کا اختلاف نہیں۔ دونوں قومی بیداری کے طلب گار ہیں لیکن تشخیص میں مختلف ذرائع کے استعمال کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ ادارہ سازی کی جہت، سیاسی اور مذہبی فکر کا رُخ اور کس حد تک حکومت سے تعاون کریں اور کس حد تک ہم وطنوں کی تحریک میں شریک ہوں، اس طرح کے ہر سوال میں شبلی اور سرسیّد ایک دوسرے سے الگ ہوتے گئے۔ سرسیّد اور شبلی کی مذہبی فکر میں شدید اختلافات تو ثابت ہے۔ اکثر امور میں مذہبی موضوعات پر سرسیّد کے دلائل کو شبلی نے قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔ حالاں کہ اس سلسلے سے شبلی کے اختلافی مضامین نہیں ملتے لیکن اس دوران کی خط و کتابت میں حقیقی فکر اُجاگر ہو ہی جاتی تھی۔ پورے ملک میں سر سیّد کی مذہبی اور سیاسی فکر کے مخالفین کی تعداد روز افزوں بڑھ رہی تھی۔ سر سیّد اپنی تفسیر کا عربی ترجمہ شبلی سے کرانا چاہتے تھے لیکن شبلی اپنی دیگر علمی مصروفیتوں کے سبب معذرت کر چکے تھے۔ سر سیّد نے شبلی کے ماموں زاد بھائی اور شاگرد مولانا حمید الدین سے اس کا عربی ترجمہ کرانا چاہا لیکن انھوں نے انکار کر دیا اور اس’باطل کتاب‘ کے مترجم کے طور پر گناہ گار ہونے کا عذر پیش کیا۔ اسی طرح دعاؤں کے سلسلے سے سر سیّد نے جب اپنے بعض مضا مین ’تہذیب الاخلاق‘ میں شایع کرائے جن میں ردِّ قبولیت کے احوال درج تھے تو اس کا جواب اعظم گڑھ کے ایک غیر مسلم فرد نے دیا تھا۔ لیکن سر سیّد اور اہالیانِ علی گڑھ کو یہ بات پسند نہ آئی اور ان کی نظر میں پیٹھ پیچھے سے یہ شبلی کا حملہ تھا۔ واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ شبلی کا اِن معاملات سے براہِ راست کوئی تعلّق نہیں تھا۔
سر سیّد کی یہ خواہش تھی کہ ان کی سوانح عمری لکھنے کا کام شبلی نعمانی انجام دیں۔ شبلی سر سیّد کی رہائش سے سب سے قریب رہتے تھے لیکن انھوں نے اِسے قبول نہیں کیا۔ نواب اسماعیل خاں نے سر سیّد کو مکّہ معظمہ سے ایک خط لکھا جس میں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ انھوں نے خواب دیکھا ہے کہ شبلی آپ کی سوانح لکھ رہے ہیں۔ شبلی کو یہ خط بھی دکھایا گیا لیکن وہ اس کام کے لیے راضی نہ ہوئے۔ بعد میں یہ کام ١٨٩٣ء میں حالی کے سپرد ہوا جسے انھوں نے مثالی انداز میں مکمّل کیا۔ شبلی اور سر سیّد مشرقی اور مغربی تعلیم کے شعبوں میں بھی ایک دوسرے کے ہم مزاج نہیں تھے۔ اس کا ایک سِرا انگریز پرستی سے جُڑتا تھا جس میں ابتدائی عہد کے بعد شبلی سر سیّد سے بہت دور تھے۔ ملک میں نئی تعلیم کا خاکہ گڑھا جا رہا تھا اور اس کی متعدّد انواع و اقسام اور شاخیں نکلنا شروع ہو رہی تھیں۔ سر سیّد کی فکر پورے طور پر یک رُخے انداز میں میدانِ عمل میں تھی۔ ملکی زبان میں تعلیم اور نئے نصاب میں مقامی عناصر کی شمولیت جیسے معاملات میں سر سیّد اور شبلی اس قدر دور ہوتے گئے جیسے یہ دو دنیاؤں کے باسی ہوں۔ شبلی اپنی وفات سے دو ہفتے پہلے مسعود علی ندوی صاحب کو ایک خط میں صاف صاف لکھتے ہیں:
”افسوس ہے کہ مجھ کو اصولی امر میں اختلاف ہے۔ میں تیس برس سے مسلمانوں کی حالت پر غور کر رہا ہوں۔ خوب دیکھا، اصلی ترقّی کا مانع وہی گراں زندگی ہے جو سیّد صاحب سکھا گئے۔“
سر سیّد اور شبلی کے اختلافات حقیقت میں جدید ہندستان کی تعمیر و تشکیل کے دو علاحدہ راستوں کی غمّازی کرتے ہیں۔ انیسویں صدی اس ملک کی تشکیلِ نو اور نئے راستوں کی طرف بڑھنے کے اسباب و عَلَل پیدا کرنے کے لیے سب سے معتبر زمانہ ہے۔ اسے نشاۃ الثانیہ یوں ہی نہیں کہتے۔ ہندو مسلمان سب مل کر یا الگ الگ اپنے حصّے کی مستعدی اور تمام تر صلاحیتوں کا استعمال کر کے اپنے ملک کے لیے طرح طرح کے خواب دیکھ رہے تھے۔ کسی کو سماجی اصلاح کی فکر ہے تو کوئی تعلیم کو موضوع بنا رہا ہے۔ یہاں بھی ایک کو انگریزی رنگ چاہیے اور دوسرا روایتی تعلیم کا طلب گار ہے۔ ایک طبقہ ہے جو انگریزوں سے تعاون کر کے خود کو یا قوم کو ترقّی دینا چاہتا ہے اور ایک طبقہ ہے جسے انگریزوں سے نجات چاہیے۔ نظریات کے الجھاوے اور ایک دوسرے اندازِ نظر سے جنگی کیفیات کا بھی سماں ہے۔ انگریزوں سے لڑنا ہے تو وہاں بھی کوئی تشدّد چاہتا ہے اور کوئی عدم تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر مُصِر ہے۔اس گُتّھم گُتّھا اور بحرانی ماحول کی ایک نسل سر سیّد ہیں تو دوسری نسل شبلی۔ ہمارے لیے یہ آسان نہیں کہ یہ طے کر دیں کہ کس کا راستہ درست ہے یا کس راستے سے بڑھ کر قوم کو کامیابی ملے گی۔ ایک اور سوال اس عہد میں موزوں تھا کہ کس راستے سے ہم ادھوری منزل پائیں گے اور کس سے منزلِ مقصود تک پہنچیں گے۔ یہ سوالات ہمارے قومی معماروں کے تصوّرات ہی تھے جو پانی پر کھنچے گئے نقوش کی طرح سے تھے لیکن انھیں ان نقوش کو صحیح خد و خال عطا کرنا تھا۔
سر سیّد نے ضرور ہندستانی قوم کی تشکیلِ نو کا ایک خواب دیکھا تھا جس میں انھوں نے تعلیم کو نسخۂ کیمیا تصوّر کیا لیکن وہ رفتہ رفتہ حصولِ ملازمت اور پھر حکومت کی پسندیدہ زبان میں تعلیم کے خو گر ہو گئے۔ ان کی تنظیمی استعداد نے پورے ملک کی سطح پر نئی تعلیم کے خاکے کو کس طرح زمین پر اُتارا جائے، اس کے لیے کوئی بنیادی کام کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا۔مسلم ایجوکیشنل کانفرنس بھی بالآخر علی گڑھ کالج کی ایک ذیلی کمیٹی کے طور پر بن کر رہ گئی۔ نئی تعلیم کے خاکے میں مذہبی تعلیم اور سیاسی فکر کی حسبِ ضرورت شمولیت کے باب میں سرسیّد خاموش رہے۔ یہ سر سیّد کی وقتی مصلحت تھی لیکن وہ اس دائرے سے باہر نہیں نکل پائے۔
علی گڑھ تحریک کے اثرات اس قدر دائمی ہوئے، اس کا سب سے بَڑا ثبوت یہ ہے کہ انھی رفقا کے درمیان ایسے افراد پیدا ہوئے جو سر سیّد سے اختلاف کر سکتے تھے اور بدلتے ہوئے عہد کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے سر سیّد کی خامیوں یا کمیوں کا علاج بھی ڈھونڈ سکتے تھے۔ شبلی حلقۂ سر سیّد کے فرزندان میں ان سے اختلاف کر کے حقیقت میں سر سیّد کے باقی ماندہ کاموں کو کرنے کا ہی ارادہ رکھتے تھے۔ شیخ عبداللہ اور خواجہ غلام الثقلین نقوی نے سر سیّد کی وفات کے فوراً بعد علی گڑھ میں ہی لڑکیوں کا مدرسہ قائم کر کے حقیقت میں سر سیّد سے اختلاف کا کوئی بگل نہیں پھونکا تھا بلکہ وہ علی گڑھ تحریک کے ادھورے کاموں کو انجام تک پہنچا رہے تھے۔’ندوۃا لعلما‘ اور ’دارالمصنفین‘ بھی ایسے ہی ادارے تھے جو حقیقت میں علی گڑھ تحریک کے بنیادی مقاصد یعنی ہندستانی مسلمانوں کی تعلیم سے وجود میں آئے تھے اور جو کام علی گڑھ کالج میں اس وقت تک شروع نہیں ہو سکا تھا، اسے وقت رہتے لکھنؤ اور اعظم گڑھ میں شروع کر دیا گیا تھا۔ آج اگر ہمیں سر سیّد اپنے مقاصد میں کامیاب نظر آتے ہیں تو ان کے مجموعی کاموں کی جن کمزوریوں کی اصلاح ان کے رفقا نے کی، انھیں بھی ہم اس احتساب کا حصّہ مانتے ہیں۔
شبلی سر سیّد کی وفات کے سولہ برس بعد تک زندہ رہے۔انھوں نے فیضانِ سر سیّد کو سرسیّد کے زمانے میں بھی دیکھا تھا اور اس گلشن کو اپنی شکل میں بڑھتے اور بکھرتے دیکھ رہے تھے۔ محسن الملک اور وقار الملک کے نام حالی کے خطوط اس بات کے گواہ ہیں کہ حالی بھی علی گڑھ کی انگریز پرستی سے ناخوش تھے اور اصلاح کے خوگر تھے۔ شبلی تو سر سیّد کی زندگی سے ہی بہت سارے معاملات میں ان سے مختلف افکار و نظریات کا اظہار کر چکے تھے۔ اس لیے سر سیّد سے شبلی کے اختلافات علی گڑھ تحریک کی تکمیل کا ایک محضر نامہ مرتّب کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سے جیسے تحریکِ آزادی ہند کے معاملے میں بھگت سنگھ، مہاتما گاندھی کے مخالف نہیں بلکہ ہماری قومی تحریک کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ شبلی کو قدرت نے بہت کم وقت دیا ورنہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ جنگِ آزادی میں سر گرمی سے شریک ہوتے اور نہ جانے کتنے ایسے اور معاملات آتے جہاں وہ سر سیّد کے راستے کو چھوڑ کر نئی شاہ راہوں کی تلاش میں کامران ہوتے۔ کسی زندہ قوم کی زندہ قیادت کا یہ خاص انداز ہے جسے ہمیں قبول کر لینا چاہیے۔
[سنٹرل یونی ورسٹی آف حیدر آباد کے سے می نار منعقدہ ۹-١٣، نومبر ٢٠١٤ء میں پیش کیا گیا۔] 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے