نااہل امیر کے انتخاب میں قصور کس کا؟

نااہل امیر کے انتخاب میں قصور کس کا؟

کیا ان حالات میں امیر شریعت فیصل رحمانی کی اتباع ضروری ہے؟

انوار الحق قاسمی

ارباب حل و عقد نے جب مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کو امیر شریعت منتخب کرلیا، تو پھر سوشل میڈیا پر اس قدر ہنگامہ کیوں؟ اگر انتخاب نا اہل کا ہوا ہے، تو اس میں قصور کن کا ہے؟ کیا اب انتخاب کے بعد انھیں اس عہدے سے معزول اور بر طرف کردینا مناسب ہے؟
ان سارے سوالات کے جوابات یکے بعد دیگرے درج ذیل سطروں میں رقم کیے جاتے ہیں:
مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کے امیر شریعت منتخب ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر جو اس قدر ہنگامہ ہو رہا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثروں کی خواہش اور خود میری بھی یہی تمنا تھی کہ”امیر شریعت" کا عہدہ بہت بڑا عہدہ ہے، تو اس کے لیے انتخاب بھی”انتخابی اجلاس" میں بڑی ہی شخصیت کا ہونا چاہیے، جو علم و فضل اور تقوی و طہارت میں ایک مثالی شخصیت ہو اور بہ ظاہر پورے بہار، اڈیشہ اور جھارکھنڈ میں ان کا کوئی ثانی اور ہم پلہ نظر نہ آتا ہو۔
جب لوگوں نے پورے بہار، اڈیشہ اور جھارکھنڈ میں تتبع و تفحص کیا اور غائرانہ نظر ڈالا، تو ان کی نظر ایک ایسی شخصیت پر جاکر جم گئی، جن کا فی الحقیقت پورے بہار، اڈیشہ اور جھارکھنڈ میں علم و فضل اور تقوی و طہارت میں کوئی ثانی اور ہم پلہ نہیں ہے، وہ ہے برصغیر کی عظیم ترین شخصیت مولانا محمد خالد سیف اللہ رحمانی کی ذات گرامی۔
اکثروں کی خواہش یہی تھی کہ اس عہدے کے لیے مولانا محمد خالد سیف اللہ رحمانی ہی کا انتخاب ہو؛ مگر ایسا نہیں ہوا، یعنی ارباب حل و عقد نے اس عہدے کے لیے مولانا محمد خالد سیف اللہ رحمانی کے بجائے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کو منتخب کرنا چاہا، چناں چہ انھوں نے فیصل رحمانی کو امیر شریعت منتخب کرنے کے لیے امیر شریعت کے انتخاب کے لیے اتفاق رائے کے بجائے ووٹنگ ہی کو پسند کیا اور ووٹنگ کے ذریعہ ہی انتخاب عمل میں آیا۔
ارباب حل و عقد نے ووٹنگ کی قید اس لیے لگائی تاکہ مولانا محمد خالد سیف اللہ رحمانی اپنا نام واپس لے لیں، کیوں کہ مولانا کے نزدیک ووٹنگ کے ذریعہ انتخاب غیر شرعی اور غیر دستوری ہے اور مولانا پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ اگر مجھے اتفاق رائے کے ذریعے امیر شریعت منتخب کیا جائے گا، تو میں اسے اپنے اکابر کی امانت سمجھ کر قبول کرلوں گا اور اسے بہ حسن و خوبی انجام دینے کی سعی بلیغ کروں گا اور اگر ووٹنگ کے ذریعہ ہوا، تو پھر میں اپنا نام واپس لے لوں گا ؛ چناں چہ مولانا نے اپنے سابقہ موقف پر بر قرار رہتے ہوئے انتخاب سے پہلے ہی اپنا نام واپس لےلیا۔
اور پھر مولانا انیس الرحمن قاسمی اور مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کے درمیان ووٹنگ کے ذریعہ انتخابی عمل شروع ہوا اور پھر ایک کثیر تعداد ووٹوں کے ذریعہ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی امیر شریعت منتخب کیےگئے۔
اس لیے لوگوں میں بے چینی کی کیفیت اور غم وغصہ کا ماحول پایا جارہاہے کہ ارباب حل و عقد نے نا انصافی کیوں کیا؟ اورنا اہل کے حوالے یہ عہدہ کیوں سپرد کیا؟
اس میں تو معمولی بھی شک نہیں ہے کہ انتخاب نا اہل کا ہوا ہے، مگر اس نا اہل کے انتخاب میں قصور مولانا محمد خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا انیس الرحمن قاسمی سمیت تمام انصاف پرور لوگوں کا ہے۔
وہ بایں طور کہ ساتویں امیر شریعت مولانا ولی رحمانی کے انتقال کے بعد ہی سے نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی نے احمد ولی فیصل رحمانی کے قبضہ میں امارت شرعیہ حوالے کرنے کےلیے بہت کچھ کیا، حتی کہ اس انتخاب کو لےکر کچھ دنوں قبل امارت شرعیہ میں ہاتھا پائی بھی ہوئی ہے؛ مگر پھر بھی ہمارے اکابر علماے کرام نے ان کی اس سازش کو جانتے ہوئے بھی نظر انداز کر دیا۔
اور پھر جب نائب امیر شریعت نے 170/ ارباب حل و عقد کا اضافہ کیا، تو کیا اس موقع سے کبار علما کو ان کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے تھی؟ ضرور مخالفت کرنی چاہئے تھی اور اضافہ شدہ ارباب حل و عقد کو ہرگز تسلیم نہیں کرنی چاہیے تھی؛ مگر یہاں انھوں نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے زائد شدہ ارباب حل و عقد کو تسلیم کرلیا۔
جب انتخابی اجلاس شروع ہوا، تو وہاں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ہر ممکن اتفاق رائے کی صورت تلاش کی، مگر جب انھیں کوئی صورت نہیں ملی، تو اپنا نام واپس لے لیا اور پھر انھوں نے کہا: کہ اتفاق رائے سے انتخاب کا نہ ہونا افسوس ناک ہے اور ووٹنگ کے ذریعہ انتخاب کا ہونا غیر شرعی اور غیر دستوری ہے، جب کہ انھیں افسوس کا اظہار اسی وقت کرنا چاہئے تھا، جس وقت نائب امیر شریعت نے ماحول خراب کیا اور 170/ ارباب حل و عقد کا اضافہ کیا۔
جس وقت مخالفت کی اشد ضرورت تھی، اس وقت تو مخالفت کی نہیں اور اب جب پوری پلاننگ کے ساتھ انتخابی اجلاس شروع ہوا، اور پھر مولانا احمد ولی فیصل رحمانی امیر شریعت منتخب ہوگئے، تو ہر چہار جانب سے اعتراضات کی بارش ہونے لگی۔
اس موقع سے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا انیس الرحمن قاسمی سمیت دیگر کبار علما سے یہ غلطی ہوئی کہ انھوں نے ماحول خراب ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی مجلس میں خاموشی اختیار کی، اس کو تو اسی وقت مجلس برخاست کردینی چاہیے تھی، مگر انھوں نے ایسا کیا نہیں، جس کی بنا آج نااہل شخص امیر منتخب ہوگیا۔
اب جب نااہل کا ہی سہی بہ طور امیر انتخاب ہوگیا، تو اب ہمیں انھیں امیر تسلیم کرنا چاہئے، اسی میں خیرہے؛ کیوں کہ انتخاب کے بعد انتشار یہ اچھی بات نہیں ہے۔
امیر شریعت کے انتخاب کے بعد، انھیں معزول اور برطرف کرنے کی کی باتیں کرنا، کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔
حدیث شریف میں تو امیر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، نہ کہ مخالفت کا؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللّٰہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللّٰہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیرکی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔(صحیح بخاری: حدیث نمبر_2957)
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-1835)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کی اطاعت کو اپنی اطاعت گردانا ہے اور امیر کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیا ہے، اس لیے ہمیں ذکر کردہ حدیث پر عمل کرتے ہوئے امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی اطاعت کرنی چاہئے، ان کی نافرمانی سے گریز کرنا چاہئے؛ کیوں کہ اگر ہم نے ان کی نافرمانی کی، تو ہمارا ان کی نافرمانی کرنا، دراصل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنا ہوگا اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کرنا ایک ایمان والے کےلیے کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
کیاان حالات میں ،جن میں امیر شریعت کا انتخاب متنازع فیہ ہے، امیر شریعت کی اتباع ضروری ہے؟
جب کہ ایک طرف حدیث کا مقتضی یہ ہے کہ ان کی اتباع ضروری ہے، جب کہ دوسری طرف متنازع فیہ انتخاب کا تقاضا ہے کہ انھیں برطرف اور معزول کر دیا جائے.
صاحب مضمون کی گذشتہ تحریر :قربانی ایک عظیم حکم الٰہی ہے، جس کی تعمیل ضروری ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے