برا ہے جو برا ہوگا، وہ اچھا ہو نہیں سکتا

برا ہے جو برا ہوگا، وہ اچھا ہو نہیں سکتا

اشہر اشرف

برا ہے جو برا ہوگا، وہ اچھا ہو نہیں سکتا
ارے ناداں کبھی قاتل مسیحا ہو نہیں سکتا

ادائیں دلبرانہ ہیں نگاہیں قا تلانہ ہیں
تو یکتا ہے، جہاں میں کوئی تجھ سا ہو نہیں سکتا

وہ مجنوں کیا ہے ؟ وہ فر ہاد کیا ہے سامنے میرے
زمانے میں کوئی دیوانہ مجھ سا ہو نہیں سکتا

ہمارے درمیاں جب تک صنم حائل انا ہوگی
میں تیرا ہو نہیں سکتا تو میرا ہو نہیں سکتا

تمھیں چاہا دل و جاں سے، تمھیں مانگا مقدر سے
مرے جیسا کوئی عاشق تمھارا ہو نہیں سکتا

ہوا کا رخ بدلنے کی تمنا ہے مرے دل میں
تمھارا ساتھ اگر ہوگا تو پھر کیا ہو نہیں سکتا

ہمارا ساتھ جینے اور مرنے کا ہے جانِ جاں
بنا تیرے کبھی میرا گزارا ہو نہیں سکتا

کبھی بادل تو برسیں گے کبھی سورج تو نکلے گا
زمانے میں سدا قائم اندھیرا ہو نہیں سکتا

مقدر چاہے جتنا آزما لے تو کبھی لیکن
مقدر میں نہیں ہے جو وہ تیرا ہو نہیں سکتا

کلی کیا ہے تمہارے سامنے ہر پھول پھیکا ہے
تمہارے حسن کا کچھ استعارہ ہو نہیں سکتا

بھلا دینا مجھے دل سے اگر ممکن کبھی ہوگا
مگر مجھ سے کبھی چاہ کر بھی ایسا ہو نہیں سکتا

محبت میں کہاں سود و زیاں کی بات ہوتی ہے
محبت میں کبھی اشؔہر خسارہ ہو نہیں سکتا
اشؔہر اشرف کی یہ غزل بھی ملاحظہ :کوئی دنیا میں تجھ سا کہاں پر کشش

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے