آزادی کے بعد اردو تحقیق کی صورت حال

آزادی کے بعد اردو تحقیق کی صورت حال

ڈاکٹر احمد علی جوہر
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، اسکول آف ہیومنٹیز، اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی، نئی دہلی
موبائل: 9968347899

تحقیق، حقیقت کی چھان بین اور جانچ پرکھ کا نام ہے۔ اردو ادب کی اصطلاح میں تحقیق سے مراد ادبی تحقیق کے اصول و ضوابط کی روشنی میں صحیح ادبی متن کو دریافت کرنا ہے۔ اس کے لیے محقق کو ایک ہی متن کے کئی کئی نسخوں اور کلیات و دواوین کو دیکھنا پڑتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے محقق کو کئی باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے. مثلا متن کا یہ نسخہ شاعر و ادیب کے زمانے میں شایع ہوا یا اس کے بعد۔ اگر بعد میں شایع ہوا ہے تو اس نسخہ اور مصنف کے درمیان کتنا زمانی فاصلہ ہے۔ یہ نسخہ مصنف کا قلمی نسخہ ہے یا کسی کاتب نے لکھا ہے۔ کاتب نے مصنف کے سامنے قلم بند کیا ہے یا مصنف کی غیر موجودگی میں تحریر کیا ہے۔ ان نسخوں میں معتبر نسخہ کون سا ہے۔ پھر اس کے اعتبار و استناد کے دلائل و شواہد کیا ہیں؟ ان اصولوں کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ محقق اپنے قیاسات اور مشاہدات و مطالعات سے بھی مدد لیتا ہے۔ اس طرح ایک محقق متن کے صحیح و غلط کو دریافت کرتا ہے اور قاری کے سامنے صحیح متن پیش کرنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ اسی عمل کو ادبی تحقیق کہا جاتا ہے۔
تحقیق انتہائی صبر طلب اور دشوار پسند عمل ہے۔ اس میں سہل پسندی اور رواداری بالکل ممنوع ہے۔ ایک سچے محقق کو اپنے تحقیقی عمل کے دوران نہ جانے کتنے دقت طلب مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق کے میدان میں کودنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس میدان میں اچھے اچھوں کے پاؤں لڑکھڑا جاتے ہیں۔ تحقیق کے میدان کو صحرا اور چٹیل میدان سے تشبیہ دی جاتی ہے، جہاں خزاں ہی خزاں ہے اور بہار کا گزر نہیں۔ عام طور پر یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ تحقیق کا موضوع روکھا پھیکا موضوع ہے، جس میں لطف و دل کشی نہیں ہوتی۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر، تحقیق انتہائی اہم کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اصول و ضوابط بھی کڑے اور سخت ہیں۔ ان اصول و ضوابط کی پابندی کرنے والے اور اچھی تحقیق کرنے والے محققین ادب کو ادب کے میدان میں بے پناہ اہمیت حاصل ہے۔ تحقیق کے عمل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے کسی بھی میدان کے لیے سانس کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح سانس کے رکنے سے موت ہو جاتی ہے، اسی طرح تحقیق کے عمل کے رکنے سے علم و ادب کی موت کا اندیشہ رہتا ہے۔
تحقیق ماضی کی گمشدہ کڑیوں کا پتہ لگاتی ہے اور تاریخی تسلسل کا فرض نبھاتی ہے۔ ادب کو اس کے ارتقا کی صورت میں مربوط کرنا تحقیق کا امتیازی وصف ہے۔ موجود مواد کو مرتب کرنا، اس کا تجزیہ کرنا، اس پر تنقیدی نگاہ ڈالنا اور پھر اس سے ہونے والے نتائج سے آگاہ کرنا ادبی تحقیق کی بنیادی خصوصیات ہیں۔
اردو ادب کے ممتاز محقق مالک رام ادبی تحقیق کے بارے میں لکھتے ہیں:
"تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مادہ ‘ح-ق-ق’ جس کے معنی ہیں کھرے اور کھوٹے کی چھان بین یا بات کی تصدیق کرنا۔ دوسرے الفاظ میں تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے علم و ادب میں کھرے کو کھوٹے سے، مغز کو چھلکے سے، حق کو باطل سے الگ کریں۔ انگریزی لفظ "ریسرچ" کے بھی یہی معنی اور مقاصد ہیں"۔ (اردو میں تحقیق، مشمولہ، "رہبر تحقیق" اردو سوسائٹی، لکھنؤ، 1976ء، ص:55)

اردو میں باضابطہ ادبی تحقیق کی ابتدا بیسویں صدی کے اوائل میں مولوی عبدالحق، حافظ محمود شیرانی، قاضی عبدالودود اور امتیاز علی عرشی وغیرہ کے تحقیقی کاموں سے ہوئی۔ ان محققین نے اردو زبان و ادب کی تحقیق کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردیا تھا اور اردو تحقیق کی روایت کو غیر معمولی استحکام بخشا تھا۔ ان محققین کا شمار آزادی سے قبل کے محققوں میں ہوتا ہے۔ آزادی سے قبل مذکورہ محققوں کے علاوہ محی الدین قادری زور، مولوی محمد شفیع، برج موہن دتاتریہ کیفی، شیخ چاند حسن، حامد حسن قادری، شیخ محمد اکرام، نصیر الدین ہاشمی، مالک رام اور مسعود حسن رضوی ادیب وغیرہ نے بھی اپنے تحقیقی کارناموں سے اردو تحقیق کی روایت کو تقویت پہنچائی اور اسے مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

آزادی کے بعد جن محققین نے اردو تحقیق کی روایت کو آگے بڑھایا اور اسے ثروت مند بنانے میں اہم فریضہ ادا کیا، ان میں ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر سہیل بخاری، ڈاکٹر جمیل جالبی، رشید حسن خان، مشفق خواجہ، ڈاکٹر گیان چند جین، ڈاکٹر تنویر احمد علوی، ڈاکٹر یوسف حسین خان، ڈاکٹر مسعود حسین خان، ڈاکٹر خلیق انجم وغیرہ کے نام بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ محققین اپنے تحقیقی کارناموں کے باعث اردو تحقیق میں ستون کی حیثیت رکھتے ہیں.

ڈاکٹر سید عبداللہ ایک ممتاز ناقد ہونے کے ساتھ ساتھ محقق بھی ہیں۔ "چند نئے اور پرانے شاعر"، "شعرائے اردو کے تذکرے"، "مباحث" اور "ولی سے اقبال تک" تحقیقی لحاظ سے ان کی اہم تصانیف ہیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر سید عبداللہ کے کچھ اور مضامین جو اورینٹل کالج میگزین میں شائع ہوئے، تحقیقی اعتبار سے قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان اردو کے ممتاز دانشور و ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ محقق ہیں۔ "فارسی پر اردو کا اثر"، "فارسی کے قدیم شعرا"، "حالی کا ذہنی ارتقا"، "تحقیقی جائزے"، "اردو میں قرآن و حدیث کے محاورات"، "دیوان مرزا مظہر و خریطہ جواہر" وغیرہ ان کے گراں قدر تحقیقی کارنامے ہیں جو اردو تحقیق کا اہم سرمایہ ہیں۔
ڈاکٹر وحید قریشی اردو تحقیق کا ایک اہم نام ہے۔ اردو تحقیق کے ضمن میں ان کی کئی یادگار تصانیف ہیں جن میں "پنجاب میں اردو"، "مطالعہ حالی"، "میر حسن اور ان کا زمانہ"، "کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ"، "شبلی کی حیات معاشقہ"، "اردو کا بہترین انشائی ادب"، "یارنامہ"، "باغ و بہار: ایک تجزیہ" اور "اردو نثر کے میلانات" وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر سہیل بخاری اردو تحقیق میں خاصی اہمیت کے مالک ہیں۔ ان کی تصانیف "اردو داستان"، "اردو ناول نگاری"، "اردو کا روپ"، "اقبال مجدد عصر"، "غالب کے سات رنگ" اور "ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ" وغیرہ اردو تحقیق کے سرمایے میں خوش گوار اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی اردو تحقیق کا معروف نام ہے۔ اردو تحقیق میں وہ قابل احترام شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے تحقیقی کارناموں کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ "تاریخ ادب اردو"، "محمد تقی میر"، "قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر"، "مثنوی کدم راؤ پدم راؤ"، "دیوان حسن شوقی"، "دیوان نصرتی"، "قدیم اردو کی لغت"، "میراجی ایک مطالعہ" اور "ن-م- راشد" وغیرہ ان کے عمدہ تحقیقی کارنامے ہیں جو اردو تحقیق کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔

رشید حسن خان اردو تحقیق کا انتہائی معتبر نام ہے۔ آزادی کے بعد جس محقق کا نام سب سے نمایاں نظر آتا ہے، وہ رشید حسن خان ہی ہیں۔ اردو تحقیق میں وہ ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی تصنیفات و تالیفات میں "زبان اور قواعد"، "ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ"، "فسانہ عجائب"، "باغ و بہار"، "مثنوی گلزار نسیم"، "مثنوی سحر البیان"، "مثنویات شوق"، "تدوین، تحقیق، روایت"، "مصطلحات ٹھگی"، "املاے غالب"، "انشاے غالب"، "کلاسکی ادب کی فرہنگ" اور "زٹل نامہ" وغیرہ ان کے لازوال تحقیقی کارنامے ہیں جس نے اردو تحقیق کے سرمایے میں بیش بہا اضافہ کیا اور اسے انتہائی بلندی پر پہنچایا ہے۔
اردو تحقیق میں مشفق خواجہ کا نام بھی کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں۔ "جائزہ مخطوطات اردو"، "خوش معرکہ زیبا"، "غالب اور صفیر بلگرامی"، "اقبال از مولوی احمد دین"، "کلیات یگانہ"، "خونناب"، "اور "تحقیق نامہ" وغیرہ ان کے گراں قدر تحقیقی کارنامے ہیں۔
ڈاکٹر گیان چند جین ایک معتبر اور ممتاز محقق ہیں۔ "اردو مثنوی شمالی ہند میں"، "اردو کی نثری داستانیں"، "تحقیق کا فن"، "تفسیر غالب"، "حقائق"، "عام لسانیات" اور "لسانی مطالعے" وغیرہ ان کے ایسے تحقیقی کارنامے ہیں جس نے اردو تحقیق کو اعتبار و استحکام بخشا ہے۔
ڈاکٹر تنویر احمد علوی کا شمار اچھے محققوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اردو زبان و ادب میں جو تحقیقی خدمات انجام دی ہیں، وہ انتہائی اہم ہیں۔ "اردو میں بارہ ماسے کی روایت"، "اصول تحقیق و ترتیب متن"، "تجسس سے تجزیے تک"، "ذوق: سوانح اور انتقاد"، "ذوق دہلوی"، "غالب کی سوانح عمری خطوط غالب کی روشنی میں" اور "کلاسیکی اردو شاعری کے روایتی ادارے، کردار اور علامتیں" ان کے شان دار تحقیقی کارنامے ہیں۔
ڈاکٹر یوسف حسین خان ایک دانشور اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ محقق بھی ہیں۔ ان کی تصانیف "اردو غزل"، "روح اقبال"، "کاروان فکر" وغیرہ میں جو تحقیقی انکشافات ملتے ہیں، وہ ہمیں غور و فکر پر آمادہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر مسعود حسین خان ماہر لسانیات کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ تحقیق کے میدان میں بھی ان کے کارنامے انتہائی قدر و قیمت کے حامل ہیں۔ "اردو زبان کی تاریخ کا خاکہ"، "اردو کا المیہ"، "اقبال کی نظری و عملی شعریات"، "مقدمہ تاریخ زبان اردو" اور "اردو زبان اور ادب" جیسی تصانیف کے ذریعے انھوں نے گراں قدر تحقیقی خدمات انجام دی ہیں۔ اردو زبان کی پیدائش سے متعلق ان کا نظریہ سب سے زیادہ مستند مانا جاتا ہے اور یہ تحقیقی انکشاف ان کو زندہ جاوید رکھنے کے لیے کافی ہے۔
ڈاکٹر خلیق انجم اردو تحقیق کا ایک اہم نام ہے۔ اردو تحقیق کے ضمن میں ان کی خدمات مسلم ہیں۔ "غالب اور شاہان تیموریہ"، "غالب کا سفر کلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ"، "غالب کچھ مضامین"، "متنی تنقید"، "کربل کتھا کا لسانی مطالعہ"، "رسوم دہلی" اور "گلکاری وحشت کا شاعر مجروح" وغیرہ ان کے وقیع نوعیت کے تحقیقی کارنامے ہیں جس سے اردو تحقیق کی روایت کو تقویت و توانائی ملی۔
آزادی کے بعد اردو محققین کی آخری کڑیوں میں خلیق انجم کے ساتھ ساتھ سب سے نمایاں نام پروفیسر حنیف نقوی کا ہے۔ پروفیسر حنیف نقوی امتیاز علی عرشی، قاضی عبدالودود اور رشید حسن خان کی قبیل کے محقق ہیں۔ "رائے بینی نرائن دہلوی سوانح اور ادبی خدمات"، "شعراے اردو کے تذکرے"، "رجب علی بیگ سرور"، "غالب احوال و آثار"، "غالب اور جہان غالب"، "غالب کی چند فارسی تصانیف"، "غالب کے فارسی خطوط"، "میر و مصحفی" اور "مرزا غالب کے پنج آہنگ" وغیرہ ان کے انتہائی اہم تحقیقی کارنامے ہیں جس نے اردو تحقیق کو معیار و وقار عطا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے بلندی پہ پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مذکورہ تمام محققین آزادی کے بعد کے نمائندہ اور ممتاز محققین ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کچھ ادبا ہیں جنھوں نے تحقیقی خدمات انجام دی ہیں اور اردو تحقیق کی روایت میں اضافے کیے ہیں۔ مذکورہ محققین کے تحقیقی کارناموں کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ آزادی کے بعد بھی اردو محققین نے گراں قدر تحقیقی خدمات انجام دی ہیں اور اردو تحقیق کے سرمایے میں بیش بہا اضافے کرکے اسے بلند معیار عطا کیا ہے۔ آزادی کے بعد اردو تحقیق کے میدان میں حیرت انگیز اور قابل ستائش کارنامے انجام دیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد اردو تحقیق کی مضبوط و توانا اور متمول و ثروت مند روایت نظر آتی ہے.
صاحب مضمون کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو :ناقص تعلیم اور مسلم لڑکیوں کے رشتہ ازدواج کا مسئلہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے